قاری صاحب کا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری کرنا نہیں

x boy

محفلین
ایمان کمزور ھو جائے تو انسان کٹی ھوئی پتنگ بن جاتا ھے،جس کے ھاتھ لگتا ھے لوٹ لیا جاتا ھے !
چشم_بد دور : حنیف سمانا

کبھی کبھی اعلیٰ تعلیم بھی بہت سے لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑتی...
ذہنیت وہی رہتی ہے...
ہمارے ایک مہربان ابرار صاحب نے "سی.اے" کیا ہوا ہے...
ایک غیر ملکی فرم میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں....
مگر سوچ کا انداز وہی جو سڑک پر بیٹھے ہوئے ایک بیچارے غیر تعلیم یافتہ چھابڑی والے کا ہوتا ہے...
ہاتھ میں اور گلے میں رنگ برنگے دھاگے باندھے ہوئے...
پوچھو تو پتہ لگے گا کہ...
"یہ کالا والا دھاگہ داتا دربار کے باہر ایک فقیر نے دیا تھا...کاروبار میں ترقی کے لئے ہے.."
"یہ ہرے رنگ کا دھاگہ پاک پتن کے مجاور نے دیا تھا...بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے.."
"یہ لال رنگ کا دھاگہ لال شہباز قلندر کے مزار کا ہے...یہ دھاگہ اگر کسی کو نظر لگ جائے اس کے لئے ہے"

میں تو تکلفا" چپ رہا مگر ہمارے دوست مولوی بول پڑے،
"ابرار بھائی! آپ کو بھی نظر لگتی ہے؟"

ابرار بھائی نے ان کو غصے سے دیکھا..
"کیوں میں انسان نہیں ہوں؟"

مولوی بھی ڈھیٹ ہیں ....کہنے لگے...
"نہیں میں سمجھا کہ صرف کرینہ کپور کو ہی نظر لگتی ہے.. "

بات بگڑنے والی تھی کہ میں نے مولوی کا ہاتھ دبایا...

ان کے جانے کے بعد مولوی نے بتایا کہ ابرار بھائی انتہائی وہمی ہوگئے ہیں...
کوئی شخص ان کی گاڑی کو بغور دیکھتا ہوا گزر جائے تو نظر کی سوره پڑھنا شروع کردیتے ہیں کہ گاڑی کو نظر نہ لگ جائے..پہلے بھی ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا...
کوئی ان کے گھر جائے تو اس شخص کی نظریں دیکھتے ہیں کہ کہاں دیکھتا ہے کہیں گھر کی کسی چیز کو نظر تو نہیں لگا رہا ...
اپنے گھر کے مین گیٹ پہ طرح طرح کے رنگ برنگے دھاگے باندھے ہیں....
جو انہیں مختلف بلاؤں سے بچاتے ہیں...
گھر کے درو دیوار مختلف تغروں سے بھرے پڑے ہیں...

مولوی کی بات سن کے میں نے کہا ..
"انسان بھی عجیب چیز ہے...
نہیں مانتا تو خدا کو بھی نہیں مانتا.....
اور ماننے پہ آتا ہے تو سب کچھ مانتا چلا جاتا ہے...
کبھی رب کو بھی سجدہ نہیں کرتا...
اور کبھی شجر اور ہجر کو بھی مسجود بنا لے گا...
ہر سیڑھی کو سجدہ کرتا چلا جائے گا.

10361333_634544903289610_6979662584872338744_n.jpg
 
آپ متحدہ عرب میں رہتے ہیں اور آپ کے لیے یوٹیوب دیکھنا مشکل نہیں۔ ایسی لیے آپ کو یہ لنک دے رہا ہوں۔ پیر نصیر الدین نصیر صاحب کا نام تو سنا ہوگا۔ اگر آپ کے پاس ٹائم ہے تو اس ویڈیو کو پورا دیکھیں۔ پھر ہم سنیوں پہ کوئی الزام لگائیے گا۔آپ کو تمام سوالوں کے جواب مل جائیں ۔ اور ایک بات کا خیال رکھیے گا کہ اگر کسی بات کو یہاں کوٹ کریں تو پوری تفصیل کے ساتھ آدھا نہیں۔



 

x boy

محفلین
جادو اور حضرت موسی علیہ السلام !

عام طور پہ جادو کے ثبوت میں حضرت موسی علیہ السلام کی مثال پیش کیجاتی ھے جو کہ عدم تدبر کا شاہکار ھے، ھم جو باپ دادا سے ،،دادی اماں سے سن چکے ھوتے ھیں وھی تخیل اتنا پکا ھو چکا ھوتا ھے کہ اسی کا کلپ چلا کر ھم سمجھتے ھیں چونکہ یہ کلپ ھم جوانی اور بڑھاپے میں دیکھ رھے ھیں لہذا اب یہ بچپنا نہیں ھے !

جادو یا سحر کی اصل صرف اور صرف دھوکا ھے جو ایک مضبوط قوت نفسانی یا قوتِ ارادی والا شخص دوسرے کم قوت ارادی کے لوگوں پہ وارد کرتا ھے یعنی ان کو کانفرنس میں ایڈ کر لیتا ھے ،یوں جو چاھتا ھے ان کو دکھاتا ھے !

موسی علیہ السلام جب مصر سے فرار ھو کر مدین چلے گئے اور معجزات کے ساتھ واپس تشریف لائے تو مصریوں کا اس وقت کے رواج کے مطابق یہ فطری رد عمل تھا کہ وہ کہیں جنگل میں دھونی رمائے جادو سیکھتے رھے ھیں ! اور یہ سب جادو کا کمال ھے ! اس لئے فرعون نے چھڑی کے اژدھا بننے پر جو فوری جواب دیا تھا ،، وہ یہ تھا کہ " اجئتنا بسحرک یا موسی ؟ موسی کیا تو جادو سیکھ کر ھمارے پاس آ گیا ھے ؟ فلنأتینک بسحرٍ مثلہ ! پس ھم بھی تیرے مقابلے مین تیری طرح کا جادو لائیں گے،، فجعل بیننا و بینک موعداً ،، پس تو ھمارے اور اپنے درمیان کوئی دن مقرر کر دے ،، لا نخلفہ نحن ولا انت مکاناً سوی ،، اس دن اور جگہ کی خلاف ورزی نہ تو ھم کریں اور نہ تو کرے ،،،،موسی علیہ السلام نے عید کا دن مقرر کر دیا ،، ادھر جادوگر بھی آگئے اور موسی علیہ السلام بھی آگئے ! یوں مقابلہ شروع ھوا !

مقابلہ کا پسِ منظر !
موسی علیہ السلام کا دعوی !

میں اللہ کا رسول ھوں اور میرا عصا اللہ کے حکم سے سانپ بن جاتا ھے !

فرعون کا جوابی رد یا جوابی دعوی !

آپ اللہ کے رسول نہیں جادوگر ھیں اور یہ عصا جادو کے زور سے ھمیں سانپ نظر آتا ھے ! ھمارے جادوگر بھی ایسا کمال دکھا سکتے ھیں ،، تو اگر وہ یہ کمال دکھا کر ڈنڈے اور رسیاں سانپ بنا کر دکھا دیں تو ،،، آپ کو دو میں سے ایک بات ماننی پڑے گی 1-یا تو وہ بھی تیری طرح پیغمبر ،، 2- یا تو بھی ان کی طرح جادو گر ثابت ھو جائے گا !

اب اس آیت کی طرف آیئے جس سے موسی علیہ السلام کا جادو سے ڈرنا اور خوفزدہ ھونا ترجمہ کیا جاتا ھے !

یخیلُ الیہ من سحرھم انھا تسعی !
ان کے جادو کے زور پہ موسی کو خیال گزرا کہ وہ چل پھر رھی ھیں یا حرکت کر رھی ھیں !

فأوجس فی نفسہ خیفۃً موسی !

پس موسی اپنے جی میں ڈرا !

قلنا لا تخف انک انت الاعلی !

ھم نے کہا تو ڈر نہیں تو ھی جیتے گا !( تو ھی اوپر رھے گا )

تشریح

یہاں ضروری تھا کہ موسی کو وہ منظر دکھایا جائے جو پبلک دیکھ رھی تھی تا کہ ان کا رد عمل حالات کی مناسبت سے ھو !
فرض کریں موسی علیہ السلام پر وہ خیال نہ گزرنے دیا جاتا تو ان کا رد عمل یہ ھوتا کہ وہ ان جادوگروں پہ ھنستے اور کہتے کہ پاگلو ! یہ تو ابھی بھی رسیاں اور ڈنڈے ھیں ،، سانپ کہاں ھے ؟
جبکہ مجمع ان کو حیرت سے دیکھ رھا ھوتا کہ یہ بندہ ھمارے منہ پر جھوٹ بول رھا ھے اور حقیقت کو تسلیم نہیں کر رھا !
لہذا اس جادوئی خیال کی رسائی اللہ نے موسی تک ھونے دی !

کیا موسی علیہ السلام جادو سے ڈرے تھے ؟

جی نہیں موسی علیہ السلام اس بات سے ڈرے تھے کہ اب عوام یہ فیصلہ کیسے کریں گے کہ جادوگر اور رسول میں کیا فرق ھے ؟ جادو اور معجزے میں کیا فرق ھے؟ گویا میں تو اپنا دعوی نبوت ثابت کرنے میں ناکام ھو گیا !
اللہ پاک نے اپنے جواب سے موسی علیہ السلام کے خوف کی حقیقت بیان کر دی " لاتخف انک انت الاعلی ،، تو نہ ڈر تو ھی غالب آئے گا ،،،،

اگر جادو سے ڈرے ھوتے تو اللہ فرماتا : موسی تو نہ ڈر یہ رسیاں اور ڈنڈے ھی ھیں بس تجھ کو سانپ نظر آرھے ھیں ،،
اب آگے فرمایا " القِ مافی یمینک ،، جو تیرے دائیں ھاتھ میں ھے بس تو اسے ڈال دے !

تلقف ما صنعوا ،، وہ اس کو نگل جائے گا جو انہوں نے بنایا ھے ؟
اب یہاں پھر ایک غلطی کی جاتی ھے اور وہ یہ کہ " موسی علیہ السلام کا عصا جادو گروں کے ڈنڈے اور رسیاں نگل گیا !
مقابلہ یہ تھا کہ جادو کے زور پر ڈنڈا سانپ بن سکتا ھے یا نہیں ؟،، اگر وہ جادگروں نے ثابت کر دیا تھا تو پھر جادوگروں کے ڈنڈے یا عوام کی نظر کے مطابق سانپ ،، موسی علیہ السلام کا ڈنڈا یا سانپ نگل بھی جاتا تو بھی جادوگروں کے دعوے کا ابطال کیسے کیا جا سکتا ھے ،،بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو کھاتی آئی ھے ، کیا اس سے چھوٹی مچھلی کو مچھلی نہیں کہا جاتا ؟
آیت کہہ رھی ھے وہ کھا جائے گا وہ چیز جو جادوگروں نے بنائی ھے؟ تو کیا جادوگروں نے رسیاں اور ڈنڈے بنائے تھے ؟ یا جادو کا کرشمہ بنایا تھا ؟

تلقف ما صنعوا،، جادو کی صنعت کھا جائے گا،، اللہ پاک نے پھر وضاحت بھی فرما دی !
انما صنعوا کید ساحر ،، انہوں نے دراصل جادوگر کا فریب بنایا تھا !

پس وہ عصا اس سحر کو کھا گیا جو لوگوں کی نظر پہ کیا گیا تھا اور ڈنڈے رسیاں پڑی کی پڑی رہ گئیں اور موسی علیہ السلام کا عصا شیر کی طرح میدان میں ٹہلتا پھر رھا تھا گویا وہ اصل میں سانپ بنا تھا ، اس کی کنگڈم تبدیل ھوئی تھی ،جبکہ ڈنڈے کبھی تبدیل نہیں ھوئے تھے بلکہ فریبِ نظر سے حرکت کرتے نظر آتے تھے !

اس کی تدبیر کچھ یوں کی گئ کہ موسی علیہ السلام کا اژدھا جن جن لوگوں کے آگے سے گزرتا جا رھا تھا ان کی آنکھوں کا جادو ختم ھوتا جا رھا تھا ،، جب اس نے پورے میدان کا چکر مکمل کیا تو تمام مجمعے نے دیکھ لیا کہ نظر کھل جانے کے بعد سانپ سانپ ھے اور ڈنڈے ڈنڈے ھیں !

اس کو سب سے پہلے خود جادوگروں نے نوٹس کیا کیونکہ وہ ماھر فن تھے ،خود ان کے سجدے میں گر کر ربِ موسی اور ھارون پر ایمان لے آنے کے بعد کسی کو شک کی گنجائش ھی نہیں رھی تھی ،، جب کھلاڑی خود ھی ھیلمٹ اور دستانے اٹھا کر پویلین کی طرف چل دے تو اس کے آؤٹ ھونے میں کس کو شک ھو گا ؟

جادو برحق ھے + جادو تو نبی ﷺ پر بھی ھو جاتا ھے !

