امکانات
محفلین
قبائلی علاقوں میں آستین کے سانپ ؟ کالم زبیر احمد ظہیر
کیاامر یکی فضائی حملے رک پائیں گے ؟اب تک کی سفا ر تی کو ششوں اور سرکا ری احتجاج سے لے کر صدر زرداری اورصدربش حالیہ ملاقات تک اس با ت کی ٹھوس ضمانت نہیں مل سکی کہ اب مزید فضا ئی حملے نہیں ہو نگے، لہٰذاعام قبائلی بدستور امریکی دہشت گردی کی زد میں ہیں۔ ان فضا ئی حملوں کا تعلق دہشت گر دی کے خلا ف جنگ سے جڑا ہواہے، مگر ان میزائل حملوںسے ہدف کی بجا ئے عا م لو گ ،خو ا تین اور بچے زیادہ جاں بحق ہورہے ہیں۔ یوں ان معصوم شہریوں کی مسلسل امو ا ت سے یہ ثا بت ہو تا ہے کہ ا مر یکی حملے نا قص انٹیلی جنس کا نتیجہ ہیں۔ امر یکا نے کا فی عر صے کی محنت سے قبا ئلی علا قو ں میں مقا می مخبر وں کا تعا ون حا صل کرلیا ہے، جس کی وجہ سے اس نے پا کستا نی انٹیلی جنس پر اپنا ا نحصا ر کم کر لیا ہے،بلکہ یکطرفہ طور پر ختم کردیا ہے ،اس بات کی تصد یق ان انٹیلی جنس معلو ما ت سے ہو تی ہے جن میں پا کستا نی انٹیلی جنس نے معلو ما ت فر اہم کییں، مگر ا مریکا نے کا رروائی نہ کی اوراتنی تا خیر کر د ی کہ عسکر یت پسندوں کو نکلنے کا مو قع مل گیا۔پاکستانی اداروں کو مسلسل لاعلم رکھ کر میزائل حملے کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ امریکا نے پاکستانی اداروں کی معلومات پر اپنا انحصار ختم کر دیا ہے ۔امریکا نے یہ انحصار اس لیے کم کیا کہ اس نے ان علاقوں میں اپنا جاسوسی نظام فعال بنا لیا ہے ،امریکا کی قبائلی علاقوں میں جاسوسی کی دیوار جن پتھروں پر کھڑی ہے وہ اس کے مقامی ایجنٹ ہیں۔ قبائلی علاقوں اور افغانستان میں امریکی جنگ کا دارومدار جن ایجنٹوں کی معلومات پر ہے، ان کا انٹیلی جنس معیار کتنا بلند ہے ؟یہ دیکھنے کے لیے کسی دور بین کی ضرورت نہیں ۔ ایسے کرائے کے مقا می ا یجنٹ با لعمو م غیر تر بیت یا فتہ لوگ ہو تے ہیں، یہ کم علمی کی و جہ سے معلو ما ت کی جا نچ پڑ تا ل کر نے کی زحمت گو ا را نہیں کر تے اورجوں کی توں معلو ما ت آگے بڑ ھا د یتے ہیں، امر یکی ان معلو ما ت کی تصد یق کیے بغیربٹن د با دیتے ہیں۔ قبا ئلی علا قو ں میں صد یوں پر ا نی ر نجشیں چلی آر ہی ہیں، اس لیے ان مقا می مخبروں کی اطلا عا ت کو ذا تی مخالفت سے پا ک تصو ر جا سکتا۔ امر یکا کے بیشتر فضا ئی حملو ں کود یکھا جا ئے تو ا س میں مختلف لو گو ں کی بجا ئے عا م طور پر ایک ہی خا ند ان کے افر ا د نشا نہ بنے ہیں۔ان وا قعا ت سے یہ اند ا زہ لگا نا مشکل نہیں کہ ان کارر وا ئیو ں میں مقا می ذا تی مخالفت کا کہیں نہ کہیں تعلق ضر ور ہے۔یہ رنجش اور اس کے ذریعے دشمنی نکالنے کا معا ملہ صرف قبائلی علاقوں تک محدوود نہیں ،یہ وبا پورے ملک میں پھیل چکی ہے ۔
اس وقت ملک میں طا لبا ن اور القا عد ہ کے نا م پر گر فتا ر کر ا نے کی دھمکیا ں دینا عام سی بات بن گئی ہے، کسی کو بھی خوف زدہ کرنے کے لیے یہ دھمکی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے اب یہ دھمکی
