تلخ باتیں ....... !
اس کتاب رخی دنیا میں متعدد نمونے سامنے آتے رہتے ہیں جن کی پیروی ان سے بڑے نمونے اندھی آنکھوں گونگی زبانوں اور بھرے کانوں کے ساتھ کرتے رہتے ہیں ایسے ہی ایک کتاب رخی نابغے کا نام ہے قاری حنیف ڈار قاری صاحب اکثر اور انکے پیروکار جو انکی تقلید کرتے ہیں یہ گلا کرتے نظر آتے ہیں کہ لوگوں نے قاری صاحب کے مقام عالی کو پہچانا نہیں کوئی انہیں سمجھائے کہ عقل کے اندھوں اور گانٹھ کے پوروں سمجھا ہی تو رہے ہیں کہ ایمان بچاؤ مگر کوئی سمجھے تو .......
گزشتہ دنوں قاری صاحب نے رمضان کے مقدس مہینے میں تزکیہ و احسان کے باب پر ہاتھ ڈالا صوفیاء کی اپنے تئیں دھجیاں بکھیر دیں اور جب لوگوں نے ان سے گلہ کیا تو وہ اور ان کے پیرو کار ناراض ہونے لگے کم علمی اور کم فہمی کے الزامات لگنے لگے اکابر پرستی کے طعن ہونے لگے ....
قاری صاحب کی خاص نظر کرم اکثر امام بخاری رح پر ہوا کرتی ہے اور وہ امام بخاری کو جھوٹا اور دروغ گو ثابت کرنے کیلئے انتہائی درجے کے دجل و تلبیس سے بھی پرہیز نہیں کرتے اور جب انھیں متوجہ کیا جاوے تو کہتے ہیں میں ایسا کب کہا الفاظ دکھلاو
لیجیے ملاحظہ کیجئے
(بخاری شریف پر ایک نظر، قاری حنیف ڈار)
جناب معزز قارئین !
بخاری اور زہری کے استعاروں اور کنایوں میں تبرّا کو دیکھتے جا ئیے اور بتائیے کہ قرآن نے جن ازواج رسول صلے اﷲ علیہ و سلم کو امت کی مائیں قرار دیا ہے کیا ان کا یہ مرتبہ و مقام ہے جس کے خلاف یہ امامی گروہ رسول صلے اﷲ علیہ و سلم کی زبان سے جھوٹی حدیثوں کے نام پر امہات المومنین کے قرآنی مرتبہ کو کم کرنے کے لئے گندے جملے ان سے منسوب کررہے ہیں اور یہ گندگی انہوں نے کئی حدیثوں میں بھری ہوئی ہے
لیجے امام الحدیث بخاری اور امام زہری جھوٹے امہات المومنین کے گستاخ اور روافض کے امام قرار پاتے ہیں آگے ہم قاری صاحب کے دجل و تلبیس کی وضاحت بھی ضرور کرینگے ایک لطف کی بات اور بتلا دیں اکثر شیعہ پیجز قاری صاحب کی باتوں کو انتہائی وثوق سے نقل فرماتے ہیں جیسے وہ انکے اپنے ہی آدمی ہوں ........
(
https://www.facebook.com/DefendingShiaism/posts/696246427089631)
جب قاری صاحب نے امام بخاری اور بخاری شریف پر ایسے ہی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا تو ہمارے محترم دوست اور رد الحاد کے ساتھی اے آر سالم فریادی صاحب نے قاری صاحب کی علمی گرفت فرمائی .....
ملاحظہ کیجئے یہ آرٹیکل
(
http://www.scribd.com/…/%D9%82%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AD%D9%…)
ایسے ہی قاری صاحب موصوف نے مولانا اشرف علی تھانوی رح پر تصوف کے حوالے سے گمراہ کن الزامات لگانے کا سلسلہ شروع تو ہمارے محترم محمد فیصل شہزاد صاحب نے حقیقت انتہائی علمی انداز میں کھول کر سامنے رکھ دی .......
قاری صاحب کی تو عادت ہے کہ سیاق و سباق سے کا ٹ کر جملے اٹھاتے ہیں اور ان پر اسلاف پر طعن و تشنیع کا بازار گرم کیے رکھتے ہیں ...اس کو نہایت مہذب زبان میں بھی علمی خیانت کہتے ہیں!