یہ دو ایسے ظالم جملے ھیں ، جو سارا ایمان ،، سارا توکل ،، سارا قرآن ،، ساری سنت کھا جاتے ھیں ،،اور بڑے بڑے پڑھے لکھے انجینئرز، سائنسدانوں ، یورپ کے بڑے بڑے اسپتالوں میں لوگوں کو زندگی کی نوید سنانے والے ھارٹ اسپیشلسٹوں اور نیورولوجسٹوں کو نیز بڑے بڑے متقی پرھیز گار خدا خوف اور مؤحد مردوں عورتوں کو ننگے ، گندے ،اپنے پاخانے مین لتھڑے جنہیں استنجا کئے ھفتے گزر جاتے ھیں ،، پان اور کتھا کھانے والے گانجا پینے والے لوگوں کے قدموں میں لے جا بٹھاتے ھیں ،، کوئی اولاد کی بندش کھلانے جاتی ھے تو کوئی کاروباری بندش کھلانے جاتا ھے ،،کوئی بیوی کا جن اتروانے جاتا ھے تو کوئی شوھر سے تعویز کے اثرات ختم کرانے جاتی ھے ! اس میں ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں ،،یہ ھمارے مفسرین اور راویوں کے دوڑائے ھوئے ھیں ،،

ظلم یہ ھے کہ پھر وھی علماء ان پر شرک کے فتوے بھی لگاتے ھیں ، حالانکہ وہ خود بڑے مجرم ھیں ،، ان کی حیثیت شرک کے اڈوں کو گاھک سپلائی کرنے والوں کی سی ھے ! یہ روحانی دلال ھیں !

ظاھر ھے جب اللہ کا آخری رسول ﷺ جن پر آخری کتاب نازل ھوئی جو معراج سے ھو کر آئے ،جو بارہ سال معوذتین پڑھ پڑھ کر دم کر کے پورے بدن پر ھاتھ پھیرتے رھے ،، جو بڑے دعوے سے فرمایا کرتے تھے ،،جس نے صبح تین دفعہ یہ دعا پڑھ لی اس کا پورا دن سلامت رھے گا ،،اور جس نے شام کو تین پار پڑھ لی اسے ساری رات کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی ،، اللھم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدنیا و لآخرہ ،، اللھم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی دینی و دنیای و اھلی و مالی ، ،، وھی نبی ﷺ خود محفوظ نہیں رھا ،، جسے اللہ نے فرما دیا تھا کہ واللہ یعصمک من الناس ،، اللہ تمہیں لوگوں سے بچائے گا ،، اسے ھی اللہ نہیں بچا سکا تو ھما شما کو کون تسلی دے سکتا ھے ؟؟
ھمارا آخری وسیلہ اور آخری نجات دھندہ یہی ننگا اور گندھا ،بے ایمان ، شرابی ھے ،،
اللہ کچھ کر سکتا تو اپنے نبیﷺ کے لئے نہ کرتا ،، سال بھر نبی ﷺ چکر پر چکر کاٹتا رھا اپنے حجرے میں ،،کان یدور و یدور ولا یعلم ما اصابہ ،، چکر پہ چکر کاٹتے تھے مگر جانتے نہین تھے کہ ان کو ھو کیا گیا ھے ،، موسی کو تو ایک سیکنڈ کا خیال آیا تھا ، یہاں تو سال بھر رھا ،، بیویوں کے پاس نہ گئے ھوتے مگر سمجھتے کہ ھو آیا ھوں ،، مسکرانا بھول گئے اور سوکھ کر کانٹا ھو گئے !

عجیب بات یہ ھے کہ اللہ کے رسول پر یہ سب قیامت گزر رھی ھے ،،مگر کسی کو کان و کان خبر نہیں ،، بیویاں 9 ھیں ،،مگر آٹھ بیویوں سے ایک لفظ مروی نہیں ! صرف حضرت عائشہ صدیقہؓ کے گلے میں یہ ھار ڈالا گیا ھے ،، عائشہ صدیقہؓ طاھرہ مطہرہ عقل و دانش کا مرقع ، عالمہ ،حافظہ فقہیہ سے یہ توقع رکھنا کہ انہوں نے نہ تو اپنی سوتنوں سے اس موضوع پر کبھی ایک جملہ ڈسکس کیا ، حالانکہ یہ عورتوں کی عادت ھوتی ھے اور یہ عادت ازواج مطھرات مین بھی تھی ،،بہت نازک مسائل وہ ڈسکس کرتی تھیں،، نہ ھی عائشہ صدیقہ نے اپنے والد ابوبکرؓ سے ذکر کیا کہ آپکے یارِ غار پر قیامت گزر گئ ھے ،،

ذکر کیا بھی تو ایک بھانجے سے اور وہ بھانجا بھی کسی کو نہیں بتاتا صرف اپنے ایک بیٹے کو سینہ بسینہ بتا دیتا ھے ،، اور وہ بیٹا ھی ستر سال اس راز کو سینے سے لگائے رھتا ھے ،،جب نہ عائشہؓ زندہ ھوتی ھیں اور نہ ان کا بھانجا ،، تو اچانک عراق سے خبر آتی ھے کہ نبی ﷺ پر جادو ھو گیا تھا ،،حالانکہ اس کے گواہ تو مدنی ھونے چاھئے تھے اور ایک دو نہیں سیکڑوں ھونے چاھئے تھے ،، اس قسم کی خبر واحد کی بنیاد پر پورے قران کی تعلیم اور نبی ﷺ کی سنت اور تعلیم ،، سب کا بیڑہ غرق کر دیا گیا !

اور کافر سچے نکلے ! قرآن نے روایت کے آگے ہتھیار ڈال دیئے !

موسی علیہ السلام کے مقابلے کا موضوع اور تھا ،،کیا موسی جادوگر ھیں اور ان کا معجزہ جادو ھے ،، یا موسی رسول ھیں اور ان کا معجزہ فی الواقع معجزہ ھے !

مگر نبی ﷺ کے معاملے میں کافروں اور نبی ﷺ کے درمیان مقابلہ اس بات کا تھا کہ !

محمدﷺ پر جادو ھوا ھے اور وہ مسحوری کی حالت میں کسی کو دیکھتے ھیں ،، جو اس سے سنتے ھیں بیان کر دیتے ھیں ورنہ وہ بڑے صلح جو اور اپنے کام سے کام رکھنے والے شخص تھے،، وہ کبھی اس قسم کی پھوٹ معاشرے مین نہیں ڈال سکتے !

قرآن اس دعوے کا زوردار انکار کرتا ھے اور ان کو ظالم کہتا ھے اور نوید سناتا ھے کہ نبی پاکﷺ کے بارے میں اس قسم کی مثال دینے والے کبھی ھدایت نہیں پا سکتے !
و قال الظالمون ان تتبعون الا رجلاً مسحوراً ،، اور طالم کہتے ھیں کہ تم پیچھے لگے ھوئے ھو ایک جادو شدہ شخص کے جس پر جادو کر دیا گیا ھے ! انظر کیف ضربوا لک الامثال ؟ فضلوا فلا یستطیعون سبیلاً ( الفرقان 8-9 )

اگر ثابت ھو جائے کہ نبیﷺ پر مدینے میں جادو ھو گیا تھا تو پھر مکے کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ وھاں جادو نہیں ھوا تھا ،،در آنحالیکہ معوذتین مکے میں ھی نازل ھوئی تھیں ! اگر ثابت ھو جائے کہ نبی ﷺ نے معاذ اللہ مدینے میں جھوٹ بولا تھا تو پھر اس کا احتمال پیدا ھو جاتا ھے کہ مکے میں بھی بول سکتے ھیں ، دونوں صورتوں میں محمدﷺ کی ذات اپنی کریڈیبیلٹی کھو دیتی ھے ،، اذا دخل الاحتمال بطل الاستدلال ،، جب آپ کی ذات مین جادو کا فیکٹر اور جادو کی excess مان لی جائے تو پھر آپ کی ذات اقدس اپنی رسالت کا استدلال یعنی عصمت و صداقت دونوں کھو دیتی ھے ! نبی ﷺ کے دعوئ نبوت کے بعد کسی وقت بھی مسحور ھونا ثابت ھو جائے تو ،،کافر سچے اور معاذ اللہ ثمہ معاذ اللہ خاکم بدھن قرآن جھوٹا نکلا !

راویوں کی تباہ کاریاں !

مگر مکے والوں کے پاس ایسے 90 گز کے راوی نہیں تھے ،، مسلمانوں نے ایسے قدآور راوی کے زور پر مسلمانوں کے جینز تک میں گھسا دیا ھے کہ جادو برحق ھے ،،جادو تو نبی ﷺ پر بھی ھو گیا تھا ،، کر لو جس جو کرنا ھے ،،پڑھ لو جس جو پڑھنا ھے بنگالی بابا کے بغیر مسئلہ حل نہیں ھونا ،،

جب کہ میرا چیلنج یہ ھے کہ مجھ گنہگار پہ کوئی جادوگر جادو کر دکھائے ،، جو میرا لینا ھے لے لے ۔۔ کپڑے لے لے ،، بال لےلے ،، ماں کا نام پوچھ لے ،،ماں کی ماں کا نام پوچھ لے مجھ ناچیز پہ جادو کر کے دکھا دے ،، وہ بنگال کا ھو یا پنجاب کا راجھستان کا جادو ھو یا عمان کا ،، مجھے اپنے رب کے قران پر اور اپنے نبی ﷺ کے فرمان پر یقین ھے کہ کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا !

سبحانک ھذا بہتانُٓ عظیم !
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
کہا یہ جاتا ھے کہ نبی ﷺ کی بشریت پر تو جادو ھو گیا تھا ،یعنی محمد بن عبداللہ پر تو جادو ھو گیا تھا مگر محمد ﷺ رسول اللہ پر جادو نہیں ھوا تھا !

اب جب غامدی یہ کہتا ھے کہ نبی ﷺ کی ساری باتیں اور کام سنت نہیں ھیں ! جو کام انہوں نے بطور محمد بن عبداللہ کیئے وہ عرب معاشرے کے ایک عام آدمی کے طور پہ کیئے ،، اور ان کی تعداد زیادہ ھے ،، جبکہ سنت وھی ھوں گے جن کو بحیثیتِ رسول اللہ ﷺ انجام دیا اور دین کا حصہ بنایا !

مگر اس تقسیم پر علماء نہایت برافروختہ اور سیخ پا ھوتے ھیں ،، وہ نبی ﷺ کی دوحیثیتیں ماننے کے لئے تیار نہیں ! ذرا ذرا سی بات بھی وہ سنت بنا دیتے ھیں ،جس کا ترک بندے کو فاسق بنا دیتا ھے ،،مگر طرفہ تماشہ یہ ھے کہ جادو کے دفاع میں گگلی اور دوسرا کا استعمال کرتے ھوئے خود وھی تقسیم کر دیتے ھیں تو سب حلال ھو جاتا ھے ،،بقول کسے !
یہ شیخ جی کا فلسفہ تو میری سمجھ میں نہ آ سکا !
جو دیوبندی کرے تو حلال ھے جو غامدی کرے تو حرام ھے !

جو نتائج اس جادو سے نکلتے ھیں ان کا سامنا بھی آپ کرنے کو تیار نہیں ھوتے،، آپ کس طرح طے کرتے ھیں اور کس دلیل سے طے کرتے ھیں کہ نبیﷺ کی فلاں چیز پر جادو ھوا تھا اور فلاں پر نہیں ھوا تھا ؟ کوئی بھی قائل نہیں سے کیا ھوتا ھے ؟ یہ تو صرف منہ کی بات ھے ! آپ یہ کیسے طے کرتے ھیں اور کس دلیل سے طے کرتے ھیں کہ نبوت والی ذمہ داریوں میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا کیا یہ بھی بخاری کی کسی حدیث میں آیا ھے؟جادو ھوتا ھے یا نہیں ھوتا،،جس طرح حمل ھوتا ھے یا نہیں ھوتا،، نہ آدھا حمل ھوتا ھے نہ آدھا جادو ھوتا ھے،،، اب آپ میرے سوالوں کے جوابات دیجئے،، اگر معوذتین کا شانِ نزول جادو ھے تو پھر وہ جادو مکے میں ھوا ھو گا،کیونکہ دونوں صورتیں مکی ھیں،، اپ کہہ سکتے ھیں کہ مکے مین نہیں ھوا ،، میں کہتا ھوں اگر مدینے میں ھو گیا ھے تو مکے میں ھونے سے اس کو کون روک سکتا ھے؟ اذا دخل الاحتمال بطل الاستدلال،، اب نبی ﷺکی عصمت کس طرح باقی بچی،،؟ جب نبیﷺ سے جھوٹ کا صدور زندگی میں کسی موقعے پر بھی ثابت ھو جائے تو باقی زندگی کی کیا گارنٹی رہ جاتی ھے کہ اس میں نہیں بولا ھو گا ؟ چھ ماہ تک نبیﷺ کے ازدواجی تعلقات سے لے کر ھر چیز الٹ پلٹ ھو گئی تھی اور اب آپ ڈسکاؤنٹ دینے ھیں کہ جادو سے نبیﷺ کے فلاں فلاں اعضاء متاثر ھوئے تھے اور فلاں نہیں، محترم جھوٹ اور مسحور دونوں برابر کے عیب ھیں،جادو کے بعد نہ قلب و شعور کی عصمت باقی بچتی ھےاور نہ جھوٹ کے بعد کردار کی، عصمت باقی رھتی ھے جب نبیﷺ بیوی کے پاس نہیں گئے اور سمجھتے ھیں کہ گیا ھوں،، اب یہ قول کہ میں بیوی کے پاس گیا ھوں جھوٹ ھو گیا یا نہیں،، اور کہا نہیں ھوتا تھا تو سمجھتے تھے کہ کہا ھے،،ظاھر ھے یہ سمجھنا حجور کے قول کی وجہ سے ھی راوی کو پتہ چلا ھو گا ورنہ نبی کے دل ودماغ سے راوی کو سکین کر کے تو نہیں پتہ چلا،جب نبی نے نہیں کیا مگر کہتے ھیں کہ میں نے کیا ھے تو یہ بھی جھوٹ ھو گیا،، اب کیا اسی منہ سے قرآن نہیں نکلا کرتا تھا؟ اور ھو سکتا کہ کہ نازل ھوا ھو اور آپ نے سمجھا ھو کہ میں نے لکھوا دیا ھے مگر لکھوایا نہ ھو؟ اور ھو سکتا ھے کہ نازل نہ ھوا اور آپ نے سنا ھو کہ نازل ھوا ھے؟ آخر کیا گارنٹی رہ گئی ھے جب ھر امکان اوپن ھو گیا ھے کیا وہ اختلافات جو نماز اور قرآن کی سورتوں کے بارے میں صحابہ سے اسی بخاری مین روایت ھیں اسی دور کی پیداوار تو نہیں ؟ محترم کتا جب گھر کمرے سے نکلے اور برتن کھلے پڑے ھوں تو ھر برتن پر شک ھوتا ھے کہ اس میں بھی منہ مارا ھو گا ،، اس کو بھی پلید کیا ھو گا، پتہ نہیں آپ کے ممدوح لبید ابن اعصم نے کس کس فائل کو کرپٹ کیا ھو گا،،کیا کیا ڈیلیٹ کیا ھو گا،،اور کیا کیا ایڈ کیا ھو گا؟؟؟،،اکاؤںٹ جب ھیک ھو جاتا ھے تو پھر اگلے کی مرضی پر ھوتا ھے جو چاھے کرے، پھر حضور ﷺ کو معوذتین 15 سال پڑھنے کا فائدہ تو کوئی نہ ھوا،، قرآن کا راوی شاید آپ کی نظر میں کمزور ھے ؟ رہ گئی موسی علیہ السلام والے جادو کی بات،، تو گزارش ھے کہ وہ ایک خیال تھا جو ایک لحظے کے لئے آیا تھا،، اس کے نتیجے میں نبی موسی چکر کاٹنا نہیں شروع ھو گئے تھے اور نہ بیویوں والے مرض میں مبتلا ھوئے تھے اور نہ بات کر کے بھول جاتے تھے اور نہ کام نہ کر کے سمجھتے تھے کہ کر لیا ھے،، اور ان حرکات کا نام ھی جنون ھے،، وما انت بنعمتِ ربک بمجنون،، موسی علیہ السلام کو میدان جنگ کی صورتحال دکھانا ضروری تھا کہ وہ جان لیں کہ مجمع کو کیا نظر آ رھا ھے،بس اس کے بعد اللہ نے معاملے کو سنبھال لیا تھا !
 