ہر گلی محلے کی چھوٹی لڑائیوں کا حصہ بن گئی ہے اور تو اور مذہبی افراد کو تھانے دار معمولی تنازعوں میں طالبان کے نام پر فٹ کر انے کی دھمکی دے کر پیسے بٹورلیتے ہیں۔ حد تویہ ہے کہ یہ
دھمکیاں اب ایسے افراد کو ملنے لگی ہیں، جنہیں نماز جمعہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔ اب تو یہ وبا پورے ملک میں کسی موذی مرض کی طرح پھیل گئی ہے ۔جب پر امن شہروں کی صورت حال یہ ہو تو جنگ زدہ اور صدیوں پرانی رنجشوں کے جنگل میں انتقامی صورت حال سے قبائلی علاقوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا ،لہٰذا مقامی ایجنٹوں کی معلومات کو ذاتی مخالفت سے پاک نہیں کہا جا سکتا۔قبائلی علاقہ جات میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹتے رہتے ہیں ۔ان علاقوں میں تو بطور خاص یہ وبا طاعون کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات پہنچائی جاتی ہیں، جب امریکا یا فورسز کارروائی کر کے چلی جاتی ہیں تو پھر بدلہ ان سے لیا جاتا ہے ،جن پر مخبری کا شک گزرے۔ایسے لوگوں کی معلومات پر کارروئی کر نا اتنی بڑی بے وقوفی ہے ،جس کا امریکابار بار ارتکاب کر تا جارہاہے اور ایسی بدنامی کا بیج کاشت کر تا جا رہا ہے، جس کی فصل بر سوں امریکی دشمنی اگاتی رہے گے۔ امریکا کی قبائلی علاقوں پر گہری نظر تھی ،بر طانیہ کی ماضی میں قبائلیوں سے شکست اسے یاد ہے اور بھارت بھی یہ نہیں بھولا کہ آزاد کشمیر کی آزادی ان قبائلیوں نے دلائی تھی۔ امریکاکو روس دور کی پاکستان کی دور اندیشی اور اپنی غلطی بھی یاد تھی، جب پاکستان نے امریکا کو مجاہدین سے براہ راست ڈیل کی رسائی نہ دے کر اس کے ہاتھ پاوں باندھ دیے تھے۔ اس بار امریکا نے ایسا نہیں کیاکہ ادھر سوچا اور ادھران علاقوں پر چڑھائی کردی ،بلکہ امریکا نے طویل عرصے اس پر کام کیا اور جب لوہا گرم دیکھاتوہتھوڑے کی ضرب لگادی ۔امریکا نے ترقیاتی فنڈ دیے ،سڑکیں بناکر دیں ، اس بہانے امریکیوں کی قبائلی علاقوں میں آمد شروع ہوئی ۔امریکا نے مزاحمت کم سے کم کرنے کے لیے جرائم پیشہ عناصر سے مدد لی اوراپنا نیٹ ورک پھیلا دیا۔ اس سے قبائلیوں میں باہمی تصادم ہوا اوران کی طاقت تقسیم ہو کررہ گئی ۔حکومت نے امن معاہدے کیے اورجانی ومالی نقصان سے بچنے کی کوشش کی۔ امریکا نے فضائی حملے شروع کردیے اوریوں جلتی پر تیل کے اس چھڑکاﺅ نے امن معاہدے ختم کر وادیے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا نے عملا میزائل حملوں کوبچوں کا کھیل بنا لیا ہے ،جب مرضی آئی میزائل داغ دیے ۔ان حملوں کے بعد پاکستان جانے اور اس کے سیکورٹی ادارے جانیں۔مجودہ حکومت کے دور مٰیں جتنے تواتر سے امریکہ نے حملے کئے ہیںانتے حملے مشرف کے آٹھ سالہ دور میں نہیںہوئے اس سے معلوم ہوتا ہے امریکہ کو اقتدار اعلی جمہوری حکومت اور پاریمنٹ میں بکھر ہوا قطعی پسند نہیں اسے تو ایک آمر چاہیے جو یک جنبش قلم امریکہ کی مان لے آج پاکستان میں جمہوری حکومت دن بدن کمزور ہورہی ہے اس کی وجہ اپوزیشن ہے ن فوج بلکہ داتی مفادات کا عالمی خود غرض امریکہ ہے