صرف ایک مثال ان کی تصوف پر پیش کی گئی حالیہ پوسٹس سے دے رہا ہوں ... جس سے ثابت ہو جائے گا کہ انہوں نے کس طرح غلط بیانی سے کام لیا ہے!
دیکھیے چار دن پہلے انہوں نے دین میں تزکیہ نفس کو جھٹلاتی دو "معرکۃ الآرا" پوسٹس کی تھیں جن میں بزعم خود یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ تصوف کا سارا سلسلہ دراصل ہندومذہب اور بھگتی تحریک سے لیا گیا ہے... ان پوسٹس میں سارے بارہ مصالحے تھے ...جیسا کہ ابدال اور قطب وغیرہ ہندوؤں کے اوتار کا اسلامی ورژن ہے وغیرہ وغیرہ!
لیکن خاص طور پر ایک چیز پڑھ کر میں حیران ہی رہ گیا ... ان دونوں پوسٹس میں قاری صاحب نے ایک کتاب "شریعت اور طریقت" کا حوالہ دے کر ایک ( مشہور تفسیر قرآن لکھنے والے) عالم دین کا حوالہ دے کر ایک بات لکھی جس کا مفہوم ہے کہ:
( ہر بستی میں ایک قطب ضرور ہوتا ہے ... حتیٰ کہ اگر کفار کی بستی ہو تو کسی کافر کو ہی قطب کا عہدہ بخش دیا گیا... اور اس کو پہچاننے کی نشانی ایک بڑے مشہور مفسر قرآن عالم نے یہ لکھی کہ دیکھا جائے کہ وقت کے بزرگ اس کا ادب کرتے ہیں۔۔۔۔ (طریقت و شریعت) پھر مضحکہ ا ڑانے والے انداز میں کہا:
کتنا بے بس ہے صوفیاء کا خدا جو اپنے کام چلانے کے لیے ہندوؤں کا محتاج ہے!)
میں اس کتاب کے نام اور تفسیر قرآن کے حوالے سے سمجھ گیا کہ بات حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی ہو رہی ہے ...جستجو ہوئی کہ ایسی متوحش بات حضرت کیسے لکھ سکتے ہیں؟... آخر اس بات کا سیاق و سباق کیا ہے؟ بس کتاب کی تلاش شروع کی... جو الحمدللہ مل گئی... وہ مقام بھی مل گیا جہاں یہ بات کی گئی ہے... مگر یہ کیا؟
حضرت نے وہ بات ہرگز نہیں لکھی تھی... جو ڈار صاحب نے منسوب کی اور مزے لیے!
حضرت تھانوی نے تو لکھا ہے:
"ایک وقت میں قطب متعدد بھی ہو سکتے ہیں... شیخ ابن عربی رحمہ اللہ نے تو یہاں تک لکھا ہےکہ ہر بستی میں خواہ وہ کفار ہی کی ہو، قطب ہوتا ہے...ا س کلام کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ، ایک تو یہ کہ وہ وہاں ہی کےباشندوں میں ہو اور باطن میں مسلمان ہو مگر کسی خاص حالت کی وجہ سے اخفا کرے اور یہ بعید ہے۔
دوسرا یہ کہ وہ اس جگہ مقیم نہ ہو لیکن وہ بستی اس کے تصرف میں ہو، جیسا تھانیدار کہ اس کا تعلق دیہات سے بھی ہوتا ہے (اگرچہ وہ خود شہر میں ہو، مگر اس کی حدود تھانیداری میں کئی دیہات آ جاتے ہیں)۔
(اس بعید والے قول کی کہ اگر اسی بستی میں رہنے والاہی بظاہر کافر ہوتو ) کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ اس زمانہ کے اہل باطن کا اس کے ساتھ معاملہ دیکھا جائے... اگر وہ اس کا ادب کرتے ہیں تو ادب کرے اور اس کے بارے میں کف لسان کرے... ورنہ ہر کافرکا معتقد نہ بنے، کیوں کہ اس طرح تو جہاد وغیرہ سب بند ہو جائے گا!"
