باذوق
محفلین
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
قادیانیت
کا اسلام سے قطعاََ کوئی تعلق نہیں ہے !!
ہاں یہ ایک علحدہ مذہب ضرور ہے ۔
اِس مذہب کے پیروکار ‘ وفاتِ مسیح (ع) ‘ کے قائل ہیں۔
وفات مسیح کے قائل اِن حضرات سے کچھ سوالات دریافت کرنے سے قبل چند عمومی باتیں عرض کر دوں۔
ابھی حال میں ایک قادیانی صاحب mhjkd کی عرفیت سے یہاں اُردو محفل میں تشریف لائے ہیں ۔ یہ محترم اُردو کے ایک اور فورم اُردوپیجز پر کافی سرگرم رہے ہیں ۔۔۔ وہاں ان کو خاطرخواہ جوابات سے نوازا گیا ہے ۔ (مگر سب تصویری اُردو میں رہا ہے)۔
میری کوشش یہ رہے گی کہ اُس تمام مواد کو یہاں تحریری اُردو میں منتقل کروں تاکہ قادیانیت کا نقاب بھی اُردو سرچنگ (گوگلنگ) کے ذریعے اتارا جا سکے۔ (انشاءاللہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں ان سے چند سوالات ہیں ۔
ان سوالات کے جوابات براہ مہربانی ، قرآن وسنت کی روشنی میں دیجئے گا اور ہاں ایک بات یاد رہے کہ ان کی تفسیر و تشریح غیر قادیانی کتابوں سے مطلوب ہے.
مطلب یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے جھوٹے دعویٰ سے پہلے علماء و آئمہ کرام اور مفسرین و صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) و تابعین (رحمہم اللہ) کے اقوال کی روشنی میں چاہیے.
ضروری نوٹ: یہاں پر بغیر حوالے کے کسی بھی حدیث یا آیت کی تشریح بیان نہ کی جائے .
سوال ١ : اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بابت قرآن میں یہ فرمایا کہ اسے اپنی طرف اٹھا یا گیا .
اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں آیت نمبر 158 پر فرمایا:
بل رفعہ اﷲ الیہ
(بلکہ اﷲ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا.)
اس آیت میں الیہ کا اشارہ اﷲ تعالیٰ کی طرف ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کی طرف عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھایا گیا ہے .
اس آیت کے فوراً بعد اﷲ تعالیٰ نے فر مایا کہ اہل کتاب ان پر ان کی وفات سے پہلے ایمان لائیں گے.
اگر اس آیت میں ‘ اُٹھانے ‘ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوتی تو پھر بعد والی آیت میں دوبارہ اہل کتاب کا ان کی وفات سے قبل ایمان لانے کا کیوں تذکرہ ہوا.۔
قادیانی حضرات سے گذارش ہے کہ وہ سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں اس آیت کی تفسیر یہ پیش کریں کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف نہیں اٹھایا:
سوال ٢ : اگر بالفرض یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں تو کیا قادیانی حضرات اس بات کا جواب دینا پسند کریں گے کہ احادیث میں دجال کے قتال کا جو ذکر آیا ہے کہ اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی قتل کریں گے انہیں کون کرے گا؟
(وفات مسیح علیہ السلام کے قائل حضرات کو ذرا غور کرنا چاہیے کہ وہ صحیح احادیث کا کس قدر ڈٹ کر انکار کرتے ہیں).
سوال ٣ : اگر بالفرض کہا جائے کہ ابن مریم اور مسیح دو علیحدہ شخصیات ہیں جن کے نام ایک جیسے ہیں تو پھر کیا قادیانی حضرات اس بات کا جواب دیں گے کہ یہ بات کس آیت یا حدیث سے ثابت ہے. عیسائی بھی اس بات کا انکار کریں گے. اور پھر بھی بخاری و مسلم وغیرہ کی احادیث میں ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کا ذکر ملے گا.
سوال ٤ : قادیانیوں نے غیب پر ایمان لانے کی بجائے عقل کو ہی معیار سمجھا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اپنی عقل استعمال نہیں کرتے. کہتے ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے آسمان کی طرف اٹھایا ہے تو اس طرح اﷲ کی ذات محدود ہوجائے گی کیوں کہ اﷲ تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے اور شہ رگ سے بھی قریب ہے.