پاکستان نے امریکا کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟پاکستان کے سیکورٹی حکام نے امریکا کی جانب بڑھتی گولی اپنے سینے پر کھا کر یہ جنگ لڑی۔ امریکا کے کندھوں سے کندھے ملا کر ڈنکے کی چوٹ پر امریکا کا ساتھ دیا ۔ایک ہزار فوجیوں کی قربانی دی ،ایک لاکھ بیس ہزارفوجی امریکا کے تحفظ کے لیے افغان سر حد پر لگادیے۔ اس ساری محنت پر امریکا اس وقت پانی پھیر دیتا ہے،جب امریکا ایک ہزار فوجیوں کی قربانی سے آنکھیں پھیر کر اورایک لاکھ بیس ہزار فوج کو غیر ضروری سمجھ کر افغانستان سے اندھیرے میں تیر چلا دیتا ہے، ا نہیں لا علم رکھ کر ا مر یکا جب فضا ئی حملے کر تاہے ،تو یہ لا علمی کے حملے قبائلی علاقوں میں آستین کے سانپوں کی موجودگی کی چغلی کھا رہے ہوتے ہیں ،جن کی چغلی قبائیلوں کے خون بہنے پرمنتج ہوتی ہے ۔جتنا قصور امریکیوں کا ہے ،اتناہی قصور آستین کے ان سانپوں کا ہے ۔امریکا فضاسے جاسوسی کی لاکھ کوشش کرلے ،جب تک ہدف کاتعین زمین سے نہیں ہوتا ،سیٹلائیٹ کی تصاویر کی اہمیت اندازے اورتخمینے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی ۔
ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، اس کے مسائل ہماری طر ح ہیں۔ امریکا اس پر حملوں کی آئے روز دھمکیا ں دیتا ہے اور ہمارے اوپر آئے روز حملے کر تاہے ۔ایران میں بارہ سال پہلے ایک بم دھماکہ ہوا تھا، ایران نے اس کی تفتیش میں بال کی کھال نکال دی، جس کا اثر بارہ سال رہا۔ گزشتہ دنوں جو بم دھماکہ ایران میں ہوا یہ بارہ سال بعد ہوا ہے۔ ایک ہمار ملک ہے،جہاں ہر نیا دھماکہ پہلے والے سے بھاری ہوتا ہے ۔آخر کیا وجہ ہے؟ ایران امریکا کو دھمکیاں دے اوراسرائیل پرتڑیاں جمائے۔ امریکا ایران سے زیادہ دور بھی نہیں،اس کے پڑوسی ملک کی سرحدوں پر موجود ہے، اندر خفیہ علیحدگی کی تحریکیں بھی چل رہی ہے، مگر مجال ہے کہ امریکا ایران کا بال تک بیکا کرسکے ۔اگر ایرانی صدر امریکا کو دھمکی دیتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی سیکورٹی ایجنسیاںکسی کو ایران کے اندر پر نہیں مارنے دیں گی، اس لیے ایران میں در اندازی میں کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایران کے اس امن کا راز اس میں ہے کہ اس کی قوم مخبری جیسے غلیظ کام میں ہاتھ ڈالنے کوتیار نہیں، ایک پاکستان ہے کہ جس پتھر کو اٹھائیں ڈالروں میں بکا لگتاہے ۔قبائلی علاقوں میں دراصل امریکابمبار ی نہیں کررہا ،ڈالروں میں بکے وہ مقامی مخبر پیاس بجھانے کی خاطر قبائلی علاقوں کو آگ وخون میں ڈالے ہوئے ہیں۔ اگر امریکی میزائل حملے نہیں روک سکتے، توان غداروں کو تو روکا جاسکتا ہے۔ قبائلی علاقوں سے آئے روز جاسوسوں کو مارے جانے کی خبریں آتی ہیں مگر ان خبروں پر غور کوئی نہیں کر تا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبائیلوں کو بغل میںچھپے دشمن کا بخوبی ادراک ہے ۔مان لیا کہ امریکا کے پاس جاسوسی کی جدید ٹیکنالوجی ہے ،یہ فضا سے مچھر کے پر گن سکتی ہے ۔سب ٹھیک ،مگر ٹیکنالوجی ہے کو ئی دیو جن قسم کی مخلوق ہر گز نہیں۔ ٹیکنالوجی بھی انسان کی محتاج ہوتی ہے۔ امریکا کے پاس ان عسکریت پسندوں کی تصاویر ہیں،نہ ان کی آوازاور جدید آلات کی مدد سے ہدف کی تلاش کے لیے یہ چیزیں ضروری ہیں ۔امریکی حملے جدید ٹیکنالوجی کی بدولت سیٹلائٹ فون کی آواز یا تصویر کی مددسے ہوتے ہیں۔اگر یہ مان لیا جائے تواسامہ بن لادن پر ایسے کتنے حملے ہوئے ہیں ؟یا یہ حملے کامیاب کیوں نہیں ہوسکے