(اس صفحے کی اسکین فوٹوسب سے پہلے کمنٹ میں لگادی ہے، دیکھ لیجیے)
مکمل مضمون لنک میں ملاحظہ کیجئے
(
https://www.facebook.com/faisal.shahzad.1253236/posts/1084177301611412)
قاری صاحب کو آئمہ سے بھی انتہائی محبت ہے خاص کر امام ابو حنیفہ پر انکی خاص نظر ہے ملاحظہ
کیجئے
ہمارے دوست محترم نوفل ربانی صاحب نے کچھ اس طرح حقیقت کو واضح کیا ہے
کل سارا دن قاری حنیف ڈار نے کتاب چہرے پہ حق نمک حلالی کرتے ھوئے فقھاء خاص کر امام اعظم کے خلاف وحدت امت وحدت عبادات پہ گاؤں کی پھپھےکٹنی مائیوں کیطرح کڑمس مچایا ھوا تھا اور اصطلاحات امت فرض واجب سنت صحیح ضعیف حسن وغیرہ کو یوں کوس رھے تھے جیسے ماسی پھاگاں پڑوسی کے بچے کو اسکے 10 روپے گم کرنے پر گھسنے مارتی ھے کہ اسکی دنیا ھی لٹا دی اسی آپا دھاپی میں موصوف نے جو روایت بطور ناقابل تردید دلیل ذکر کی اسکو ملاحظہ فرمائیں اور سر دھنیے(یہ کمنٹ حضور والا نے ایک سائل کے کمنٹ پر جوابی کمنٹ میں ذکر کی )
- زکریا ابن یحیی الساجی کہتے ھیں کہ ،،،،،،،،، سمعت علی بن عاصم یقول ،، میں نے ابوحنفیہ سے کہا کہ عن ابراھیم بن علقمہ عن عبداللہ ان النبی ﷺ صلی بھم خمساً ثمہ سجد سجدتین بعد السلام ،، فقال ابوحنیفہ " ان لم یکن جلس فی الرابعہ فما تسویَ ھذہ الصلاۃُ ھذہ" و اشار الی شئٍ من الارض فأخذہ و رمی بہ !
امام ابوحنیفہ کے سامنے حدیث بیان کی گئ کہ ابراھیم نے علقمہ سے روایت کیا ھے کہ عبداللہ فرماتے ھیں کہ ھمیں نبئ کریم نے بھول کر پانچ رکعتیں پڑھا دیں ،،پھر پانچویں کے بعد بیٹھ کر سلام پھیرا اور دو سجدے کیئے ،، اس پر ابوحنیفہ نے کہا کہ اگر وہ یعنی نبی ﷺ چوتھی رکعت کے بعد نہیں بیٹھے تھے تو یہ نماز اس چیز کے برابر بھی نہیں اور زمین پر سے کوئی چیز اٹھا کر اسے پھینک دیا
( کتاب المجروحین از ابن حبان جلد دوم )
قارئین کرام کتاب کے حوالے کو دوبارہ سہ بارہ مکرر سکرر پڑھیں جس روایت کی بنا پر واویلہ ھے وہ ھے انکی اپنی انجمن کے ھی ایک حدی خوان کی یعنی مجروح راوی کی ھے یہ طریقہ واردات موصوف کے علمی شجرہ نسب کے اکابر گولڈ زیھر سے لیکر سرسید اورغلام احمد پرویز سے غامدی تک کا مشترکہ ھے کہ ضعیف جھوٹے مجروح راویوں کی دروغ گوئی کو اساطین امت کے کھاتے میں ڈال کر اسپر اپنی ڈالر بٹوری کی حسرتوں کا محل کھڑا کیا جائے
پورے 121 توپوں کی سلامی ھے ان متجددین کی علمی خیانت کو
کمال فن خیانت ھے کہ سر چڑھ کر بولتی ھے
دیانت شرمندہ ھے کہ یہ خیانت زندہ ھے لیکن نہ گولڈ زیہر رھا نہ اسکے نظریات نہ سرسید رھا نہ ھی اسکے افکار نہ غلام احمد پرویز بچا نہ اسکے افکار نہ ھی غامدی رھےگا نہ ھی ڈار اور نہ ھی انکے مسموم عزائم ھاں البتہ اھل السنت والجماعت باقی ھیں انکے اماموں کے اجتھاد افکار اصطلاحات زندہ جاوید ھیں کہ وہ دین کی بقا کی ضمانت ھیں
قاری صاحب کی تمام تحاریر اسی طرح کی تلبیس و تدلیس سے بھری پڑی ہیں
محترم دوست صالح محمد کچھ اس طرح قاری صاحب کے تجددات پر گرفت کرتے ہیں ملاحظہ کیجئے
قاری حنیف ڈار صاحب…
"اللہ پاک نے اندھا دھند مرد کو قوام نہیں بنایا بلکہ اس کے دو اسباب بیان کئے ھیں !