x boy

محفلین
وذتین اور جادو ! پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا !
August 26, 2013 at 5:29am
سورہ الفلق اور سورہ الناس جن کو جوڑ کر معوذتین کہا جاتا ھے،،یعنی وہ دو سورتیں جن میں مختلف خطرات سے اللہ کی پناہ حاصل کی جاتی ھے، یہ سورتیں ابتدائی مکی دور میں جب کہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس مختلف قسم کے سماجی ،اخلاقی، اور گروھی دباؤ کا سامنا کر رھی تھی،نبی کریم ﷺ کے خلاف ھر قسم کا حربہ استعمال کیا جا رھا تھا، رات کے اندھیرے میں اگر آپ کے خلاف گٹھ جوڑ ھوتے تھے تو دن کی روشنی میں حرمِ مکی کے زائرین تک رسائی حاصل کر کے ان کے کانوں میں نبی ﷺکے خلاف زھر انڈیلا جاتا،ان سب کو مدنظر رکھتے ھوئے اللہ پاک نے ان میں سے ھر ھر فتنے کا نام لے کر اپنے نبیﷺ کو اپنی پناہ کی یقین دھانی کروا دی ، کہ آپ ان الفاظ سے ھماری پناہ طلب کر کے بے فکر ھو جائیے،ھم جانیں اور آپ کے دشمن جانیں،، ان سورتوں کے نزول کے ساتھ ھی نبی ﷺ نے ان کی تلاوت اور ورد کو معمول بنا لیا اور سوتے وقت بھی ان آیات کو پڑھ کر اپنے ھاتھوں پر پھونکتے اور پھر پورے بدن اطہر پر پھیر کر حصار بنا لیتے، آپ نے ساری زندگی اس کو اپنا معمعول بنائے رکھا تا آنکہ مرض الموت میں جب کہ آپ کی ھمت جواب دے گئی تو سیدہ کائنات ام المومنین عائشہ صدیقہ طاھرہ طیبہ ؓ آپ کے دست مبارک کو سہارہ دے کر آپ کے چہرہ اقدس کے قریب کرتیں، جب آپ ان سورتوں کو پڑھ کر پھونک مار لیتے تو ام المومنینؓ نبی کے ھاتھوں کو ان کے بدن پر پھیر دیتیں، ظاھر ھے جب اللہ پاک نے قل کے حکم کے ساتھ اپنے نبی ﷺکو حکم دیا اور آپ نے عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ آج مجھ پر ایسی آیات نازل ھوئی ھیں جیسی قرآن میں آج تک نازل نہیں ھوئی تھیں، تو آپ نے انہیں بطور ورد کے اختیار فرمایا،، ان آیات میں صرف ایک آیت " و من شر النفثاتِ فی العقد" کو لے کر انہیں جادو کی دلیل بنا دیا گیا ھے کہ اگر جادو نہیں ھوا تھا تو پھر گرھوں میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے پناہ کیوں مانگی گئی ھے؟ اب سب سے پہلے نوٹ کرنے کی بات یہ ھے کہ یہ حکم کہ" قل اعوذُ برب الفلق" تو مکے کے ابتدائی مشکل دور میں نازل ھوا، نبی نے بحیثیتِ "نبی "اللہ کے حکم کی پیروی شروع کر دی جو کہ آپ کا فرضِ منصبی تھا، پھر اس کے باوجود اگر 12 یا 15 سال کے بعد مدینے میں آپﷺ پر جادو ھو گیا اور یہ سورتیں اللہ کے وعدے کے مطابق آپ پر جادو ھونے کو نہ روک سکیں تو اب یہ جادو کا علاج کیا اور کیسے کریں گی؟؟ ایک معتزلی شیخ جو کہ اللہ کو بھی معطل مانتا تھا، اس کے پاس ایک شخص آیا کہ میری اونٹنی کوئی چوری کر کے لے گیا ھے تو آپ دعا کر دیجئے کہ اللہ پاک اسے لوٹا لائے ! اب شیخ نے دعا شروع کی " ائے اللہ تو نے تو نہیں چاھا تھا کہ اس شخص کی اونٹنی چوری ھو،مگر چور کھول کر لے گیا،، ائے اللہ اس کی اونٹنی لوٹا کر لے آ،اس کی یہ دعا سن کر وہ اونٹ چرانے والا دیہاتی بھی تڑپ اٹھا، اس کے ایمان اور ضمیر نےاللہ کی ھستی بے ھمتا کے بارے میں شیخ کے الفاظ اور ان سے مترشح عقیدے کو قبول نہ کیا وہ پکارا " یاشیخ الغبی ! اوے بےوقوف مولوی جب چور کا ارادہ پہلے ھی میرے رب کے ارادے کو شکست دے چکا ھے تو اب وہ رب میری اونٹنی کیسے لوٹا سکتا ھے؟ کیا وہ چور کی منت سماجت کر کے واپس لائے گا ؟،، چور نے تو میری اونٹنی چرائی تھی مگر احمق انسان تُو تو میرے ایمان پر ڈاکا ڈالنے لگا ھے؟ 15 سال پڑھنے کے بعد بھی اگر لبید ابن عاصم اللہ کی حفاظت اور نبیﷺ کی عصمت میں نقب لگا چکا ھے تو اب ان سورتوں سے اس شگاف کو کیسے پر کیا جا سکتا ھے ؟ یہ تو سکندر کے گرنے کے بعد پاکستانی پولیس کی ھوائی فائرنگ جیسی بات ھو جائے گی ! کیا ھم پی ایچ ڈی لوگوں سے اس دیہاتی کے ایمان کی گہرائی اور گیرائی زیادہ نہیں؟ یہ سوال ھمارے ذھن میں پیدا کیوں نہیں ھوتا کہ جب اتنے عرصے کا ورد نبیﷺ کی حفاظت نہیں کر سکا اور عین وقت پر جواب دے گیا،،تو اب نبی ﷺکو یہ کہنا کہ " قل اعوذُ برب الفلق' کوئی عقل و فہم میں آنے والی بات ھے،یا کوئی یہ ثابت کرنا چاھتا ھے کہ نبیﷺ نے ان سورتوں کا ورد کبھی نہیں کیا تھا،بلکہ ان کو رکھ کر بھول گئے تھے اور فرشتے نے آ کر یاد دلایا کہ جناب معوذتین نام کی دو سورتیں بھی آپ پر 15 سال پہلے نازل کی گئی تھیں،،وہ ڈھونڈیں کدھر رکھی ھوئی ھیں؟ ساری مصیبت ھمارے جادوئی ماحول کی پیدا کردہ ھے، راویوں کے زمانے میں بھی جو جو طریقہ جادو کا مروج تھا وہ سارا انہوں نے قسطوں میں نبیﷺ پر جادو والی حدیث میں ڈالا،، بخاری میں چند لائنیں ھیں، اور پتلے اور سوئیوں کا کوئی ذکر نہیں،مگر بعد والوں نے" خالی جگہ پُر کرو" کا کام خوب کیا، اور ایک پتلا انہوں نے نبی کا بنوایا،، شکر ھے عربوں میں دال ماش کا رواج نہیں تھا ورنہ وہ ماش کی دال کا پتلا بناتے،، پھر اس میں سوئیاں چبوتے ھیں، پھر سوئیاں نکالتے وقت نبی ﷺکے چہرہ اقدس کے تآثرات بھی نوٹ کرتے ھیں کہ حضور سوئی نکلنے پر منہ کیسا بناتے ھیں،لکھتے ھیں سوئی نکلنے پر تکلیف کا اظہار کرتے ،پھر راحت محسوس کرتے ! الغرض الفاظ بھی بڑے ظالم ھوتے ھیں،، پتھر اور مٹی کی دیواروں کو پھلانگا جا سکتا ھے ان میں نقب بھی لگائی جا سکتی ھے مگر الفاظ کی اسیری سے رھائی ناممکن ھے کیونکہ الفاظ کی دیواریں انسان کے اندر ھوتی ھیں، اور نادیدہ ھوتی ھیں،، صرف اس ایک لفظ نفاثات ،، یعنی پھونکوں نے کس طرح لوگوں کو اپنا اسیر بنایا ھے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا ھے، پتھر کی دیواروں کے پیچھے اسیری غنیمت ھے کہ اس اسیری میں بڑی بڑی انمول تفسیروں اور تحریروں نے جنم لیا ھے،ابن تیمیہ کی جیل کی تحریریں،، سید قطب کی جیل کی تفسیر، مودودی صاحب کی تفھیم کی تکمیل، اور امام سرخسی کی اندھے کنوئیں میں سے اپنے شاگردوں کو ڈکٹیٹ کروائی گئی وہ تفسیر جو دو بیل گاڑیوں پر لاد کر لائی گئی،،مگر الفاظ کی اسیری انسانی صلاحیتوں کو بانجھ بنا دیتی ھے،، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ھیں،حضرت عائشہ صدیقہؓ کی 16 سال میں شادی اور 19 سال میں رخصتی کی حدیث بھی بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں موجود ھے،مگر 6 سال کے لفظ کے اسیروں کی نظروں میں اس کی اھمیت ھی کوئی نہیں،، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے تو اپنی شرح بخاری میں اس کا ترجمہ تک کرنا پسند نہیں فرمایا کجا یہ کہ اس کی تفسیر سے نبی کے دامن پر لگا دھبہ صاف کرنے کو کوشش کی جاتی، اب دیکھیں ھمارے اسلاف ان الفاظ کا کیا ترجمہ کیا کرتے تھے، اس صورتحال میں کہ جب مختلف جماعتوں نے اپنے اپنے کام بانٹے ھوئے تھے،کچھ حاجیوں کو گھیرتے اور نبی کی ذات کے بارے میں ان کے کان میں پھونکتے، کچھ تجارتی قافلوں کو نشانہ بناتے اور ان میں گھوم پھر کر اپنے جوھر دکھاتے، کچھ اردگرد کی بستیوں میں چلے جاتے، پھر واپس آنے والے حرم میں بیٹھ کر رات کے اندھیروں میں اپنی اپنی کار گزاری سناتے اور ان کے" گرو" ان میں کمی بیشی کی نشاندھی کر کے کل کے لئے نئے اھداف مقرر کرتے اور لائحہ عمل تیار کرتے، اس پس منظر میں ان سورتوں کا نزول ھوا ،، یہ وھی پھونکیں ھیں جن کے بارے میں اللہ پاک نے پہلے سورہ الصف اور پھر سورہ توبہ میں ذکر فرمایا ھے،یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواھھم، واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون،،، اور یریدون ان یطفئوا نور اللہ بافواھھم، و یابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکافرون،، یہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں کے زور سے بجھانا چاھتے اور اللہ اپنے نور کی تکمیل سے کم کسی بات پر راضی نہیں ھے،، اگرچہ یہ کافرون کو کتنا بھی ناپسند ھو، یہ وھی پھونکیں ھیں جب کو اقبال نے کہا ھے "

نور خدا ھے کفر کی حرکت پہ خندہ زن - - - پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا !

یہ وہ پروپیگنڈے کی پھونکیں ھیں جن کو جادوگرنیوں کی پھونکیں بنا کر پھر جادو کی دیو مالا تیار ھوئی ھے !

اب ترجموں میں نگاہ ڈال لیں،یہ ان اسلاف اور علماء کا ترجمہ ھے جو جادو کی حقیقت سے انکار کرتے ھیں،لہذا وہ گرھوں میں پھونکیں مارنے والی جادوگرنیوں کی بجائے کانوں مین پھونکیں مارنے والی جماعتیں مراد لیتے ھیں

1-قاضی بیضاوی اپنی شرح میں اس کی ترجمانی یوں کرتے ھیں، قیل المراد بالانفث فی العقد ، ابطال عزائم الرجال،، کہا گیا ھے کہ پھونک مارنے والیوں سے مراد وہ عورتیں ھیں جو مردوں کے مستحکم ارادوں کو اپنے حیلوں سے پاش پاش کر دیتی ھیں( ھند زوجہ ابوسفیانؓ اور ام جمیل زوجہ ابو لہب ذھن مین رھے،جو عورتوں میں اس مہم کی سرخیل تھیں )

2- عبدالحق حقانی لکھتے ھیں،پس آیت کے معنی یہ ھوئے کہ عورتوں کے شر سے پناہ مانگنی چاھئے جو مردوں کی ھمتوں اور مستحکم ارادوں کو مکر کی پھونک مار کر کمزور کر دیتی ھیں

3- عبید اللہ سندھی لکھتے ھیں' اور ھمیں ان جماعتوں کے شر سے بچا جو زھریلی پھونک مار مار کر عقیدے کو کمزور کر دیتی ھیں؛ آگے تفسیر میں لکھتے ھیں کہ کچھ لوگ ان سے مراد کوئی جادو گرنی فرض کر لیتے ھیں جو اپنے جادوگروں سے جادو کراتی ھے اور قرآن میں ان کے شر سے پناہ مانگی جا رھی ھے وغیرہ ،، ان کے نزدیک اس قسم کی تاویل اگرچہ ھو سکتی ھے تا کہ اس کا آیت کے ساتھ تال میل پیدا کیا جائے،مگر اس آیت سے جادوگرنیاں مراد لینا قرآن مجید سے ثابت نہیں ھے اور یہ بات قرآن اور نبوت کی شان کے بھی خلاف ھے،اس لئے ھم عورتوں کی جگہ جماعتوں کو لیتے ھیں اور جماعت کو عربی میں مؤنث کے صیغے میں لیا جاتا ھے، یعنی ان جماعتوں کے شر سے پناہ مانگی جاتی ھے جو اپنے غلط پروپیگنڈے سے انسان کی فطری ترقی کو روکتی ھیں،،( المقام المحمود ص 217 )

4- صوبہ خیبر پختونخواہ کے مشہور عالم شیخ محمد طاھر پنج پیری کہتے ھیں،النفٰثٰتِ فی العقد سے مجالس میں پھونک مارنے والے مراد ھیں، اور اس کی بہترین تفسیر وھی ھے جو خود قرآن نے کی ھے،یریدون لیطفئوا نور اللہ بافوھھم ( الصف-التوبہ) سورہ الفلق میں اللہ پاک نے اپنے نبی ﷺکو دعا سکھائی ھے کہ جو لوگ نورِ اسلام کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاھتے ھیں آپ ان کے عزائم اور مقصد سے اللہ کی پناہ طلب کریں!

اب ما تتلوا الشیاطین ،، اور النفاثات سے یہ استدلال کرنا کہ چند شیطانی کلمات ِ خبیثہ سے کوئی جادوگر مافوق الفطرت کام یا خلاف عادت کرشمہ سر انجام دے سکتا ھے نیز کسی کو نفع یا نقصان دے سکتا ھے تو یہ ایک باطل اور قرآن و سنت کی تمام تعلیمات کے خلاف عقیدہ ھے اور قرآن و سنت پر مبنی عقیدے کے خلاف کسی بھی روایت کو قبول کرنا سارے سرمایہ دین اور متاعِ ایمان سے ھاتھ دھونا ھے، دنیا میں کوئی ایسا علم اپنا وجود نہیں رکھتا جس میں مجرد چند الفاظ کو لکھ کر کہیں دبا کر کسی کو مافوق الفطرت طریقے سے نفع یا نقصان پہنچایا جا سکے، اگر یہ طاقت دنیا میں جاری و ساری کرنی ھوتی تو اللہ پاک اپنے کلام سے یہ کام لیتا ،،جیسا کہ اس نے خود سورہ الرعد میں ارشاد فرمایا ھے" ولو انَۜ قرآناً سیرت بہ الجبالُ او قطعت بہ الارضَ او کلم بہ الموتی ،بل للہ الامرُ جمیعاً (الرعد 31 ) اور اگر کوئی ایسا کلام ھوتا جس سے پہاڑ چلائے جا سکتے ،یا زمین پھاڑی جا سکتی( یا فاصلے جھٹ پٹ طے کیئے جا سکتے) یا جس کے ذریعے مردے سے کلام کیا جا سکتا تو وہ یہی قرآن ھوتا،،مگر اللہ نے یہ سارے کام اپنے ھاتھ میں رکھے ھیں،، تو جب اللہ نے اپنے کلام میں یہ تاثیر نہیں رکھی بلکہ نبیوں سلام اللہ علیھم اجمعین سمیت تمام لوگوں کو اپنے در کا غلام اور سوالی رکھا ھے تو لبید ابن اعصم نام کے کافر یہودی کے کلام میں یہ تاثیر مان لینا کہ وہ تین میل دور ایک کنوئیں سے اللہ کے محبوب، نبیوں کے امام ،صاحب معراج اور مقام محمود کے مکین ﷺ کے دل و دماغ کو کنٹرول کر رھا تھا،، لبید کافر کو اللہ سے بالاتر اور اس کے کلام کو اللہ کے کلام سے زیادہ پر تاثیراور طاقتور ماننا ھے ( معاذ اللہ،) (ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ، انک انت الوھاب)

اب دیکھئے اس سورت الفلق میں ساری مخلوق کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،نہ کہ خود مخلوق سے،، اور رات کے اندھیرے کے شر سے پناہ مانگی جب وہ چھا جائے،اب نہ تو رات بذات خود کوئی نقصان دہ چیز ھے بلکہ اللہ نے اسے اپنی نشانی گردانا ھے اور نہ اندھیرے میں کوئی نفع نقصان کی صلاحیت ھے،، بلکہ اندھیرے میں حشرات الارض نکل آتے ھیں سانپ بچھو اور درندے وغیرہ جو انسان کے فطری دشمن ھیں ان کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،، نیز رات کی سیاھی کو پردے کے طور پر استعمال کر کے کچھ لوگوں کی سر گوشیوں یعنی منصوبہ بندیوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،، اب گرھوں میں پھونکیں مارنی والییوں کے شر سے پناہ مانگنا ،، نہ تو کسی گرہ میں کوئی شر یا خیر ھوتی ھے اور نہ ھی کسی پھونک میں کوئی خیر اور شر ھوتی ھے،، اصل چیز جو خیر اور شر ھے وہ ان منصوبہ بندیوں اور سرگوشیوں کے مقصد میں ھے ،نبی کریم ﷺ بھی رات کی تاریکی میں ھی دارِ ارقم میں ساتھیوں کے ساتھ ملا کرتے تھے،، یہ خیر کی سرگوشیاں اور خیر کا اجتماع ھوتا تھا،،اسی طرح حسد کرنے والے کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے جب وہ حسد میٹیریلائز کرے حسد کو عمل میں لا کر کوئی وار کرے،،اس وار سے پناہ مانگی گئی ھے،،صرف حسد دل میں رکھنا کسی دوسرے کے لئے نقصان دہ نہیں بلکہ خود صاحبِ حسد کے لئے نقصان دہ ھے، ذرا " اذا حسد " کی اصطلاح کو غور سے پڑھیں،کیونکہ بنو امیہ میں ابوجہل اور ولید ابن مغیرہ مکمل طور پر حسد کی وجہ حضورﷺ کی رسالت کو نہیں مان رھے تھے کہ اس طرح بنو ھاشم کی اجارہ داری قائم ھو جائے گی یہانتک کہ آخر کار نبی پاکﷺ کو شہید کرنے پر آمادہ ھو گئے ،،آگے چل کے یہود مدینہ اسی بیماری کا شکار ھوئے کہ نبی کو اولاد کی طرح پہچانتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول ھیں،مگر اس حسد میں مبتلا ھوگئے کہ بنو اسماعیل کی اجارہ داری قائم ھو جائے گی اور نبی ﷺ کو شہید کرنے پر آمادہ ھو گئے مگر دونوں گروہ اللہ کے وعدے کے مطابق آپ کے بارے میں اپنے مذموم ارادوں میں ناکام ھو گئے پھر لبیداعصم کیسے کامیاب ھو گیا ؟ سورہ فلق میں تو عقد میں پھونکیں مارنی والیاں ذکر ھیں مگر لبید بن اعصم تو مرد تھا؟ کیا جادو صرف عورتوں سے ھی ھوتا ھے، یہ جادو ھے یا بچہ جو صرف دائیاں پیدا کرتی ھیں ؟ عربوں کی اصطلاحات کو قرآن حکیم نے استعمال فرمایا ھے ،مثلاً حمالۃ الحطب،، لکڑیاں اٹھائے پھرنے والی، یہ ابولہب کی بیوی کی ھجو ھے،کیونکہ یہ اصطلاح چغل خور کے لئے استعمال ھوتی تھی کہ اس کو آگ لگانے کے لئے کسی سے لکڑی مانگنے کی ضرورت نہیں ھوتی، اپنی لکڑیاں خود ساتھ اٹھائے پھرتا ھے،جہاں چاھتا ھے جب چاھتا ھے آگ لگا دیتا ھے،، تو اس کو لکڑیاں اٹھانے والی کہا گیا یعنی چغل خور، اسی طرح عقدہ میں گرہ لگانے کی اصطلاح بھی استعمال ھوتی تھی جیسے ھمارے یہاں مکار عورت کے لئے آسمان ٹاکی لگانے کی اصطلاح استعمال ھوتی ھے، گرہ یا عقدہ اورعقیدہ تو وہ ھوتا ھے کہ جو غیر متحرک ھوتا ھے،ادھر ادھر نہیں ھوتا،جس گرہ کو ڈھیلا رکھنا مقصود ھوتا تھا،عرب اس میں کوئی چیز پھنسا دیتے تھے،مثلاً کوئی چھوٹا سا ڈنڈہ ٹائپ چیز،، ان جماعتوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ڈنڈے کی جگہ اپنی پھونکیں یعنی اپنے وسوسے استعمال کرتی ھیں عقائد کو ادھر اُدھر کرنے کے لئے،اور یہ بات ھر وہ شخص جانتا ھے جس نے اسلام کے ابتدائی دور میں نبیﷺ کا عکاظ کے میلے میں جانا اور ابولہب کا حضورق کے پیچھے پیچھے رھنا جہاں آپ بات شروع کرتے ابو لہب کہتا کہ میں اس کا تایا ھوں، اس کا دماغ خراب ھو گیا ھے، اس کی بات کا برا نہ منانا اور ساتھ ھی کنکریوں کی مٹھی بھر کر اپ پر پھینکتا کہ محمد گھر چلو،اس پر نئے لوگ ٹھٹھک جاتے، تائے کا معزز حلیہ اور آپ ﷺکا خاموش ھو جانا، دیکھ کر وہ آگے چل دیتے،، اسکی پلاننگ رات کو حرم میں ھی کی جاتی تھی کہ کل میلہ ھے اور کس نے کیا کردار کیسے ادا کرنا ھے،، ابولہب کی تصدیق کے لئے کچھ لوگ بھی ساتھ ساتھ چلتے رھتے تھے
 

x boy

محفلین
قاری حنیف ڈار کو چھوڑ کر اور لوگوں کی باتیں سمجھتے ہیں
اس لکھاری کی باتیں پڑھیں،،
http://www.patheos.com/Library/Sufism/Origins/Beginnings.html

اب فیصلہ کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے والی بات،، کہ آج کے دن اسلام مکمل ہوگیا،، اگر نہیں مانتے اس بات کو تو ہر بات کو مانتے چلے جاؤگے،،
الحمدللہ ،، دین اسلام میں کسی قسم کی نئی باتوں کی گنجائش نہیں ،، اگر کوئی ایسی حرکت کرتا ہےتو وہ چیز تو جہنم میں جائیگی،
اس کے ساتھ اس کا کیا بنے گا، ۔
 

x boy

محفلین
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات !

خدا را زندہ ولی اللہ متعارف کرائیں تا کہ لوگ مردہ پرستی سے نجات پائیں !!

المورد کے اصحابِ حل و عقد کی خدمت میں !

کوئی چیز جب وقت پر نہ ملے تو پھر اس کا ملنا ایک اذیت ھی بن کر رہ جاتا ھے ! اس جملے کو آپ زندگی کے ھر شعبے پر چسپاں کر سکتے ھیں !