اگر ہم نیٹو افواج کی سپلائی بند نہیں بند کرسکتے ،دباﺅ کا خطر ہ ہے، سفارتی تعلقات خراب ہوجاتے ہیں یا ہم مخبری کے جال کو توڑ نہیں سکتے تو کم از کم جب تک امریکی صدراتی انتخاب نہیں ہوپاتا، اس وقت تک قبائلی علاقوں میں کفن دفن کا انتظام حکومت اپنے ذمے لے، تاکہ جاں بحق ہونے والوں کو ہم زندگی نہ دے سکیں، یہ ہمارے بس میں نہ رہا تو آخر ی مذہبی رسومات کا حق توپورا کرسکتے ہیں، جو حکومت اپنے شہریوں کو زندہ رہنے کی ضمانت نہیں دے سکتی وہ ان سے اپنے مطالبات کیسے منوائے گئی ۔روس کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکاکو مجاہدین تک رسائی نہ دے کر جس دور اندیشی کا مظاہر ہ کیا تھا، آج اسی دور اندیشی کو امریکا نے ہمارے اورپرالٹ دیا ہے، روس کے خلاف جنگ کاکنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا ہماری مجبوری تھا ،کیونکہ یہ پاکستان کے دفاع کی جنگ تھی ،اس بار امریکا نے ابتداء ہی سے ماضی کی غلطی نہیں دہرائی اورافغانستان اور قبائلی علاقوںمیں براہ راست اپنے حامی پیدا کیے اور مخبروں کا جال بچھا لیا، لہٰذا آج اس جنگ کا کنٹرول امریکا کے پاس ہے ،وہی اسے طول دے سکتاہے اورمختصر کر سکتاہے۔ [/color][/COLOR]
کیاامر یکی فضائی حملے رک پائیں گے ؟اب تک کی سفا ر تی کو ششوں اور سرکا ری احتجاج سے لے کر صدر زرداری اورصدربش حالیہ ملاقات تک اس با ت کی ٹھوس ضمانت نہیں مل سکی کہ اب مزید فضا ئی حملے نہیں ہو نگے، لہٰذاعام قبائلی بدستور امریکی دہشت گردی کی زد میں ہیں۔ ان فضا ئی حملوں کا تعلق دہشت گر دی کے خلا ف جنگ سے جڑا ہواہے، مگر ان میزائل حملوںسے ہدف کی بجا ئے عا م لو گ ،خو ا تین اور بچے زیادہ جاں بحق ہورہے ہیں۔ یوں ان معصوم شہریوں کی مسلسل امو ا ت سے یہ ثا بت ہو تا ہے کہ ا مر یکی حملے نا قص انٹیلی جنس کا نتیجہ ہیں۔ امر یکا نے کا فی عر صے کی محنت سے قبا ئلی علا قو ں میں مقا می مخبر وں کا تعا ون حا صل کرلیا ہے، جس کی وجہ سے اس نے پا کستا نی انٹیلی جنس پر اپنا ا نحصا ر کم کر لیا ہے،بلکہ یکطرفہ طور پر ختم کردیا ہے ،اس بات کی تصد یق ان انٹیلی جنس معلو ما ت سے ہو تی ہے جن میں پا کستا نی انٹیلی جنس نے معلو ما ت فر اہم کییں، مگر ا مریکا نے کا رروائی نہ کی اوراتنی تا خیر کر د ی کہ عسکر یت پسندوں کو نکلنے کا مو قع مل گیا۔پاکستانی اداروں کو مسلسل لاعلم رکھ کر میزائل حملے کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ امریکا نے پاکستانی اداروں کی معلومات پر اپنا انحصار ختم کر دیا ہے ۔امریکا نے یہ انحصار اس لیے کم کیا کہ اس نے ان علاقوں میں اپنا جاسوسی نظام فعال بنا لیا ہے ،امریکا کی قبائلی علاقوں میں جاسوسی کی دیوار جن پتھروں پر کھڑی ہے وہ اس کے مقامی ایجنٹ ہیں۔ قبائلی علاقوں اور افغانستان میں امریکی جنگ کا دارومدار جن ایجنٹوں کی معلومات پر ہے، ان کا انٹیلی جنس معیار کتنا بلند ہے ؟یہ دیکھنے کے لیے کسی دور بین کی ضرورت نہیں ۔ ایسے کرائے کے مقا می ا یجنٹ با لعمو م غیر تر بیت یا فتہ لوگ ہو تے ہیں، یہ کم علمی کی و جہ سے معلو ما ت کی جا نچ پڑ تا ل کر نے کی زحمت گو ا را نہیں کر تے اورجوں کی توں معلو ما ت آگے بڑ ھا د یتے ہیں، امر یکی ان معلو ما ت کی تصد یق کیے بغیربٹن د با دیتے ہیں۔ قبا ئلی علا قو ں میں صد یوں پر ا نی ر نجشیں چلی آر ہی ہیں، اس لیے ان مقا می مخبروں کی اطلا عا ت کو ذا تی مخالفت سے پا ک تصو ر جا سکتا۔ امر یکا کے بیشتر فضا ئی حملو ں کود یکھا جا ئے تو ا س میں مختلف لو گو ں کی بجا ئے عا م طور پر ایک ہی خا ند ان کے افر ا د نشا نہ بنے ہیں۔ان وا قعا ت سے یہ اند ا زہ لگا نا مشکل نہیں کہ ان کارر وا ئیو ں میں مقا می ذا تی مخالفت کا کہیں نہ کہیں تعلق ضر ور ہے۔یہ رنجش اور اس کے ذریعے دشمنی نکالنے کا معا ملہ صرف قبائلی علاقوں تک محدوود نہیں ،یہ وبا پورے ملک میں پھیل چکی ہے ۔
اس وقت ملک میں طا لبا ن اور القا عد ہ کے نا م پر گر فتا ر کر ا نے کی دھمکیا ں دینا عام سی بات بن گئی ہے، کسی کو بھی خوف زدہ کرنے کے لیے یہ دھمکی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے اب یہ دھمکی
ہر گلی محلے کی چھوٹی لڑائیوں کا حصہ بن گئی ہے اور تو اور مذہبی افراد کو تھانے دار معمولی تنازعوں میں طالبان کے نام پر فٹ کر انے کی دھمکی دے کر پیسے بٹورلیتے ہیں۔ حد تویہ ہے کہ یہ
دھمکیاں اب ایسے افراد کو ملنے لگی ہیں، جنہیں نماز جمعہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔ اب تو یہ وبا پورے ملک میں کسی موذی مرض کی طرح پھیل گئی ہے ۔جب پر امن شہروں کی صورت حال یہ ہو تو جنگ زدہ اور صدیوں پرانی رنجشوں کے جنگل میں انتقامی صورت حال سے قبائلی علاقوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا ،لہٰذا مقامی ایجنٹوں کی معلومات کو ذاتی مخالفت سے پاک نہیں کہا جا سکتا۔قبائلی علاقہ جات میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹتے رہتے ہیں ۔ان علاقوں میں تو بطور خاص یہ وبا طاعون کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات پہنچائی جاتی ہیں، جب امریکا یا فورسز کارروائی کر کے چلی جاتی ہیں تو پھر بدلہ ان سے لیا جاتا ہے ،جن پر مخبری کا شک گزرے۔ایسے لوگوں کی معلومات پر کارروئی کر نا اتنی بڑی بے وقوفی ہے ،جس کا امریکابار بار ارتکاب کر تا جارہاہے اور ایسی بدنامی کا بیج کاشت کر تا جا رہا ہے، جس کی فصل بر سوں امریکی دشمنی اگاتی رہے گے۔ امریکا کی قبائلی علاقوں پر گہری نظر تھی ،بر طانیہ کی ماضی میں قبائلیوں سے شکست اسے یاد ہے اور بھارت بھی یہ نہیں بھولا کہ آزاد کشمیر کی آزادی ان قبائلیوں نے دلائی تھی۔ امریکاکو روس دور کی پاکستان کی دور اندیشی اور اپنی غلطی بھی یاد تھی، جب پاکستان نے امریکا کو مجاہدین سے براہ راست ڈیل کی رسائی نہ دے کر اس کے ہاتھ پاوں باندھ دیے تھے۔ اس بار امریکا نے ایسا نہیں کیاکہ ادھر سوچا اور ادھران علاقوں پر چڑھائی کردی ،بلکہ امریکا نے طویل عرصے اس پر کام کیا اور جب لوہا گرم دیکھاتوہتھوڑے کی ضرب لگادی ۔امریکا نے ترقیاتی فنڈ دیے ،سڑکیں بناکر دیں ، اس بہانے امریکیوں کی قبائلی علاقوں میں آمد شروع ہوئی ۔امریکا نے مزاحمت کم سے کم کرنے کے لیے جرائم پیشہ عناصر سے مدد لی اوراپنا نیٹ ورک پھیلا دیا۔ اس سے قبائلیوں میں باہمی تصادم ہوا اوران کی طاقت تقسیم ہو کررہ گئی ۔حکومت نے امن معاہدے کیے اورجانی ومالی نقصان سے بچنے کی کوشش کی۔ امریکا نے فضائی حملے شروع کردیے اوریوں جلتی پر تیل کے اس چھڑکاﺅ نے امن معاہدے ختم کر وادیے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا نے عملا میزائل حملوں کوبچوں کا کھیل بنا لیا ہے ،جب مرضی آئی میزائل داغ دیے ۔ان حملوں کے بعد پاکستان جانے اور اس کے سیکورٹی ادارے جانیں۔مجودہ حکومت کے دور مٰیں جتنے تواتر سے امریکہ نے حملے کئے ہیںانتے حملے مشرف کے آٹھ سالہ دور میں نہیںہوئے اس سے معلوم ہوتا ہے امریکہ کو اقتدار اعلی جمہوری حکومت اور پاریمنٹ میں بکھر ہوا قطعی پسند نہیں اسے تو ایک آمر چاہیے جو یک جنبش قلم امریکہ کی مان لے آج پاکستان میں جمہوری حکومت دن بدن کمزور ہورہی ہے اس کی وجہ اپوزیشن ہے ن فوج بلکہ داتی مفادات کا عالمی خود غرض امریکہ ہے
پاکستان نے امریکا کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟پاکستان کے سیکورٹی حکام نے امریکا کی جانب بڑھتی گولی اپنے سینے پر کھا کر یہ جنگ لڑی۔ امریکا کے کندھوں سے کندھے ملا کر ڈنکے کی چوٹ پر امریکا کا ساتھ دیا ۔ایک ہزار فوجیوں کی قربانی دی ،ایک لاکھ بیس ہزارفوجی امریکا کے تحفظ کے لیے افغان سر حد پر لگادیے۔ اس ساری محنت پر امریکا اس وقت پانی پھیر دیتا ہے،جب امریکا ایک ہزار فوجیوں کی قربانی سے آنکھیں پھیر کر اورایک لاکھ بیس ہزار فوج کو غیر ضروری سمجھ کر افغانستان سے اندھیرے میں تیر چلا دیتا ہے، ا نہیں لا علم رکھ کر ا مر یکا جب فضا ئی حملے کر تاہے ،تو یہ لا علمی کے حملے قبائلی علاقوں میں آستین کے سانپوں کی موجودگی کی چغلی کھا رہے ہوتے ہیں ،جن کی چغلی قبائیلوں کے خون بہنے پرمنتج ہوتی ہے ۔جتنا قصور امریکیوں کا ہے ،اتناہی قصور آستین کے ان سانپوں کا ہے ۔امریکا فضاسے جاسوسی کی لاکھ کوشش کرلے ،جب تک ہدف کاتعین زمین سے نہیں ہوتا ،سیٹلائیٹ کی تصاویر کی اہمیت اندازے اورتخمینے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی ۔
ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، اس کے مسائل ہماری طر ح ہیں۔ امریکا اس پر حملوں کی آئے روز دھمکیا ں دیتا ہے اور ہمارے اوپر آئے روز حملے کر تاہے ۔ایران میں بارہ سال پہلے ایک بم دھماکہ ہوا تھا، ایران نے اس کی تفتیش میں بال کی کھال نکال دی، جس کا اثر بارہ سال رہا۔ گزشتہ دنوں جو بم دھماکہ ایران میں ہوا یہ بارہ سال بعد ہوا ہے۔ ایک ہمار ملک ہے،جہاں ہر نیا دھماکہ پہلے والے سے بھاری ہوتا ہے ۔