قبائلی علاقوں میں آستین کے سانپ ؟ کالم زبیر احمد ظہیر

امکانات

محفلین
قبائلی علاقوں میں آستین کے سانپ ؟ کالم زبیر احمد ظہیر

کیاامر یکی فضائی حملے رک پائیں گے ؟اب تک کی سفا ر تی کو ششوں اور سرکا ری احتجاج سے لے کر صدر زرداری اورصدربش حالیہ ملاقات تک اس با ت کی ٹھوس ضمانت نہیں مل سکی کہ اب مزید فضا ئی حملے نہیں ہو نگے، لہٰذاعام قبائلی بدستور امریکی دہشت گردی کی زد میں ہیں۔ ان فضا ئی حملوں کا تعلق دہشت گر دی کے خلا ف جنگ سے جڑا ہواہے، مگر ان میزائل حملوںسے ہدف کی بجا ئے عا م لو گ ،خو ا تین اور بچے زیادہ جاں بحق ہورہے ہیں۔ یوں ان معصوم شہریوں کی مسلسل امو ا ت سے یہ ثا بت ہو تا ہے کہ ا مر یکی حملے نا قص انٹیلی جنس کا نتیجہ ہیں۔ امر یکا نے کا فی عر صے کی محنت سے قبا ئلی علا قو ں میں مقا می مخبر وں کا تعا ون حا صل کرلیا ہے، جس کی وجہ سے اس نے پا کستا نی انٹیلی جنس پر اپنا ا نحصا ر کم کر لیا ہے،بلکہ یکطرفہ طور پر ختم کردیا ہے ،اس بات کی تصد یق ان انٹیلی جنس معلو ما ت سے ہو تی ہے جن میں پا کستا نی انٹیلی جنس نے معلو ما ت فر اہم کییں، مگر ا مریکا نے کا رروائی نہ کی اوراتنی تا خیر کر د ی کہ عسکر یت پسندوں کو نکلنے کا مو قع مل گیا۔پاکستانی اداروں کو مسلسل لاعلم رکھ کر میزائل حملے کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ امریکا نے پاکستانی اداروں کی معلومات پر اپنا انحصار ختم کر دیا ہے ۔امریکا نے یہ انحصار اس لیے کم کیا کہ اس نے ان علاقوں میں اپنا جاسوسی نظام فعال بنا لیا ہے ،امریکا کی قبائلی علاقوں میں جاسوسی کی دیوار جن پتھروں پر کھڑی ہے وہ اس کے مقامی ایجنٹ ہیں۔ قبائلی علاقوں اور افغانستان میں امریکی جنگ کا دارومدار جن ایجنٹوں کی معلومات پر ہے، ان کا انٹیلی جنس معیار کتنا بلند ہے ؟یہ دیکھنے کے لیے کسی دور بین کی ضرورت نہیں ۔ ایسے کرائے کے مقا می ا یجنٹ با لعمو م غیر تر بیت یا فتہ لوگ ہو تے ہیں، یہ کم علمی کی و جہ سے معلو ما ت کی جا نچ پڑ تا ل کر نے کی زحمت گو ا را نہیں کر تے اورجوں کی توں معلو ما ت آگے بڑ ھا د یتے ہیں، امر یکی ان معلو ما ت کی تصد یق کیے بغیربٹن د با دیتے ہیں۔ قبا ئلی علا قو ں میں صد یوں پر ا نی ر نجشیں چلی آر ہی ہیں، اس لیے ان مقا می مخبروں کی اطلا عا ت کو ذا تی مخالفت سے پا ک تصو ر جا سکتا۔ امر یکا کے بیشتر فضا ئی حملو ں کود یکھا جا ئے تو ا س میں مختلف لو گو ں کی بجا ئے عا م طور پر ایک ہی خا ند ان کے افر ا د نشا نہ بنے ہیں۔ان وا قعا ت سے یہ اند ا زہ لگا نا مشکل نہیں کہ ان کارر وا ئیو ں میں مقا می ذا تی مخالفت کا کہیں نہ کہیں تعلق ضر ور ہے۔یہ رنجش اور اس کے ذریعے دشمنی نکالنے کا معا ملہ صرف قبائلی علاقوں تک محدوود نہیں ،یہ وبا پورے ملک میں پھیل چکی ہے ۔
اس وقت ملک میں طا لبا ن اور القا عد ہ کے نا م پر گر فتا ر کر ا نے کی دھمکیا ں دینا عام سی بات بن گئی ہے، کسی کو بھی خوف زدہ کرنے کے لیے یہ دھمکی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے اب یہ دھمکی
ہر گلی محلے کی چھوٹی لڑائیوں کا حصہ بن گئی ہے اور تو اور مذہبی افراد کو تھانے دار معمولی تنازعوں میں طالبان کے نام پر فٹ کر انے کی دھمکی دے کر پیسے بٹورلیتے ہیں۔ حد تویہ ہے کہ یہ