مجھے ھمیشہ یہ گلہ رھا ھے کہ جن لوگوں کے بارے میں ھمیں ان کی زندگی میں معلوم ھونا چاھئے ،، ھمیشہ مرنے کے بعد پتہ چلتا ھے،، وہ بھی اس وقت جب وہ یادِ رفتگان کے کسی مضمون کا عنوان بن چکے ھوتے ھیں ! اب یا تو ھم جا کر ان کی قبر سے ٹکریں ماریں ،، یا انہیں دیوتا بنا لیں ! آخر اس انسان کی زندگی میں اس کی صلاحیتوں اور کاوشوں کے بارے میں کوئی مضمون لکھ دینے میں کیا حرج ھے ؟ کیا اس بات کا ڈر ھے کہ وہ عجب میں مبتلا ھو جائیں گے ؟ یا کیا یہ غیر شرعی ھے ؟ کیا اللہ نے صحابہؓ کے جیتے جی ان کی تعریف نہیں کی ھے ؟ کیا نبی کریمﷺ نے عشرہ مبشرہ کی زندگی میں ان کی جنت کی بشارت نہیں سنائی ھے ؟ کیا اللہ نے اھل بدر پہ جھانک کر یہ نہیں کہا کہ اھل بدر تمہاری جنت کو کوئی خطرہ نہیں ؟

اھل نقل علماء کی کرامتوں کو ان کے ھزاروں شاگرد سینہ بسینہ بیان کر کے ان کی زندگی میں ھی دیوتا بنا دیتے ھیں اور ان کی سوانح عمریاں الف لیلہ کی داستانیں سناتی ھیں ، مگر اصحابِ تحقیق کہ جو اس امت کے تر و تازہ چشموں کی حیثیت رکھتے ھیں ،،جو اندھیرے کمروں میں شمع کی مانند جل کر نئ نئ ادبیات تخلیق کرتے اور علم کی نئ نئ جہتیں متعارف کرواتے ھیں ،، ان کے بارے میں ھمیشہ ان کی رحلت کے بعد ھی کچھ پتہ چلتا ھے !

کیا اس کے پیچھے یہ خوف لاحق ھے کہ تحقیقی علم کے دشمن ان کی جان لے لیں گے ؟ بات کچھ بھی ھو مگر یہ اس امت کے ساتھ طلم نہ سہی زیادتی ضرور ھے کہ ایسے روشن ستاروں سے ھاتھ ملانے اور ان سے جلا پانے کی سعادت سے بہت سارے لوگوں کو محروم رکھا جائے !

جون 2014 کے شمارے میں مرحوم عبدالستار غوری صاحب کے بارے میں پڑھ کر جہاں ان کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعائے مغفرت نکلی ھے وھیں المورد کے اصحابِ حل و عقد سے یہ مطالبہ بھی وجود پذیر ھوا ھے کہ آپ ھمیں جناب ساجد حمید ، جناب شہزاد سلیم ، اور دیگر اھل علم کے مناقب کے بارے میں ابھی سے بتا دیں کہ ھم انہیں ان کی زندگی میں خراج تحسین پیش کر سکیں اور ان کے علم کے مطابق ان سے استفادہ کر سکیں !

کیا زندوں پر یہی فرض ھے کہ وہ ایک دوسرے کے کپڑے ھی اتارتے رھیں ؟
 

x boy

محفلین
گاما جرنل نالج اور ھمارا کردار !

ھم اپنے اندر ،ھماری طرح کا لباس پہننے والے، ھماری طرح کی مادری زبان بولنے والے، ھمارے محلے میں پیدا ھونے والے،ھمارے ساتھ کھیل کر جوان ھونے والے عیسائی کو تو مسلمان کر نہیں سکتے یا کرنا نہیں چاھتے اور اتنے پیسے خرچ کر کے ساری دنیا کا چکر لگاتے پھرتے ھیں آخر کیوں؟ کیا اس میں کمپنی کی مشہوری زیادہ ھے ؟ یا وھاں کے لوگ ھمارے سماجی معاملات سے واقف نہیں اس لئے ان کو دعوت دینا آسان ھے ؟ وجہ جو بھی ھے مگر حقیقت یہ ھے کہ جو مسلمان ھونے پر تلے بیٹھے ھیں،انہیں ھم مسلمان کر کے برابری کے حقوق دینے پر تیار نہیں ھیں،، جتنا عرصہ ھم نے ھندوستان پر حکومت کی ھے اور اسے لونڈی سمجھ کر روندا ھے، اس عرصے میں اگر ھم نے دعوت کی طرف توجہ فرمائی ھوتی اور اپنا کردار درست رکھا ھوتا تو ھندوستان میں آنکھ میں ڈالنے کو کوئی ھندو نہ ملتا ،،مگر ھم نے پلٹ پلٹ کر حملے کرنے میں ھی اسلام کی فتح و نصرت دیکھی ،، ھم نے ایک ھاتھ میں قرآن اور دوسرے ھاتھ میں اپنا کردار لے کر دنیا فتح کرنے کی بجائے ایک ھاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار لے کر دنیا فتح کرنے کی ٹھانی،، جواباً دوسرے ایک ھاتھ میں بائیبل اور دوسرے میں ڈیزی کٹر اور ٹوم ھاک میزائل لے کر نکل پڑے ،،، اگر ڈیزی کٹر اور ٹوما ھاک سے دنیا فتح نہیں ھو سکتی تو پھر تلوار سے بھی نہیں ھو سکتی،، اب دنیا کردار سے فتح ھوتی ھے،، آپ اسلام کو دنیا کے لئے نفع رساں ثابت کر دیجئے، یقین جانیں دنیا میں گھر گھر سے یوں ھی اسلام نکلے گا ، جس طرح آپ کے گھر کی ھر الماری اور ٹیبل کی دراز ، اور تکیئے کے نیچے سے پیناڈول نکلتی ھے، اپ کو نہیں جانا پڑے گا،، لوگ خود آ آ کر پیسے لگا کر لے جائیں گے جس طرح آپ فیلپس ٹیوب لائٹس اور سوزوکی اور ٹیوٹا کاریں لے کر آتے ھیں،، مگر اسلام کو دنیا کے لئے نفع رساں ثابت کرنے کے لئے پہلے اپنا کردار اور سماج بدلنا پڑتا ھے،محنت اپنے وجود ،گھر اور سماج پر کرنی پڑتی ھے جو ھم کرنا نہیں چاھتے یا کر نہیں پاتے ،، یاد رکھئے پہلی فلپس ٹیوب لائٹ نیدرلینڈ میں جلی تھی پھر دنیا اسے جلتے ھوئے اپنے گھر کے لئے لے کر آئی ھے،اب بھی راڈ لو تو دکاندار سے جلوا کر چیک کر کے لاتے ھیں،، فیوز لائٹ بھی کوئی نہیں لیتا تو فیوز اسلام کوئی کیوں لے گا ؟ روشنی کا دعوی کرنے والوں کے اپنے گھروں محلوں اور سماج میں گھٹاٹوپ اندھیرا ھے ،وہ لوگوں کو روشنی کی نوید سنا رھے ھیں،،مگر جہاں 99٪ مسلمان ھیں وھاں تو اسلام وہ بہار دکھانے میں ناکام رھا،، آخر اسلام کا وہ کونسا ورژن ھو گا جو وھاں روشنی کرے گا جہاں 2٪ مسلمان پائے جاتے ھیں ! مولانا محمد علی جوھر کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ جن دنوں تحریکِ خلافت چل رھی تھی، وہ ناشتہ کرنے لگے تو گھر کی صفائی کے لئے مہتر داخل ھوا،، مولانا نے سوچا کہ اس کو دعوت نہ دینا بد اخلاقی ھو گی،، انہوں نے کہا کہ مہتر جی آؤ پہلے ناشتہ کر لو ،، مہتر چونک گیا اور معذرت کر کے کہنے لگا کہ جی میرے ھاتھ گندے ھیں ، آپ کی مہربانی، شکریہ بس آپ ناشتہ کیجئے میں اپنا کام ختم کر لوں،، محمد علی جوھر اٹھے اور فرمایا کہ مہتر جی تھوڑی دیر پہلے ھاتھ میرے بھی گندے تھے، یہ اللہ کا پانی ھے یہ سب کے ھاتھ صاف کر دیتا ھے، جسے آپ ٹوکرے میں اٹھاتے ھو،اسے ھم پیٹ میں اٹھائے ھوتے ھیں اور جسے تم بیلچے سے اٹھاتے ھو ، اسے ھم ھاتھ سے دھوتے ھیں،، آپ نے لوٹا اٹھایا اور خود اس کے ھاتھ دھلائے، اور اسے ناشتے کے لئے برآمدے میں لے آئے،، مہتر کرسی پر بیٹھنے سے ہچکچا رھا تھا، اسے کرسی پر بٹھایا تو اس نے ھاتھ آگے کر دیا کہ " جناب میرے ھاتھ پر تھوڑا رکھ دیں میں کھا لوں گا،میری ھمت نہیں پڑتی کہ میں آپکی پلیٹ میں سے کھاؤں ،، مولانا نے اس کا ھاتھ پکڑ کر اپنی پلیٹ میں ڈبو دیا اور کہا کہ مہتر جی آپ بھی اسی آدم کے بیٹے ھو جس کا میں بیٹا ھوں،،، ھم دونوں ایک ھی پلیٹ میں کھائیں گے،، ناشتے کے دوران مہتر کے آنسو مسلسل بہتے رھے،ناشتے کے بعد اس نے کہا کہ مولانا آپ کسی کو مسلمان کیسے کرتے ھیں،، آپ نے فرمایا بس یہ کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ھے اور محمدﷺ اللہ کے رسول ھیں اور عیسی بھی اللہ کے رسول ھیں خدا نہیں ھیں،، مہتر نے اقرار کر لیا اور مولانا نے اسے سینے سے لگا کر مبارکباد دی،، مگر ھم یہ نہیں کر سکتے،، ھم میں سے کچھ لوگ گرمی کے روزے رکھ کر اسلام ثابت کرنے کی بجائے، عید والے دن سویاں کھا کھا کر اپنی مسلمانی اور دین سے ثابت کرتے ھیں،، تو کچھ مسجدوں کو آباد کر کے دین کی محبت ثابت کرنے کی بجائے ،گرجے جلا کر اور عیسائی بستیاں لوٹ کر مسلمانی اور اسلام سے محبت ثابت کرتے ھیں،، ھم محمد علی جوھر والے مسلمان بننے کی بجائے "گاما جرنل نالج "تائپ کے مسلمان ھیں!
گامے کا اصل نام تو غلام سرور تھا مگر وہ اپنی دینی معلومات یعنی اسلامک جنرل نالج کی وجہ سے لوگوں میں گاما جرنل نالج کے نام سے مشہور تھا،، مسجد میں تو کسی نے اسے نہیں دیکھا تھا، مگر اسلام کے بارے میں اس کی معلومات اور دلی درد سے سب واقف تھے،،جہاں کہیں دین پر کوئی بات ھو رھی ھوتی تو گامے کے کان کھڑے ھو جاتے ،وہ چلتے چلتے رکتا اور مجمعے کے پاس چلا جاتا،، جیب کے اندر سے تہہ کردہ ٹوپی نکالتا اس کا ایک ایک بند یوں ادب سے کھولتا جیسے وہ بغدادی قاعدہ ھو ، اسے بڑے اسٹائل کے ساتھ سر پر رکھتا اور پھر کہتا کہ جی اب بات کرو کیا بات چل رھی تھی،، ٹوپی رکھے بغیر دین پر بات کرنا گامے کے نزدیک بغیر ھیلمٹ گارڈ کے فاسٹ بالر کو کھیلنے والی بات تھی،وہ اسے بے ادبی سمجھتا تھا،، بات شروع ھوتی تو گاما اپنے جنرل نالج سے مجمع الٹ دیتا،، ایک دفعہ ایک ھندو بنیا مسلمانوں پر اعتراض کر رھا تھا کہ یہ کیسا دین ھے جو ھفتے میں صرف ایک دن نہانے کو کہتا ھے،جبکہ ھمارا دین تو ھم کو روزانہ نہانے کو کہتا ھے، اشنان کے بغیر تو ھماری عبادت ھی نہیں ھوتی ! گامے جرنل نالج نے اس ھندو بنیئے سے کہا کہ اس کا جواب صبح آپ کو تالاب پر ملے گا،، صبح صبح جب ھندو بنیا تالاب پر پہنچا تو گاما اس کا انتظار کر رھا تھا،، گامے نے ٹوپی سر سے اتاری اسے تہہ کیا جیب میں رکھا اور کپڑے اتار کر ،، نعرہ تکبیر مار کر تالاب میں چھلانگ لگا دی ،، اور نیچے جا کر ایک پتھر پکڑ کر بیٹھ گیا،، سردی کا موسم تھا ،جب کافی دیر تک گاما باھر نہ نکلا تو ھندو بنیئے کے دانت کچھ سردی اور کچھ خوف سے بجنے لگے کہ یہ مُسلا تو میرے متھے لگ جائے گا،، وہ دھوتی سمیٹے بھاگنے کے چکر میں تھے کہ چھپاک سے گاما پانی سے باھر نکلا اور بولا کہ منیم جی،، ابھی میرا غسل آدھا ھی ھوا ھے میں صرف آپ کے بھاگنے کے خدشے سے جلدی نکل آیا ھوں،، دیکھو ،اس کا نام غسل ھے،اور اللہ نے کہا ھے کہ ایسا غسل مومنوں کے لئے ھفتے میں ایک ھی کافی ھے،، یہ جو آپ چار لوٹیاں سر پر ڈال کر سمجھتے ھو ناں کہ ھم نے غسل کر لیا ھے،تو تم لوگ غسل کی توھین کرتے ھو،ایسا مریل اشنان تو روز چار بار ھونا چاھئے،،یہ اشنان نہیں بلکہ تم کو بھگوان نے سزا دی ھوئی ھے !
مگر گاما بھی ایک دن اونٹ کی طرح پہاڑ کے نیچے آ گیا، ھوا یوں کہ وہ شہر میں مہمان گیا ھوا تھا،، وھاں اسے میزبان کے ساتھ مسجد بھی جانا پڑا،، مسجد میں مولوی صاحب سے جو چند سوال جواب ھوئے تو نمازیوں کے ساتھ ساتھ امام صاحب بھی اس کے علم سے بہت متأثر ھوئے، اور اس کی خوب واہ واہ ھوئی،،گامے کو دیہاتی مسلمانوں اور شہری مسلمانوں میں فرق صاف نظر آنے لگا،، وہ صبح کی نماز بھی میزبان کے ساتھ پڑھنے چلے گئے اور اتفاق سے مولوی صاحب سوتے رہ گئے ! نمازیوں نے گامے کے نہ چاھنے اور جان چھڑانے کے باوجود اسے دھکیل کر آگے کر دیا کہ آپ کی موجودگی میں کوئی اور نماز پڑھانے کی جرات کیسے کر سکتا ھے ! یہ زندگی میں پہلا موقع تھا کہ گامے کے اندر سے دعا نکلی کہ مولا عزت رکھنا،، نماز میں تو جو گامے نے پڑھا وہ خود اس کی سمجھ میں نہیں آیا تو مقتدیوں کی سمجھ میں کیا آیا ھو گا،،مگر اس نے کافی کوشش کے ساتھ ھر حرف کو خوب گلے سے نکالنے کی کوشش کی،جس کی وجہ سے کئ دفعہ زبان دانتوں تلے آئی تو کئی دفعہ عین گلے میں پھنسی،، خدا خدا کر کے التحیات کا پرسکون سیگمنٹ شروع ھوا،، یہی وھی کیفیت تھی جو حاجی پر مکے سے مدینے آنے پر طاری ھوتی ھے،جب وہ بےساختہ کہتا ھے،یا رسول اللہﷺ آپ کا مدینہ کتنا خوبصوت اور پرسکون ھے،ادھر صفا مروہ بھی نہیں ھے اور دَم بھی نہیں ھے،، التحیات آخری مراحل میں تھی کہ گاما مشکل میں پھنس گیا اسے چھینک آنا شروع ھو گئ تھی، ادھر التحیات کافی لمبی ھو گئ تھی کیونکہ گامے نے اسے تین بار پڑھا تھا،، وہ درمیان میں بھول جاتا تھا اور پھر نئے سرے سے شروع کرتا تھا،،،، نمازی سیفٹی کیچ ھٹا کر تیار بیٹھے تھے کہ گامے کی گردن کو حرکت ھوئی،، نمازی جن کو امام کے ساتھ سلام پھیرنے کی عادت ھوتی ھے،وہ اس کی گردن کو کن اکھیوں سے یونہی دیکھ رھے تھے جیسے رن آؤٹ کو ری پلے کر کے تھرڈ ایمپائیر دیکھ رھا ھوتا ھے، گردن کا ھلنا تھا کہ نمازیوں نے سلام سمجھ کر السلام علیکم کہہ کر گردن پھیر لی،مگر ان کی گردن ابھی رستے میں تھی کہ گامے کی چھینک نے ان کا تراہ نکال دیا،، اب ان کی سمجھ میں نہیں آرھا تھا کہ وہ گردن واپس لے جائیں یا رھتی کسر بھی نکال لیں،، ادھر نمازیوں کے سلام کو دیکھ کر گامے نے بھی بوکھلا کر ایک طرف چھینک پھیری اور دوسری طرف منہ پھیر کر و علیکم السلام و رحمۃ اللہ کہہ دیا ! اب نمازی گامےکا منہ دیکھ رھے ھیں اور گاما نمازیوں کا منہ دیکھ رھا ھے کہ آج تو نماز کے ساتھ وہ واردات ھو گئ ھے جو عید والے دنوں میں موسمی کسائی بکرے اور اس کی کھال کے ساتھ کرتے ھیں !
 
