قانون اس جہان کا کیسا ہے آج کل(غزل برائے اصلاح)

صریر

محفلین
الف عین
سید عاطف علی
یاسر شاہ
شکیب
ظہیر احمد ظہیر
محترم اساتذہ کرام،آداب! بغرض اصلاح ایک غزل
پیش خدمت ہے۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قانون اس جہان کا کیسا ہے آج کل
طاقت کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے آج کل

رِشتوں کا امتیاز ہے دولت کو دیکھ کر
سب سے بڑا جہان میں پَیسہ ہے آج کل

سُنتے تھے آسماں میں خدا رہتا ہے مگر
زیرِ زمیں وہ ہند میں ملتا ہے آج کل

مُغلوں کی اردو بیچ، جو مغلوں کو گالی دیں
ایسے سخن فروشوں کا چرچا ہے آج کل

انداز میں اُسی کے جو اس بُت سے بات کی
کافر کو دل شِکن مرا لہجہ ہے آج کل

بُلبل تُو محوِ نالۂِ بربادِ باغ رہ
چُپ رہ کے غم یہ اور بھی بڑھتا ہے آج کل

گر دل جلے تو کوئی بھلا کیا کرے صرِیر
مجبور ہو کے خود قلم اٹھتا ہے آج کل
 

یاسر شاہ

محفلین
سُنتے تھے آسماں میں خدا رہتا ہے مگر
زیرِ زمیں وہ ہند میں ملتا ہے آج کل
بھائی بات یہ ہے کہ اقبال نے کہا تھا :

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

ہندی مسلمانوں نے جب حقیقی خدا کو چھوڑ کر وطن کو اپنایا تو یہ ان کا تازہ خدائے باطل آج کل زیر زمین ہی ہے - ہندوؤں سے قوم پرستی اور وطن پرستی کی تربیت لینے کے بعد اب ہندی مسلمانوں کے لیے سبق ہے ہندوؤں کا رویّہ کہ ان کی دی ہوئی تعلیم و تربیت بالکل باطل ہے- ہندو اس قابل ہی نہیں کہ ان کو پاکستانی مسلمانوں پہ ترجیح دی جائے اور ہر بدیسی پلیٹ فارم پر پاکستانی ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے کانٹے بچھائے جائیں -دو قومی نظریہ درست تھا، درست ہے اور درست رہے گا -نہ صرف برصغیر کے لئے بلکہ کل کرّہِ ارض کے لیے، کہ یہی آفاقی حقیقت ہے ،عالم میں دو قومیں آباد ہیں ایک مسلم اور دوسری غیر مسلم -باقی ہندو خبیث ہے اس کی یہی خصلت ہے : بغل میں چھری منھ پہ رام رام -جو اس سے تربیت لے گا اس کی بھی یہی خصلت ہو جائے گی-

لہٰذا قرآنی قاعدے کو سامنے رکھ کے کہ جو خیر آتی ہے ہم پر الله جل جلالہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو برائی آتی ہے ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے آتی ہے ،توبہ کرنی چاہیے -بقول مجذوب :

یہ اعمالِ بد کی ہے پاداش ورنہ
کبھی شیر بھی جوتے جاتے ہیں ہل میں
 

الف عین

لائبریرین
قانون اس جہان کا کیسا ہے آج کل
طاقت کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے آج کل
.. درست

رِشتوں کا امتیاز ہے دولت کو دیکھ کر
سب سے بڑا جہان میں پَیسہ ہے آج کل
.. ٹھیک

سُنتے تھے آسماں میں خدا رہتا ہے مگر
زیرِ زمیں وہ ہند میں ملتا ہے آج کل
... رہتا ہے کے الف کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا
جو گیان واپی کی خبریں سن رہا ہے، اس کے لئے ہی واضح ہے، ورنہ وضاحت کی کمی ہے

مُغلوں کی اردو بیچ، جو مغلوں کو گالی دیں
ایسے سخن فروشوں کا چرچا ہے آج کل
... اردو اور گالی کے آخری حروف کا اسقاط! یہ شعر بھی وضاحت چاہتا ہے