کیا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب اﷲ تعالیٰ نے معراج کی رات آسمانوں کی طرف اٹھایا تھا اور ملاقات کا شرف انہیں عطا کیا کیانعوذ باﷲ اﷲ کی ذات اس وقت بھی محدود تھی . جب اﷲ ہر جگہ موجود تھا تو پھر کیوں اٹھایا معراج کی رات؟
اس کے علاوہ اﷲ کا عرش آسمانوں میں ہے اور فرشتے بھی بہت آسمانوں میں ہیں. نعوذباﷲ اﷲ کی ذات محدود ہے جو اپنا عرش آسمانوں میں بنائے .(عقل میں اﷲ کی ذات نہیں آسکتی).
سوال ٥ : چودہ سو سال سے مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ر ہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب اتریں گے اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں .
لیکن قادیانی حضرات ان کا انکار کرتے ہیں.
کیا مرزا غلام احمد قادیانی سے پہلے تمام کے تمام مسلمان جن میں صحابہ و تابعین بھی آتے ہیں گمراہ تھے ؟
سوال ٦ : مرزا غلام احمد قادیانی نے خود کو مسیح و مہدی کاجو درجہ دیا تھا وہ کس حدیث یا آیت میں ہے.
کہ مسیح و مہدی ایک ہی آدمی کے دو نام ہیں؟
سوال ٧ : اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے تو پھر مرزا غلام احمد قادیانی کس طرح مسیح ہوئے .
جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تو آنا ہی نہیں تو پھر یہ خود کیسے ہوئے . کیوں کہ مرزا کا دعویٰ بھی کوئی حقیقت پر نہیں جب وہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے اور خود عیسیٰ بن کر آئے. عجیب بات ہے ایک طرف وفات کا قائل اور دوسری طرف خود مسیح؟؟؟؟؟؟
براہ مہربانی موضوع سے ہٹ کر کوئی غیر ضروری بحث شروع نہ کریں اور صرف سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں اپنا موقف پیش فرمائیں۔ اپنی ذاتی رائے دینے سے اجتناب کریں ۔
بہت شکریہ۔
قادیانیت
کا اسلام سے قطعاََ کوئی تعلق نہیں ہے !!
ہاں یہ ایک علحدہ مذہب ضرور ہے ۔
اِس مذہب کے پیروکار ‘ وفاتِ مسیح (ع) ‘ کے قائل ہیں۔
وفات مسیح کے قائل اِن حضرات سے کچھ سوالات دریافت کرنے سے قبل چند عمومی باتیں عرض کر دوں۔
ابھی حال میں ایک قادیانی صاحب mhjkd کی عرفیت سے یہاں اُردو محفل میں تشریف لائے ہیں ۔ یہ محترم اُردو کے ایک اور فورم اُردوپیجز پر کافی سرگرم رہے ہیں ۔۔۔ وہاں ان کو خاطرخواہ جوابات سے نوازا گیا ہے ۔ (مگر سب تصویری اُردو میں رہا ہے)۔
میری کوشش یہ رہے گی کہ اُس تمام مواد کو یہاں تحریری اُردو میں منتقل کروں تاکہ قادیانیت کا نقاب بھی اُردو سرچنگ (گوگلنگ) کے ذریعے اتارا جا سکے۔ (انشاءاللہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں ان سے چند سوالات ہیں ۔
ان سوالات کے جوابات براہ مہربانی ، قرآن وسنت کی روشنی میں دیجئے گا اور ہاں ایک بات یاد رہے کہ ان کی تفسیر و تشریح غیر قادیانی کتابوں سے مطلوب ہے.
مطلب یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے جھوٹے دعویٰ سے پہلے علماء و آئمہ کرام اور مفسرین و صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) و تابعین (رحمہم اللہ) کے اقوال کی روشنی میں چاہیے.
ضروری نوٹ: یہاں پر بغیر حوالے کے کسی بھی حدیث یا آیت کی تشریح بیان نہ کی جائے .
سوال ١ : اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بابت قرآن میں یہ فرمایا کہ اسے اپنی طرف اٹھا یا گیا .
اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں آیت نمبر 158 پر فرمایا:
بل رفعہ اﷲ الیہ
(بلکہ اﷲ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا.)