آخری تدوین:

bilal260

محفلین
کیا مضمون ہے۔
قاری صاحب کا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری کرنا نہیں

بلکہ خاص فرقہ واریت کو ہوادینا مقصود ہے۔
جلتی پر تیل ڈالنا ،
زخم پر نمک ڈالنا،
دوسروں کو غلط بتا کر اپنے عقائد درست بتانا۔
کیا اس لڑی کو جس میں تمام مسلمانوں کی دل آزاری کی جارہی ہے۔اسی جاری رکھنے دیا جائے گا۔
کیا امن ،اتفاق اور پیار ومحبت کی بات نہیں کی جا سکتی؟؟؟
 

x boy

محفلین
کیا مضمون ہے۔
قاری صاحب کا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری کرنا نہیں

بلکہ خاص فرقہ واریت کو ہوادینا مقصود ہے۔
جلتی پر تیل ڈالنا ،
زخم پر نمک ڈالنا،
دوسروں کو غلط بتا کر اپنے عقائد درست بتانا۔
کیا اس لڑی کو جس میں تمام مسلمانوں کی دل آزاری کی جارہی ہے۔اسی جاری رکھنے دیا جائے گا۔
کیا امن ،اتفاق اور پیار ومحبت کی بات نہیں کی جا سکتی؟؟؟
شروع سے آخر تک پڑھا ہے یا نہین
 

bilal260

محفلین
ھم تو بڑے بامروت واقع ھوئے ھیں ! کوئی صحبت کر کے تو دیکھے !

بخدا مسجد کے مین گیٹ پہ کھڑے ھو کر ایک کرم فرما کو اپنا نیا جوتا پہن کر جاتے دیکھا ، ان کی شکل کی طرف دیکھا ، سنت رسول ﷺ کے ادب نے زباں نہیں کھولنے دی کہ پبلک بہت تھی تماشہ لگ جائے گا ! ایک مسلمان کو اگرچہ وہ گنہگار ھو چند ٹکوں کی خاطر رسوا کرنا ھمیں اچھا نہیں لگا !

حج پہ ھمارا نیا خریدا ھوا " سرخ پرنا " یا غترہ ھمارے قافلے کے ھی ایک ساتھی نے اٹھا لیا ! اور مزے سے سارا رستہ اسے استعمال کرتے دیکھتے رھے مگر زباں نہ کھولی کہ مسلمان چند درھم کے عوض بے آبرو نہ ھو جائے !

مجھے معلوم ھے میری تحریروں سے جتنی تکلیف ، بے چینی ، اور افراتفری جناب محترم مفتی محمد الکوھستانی صاحب کو ھو رھی ھے ،، اتنی ھی میرے محترم کرم فرما جناب فقیر اعجاز القادری صاحب کو بھی ھو رھی ھے ! یہ دونوں الگ الگ مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود تصوف کا " مشترکہ درد " رکھتے ھیں !

میں دونوں کو یہ یقین دلانا چاھتا ھوں کہ مجھے ایسی تحریروں کبھی بھی کسی کی دل آزاری مقصود نہیں رھی اور نہ ھی میں یہ تفننِ طبع کے طور پر لکھتا ھوں یا اس سے حظ لیتا ھوں ! مگر جب بات حق کو واضح کرنے کی ھو تو ایک ڈاکٹر کو بے رحم ھو کر آپریشن کرنا ھی پڑتا ھے !

نہ تو میں جدی پشتی دیوبندی ھوں ،جس کی رگ رگ میں بریلویت کئے خلاف زھر بھرا گیا ھو ! اوردیوبندیت کے تعصب میں اس زھر کو اگل رھا ھوں ! بلکہ میں نہ صرف جدی پشتی بریلوی ھوں بلکہ بریلویت کو اسی طرح انجوائے کیا ھے،، کہ سر سے پاؤں تک اس کے شِیرے میں لتھڑا رھا ھوں ، میرے تایا دیوبندی بنے تھے تو سوچا تھا کہ ان کا جنازہ نہیں پڑھوں گا اور ساری برادری ان کو بدمذھب سمجھتی تھی ،، میرے بلڈ گروپ کی خصوصیت ھے کہ یہ چیز کو چھکتا نہیں ھے بلکہ پیٹ بھر کر کھاتا ھے ،، پیر پرستی میں مجھ سے بڑھ کر کوئی نہ تھا ! چلہ کشی اور عرس پر ننگے پاؤں حاضری کا شرف بھی بچپن سے حاصل رھا ،، پھر چودہ پندرہ سال کی عمر میں عرب کی سرزمین آ پہنچے یوں قرآن کی زبان سمجھتے ھی ھدایت کے چراغ جل اٹھے ! توحید کی تلاش میں دیوبند کو گلے لگایا ،، اور علم کے سمندر میں چھلانگ لگا دی !

گویا " جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ھیں " والا معاملہ بن گیا ! علمائے دیوبند کی بڑی بڑی عظیم ھستیوں کی خدمت کا موقع ملا اور حسب توفیق ان سے استفادہ بھی کیا ! مگر مولانا سلیم اللہ خاں صاحب مدظلہ العالی ، مولنا خان محمد کندھیاں شریف والے اور شہید مولانا یوسف لدھیانوی ،، صاحبان سمیت سب کے ساتھ علمی بحث مباحثہ بھی ھوا ،، مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں ان میں سے کوئی بھی مجھے دو باتوں کے بارے میں مطمئن نہیں کر پایا !
اول غوثوں اور قطبوں کا شجرہ اختیارات ،،کہ وہ بستیوں کے ارزاق کا بندوبست کرتے ھیں اور ان کی بلائیں دور کرتے ھیں،،اگر کسی بستی میں کوئی مسلمان نہ ھوں تو انہی غیر مسلموں میں سے کوئی قطب ھوتا ھے ،، اس کی پہچان یہ ھے کہ اھل نظر کو جس کافر کا احترام کرتے پاؤ ،تم بھی اس کا احترام کرو ،،ان اختیارات کی کوئی دلیل کتاب و سنت میں موجود نہیں ھے ، البتہ ھندو دیو مالا میں موجود ھے !

دوسری بات صرف دو صحابہ سے تصوف کا سلسلہ نسب چلانا ! اور باقی سارے صحابہ بشمول عشرہ مبشرہ کو اس سے محروم رکھنا ،حالانکہ دیوبندی علماء کا دعوی ھے کہ تصوف دین کی روح ھے ،مگر یہ روح صرف دو صحابہ یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ میں تھی ،، باقی کو نبی ﷺ نے اس روح سے محروم رکھا تھا ! اسکی کوئی دلیل نہ پیش کی جا سکی ھے اور قیامت تک پیش کی جا سکے گی ،کیونکہ یہ شرک کے بعد کائنات کا سب سے بڑا مقدس جھوٹ ھے جو مقدسوں کے منہ سے نکلتا ھے !
ان دو باتوں کو الگ کر لیجئے تو تصوف یا یوگا کو فزیکل فِٹ نیس کے لئے اختیار کیا جا سکتا ھے !
قرآن و سنت کو چھوڑ کر جن مکاشفوں اور تجربات کی بنیاد پر تصوف کو ثابت کیا جاتا ھے ،،وہ ھم پر بھی گزرے ھیں،، جب میں سلسلہ چشتیہ میں سالک تھا تو خواجہ معین الدین چشتی ذکر کرایا کرتے تھے ،، جب میں نے اپنے مرشد کو ان صاحب کا حلیہ بتایا جو ذکر کراتے تھے تو انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ خواجہ معین الدین ھیں ،، اسی طرح جنت کی سیر بھی کرائی گئ ،، یہانتک کہ وھاں کے میوؤں سے بھی کچھ چکھایا گیا ،، مگر اللہ کا شکر ھے کہ ھوش آتے ھی قرآن وائرس کو الگ کر دیتا تھا اور انگلی رکھ کر بتاتا تھا کہ !