1- بما فضل اللہ بعضھم علی بعض ،،، اس میں جسمانی بناوٹ جو مرد کو مشقت کا اھل ثابت کرتی ھے -
2- و بما انفقوا من اموالھم ،،، اور نان نفقہ روٹی مکان کپڑا مرد کی ذمہ داری قرار دی ھے ،، جو خرچ کرتا ھے وھی حساب کتاب لینے کا ذمہ دار ھے اور گھر کے فیصلے کرنے کا ،کیونکہ پیسہ اس نے خرچنا ھے تو اپنی جیب دیکھ کر فیصلے کرے گا ،،،،،،،،،،
جو مرد یہ صلاحیتیں کھو دیتا ھے ، وہ اپنی قوامیت بھی کھو دیتا ھے ،، یہ اسی طرح کی بات ھے کہ زید دیکھتا ھے کیونکہ اس کی دو آنکھیں ھیں ،،جب زید آنکھیں کھو دیتا ھے تو دیکھنا خود بخود کھو دیتا ھے ،، اب جو مرد سارا دن گھر لیٹا اینٹھتا رھے اور بیوی نوکری کر کے بچے پال رھی ھو تو اس صورت میں وھی قوام ھو گی جو کھلا رھی ھے اور مرد کو قوامیت بھی شرافت کے ساتھ عورت کو سونپ دینی چاھئے ،، ایسا نہیں ھو سکتا کہ وہ سارا دن کام کر کے گھر آئے اور آتے ھی نہار منہ قوام صاحب سے پھنیٹی کھائے پھر یونیفارم تبدیل کرے اور کھانا کھائے ،اب تو قوام کا مطلب پھینٹی لگانے والا سمجھا جاتا ھے اگر میاں بیوی دونوں کما رھے ھیں تو قوامیت بھی 50/50 ھو گئ ھے ،، اور اگر مرد کمائے بھی نہ اور نامرد بھی ھو تو پھر اس سے تو گھر کے کونے میں پڑا بوریا اچھا ھے ،کسی کام تو آتا ھے ،،،"
راقم…
"لیکن بما 'فضل اللہ بعضہم علی بعض'کو تو آپ گول ہی کر گئے… قوام بننے کہ اہلیت اس میں ہے جس میں مذکورہ دو صفات پائی جائیں.. عورت بما انفقوا کی حامل تو ہو سکتی ہے... بما فضل اللہ کی مصداق نہیں… تو پھر قوام کیسے ہوگی…
نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہر وہ شخص جس میں یہ دو باتیں پائیں جائیں وہ قوام ہے بلکہ فرمایا جس مرد میں یہ دو باتیں ہوں وہ قوام ہے… اس لیے اس سے عورت کا قوام کیسے تراشا جا سکتا ہے..
باقی نہ کمانے والے شوہر کی بد سلوکی اپنی جگہ معیوب ہے…"
قاری صاحب…
"جی بما فضل اللہ میں جسمانی تفضیل ھے ،عورت اپنے معاملے میں فضیلت رکھتی اور مرد اپنے میں فضیلت رکھتا ھے ،، آپ صرف سیکس کو تفضیل کہتے ھیں مگر خود بچہ تو مرد بھی پیدا نہیں کر سکتا"
راقم….