اس آیت میں الیہ کا اشارہ اﷲ تعالیٰ کی طرف ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کی طرف عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھایا گیا ہے .
اس آیت کے فوراً بعد اﷲ تعالیٰ نے فر مایا کہ اہل کتاب ان پر ان کی وفات سے پہلے ایمان لائیں گے.
اگر اس آیت میں ‘ اُٹھانے ‘ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوتی تو پھر بعد والی آیت میں دوبارہ اہل کتاب کا ان کی وفات سے قبل ایمان لانے کا کیوں تذکرہ ہوا.۔
قادیانی حضرات سے گذارش ہے کہ وہ سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں اس آیت کی تفسیر یہ پیش کریں کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف نہیں اٹھایا:
سوال ٢ : اگر بالفرض یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں تو کیا قادیانی حضرات اس بات کا جواب دینا پسند کریں گے کہ احادیث میں دجال کے قتال کا جو ذکر آیا ہے کہ اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی قتل کریں گے انہیں کون کرے گا؟
(وفات مسیح علیہ السلام کے قائل حضرات کو ذرا غور کرنا چاہیے کہ وہ صحیح احادیث کا کس قدر ڈٹ کر انکار کرتے ہیں).
سوال ٣ : اگر بالفرض کہا جائے کہ ابن مریم اور مسیح دو علیحدہ شخصیات ہیں جن کے نام ایک جیسے ہیں تو پھر کیا قادیانی حضرات اس بات کا جواب دیں گے کہ یہ بات کس آیت یا حدیث سے ثابت ہے. عیسائی بھی اس بات کا انکار کریں گے. اور پھر بھی بخاری و مسلم وغیرہ کی احادیث میں ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کا ذکر ملے گا.
سوال ٤ : قادیانیوں نے غیب پر ایمان لانے کی بجائے عقل کو ہی معیار سمجھا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اپنی عقل استعمال نہیں کرتے. کہتے ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے آسمان کی طرف اٹھایا ہے تو اس طرح اﷲ کی ذات محدود ہوجائے گی کیوں کہ اﷲ تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے اور شہ رگ سے بھی قریب ہے.
کیا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب اﷲ تعالیٰ نے معراج کی رات آسمانوں کی طرف اٹھایا تھا اور ملاقات کا شرف انہیں عطا کیا کیانعوذ باﷲ اﷲ کی ذات اس وقت بھی محدود تھی . جب اﷲ ہر جگہ موجود تھا تو پھر کیوں اٹھایا معراج کی رات؟
اس کے علاوہ اﷲ کا عرش آسمانوں میں ہے اور فرشتے بھی بہت آسمانوں میں ہیں. نعوذباﷲ اﷲ کی ذات محدود ہے جو اپنا عرش آسمانوں میں بنائے .(عقل میں اﷲ کی ذات نہیں آسکتی).
سوال ٥ : چودہ سو سال سے مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ر ہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب اتریں گے اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں .
لیکن قادیانی حضرات ان کا انکار کرتے ہیں.
کیا مرزا غلام احمد قادیانی سے پہلے تمام کے تمام مسلمان جن میں صحابہ و تابعین بھی آتے ہیں گمراہ تھے ؟
سوال ٦ : مرزا غلام احمد قادیانی نے خود کو مسیح و مہدی کاجو درجہ دیا تھا وہ کس حدیث یا آیت میں ہے.
کہ مسیح و مہدی ایک ہی آدمی کے دو نام ہیں؟
سوال ٧ : اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے تو پھر مرزا غلام احمد قادیانی کس طرح مسیح ہوئے .
جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تو آنا ہی نہیں تو پھر یہ خود کیسے ہوئے . کیوں کہ مرزا کا دعویٰ بھی کوئی حقیقت پر نہیں جب وہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے اور خود عیسیٰ بن کر آئے. عجیب بات ہے ایک طرف وفات کا قائل اور دوسری طرف خود مسیح؟؟؟؟؟؟
براہ مہربانی موضوع سے ہٹ کر کوئی غیر ضروری بحث شروع نہ کریں اور صرف سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں اپنا موقف پیش فرمائیں۔ اپنی ذاتی رائے دینے سے اجتناب کریں ۔
بہت شکریہ۔