خواب ھے جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا !
کرامات سے بھی نوازا گیا مگر قران نے اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دیا ،، بچے کو اغوا کرنے کے لئے ھمیشہ کچھ نہ کچھ کھلایا جاتا ھے ،،بخدا آپ قرآن کا ھاتھ پکڑ لیں اسے امام بنا لیں اور اس کی مانیں تو آپ کبھی بھٹک نہیں سکتے !
یہ ایک وضاحت تھی ،،
ہاں سارا پڑھا ہے۔
 

x boy

محفلین
اس کا مطلب صرف پڑھا ہے لیکن سمجھا نہیں،،،
ان سب مراسلوں میں صرف اور صرف مسلمانوں میں آباد بدعت اور شرک کوسامنے لایا گیا،
اور اللہ کے کلام کے ساتھ سمجھا یا گیا ہے
اگر یہ دل کا مرض نہیں جاتا ہے تو انسان قاصر ہے کسی دوسرے کو اچھائی کی طرف کھینچ
کر لے جائے، اپنی بھلائی کی باتیں خود اخیتار کرے، اللہ کے احکامات کو نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم
کے طریق مانتے ہوئے 24 گھنٹے کو کارآمد بنائے۔۔۔ کامیابی اسی میں ہے ،،،
کافی دن ہوگئے ایک حدیث نظر سے گزری تھی جسکا مفہوم بتاتا چلوں
نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ بس گئے ایک دن ان کا گزر ایک جگہہ سے ہوا
وہاں صحابہ کرام کجھور کے درخت پر کام کررہے تھے پولینشن کے طریقے پر کام کررہے تھے
تو نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا کررہے تو صحابہ کرام نے یہ کام چھوڑ دیا
اس سال فصل کم ہوئی تو نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ نے ہمیں پوچھا تھا
یہ کیا کررہے ہو تو ہم نے پھر اس کو نہیں کیا اس کو ایسا نہ کرنے سے اس سال فصل کم ہوگئی
نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کہا کہ میں نے منع تو نہیں کیا تھا اس کام کو تم لوگ
زیادہ سمجھتے ہو، یہ دنیاوی امور ہے اور مجھے کیا پتا، پھر سے صحابہ اس کام کو کرنے لگ گئے
،، اس حدیث کا مقصد کہ دنیاوی کام کام میں ترقی کرنا منع نہیں ہے ،، جہاز بنائے ، گاڑی بنائے
بجلی پیدا کریں ہر آسائش اپنے لئے آسانیاں پیدا کریں ،،،صرف شریعت میں کھیلنے کی اجازت نہیں
کیونکہ نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو اپنی ذندگی میں ہی پورا فرمادیا۔ الحمدللہ
 
چور: اسکا مطلب ہے کچھ خاص لوگ بھی ہوتے ہیں۔۔۔لیکن خاص لوگوں کی تو عزت کرنی چاہئیے آپ انہیں عزت دینے کی بجائے بڑی حقارت سے پیش آتے ہیں اور بے ادبی کرتے ہیں۔
قاری صاحب: اب تم سے کیا چھپانا، بات یہ ہے کہ اگر ہم ا خاص بندوں کی عزت کرنا شروع کردیں تو ہوسکتا ہے کئی لوگ ہمیں بھی عام بندہ سمجھنا شروع کردیں۔۔۔ پھر ہماری تو کوئی عزت نہ ہوئی ناں۔۔۔سمجھا کرو(بائیں آنکھ دباتے ہوئے)
ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قاری صاحب "بائیں آنکھ دباتے ہوئے""" ہاہاہاہاہاہہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار یقین کرو، مجھ نیند آ رہی تھی، یہ تحریر ہاتھ لگی، پڑھ کر ہنس ہنس کر ساری نیند غیب ہو گئی ہے۔ جیتے رہو محمود احمد غزنوی بھائی۔ کیا تیسری قسط پیش کی ہے۔ چوتھی کب آ رہی ہے۔
 
تلخ باتیں ....... !

اس کتاب رخی دنیا میں متعدد نمونے سامنے آتے رہتے ہیں جن کی پیروی ان سے بڑے نمونے اندھی آنکھوں گونگی زبانوں اور بھرے کانوں کے ساتھ کرتے رہتے ہیں ایسے ہی ایک کتاب رخی نابغے کا نام ہے قاری حنیف ڈار قاری صاحب اکثر اور انکے پیروکار جو انکی تقلید کرتے ہیں یہ گلا کرتے نظر آتے ہیں کہ لوگوں نے قاری صاحب کے مقام عالی کو پہچانا نہیں کوئی انہیں سمجھائے کہ عقل کے اندھوں اور گانٹھ کے پوروں سمجھا ہی تو رہے ہیں کہ ایمان بچاؤ مگر کوئی سمجھے تو .......

گزشتہ دنوں قاری صاحب نے رمضان کے مقدس مہینے میں تزکیہ و احسان کے باب پر ہاتھ ڈالا صوفیاء کی اپنے تئیں دھجیاں بکھیر دیں اور جب لوگوں نے ان سے گلہ کیا تو وہ اور ان کے پیرو کار ناراض ہونے لگے کم علمی اور کم فہمی کے الزامات لگنے لگے اکابر پرستی کے طعن ہونے لگے ....

قاری صاحب کی خاص نظر کرم اکثر امام بخاری رح پر ہوا کرتی ہے اور وہ امام بخاری کو جھوٹا اور دروغ گو ثابت کرنے کیلئے انتہائی درجے کے دجل و تلبیس سے بھی پرہیز نہیں کرتے اور جب انھیں متوجہ کیا جاوے تو کہتے ہیں میں ایسا کب کہا الفاظ دکھلاو

لیجیے ملاحظہ کیجئے

(بخاری شریف پر ایک نظر، قاری حنیف ڈار)

جناب معزز قارئین !
بخاری اور زہری کے استعاروں اور کنایوں میں تبرّا کو دیکھتے جا ئیے اور بتائیے کہ قرآن نے جن ازواج رسول صلے اﷲ علیہ و سلم کو امت کی مائیں قرار دیا ہے کیا ان کا یہ مرتبہ و مقام ہے جس کے خلاف یہ امامی گروہ رسول صلے اﷲ علیہ و سلم کی زبان سے جھوٹی حدیثوں کے نام پر امہات المومنین کے قرآنی مرتبہ کو کم کرنے کے لئے گندے جملے ان سے منسوب کررہے ہیں اور یہ گندگی انہوں نے کئی حدیثوں میں بھری ہوئی ہے

لیجے امام الحدیث بخاری اور امام زہری جھوٹے امہات المومنین کے گستاخ اور روافض کے امام قرار پاتے ہیں آگے ہم قاری صاحب کے دجل و تلبیس کی وضاحت بھی ضرور کرینگے ایک لطف کی بات اور بتلا دیں اکثر شیعہ پیجز قاری صاحب کی باتوں کو انتہائی وثوق سے نقل فرماتے ہیں جیسے وہ انکے اپنے ہی آدمی ہوں ........

(https://www.facebook.com/DefendingShiaism/posts/696246427089631)

جب قاری صاحب نے امام بخاری اور بخاری شریف پر ایسے ہی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا تو ہمارے محترم دوست اور رد الحاد کے ساتھی اے آر سالم فریادی صاحب نے قاری صاحب کی علمی گرفت فرمائی .....

ملاحظہ کیجئے یہ آرٹیکل

(http://www.scribd.com/…/%D9%82%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AD%D9%…)

ایسے ہی قاری صاحب موصوف نے مولانا اشرف علی تھانوی رح پر تصوف کے حوالے سے گمراہ کن الزامات لگانے کا سلسلہ شروع تو ہمارے محترم محمد فیصل شہزاد صاحب نے حقیقت انتہائی علمی انداز میں کھول کر سامنے رکھ دی .......

قاری صاحب کی تو عادت ہے کہ سیاق و سباق سے کا ٹ کر جملے اٹھاتے ہیں اور ان پر اسلاف پر طعن و تشنیع کا بازار گرم کیے رکھتے ہیں ...اس کو نہایت مہذب زبان میں بھی علمی خیانت کہتے ہیں!
صرف ایک مثال ان کی تصوف پر پیش کی گئی حالیہ پوسٹس سے دے رہا ہوں ... جس سے ثابت ہو جائے گا کہ انہوں نے کس طرح غلط بیانی سے کام لیا ہے!
دیکھیے چار دن پہلے انہوں نے دین میں تزکیہ نفس کو جھٹلاتی دو "معرکۃ الآرا" پوسٹس کی تھیں جن میں بزعم خود یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ تصوف کا سارا سلسلہ دراصل ہندومذہب اور بھگتی تحریک سے لیا گیا ہے... ان پوسٹس میں سارے بارہ مصالحے تھے ...جیسا کہ ابدال اور قطب وغیرہ ہندوؤں کے اوتار کا اسلامی ورژن ہے وغیرہ وغیرہ!
لیکن خاص طور پر ایک چیز پڑھ کر میں حیران ہی رہ گیا ... ان دونوں پوسٹس میں قاری صاحب نے ایک کتاب "شریعت اور طریقت" کا حوالہ دے کر ایک ( مشہور تفسیر قرآن لکھنے والے) عالم دین کا حوالہ دے کر ایک بات لکھی جس کا مفہوم ہے کہ:
( ہر بستی میں ایک قطب ضرور ہوتا ہے ... حتیٰ کہ اگر کفار کی بستی ہو تو کسی کافر کو ہی قطب کا عہدہ بخش دیا گیا... اور اس کو پہچاننے کی نشانی ایک بڑے مشہور مفسر قرآن عالم نے یہ لکھی کہ دیکھا جائے کہ وقت کے بزرگ اس کا ادب کرتے ہیں۔۔۔۔ (طریقت و شریعت) پھر مضحکہ ا ڑانے والے انداز میں کہا:
کتنا بے بس ہے صوفیاء کا خدا جو اپنے کام چلانے کے لیے ہندوؤں کا محتاج ہے!)
میں اس کتاب کے نام اور تفسیر قرآن کے حوالے سے سمجھ گیا کہ بات حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی ہو رہی ہے ...جستجو ہوئی کہ ایسی متوحش بات حضرت کیسے لکھ سکتے ہیں؟... آخر اس بات کا سیاق و سباق کیا ہے؟ بس کتاب کی تلاش شروع کی... جو الحمدللہ مل گئی... وہ مقام بھی مل گیا جہاں یہ بات کی گئی ہے... مگر یہ کیا؟

حضرت نے وہ بات ہرگز نہیں لکھی تھی... جو ڈار صاحب نے منسوب کی اور مزے لیے!
حضرت تھانوی نے تو لکھا ہے:
"ایک وقت میں قطب متعدد بھی ہو سکتے ہیں... شیخ ابن عربی رحمہ اللہ نے تو یہاں تک لکھا ہےکہ ہر بستی میں خواہ وہ کفار ہی کی ہو، قطب ہوتا ہے...ا س کلام کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ، ایک تو یہ کہ وہ وہاں ہی کےباشندوں میں ہو اور باطن میں مسلمان ہو مگر کسی خاص حالت کی وجہ سے اخفا کرے اور یہ بعید ہے۔
دوسرا یہ کہ وہ اس جگہ مقیم نہ ہو لیکن وہ بستی اس کے تصرف میں ہو، جیسا تھانیدار کہ اس کا تعلق دیہات سے بھی ہوتا ہے (اگرچہ وہ خود شہر میں ہو، مگر اس کی حدود تھانیداری میں کئی دیہات آ جاتے ہیں)۔
(اس بعید والے قول کی کہ اگر اسی بستی میں رہنے والاہی بظاہر کافر ہوتو ) کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ اس زمانہ کے اہل باطن کا اس کے ساتھ معاملہ دیکھا جائے... اگر وہ اس کا ادب کرتے ہیں تو ادب کرے اور اس کے بارے میں کف لسان کرے... ورنہ ہر کافرکا معتقد نہ بنے، کیوں کہ اس طرح تو جہاد وغیرہ سب بند ہو جائے گا!"
(اس صفحے کی اسکین فوٹوسب سے پہلے کمنٹ میں لگادی ہے، دیکھ لیجیے)

مکمل مضمون لنک میں ملاحظہ کیجئے

(https://www.facebook.com/faisal.shahzad.1253236/posts/1084177301611412)

قاری صاحب کو آئمہ سے بھی انتہائی محبت ہے خاص کر امام ابو حنیفہ پر انکی خاص نظر ہے ملاحظہ
کیجئے

ہمارے دوست محترم نوفل ربانی صاحب نے کچھ اس طرح حقیقت کو واضح کیا ہے

کل سارا دن قاری حنیف ڈار نے کتاب چہرے پہ حق نمک حلالی کرتے ھوئے فقھاء خاص کر امام اعظم کے خلاف وحدت امت وحدت عبادات پہ گاؤں کی پھپھےکٹنی مائیوں کیطرح کڑمس مچایا ھوا تھا اور اصطلاحات امت فرض واجب سنت صحیح ضعیف حسن وغیرہ کو یوں کوس رھے تھے جیسے ماسی پھاگاں پڑوسی کے بچے کو اسکے 10 روپے گم کرنے پر گھسنے مارتی ھے کہ اسکی دنیا ھی لٹا دی اسی آپا دھاپی میں موصوف نے جو روایت بطور ناقابل تردید دلیل ذکر کی اسکو ملاحظہ فرمائیں اور سر دھنیے(یہ کمنٹ حضور والا نے ایک سائل کے کمنٹ پر جوابی کمنٹ میں ذکر کی )
- زکریا ابن یحیی الساجی کہتے ھیں کہ ،،،،،،،،، سمعت علی بن عاصم یقول ،، میں نے ابوحنفیہ سے کہا کہ عن ابراھیم بن علقمہ عن عبداللہ ان النبی ﷺ صلی بھم خمساً ثمہ سجد سجدتین بعد السلام ،، فقال ابوحنیفہ " ان لم یکن جلس فی الرابعہ فما تسویَ ھذہ الصلاۃُ ھذہ" و اشار الی شئٍ من الارض فأخذہ و رمی بہ !
امام ابوحنیفہ کے سامنے حدیث بیان کی گئ کہ ابراھیم نے علقمہ سے روایت کیا ھے کہ عبداللہ فرماتے ھیں کہ ھمیں نبئ کریم نے بھول کر پانچ رکعتیں پڑھا دیں ،،پھر پانچویں کے بعد بیٹھ کر سلام پھیرا اور دو سجدے کیئے ،، اس پر ابوحنیفہ نے کہا کہ اگر وہ یعنی نبی ﷺ چوتھی رکعت کے بعد نہیں بیٹھے تھے تو یہ نماز اس چیز کے برابر بھی نہیں اور زمین پر سے کوئی چیز اٹھا کر اسے پھینک دیا
( کتاب المجروحین از ابن حبان جلد دوم )
قارئین کرام کتاب کے حوالے کو دوبارہ سہ بارہ مکرر سکرر پڑھیں جس روایت کی بنا پر واویلہ ھے وہ ھے انکی اپنی انجمن کے ھی ایک حدی خوان کی یعنی مجروح راوی کی ھے یہ طریقہ واردات موصوف کے علمی شجرہ نسب کے اکابر گولڈ زیھر سے لیکر سرسید اورغلام احمد پرویز سے غامدی تک کا مشترکہ ھے کہ ضعیف جھوٹے مجروح راویوں کی دروغ گوئی کو اساطین امت کے کھاتے میں ڈال کر اسپر اپنی ڈالر بٹوری کی حسرتوں کا محل کھڑا کیا جائے
پورے 121 توپوں کی سلامی ھے ان متجددین کی علمی خیانت کو
کمال فن خیانت ھے کہ سر چڑھ کر بولتی ھے
دیانت شرمندہ ھے کہ یہ خیانت زندہ ھے لیکن نہ گولڈ زیہر رھا نہ اسکے نظریات نہ سرسید رھا نہ ھی اسکے افکار نہ غلام احمد پرویز بچا نہ اسکے افکار نہ ھی غامدی رھےگا نہ ھی ڈار اور نہ ھی انکے مسموم عزائم ھاں البتہ اھل السنت والجماعت باقی ھیں انکے اماموں کے اجتھاد افکار اصطلاحات زندہ جاوید ھیں کہ وہ دین کی بقا کی ضمانت ھیں