انداز میں اُسی کے جو اس بُت سے بات کی
کافر کو دل شِکن مرا لہجہ ہے آج کل
... ٹھیک

بُلبل تُو محوِ نالۂِ بربادِ باغ رہ
چُپ رہ کے غم یہ اور بھی بڑھتا ہے آج کل
... درست

گر دل جلے تو کوئی بھلا کیا کرے صرِیر
مجبور ہو کے خود قلم اٹھتا ہے آج
درست
 

صریر

محفلین
سُنتے تھے آسماں میں خدا رہتا ہے مگر
زیرِ زمیں وہ ہند میں ملتا ہے آج کل
محترم یاسر شاہ صاحب، آپ کی بات درست ہے، لیکن میں نے یہاں ہندوؤں کے خدا کی بات کی ہے، جن کا عقیدہ ہے کہ خدا ' پر لوک' یعنی آسمان میں رہتا ہے، جس کو پانے کے لئے ان کے بزرگ ہمالیہ پربت پہ جاتے تھے، لیکن آج کل ہندو مسجدوں اور درگاہوں کی زمینوں کے نیچے اپنے خدا کے متلاشی ہیں، کہ کوئی مورت نکل آئے اور وہ اس پہ اپنے مندر کا دعویٰ کر سکیں۔
 

صریر

محفلین
مُغلوں کی اردو بیچ، جو مغلوں کو گالی دیں
ایسے سخن فروشوں کا چرچا ہے آج کل
... اردو اور گالی کے آخری حروف کا اسقاط! یہ شعر بھی وضاحت چاہتا ہے
رہنمائی کے لئے بہت شکریہ استاد محترم! یہ شعر نجی طور کا ہی ہے، تو اس کو ابھی کے لئے نکال ہی دیتا ہوں جب تک کہ مناسب متبادل ذہن میں نہیں آ جا تا۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جو گیان واپی کی خبریں سن رہا ہے
رہنمائی کے لئے بہت شکریہ استاد محترم! یہ شعر نجی طور کا ہی ہے، تو اس کو ابھی کے لئے نکال ہی دیتا ہوں جب تک کہ مناسب متبادل ذہن میں نہیں آ جا تا۔۔
شعر مجھے بھی کسی خاص حوالے کا محتاج لگا۔
یہ کون ہے اور خبر کیا ہے ؟
 

صریر

محفلین
شعر مجھے بھی کسی خاص حوالے کا محتاج لگا۔
یہ کون ہے اور خبر کیا ہے ؟
بابری مسجد ہتھیا لینے کے بعد اب ہندوؤں کی نظریں بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ پر ہے! انہیں وہ شِو کا مندر اور کرشنا کی جاے پیدائش بتارہے ہیں۔
گیان واپی مسجد اورنگزیب کے زمانے کی بنائی گئی ایک مسجد ہے، جہاں انہوں نے اپنے دعوے کی دلیل کے لئے ' آرکی لوجیکل سروے' ٹیم کو اطراف کی تصویر کشی اور زمین کی کھدائی کے لئے بھیجا تھا، وہاں انہیں ایک حوض نما وضوخانے کے بیچوں بیچ ایک بند فوارے کا دہانہ ملا ہے، جو کے پتھر کا بنا ہے۔ پتھروں کو پوجنے والی قوم کے لئے بس یہی کافی تھا، اب وہ اسے شو لنگ مان کر مسجد کو مندر بتا رہے ہیں۔

اس کے علاوہ تاریخی عمارتوں تاج محل اور قطب مینار تک کی کھدائی کی مانگ کر رہے ہیں تا کہ یہاں پر کوی پرانی مورتی دریافت کر سکیں اور انہیں بھی مندروں میں تبدیل کر سکیں۔
بابری مسجد کے زمانے سے یہ ہندوؤں کی پرانی چال رہی ہے، کسی بھی عمارت کے اطراف میں چپکے سے مورتی رکھ دیتے ہیں، یا زیرِ زمیں کوی ایسی چیز نکل آئے، تو اس زمین کو دیوی کی اِچّھا مان کر مندر بنانے میں لگ جاتے ہیں!
 