"مرد ,عورت کی مخصوص صلاحیتوں کا کس نے انکار کیا ہے… ظاہر ہے ہے اللہ نے کچھ مخصوص صفات مخصوص اصناف ہی کو دی ہیں….مرد ,عورت اور عورت مرد کی ودیعت شدہ خصوصیات کا حامل نہیں ہوسکتا… اس پر تو سرے سے اعتراض ہے ہی نہیں…
اعتراض یہ ہے کہ ہر ایک کو مخصوص صفات دینے کے بعد اللہ نے قوام کسے قرار دیا… اور قوام کا مدار کن صفات پر رکھا…
تو اللہ تعالی نے قوام کا مدار جن دو چیزوں پر رکھا ان میں سے پہلی مرد کو ودیعت کی گئی خصوصیات ہیں… یعنی اللہ نے مرد میں جو مخصوص صفات رکھی ہیں اس بناء اور خرچ کرنے کی بناء پر اسے قوام قرار دیا ہے…. عورت کی بھی کچھ خصوصیات ہیں مگر اس پر اللہ تعالی نے قوامیت کی بناء نہیں رکھی….. اور آپ صرف انفاق سے عورت کو قوامیت عطا کرنے پر کمربستہ ہیں تو بما فضل اللہ بعضہم کو بے فائدہ قرار دینا پڑے گا…..
حاصل یہ کہ بات صرف تفضیل کی نہیں مرد کی تفضیل پر مرتب ہونے والے حکم کی ہے… چنانچہ عورت کی مخصوص صلاحیتوں پر حکم کا ترتب نہیں ہے…."
احباب مزید اس بارے میں اپنی آراء کا اظہار کریں..
اور جب ہم قاری صاحب سے الزامی سوال کرتے ہیں تو جواب ندارد
کلیہ یہ ہے کہ جهاں مرد و عورت کے درمیان اشتراک عمل ہوگا مرد قوام ہوگا اب یہ اشتراک عمل خاندان کی سطح پر ہو قوم کی یہ ریاست کی قوامیت ہمیشہ مرد کو ہی حاصل ہوگی ...
بحث کی ابتداء میں ہی اس باطل اصول کو تسلیم کرکے بات آگے بڑهانا کہ فلاں اوصاف کی وجہ سے مرد قوام ہوتا ہے اگلے کو گنجائش دینے والی بات ہے شروع میں ہی گردن پکڑ لیجئے کہ پہلے یہ بتلائو کہ مرد کا قوام ہونا فلاں امور پر موقوف کیسے ہوا بلکہ مرد عورت پر قوام ہے یہ ایک اصول ہے ...
مرد کا عورت پر قوام ہونا ایک فضیلت ہے جیسے ماں کا باپ سے افضل ہونا ایک فضیلت ہے ..
اب اس مسئلے کو یوں سمجها جاوے کہ کسی بهی ریاست کے حاکم میں مخصوص اوصاف کا ہونا لازم ہے اور اسکے کچه خاص فرائض منصبی ہیں اگر وہ اپنے فرائض درست انداز میں پورے نہ کرے تو وہ ظالم حکمران ہوگا ...
ایسے ہی ایک ماں ہے اسکے کچه فرائض منصبی ہیں اگر وہ پورے نہ کرے تو وہ ایک لا پروا ماں ہوگی لیکن اسکی جگہ باپ ماں نہیں بن جاوے گا ...
یہی معاملہ مرد کا ہے کہ اگر وہ اپنی زمے داریاں پوری نہیں کرتا تو وہ ظالم تو ہوگا لیکن یہ بات اسے قوامیت سے خارج نہیں کرے گی ...
جن جن معاشروں میں ہم نے اس آفاقی اصول کو بدلا بربادی لازم ہوئ آج مغرب کا خاندانی نظام برباد ہو چکا ہے ...
پهر ایک سوال میرا بهی ہے جس کا جواب دیتے ان شاء اللہ اگلوں کو موت آوے گی ...