قاری صاحب کی تمام تحاریر اسی طرح کی تلبیس و تدلیس سے بھری پڑی ہیں

محترم دوست صالح محمد کچھ اس طرح قاری صاحب کے تجددات پر گرفت کرتے ہیں ملاحظہ کیجئے

قاری حنیف ڈار صاحب…
"اللہ پاک نے اندھا دھند مرد کو قوام نہیں بنایا بلکہ اس کے دو اسباب بیان کئے ھیں !
1- بما فضل اللہ بعضھم علی بعض ،،، اس میں جسمانی بناوٹ جو مرد کو مشقت کا اھل ثابت کرتی ھے -
2- و بما انفقوا من اموالھم ،،، اور نان نفقہ روٹی مکان کپڑا مرد کی ذمہ داری قرار دی ھے ،، جو خرچ کرتا ھے وھی حساب کتاب لینے کا ذمہ دار ھے اور گھر کے فیصلے کرنے کا ،کیونکہ پیسہ اس نے خرچنا ھے تو اپنی جیب دیکھ کر فیصلے کرے گا ،،،،،،،،،،
جو مرد یہ صلاحیتیں کھو دیتا ھے ، وہ اپنی قوامیت بھی کھو دیتا ھے ،، یہ اسی طرح کی بات ھے کہ زید دیکھتا ھے کیونکہ اس کی دو آنکھیں ھیں ،،جب زید آنکھیں کھو دیتا ھے تو دیکھنا خود بخود کھو دیتا ھے ،، اب جو مرد سارا دن گھر لیٹا اینٹھتا رھے اور بیوی نوکری کر کے بچے پال رھی ھو تو اس صورت میں وھی قوام ھو گی جو کھلا رھی ھے اور مرد کو قوامیت بھی شرافت کے ساتھ عورت کو سونپ دینی چاھئے ،، ایسا نہیں ھو سکتا کہ وہ سارا دن کام کر کے گھر آئے اور آتے ھی نہار منہ قوام صاحب سے پھنیٹی کھائے پھر یونیفارم تبدیل کرے اور کھانا کھائے ،اب تو قوام کا مطلب پھینٹی لگانے والا سمجھا جاتا ھے اگر میاں بیوی دونوں کما رھے ھیں تو قوامیت بھی 50/50 ھو گئ ھے ،، اور اگر مرد کمائے بھی نہ اور نامرد بھی ھو تو پھر اس سے تو گھر کے کونے میں پڑا بوریا اچھا ھے ،کسی کام تو آتا ھے ،،،"
راقم…
"لیکن بما 'فضل اللہ بعضہم علی بعض'کو تو آپ گول ہی کر گئے… قوام بننے کہ اہلیت اس میں ہے جس میں مذکورہ دو صفات پائی جائیں.. عورت بما انفقوا کی حامل تو ہو سکتی ہے... بما فضل اللہ کی مصداق نہیں… تو پھر قوام کیسے ہوگی…
نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہر وہ شخص جس میں یہ دو باتیں پائیں جائیں وہ قوام ہے بلکہ فرمایا جس مرد میں یہ دو باتیں ہوں وہ قوام ہے… اس لیے اس سے عورت کا قوام کیسے تراشا جا سکتا ہے..
باقی نہ کمانے والے شوہر کی بد سلوکی اپنی جگہ معیوب ہے…"
قاری صاحب…
"جی بما فضل اللہ میں جسمانی تفضیل ھے ،عورت اپنے معاملے میں فضیلت رکھتی اور مرد اپنے میں فضیلت رکھتا ھے ،، آپ صرف سیکس کو تفضیل کہتے ھیں مگر خود بچہ تو مرد بھی پیدا نہیں کر سکتا"
راقم….
"مرد ,عورت کی مخصوص صلاحیتوں کا کس نے انکار کیا ہے… ظاہر ہے ہے اللہ نے کچھ مخصوص صفات مخصوص اصناف ہی کو دی ہیں….مرد ,عورت اور عورت مرد کی ودیعت شدہ خصوصیات کا حامل نہیں ہوسکتا… اس پر تو سرے سے اعتراض ہے ہی نہیں…
اعتراض یہ ہے کہ ہر ایک کو مخصوص صفات دینے کے بعد اللہ نے قوام کسے قرار دیا… اور قوام کا مدار کن صفات پر رکھا…
تو اللہ تعالی نے قوام کا مدار جن دو چیزوں پر رکھا ان میں سے پہلی مرد کو ودیعت کی گئی خصوصیات ہیں… یعنی اللہ نے مرد میں جو مخصوص صفات رکھی ہیں اس بناء اور خرچ کرنے کی بناء پر اسے قوام قرار دیا ہے…. عورت کی بھی کچھ خصوصیات ہیں مگر اس پر اللہ تعالی نے قوامیت کی بناء نہیں رکھی….. اور آپ صرف انفاق سے عورت کو قوامیت عطا کرنے پر کمربستہ ہیں تو بما فضل اللہ بعضہم کو بے فائدہ قرار دینا پڑے گا…..
حاصل یہ کہ بات صرف تفضیل کی نہیں مرد کی تفضیل پر مرتب ہونے والے حکم کی ہے… چنانچہ عورت کی مخصوص صلاحیتوں پر حکم کا ترتب نہیں ہے…."
احباب مزید اس بارے میں اپنی آراء کا اظہار کریں..

اور جب ہم قاری صاحب سے الزامی سوال کرتے ہیں تو جواب ندارد

کلیہ یہ ہے کہ جهاں مرد و عورت کے درمیان اشتراک عمل ہوگا مرد قوام ہوگا اب یہ اشتراک عمل خاندان کی سطح پر ہو قوم کی یہ ریاست کی قوامیت ہمیشہ مرد کو ہی حاصل ہوگی ...

بحث کی ابتداء میں ہی اس باطل اصول کو تسلیم کرکے بات آگے بڑهانا کہ فلاں اوصاف کی وجہ سے مرد قوام ہوتا ہے اگلے کو گنجائش دینے والی بات ہے شروع میں ہی گردن پکڑ لیجئے کہ پہلے یہ بتلائو کہ مرد کا قوام ہونا فلاں امور پر موقوف کیسے ہوا بلکہ مرد عورت پر قوام ہے یہ ایک اصول ہے ...

مرد کا عورت پر قوام ہونا ایک فضیلت ہے جیسے ماں کا باپ سے افضل ہونا ایک فضیلت ہے ..
اب اس مسئلے کو یوں سمجها جاوے کہ کسی بهی ریاست کے حاکم میں مخصوص اوصاف کا ہونا لازم ہے اور اسکے کچه خاص فرائض منصبی ہیں اگر وہ اپنے فرائض درست انداز میں پورے نہ کرے تو وہ ظالم حکمران ہوگا ...
ایسے ہی ایک ماں ہے اسکے کچه فرائض منصبی ہیں اگر وہ پورے نہ کرے تو وہ ایک لا پروا ماں ہوگی لیکن اسکی جگہ باپ ماں نہیں بن جاوے گا ...

یہی معاملہ مرد کا ہے کہ اگر وہ اپنی زمے داریاں پوری نہیں کرتا تو وہ ظالم تو ہوگا لیکن یہ بات اسے قوامیت سے خارج نہیں کرے گی ...

جن جن معاشروں میں ہم نے اس آفاقی اصول کو بدلا بربادی لازم ہوئ آج مغرب کا خاندانی نظام برباد ہو چکا ہے ...

پهر ایک سوال میرا بهی ہے جس کا جواب دیتے ان شاء اللہ اگلوں کو موت آوے گی ...

اگر نان نفقہ ہی مدار ہے تو جس وقت اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کا نکاح ام المومنین حضرت خدیجہ رض سے ہوا اللہ کے رسول کی معاش ان کے کاروبار سے منسلک تهی خاتون جنت اللہ کے رسول سے مالی اعتبار سے بہتر تهیں وہ اللہ کے رسول کی مالی معاونت کیا کرتی تهیں تو کیا حنیف ڈاری اصول کے تحت وہ اللہ کے رسول پر قوام تهیں ... ؟

یہ چند جھلکیاں ہیں ورنہ اتنا کچھ ہے کہ لکھتے لکھتے انگلیاں اور پڑھتے پڑھتے دماغ شل ہو جاوے

آخر میں موصوف دشنام طرازی پر بھی اتر آئے ہیں اور علما امت کو منافق ، مشرک اور گمراہ ہونے کے القابات سے نواز دیا ہے اور ان علما امت میں امام غزالی رح سے لیکر شاہ اسمعیل شہید رح تک سب ہی کو رگڑ دیا

موصوف کسی بھی مکالمے کے معروف فورم میں تشریف لے آئیں اور اہل علم کی موجودگی میں مکالمہ فرما لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں غلطی ہوگی تو تسلیم ورنہ اگلے سے تسلیم کی توقع ..........

لیکن علما امت کو جاہل منافق جھوٹا مشرک بدعتی لعنتی گمراہ کہنا یہ کون سی علمی کاوش ہے اگر ایسا کرینگے تو جواب بھی ایسا ہی ملے گا ...........

ہاں اگر بدتمیزی ترک کرکے علمی انداز میں گفتگو کرینگے تو علمی جواب بھی سامنے موجود پائینگے ......

ہم پچھلے کئی سالوں سے ٹھیٹھ ملحد افراد سے بھی مکالمے کر رہے ہیں جب تک کہ وہ الزامی انداز سے ہٹ کر گستاخانہ انداز پر نہ اتر آئیں ..........

ایک صاحب کے نزدیک فلاں بزرگ کے فلاں فلاں اقوال دین کی تعلیمات کے خلاف ہیں اب اس پر گفتگو ہوگی دلیل کے ساتھ اور آخر میں ایک فریق اپنی غلطی تسلیم کر کے رجوع فرما لے گا ........

دوسرا طریقہ یہ ہے چونکہ میرے نزدیک اس دلیل سے فلاں بزرگ کے فلاں اقوال کے تحت فلاں فلاں عقائد و نظریات اسلام کے خلاف ہیں اسلیے بغیر کسی مکالمے کے وہ .......
مشرک ، کافر ، بدعتی ، یا منافق ہے ...........

اب مکالمے کے معروف ترین اصولوں کے مطابق دیکھیے کہ کون سا طریقہ درست ہے

جن دلائل کی بنیاد پر انہوں نے اپنے طور پر اگلے کا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہونا ثابت کیا ہے کسی مکالمے یا جواب کو سننے سے پہلے ہی انکا کافر ، مشرک ، منافق یا بدعتی کا حکم لگا دینا کیسا ہے وہ بھی امت کی سطح کی شخصیات پر کیا حکامات ایسے ثابت ہوتے ہیں ........

غلام احمد قادیانی کو بھی اسکے گروہ کے تمام دلائل و تاویلات سننے کے بعد کافر قرار دیا گیا تھا یہاں تو موصوف نہیں غزالی و قادیانی کو ایک ہی صف میں کھڑا فرما دیا ہے .............

کیا آپ غزالی کو بھی کم از کم اتنا ہی حق دینگے جتنا قادیانی کو دیا ہے ....
کیا یہ انصاف کا تقاضہ نہیں ہے

جی ہاں حضرت کے نزدیک یہ تمام بزرگ اور غلام قادیانی برابر ہی نہیں بلکہ یہ اس کے اساتذہ اور علمی مرجع ہیں گو کہ اس نے ہمیشہ استدلال باطل قرآن و سنہ سے ہی کیا ہے ..........

آخر میں ہم تو بس اتنا ہی کہیںگے .......

ہے فیس بک کا نابغہ قاری حنیف ڈار ...
حیران ہوکے لوگ یہ کہتے ہیں بار بار.......

حضرت یہ اتنی بونگیاں لاتے کہاں سے ہیں
ڈهنگ کی بهی کہکے دیکهئے موصوف ایک بار.

حسیب احمد حسیب



https://www.facebook.com/Bhaihasib1/posts/1677771152457968:0
 

آصف26

محفلین
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
تمام اہل حق اور عقل سے ادب سے گزارش ہے کہ ایکس بوائے ایسا معلوم پڑتا ہے جیسے کسی چکڑالوی کو ہیضہ ہو گیا ہے اور وہ تعفن پھیلا رہا ہے اسلئے نفاست اسی میں ہے بچ کر نکلا جائے ورنہ صحبت تک کی آفر ہے عقل منداں اشارہ کافی است
 
Top