یاسر شاہ

محفلین
محترم یاسر شاہ صاحب، آپ کی بات درست ہے، لیکن میں نے یہاں ہندوؤں کے خدا کی بات کی ہے، جن کا عقیدہ ہے کہ خدا ' پر لوک' یعنی آسمان میں رہتا ہے، جس کو پانے کے لئے ان کے بزرگ ہمالیہ پربت پہ جاتے تھے، لیکن آج کل ہندو مسجدوں اور درگاہوں کی زمینوں کے نیچے اپنے خدا کے متلاشی ہیں، کہ کوئی مورت نکل آئے اور وہ اس پہ اپنے مندر کا دعویٰ کر سکیں۔
شکریہ صریر بھائی تفصیل کا مگر آپ کے شعر سے یہ الہادانہ مفہوم بھی بلا تکلف برآمد ہو سکتا ہے کہ نعوذباللہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ آج کل ہند کے حالات میں خدا در گور ہو چکا ,چاہے آپ کی یہ مراد نہ بھی ہو۔
 

صریر

محفلین
بھارت کے ایک مشہور گیت کار ہیں، ویسے تو مشہور وہ ابھی ابھی ہی ہو ئے ہے، پہلے صرف گیت کار تھے، ویسے بھی بھارت میں مشہور اور گیت کار ہونا دو متضاد باتیں ہیں۔
ان حضرت کا یوٹیوب پر ایک چینل تھا، جس پر ان کا سب سے یہ رونا رہتا تھا کے اتنا اچھا لکھنے کے بعد بھی صرف ٣٠-٣٥ ہزار سبسکرائبرز ہیں لیکن جتنے ہیں بہت ہیں کہ سبھی باذوق لوگ ہیں اور وہی کافی ہیں۔۔

پھر ایک دن ان حضرت نے اپنا ایک شاہکار گیت لکھا، 'تیری مٹی میں مل جاواں، گل بن کے میں کھل جاواں' جس میں وطن کے متعلق محبت واقعی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اور حضرت کی ملک بھر میں خوب پذیرائی ہوئی اور جاننے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہو گئی اور ان کو حب وطن کا ایسا چسکا لگا، یا امید سے زیادہ شہرت ہضم نہیں کر پائے ، کہ اپنے چینل پر ایک دن مغلوں کے خلاف ویڈیو اپلوڈ کردی جس میں مغلوں کو درندہ صفت لٹیرا اور مقابل کے ہندو راجاؤں کو اصل مسیحا ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس سے ان کا مقصد صرف اتنا تھا کہ نام نہاد ہندو محب وطنوں کو خوش کر سکیں اور مسلمانوں کی برائی کر کے وطن کے تئیں اپنی محبت پر مہر ثبت کر سکیں، کیونکہ بھارت میں حب وطن کا اعلیٰ معیار یہی ہے۔

حالانکہ ان کا سارا فن، اور اب تک کی کما ئی اردو کی مرہون منت ہے، ان کا تخلص'منتشر' بھی اردو ہی سے ماخوذ ہے ، اور اپنے بہت سے گیتوں میں جا بجا اردو شعرا کے خیالات سے استفادہ کیا ہے۔ خود ہی کہتے ہیں، "میں نے اپنے گیت کی یہ لائن 'سر گوشی سی ہے خیالوں میں، تو نہ ہو، پھر بھی تو ہوتا ہے' مومن کے مشہور شعر 'تم مرے پاس ہوتے ہو گویا' سے متاثر ہو کر لکھی ہے"

غالب کے پرستار اور جون کے شیدائی بھی تھے، لیکن شاید وہ یہ بھول چکے ان کے پاس جو یہ اردو اور اردو شاعری آ ئی ہے، مغلوں کی ہی وساطت سے آ ئی ہے جس میں وہ گیت لکھ کر لاکھوں کما رہے ہیں، بڑے بڑے ٹی وی شوز پر مہمان خصوصی اور جج کی حیثیت سے بلوائے جاتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ اپنے چینل پر مغلوں اور مسلمان بادشاہوں کی برائیاں بھی برابر کیے جاتے ہیں ۔
 