اگر نان نفقہ ہی مدار ہے تو جس وقت اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کا نکاح ام المومنین حضرت خدیجہ رض سے ہوا اللہ کے رسول کی معاش ان کے کاروبار سے منسلک تهی خاتون جنت اللہ کے رسول سے مالی اعتبار سے بہتر تهیں وہ اللہ کے رسول کی مالی معاونت کیا کرتی تهیں تو کیا حنیف ڈاری اصول کے تحت وہ اللہ کے رسول پر قوام تهیں ... ؟
یہ چند جھلکیاں ہیں ورنہ اتنا کچھ ہے کہ لکھتے لکھتے انگلیاں اور پڑھتے پڑھتے دماغ شل ہو جاوے
آخر میں موصوف دشنام طرازی پر بھی اتر آئے ہیں اور علما امت کو منافق ، مشرک اور گمراہ ہونے کے القابات سے نواز دیا ہے اور ان علما امت میں امام غزالی رح سے لیکر شاہ اسمعیل شہید رح تک سب ہی کو رگڑ دیا
موصوف کسی بھی مکالمے کے معروف فورم میں تشریف لے آئیں اور اہل علم کی موجودگی میں مکالمہ فرما لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں غلطی ہوگی تو تسلیم ورنہ اگلے سے تسلیم کی توقع ..........
لیکن علما امت کو جاہل منافق جھوٹا مشرک بدعتی لعنتی گمراہ کہنا یہ کون سی علمی کاوش ہے اگر ایسا کرینگے تو جواب بھی ایسا ہی ملے گا ...........
ہاں اگر بدتمیزی ترک کرکے علمی انداز میں گفتگو کرینگے تو علمی جواب بھی سامنے موجود پائینگے ......
ہم پچھلے کئی سالوں سے ٹھیٹھ ملحد افراد سے بھی مکالمے کر رہے ہیں جب تک کہ وہ الزامی انداز سے ہٹ کر گستاخانہ انداز پر نہ اتر آئیں ..........
ایک صاحب کے نزدیک فلاں بزرگ کے فلاں فلاں اقوال دین کی تعلیمات کے خلاف ہیں اب اس پر گفتگو ہوگی دلیل کے ساتھ اور آخر میں ایک فریق اپنی غلطی تسلیم کر کے رجوع فرما لے گا ........
دوسرا طریقہ یہ ہے چونکہ میرے نزدیک اس دلیل سے فلاں بزرگ کے فلاں اقوال کے تحت فلاں فلاں عقائد و نظریات اسلام کے خلاف ہیں اسلیے بغیر کسی مکالمے کے وہ .......
مشرک ، کافر ، بدعتی ، یا منافق ہے ...........
اب مکالمے کے معروف ترین اصولوں کے مطابق دیکھیے کہ کون سا طریقہ درست ہے
جن دلائل کی بنیاد پر انہوں نے اپنے طور پر اگلے کا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہونا ثابت کیا ہے کسی مکالمے یا جواب کو سننے سے پہلے ہی انکا کافر ، مشرک ، منافق یا بدعتی کا حکم لگا دینا کیسا ہے وہ بھی امت کی سطح کی شخصیات پر کیا حکامات ایسے ثابت ہوتے ہیں ........
غلام احمد قادیانی کو بھی اسکے گروہ کے تمام دلائل و تاویلات سننے کے بعد کافر قرار دیا گیا تھا یہاں تو موصوف نہیں غزالی و قادیانی کو ایک ہی صف میں کھڑا فرما دیا ہے .............
کیا آپ غزالی کو بھی کم از کم اتنا ہی حق دینگے جتنا قادیانی کو دیا ہے ....
کیا یہ انصاف کا تقاضہ نہیں ہے
جی ہاں حضرت کے نزدیک یہ تمام بزرگ اور غلام قادیانی برابر ہی نہیں بلکہ یہ اس کے اساتذہ اور علمی مرجع ہیں گو کہ اس نے ہمیشہ استدلال باطل قرآن و سنہ سے ہی کیا ہے ..........
آخر میں ہم تو بس اتنا ہی کہیںگے .......
ہے فیس بک کا نابغہ قاری حنیف ڈار ...
حیران ہوکے لوگ یہ کہتے ہیں بار بار.......
حضرت یہ اتنی بونگیاں لاتے کہاں سے ہیں
ڈهنگ کی بهی کہکے دیکهئے موصوف ایک بار.
حسیب احمد حسیب
https://www.facebook.com/Bhaihasib1/posts/1677771152457968:0