آخر کیا وجہ ہے؟ ایران امریکا کو دھمکیاں دے اوراسرائیل پرتڑیاں جمائے۔ امریکا ایران سے زیادہ دور بھی نہیں،اس کے پڑوسی ملک کی سرحدوں پر موجود ہے، اندر خفیہ علیحدگی کی تحریکیں بھی چل رہی ہے، مگر مجال ہے کہ امریکا ایران کا بال تک بیکا کرسکے ۔اگر ایرانی صدر امریکا کو دھمکی دیتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی سیکورٹی ایجنسیاںکسی کو ایران کے اندر پر نہیں مارنے دیں گی، اس لیے ایران میں در اندازی میں کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایران کے اس امن کا راز اس میں ہے کہ اس کی قوم مخبری جیسے غلیظ کام میں ہاتھ ڈالنے کوتیار نہیں، ایک پاکستان ہے کہ جس پتھر کو اٹھائیں ڈالروں میں بکا لگتاہے ۔قبائلی علاقوں میں دراصل امریکابمبار ی نہیں کررہا ،ڈالروں میں بکے وہ مقامی مخبر پیاس بجھانے کی خاطر قبائلی علاقوں کو آگ وخون میں ڈالے ہوئے ہیں۔ اگر امریکی میزائل حملے نہیں روک سکتے، توان غداروں کو تو روکا جاسکتا ہے۔ قبائلی علاقوں سے آئے روز جاسوسوں کو مارے جانے کی خبریں آتی ہیں مگر ان خبروں پر غور کوئی نہیں کر تا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبائیلوں کو بغل میںچھپے دشمن کا بخوبی ادراک ہے ۔مان لیا کہ امریکا کے پاس جاسوسی کی جدید ٹیکنالوجی ہے ،یہ فضا سے مچھر کے پر گن سکتی ہے ۔سب ٹھیک ،مگر ٹیکنالوجی ہے کو ئی دیو جن قسم کی مخلوق ہر گز نہیں۔ ٹیکنالوجی بھی انسان کی محتاج ہوتی ہے۔ امریکا کے پاس ان عسکریت پسندوں کی تصاویر ہیں،نہ ان کی آوازاور جدید آلات کی مدد سے ہدف کی تلاش کے لیے یہ چیزیں ضروری ہیں ۔امریکی حملے جدید ٹیکنالوجی کی بدولت سیٹلائٹ فون کی آواز یا تصویر کی مددسے ہوتے ہیں۔اگر یہ مان لیا جائے تواسامہ بن لادن پر ایسے کتنے حملے ہوئے ہیں ؟یا یہ حملے کامیاب کیوں نہیں ہوسکے
اگر ہم نیٹو افواج کی سپلائی بند نہیں بند کرسکتے ،دباﺅ کا خطر ہ ہے، سفارتی تعلقات خراب ہوجاتے ہیں یا ہم مخبری کے جال کو توڑ نہیں سکتے تو کم از کم جب تک امریکی صدراتی انتخاب نہیں ہوپاتا، اس وقت تک قبائلی علاقوں میں کفن دفن کا انتظام حکومت اپنے ذمے لے، تاکہ جاں بحق ہونے والوں کو ہم زندگی نہ دے سکیں، یہ ہمارے بس میں نہ رہا تو آخر ی مذہبی رسومات کا حق توپورا کرسکتے ہیں، جو حکومت اپنے شہریوں کو زندہ رہنے کی ضمانت نہیں دے سکتی وہ ان سے اپنے مطالبات کیسے منوائے گئی ۔روس کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکاکو مجاہدین تک رسائی نہ دے کر جس دور اندیشی کا مظاہر ہ کیا تھا، آج اسی دور اندیشی کو امریکا نے ہمارے اورپرالٹ دیا ہے، روس کے خلاف جنگ کاکنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا ہماری مجبوری تھا ،کیونکہ یہ پاکستان کے دفاع کی جنگ تھی ،اس بار امریکا نے ابتداء ہی سے ماضی کی غلطی نہیں دہرائی اورافغانستان اور قبائلی علاقوںمیں براہ راست اپنے حامی پیدا کیے اور مخبروں کا جال بچھا لیا، لہٰذا آج اس جنگ کا کنٹرول امریکا کے پاس ہے ،وہی اسے طول دے سکتاہے اورمختصر کر سکتاہے۔ [/color][/COLOR]