صریر

محفلین
شکریہ صریر بھائی تفصیل کا مگر آپ کے شعر سے یہ الہادانہ مفہوم بھی بلا تکلف برآمد ہو سکتا ہے کہ نعوذباللہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ آج کل ہند کے حالات میں خدا در گور ہو چکا ,چاہے آپ کی یہ مراد نہ بھی ہو۔
واقعی آپ کا مراسلہ پڑھنے کے بعد جب میں نے شعر پر دوبارہ غور کیا تو شعر کے یوں بھی معنی نکل رہے تھے، بھارت میں جس طرح سے مندر مسجد تنازعات چل رہے ہیں، میرا طنز زمینیں کھود کر خدا ڈھونڈنے والوں لوگوں پر تھا! اب بھارت میں اس شعر کا بلا وضاحت یہی مفہوم ہے ، لیکن ساتھ ہی شاید ایک نو آموز کی نا کام کوشش بھی🙂
 

یاسر شاہ

محفلین
سُنتے تھے آسماں میں خدا رہتا ہے مگر
زیرِ زمیں وہ ہند میں ملتا ہے آج کل

مُغلوں کی اردو بیچ، جو مغلوں کو گالی دیں
ایسے سخن فروشوں کا چرچا ہے آج کل
میرا تو مشوره یہ ہے کہ یہ دونوں شعر نکال دیں -

بُلبل تُو محوِ نالۂِ بربادِ باغ رہ
چُپ رہ کے غم یہ اور بھی بڑھتا ہے آج کل

یہاں بھی کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے -

"محو نالۂ بربادیِ باغ" ترکیب درست ہو گی جو یہاں موزوں نہیں ہوگی -



نداز میں اُسی کے جو اس بُت سے بات کی
کافر کو دل شِکن مرا لہجہ ہے آج کل


گر دل جلے تو کوئی بھلا کیا کرے صرِیر
مجبور ہو کے خود قلم اٹھتا ہے آج کل

خوب ماشاء الله -نو آموز ہونے کے لحاظ سے آپ میں خوب صلاحیت ہے -
آپ کا تخلص صریر بہت خوبصورت ہے -آئندہ آپ کی نگارشات کا انتظار رہے گا -
 

صریر

محفلین
میرا تو مشوره یہ ہے کہ یہ دونوں شعر نکال دیں -
جی، یہی سوچا ہے۔
محو نالۂ بربادیِ باغ" ترکیب درست ہو گی جو یہاں موزوں نہیں ہوگی -
کیا ' نالہ خواں' کی ترکیب درست ہوگی؟

بربادیِ چمن کو ہو بلبل تو نالہ خواں
خوب ماشاء الله -نو آموز ہونے کے لحاظ سے آپ میں خوب صلاحیت ہے -
آپ کا تخلص صریر بہت خوبصورت ہے -آئندہ آپ کی نگارشات کا انتظار رہے گا -
حوصلہ افزائی کے لئے بہت شکریہ محترم یاسر شاہ صاحب!!
آپ اساتذہ کی رہنمائی میں، آگے بھی کوشش جاری رکھوں گا، ان شاء اللہ۔
 

صریر

محفلین
غزل اصلاح کے بعد۔۔۔

قانون اس جہان کا کیسا ہے آج کل
طاقت کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے آج کل

رِشتوں کا امتیاز ہے دولت کو دیکھ کر
سب سے بڑا جہان میں پَیسہ ہے آج کل

انداز میں اُسی کے جو اس بُت سے بات کی
کافر کو دل شِکن مرا لہجہ ہے آج کل

اجڑے چمن کے واسطے بلبل تو روتا رہ
چُپ رہ کے غم یہ اور بھی بڑھتا ہے آج کل

گر دل جلے تو کوئی بھلا کیا کرے صرِیر
مجبور ہو کے خود قلم اٹھتا ہے آج کل
 
Top