دھمکیاں اب ایسے افراد کو ملنے لگی ہیں، جنہیں نماز جمعہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔ اب تو یہ وبا پورے ملک میں کسی موذی مرض کی طرح پھیل گئی ہے ۔جب پر امن شہروں کی صورت حال یہ ہو تو جنگ زدہ اور صدیوں پرانی رنجشوں کے جنگل میں انتقامی صورت حال سے قبائلی علاقوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا ،لہٰذا مقامی ایجنٹوں کی معلومات کو ذاتی مخالفت سے پاک نہیں کہا جا سکتا۔قبائلی علاقہ جات میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹتے رہتے ہیں ۔ان علاقوں میں تو بطور خاص یہ وبا طاعون کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات پہنچائی جاتی ہیں، جب امریکا یا فورسز کارروائی کر کے چلی جاتی ہیں تو پھر بدلہ ان سے لیا جاتا ہے ،جن پر مخبری کا شک گزرے۔ایسے لوگوں کی معلومات پر کارروئی کر نا اتنی بڑی بے وقوفی ہے ،جس کا امریکابار بار ارتکاب کر تا جارہاہے اور ایسی بدنامی کا بیج کاشت کر تا جا رہا ہے، جس کی فصل بر سوں امریکی دشمنی اگاتی رہے گے۔ امریکا کی قبائلی علاقوں پر گہری نظر تھی ،بر طانیہ کی ماضی میں قبائلیوں سے شکست اسے یاد ہے اور بھارت بھی یہ نہیں بھولا کہ آزاد کشمیر کی آزادی ان قبائلیوں نے دلائی تھی۔ امریکاکو روس دور کی پاکستان کی دور اندیشی اور اپنی غلطی بھی یاد تھی، جب پاکستان نے امریکا کو مجاہدین سے براہ راست ڈیل کی رسائی نہ دے کر اس کے ہاتھ پاوں باندھ دیے تھے۔ اس بار امریکا نے ایسا نہیں کیاکہ ادھر سوچا اور ادھران علاقوں پر چڑھائی کردی ،بلکہ امریکا نے طویل عرصے اس پر کام کیا اور جب لوہا گرم دیکھاتوہتھوڑے کی ضرب لگادی ۔امریکا نے ترقیاتی فنڈ دیے ،سڑکیں بناکر دیں ، اس بہانے امریکیوں کی قبائلی علاقوں میں آمد شروع ہوئی ۔امریکا نے مزاحمت کم سے کم کرنے کے لیے جرائم پیشہ عناصر سے مدد لی اوراپنا نیٹ ورک پھیلا دیا۔ اس سے قبائلیوں میں باہمی تصادم ہوا اوران کی طاقت تقسیم ہو کررہ گئی ۔حکومت نے امن معاہدے کیے اورجانی ومالی نقصان سے بچنے کی کوشش کی۔ امریکا نے فضائی حملے شروع کردیے اوریوں جلتی پر تیل کے اس چھڑکاﺅ نے امن معاہدے ختم کر وادیے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا نے عملا میزائل حملوں کوبچوں کا کھیل بنا لیا ہے ،جب مرضی آئی میزائل داغ دیے ۔ان حملوں کے بعد پاکستان جانے اور اس کے سیکورٹی ادارے جانیں۔مجودہ حکومت کے دور مٰیں جتنے تواتر سے امریکہ نے حملے کئے ہیں‌انتے حملے مشرف کے آٹھ سالہ دور میں نہیں‌ہوئے اس سے معلوم ہوتا ہے امریکہ کو اقتدار اعلی جمہوری حکومت اور پاریمنٹ میں بکھر ہوا قطعی پسند نہیں اسے تو ایک آمر چاہیے جو یک جنبش قلم امریکہ کی مان لے آج پاکستان میں جمہوری حکومت دن بدن کمزور ہورہی ہے اس کی وجہ اپوزیشن ہے ن فوج بلکہ داتی مفادات کا عالمی خود غرض امریکہ ہے
پاکستان نے امریکا کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟پاکستان کے سیکورٹی حکام نے امریکا کی جانب بڑھتی گولی اپنے سینے پر کھا کر یہ جنگ لڑی۔ امریکا کے کندھوں سے کندھے ملا کر ڈنکے کی چوٹ پر امریکا کا ساتھ دیا ۔ایک ہزار فوجیوں کی قربانی دی ،ایک لاکھ بیس ہزارفوجی امریکا کے تحفظ کے لیے افغان سر حد پر لگادیے۔ اس ساری محنت پر امریکا اس وقت پانی پھیر دیتا ہے،جب امریکا ایک ہزار فوجیوں کی قربانی سے آنکھیں پھیر کر اورایک لاکھ بیس ہزار فوج کو غیر ضروری سمجھ کر افغانستان سے اندھیرے میں تیر چلا دیتا ہے، ا نہیں لا علم رکھ کر ا مر یکا جب فضا ئی حملے کر تاہے ،تو یہ لا علمی کے حملے قبائلی علاقوں میں آستین کے سانپوں کی موجودگی کی چغلی کھا رہے ہوتے ہیں ،جن کی چغلی قبائیلوں کے خون بہنے پرمنتج ہوتی ہے ۔جتنا قصور امریکیوں کا ہے ،اتناہی قصور آستین کے ان سانپوں کا ہے ۔امریکا فضاسے جاسوسی کی لاکھ کوشش کرلے ،جب تک ہدف کاتعین زمین سے نہیں ہوتا ،سیٹلائیٹ کی تصاویر کی اہمیت اندازے اورتخمینے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی ۔
ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، اس کے مسائل ہماری طر ح ہیں۔ امریکا اس پر حملوں کی آئے روز دھمکیا ں دیتا ہے اور ہمارے اوپر آئے روز حملے کر تاہے ۔ایران میں بارہ سال پہلے ایک بم دھماکہ ہوا تھا، ایران نے اس کی تفتیش میں بال کی کھال نکال دی، جس کا اثر بارہ سال رہا۔ گزشتہ دنوں جو بم دھماکہ ایران میں ہوا یہ بارہ سال بعد ہوا ہے۔ ایک ہمار ملک ہے،جہاں ہر نیا دھماکہ پہلے والے سے بھاری ہوتا ہے ۔آخر کیا وجہ ہے؟ ایران امریکا کو دھمکیاں دے اوراسرائیل پرتڑیاں جمائے۔ امریکا ایران سے زیادہ دور بھی نہیں،اس کے پڑوسی ملک کی سرحدوں پر موجود ہے، اندر خفیہ علیحدگی کی تحریکیں بھی چل رہی ہے، مگر مجال ہے کہ امریکا ایران کا بال تک بیکا کرسکے ۔اگر ایرانی صدر امریکا کو دھمکی دیتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی سیکورٹی ایجنسیاںکسی کو ایران کے اندر پر نہیں مارنے دیں گی، اس لیے ایران میں در اندازی میں کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایران کے اس امن کا راز اس میں ہے کہ اس کی قوم مخبری جیسے غلیظ کام میں ہاتھ ڈالنے کوتیار نہیں، ایک پاکستان ہے کہ جس پتھر کو اٹھائیں ڈالروں میں بکا لگتاہے ۔قبائلی علاقوں میں دراصل امریکابمبار ی نہیں کررہا ،ڈالروں میں بکے وہ مقامی مخبر پیاس بجھانے کی خاطر قبائلی علاقوں کو آگ وخون میں ڈالے ہوئے ہیں۔ اگر امریکی میزائل حملے نہیں روک سکتے، توان غداروں کو تو روکا جاسکتا ہے۔ قبائلی علاقوں سے آئے روز جاسوسوں کو مارے جانے کی خبریں آتی ہیں مگر ان خبروں پر غور کوئی نہیں کر تا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبائیلوں کو بغل میں‌چھپے دشمن کا بخوبی ادراک ہے ۔مان لیا کہ امریکا کے پاس جاسوسی کی جدید ٹیکنالوجی ہے ،یہ فضا سے مچھر کے پر گن سکتی ہے ۔سب ٹھیک ،مگر ٹیکنالوجی ہے کو ئی دیو جن قسم کی مخلوق ہر گز نہیں۔ ٹیکنالوجی بھی انسان کی محتاج ہوتی ہے۔ امریکا کے پاس ان عسکریت پسندوں کی تصاویر ہیں،نہ ان کی آوازاور جدید آلات کی مدد سے ہدف کی تلاش کے لیے یہ چیزیں ضروری ہیں ۔امریکی حملے جدید ٹیکنالوجی کی بدولت سیٹلائٹ فون کی آواز یا تصویر کی مددسے ہوتے ہیں۔اگر یہ مان لیا جائے تواسامہ بن لادن پر ایسے کتنے حملے ہوئے ہیں ؟یا یہ حملے کامیاب کیوں نہیں ہوسکے
اگر ہم نیٹو افواج کی سپلائی بند نہیں بند کرسکتے ،دباﺅ کا خطر ہ ہے، سفارتی تعلقات خراب ہوجاتے ہیں یا ہم مخبری کے جال کو توڑ نہیں سکتے تو کم از کم جب تک امریکی صدراتی انتخاب نہیں ہوپاتا، اس وقت تک قبائلی علاقوں میں کفن دفن کا انتظام حکومت اپنے ذمے لے، تاکہ جاں بحق ہونے والوں کو ہم زندگی نہ دے سکیں، یہ ہمارے بس میں نہ رہا تو آخر ی مذہبی رسومات کا حق توپورا کرسکتے ہیں، جو حکومت اپنے شہریوں کو زندہ رہنے کی ضمانت نہیں دے سکتی وہ ان سے اپنے مطالبات کیسے منوائے گئی ۔روس کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکاکو مجاہدین تک رسائی نہ دے کر جس دور اندیشی کا مظاہر ہ کیا تھا، آج اسی دور اندیشی کو امریکا نے ہمارے اورپرالٹ دیا ہے، روس کے خلاف جنگ کاکنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا ہماری مجبوری تھا ،کیونکہ یہ پاکستان کے دفاع کی جنگ تھی ،اس بار امریکا نے ابتداء ہی سے ماضی کی غلطی نہیں دہرائی اورافغانستان اور قبائلی علاقوںمیں براہ راست اپنے حامی پیدا کیے اور مخبروں کا جال بچھا لیا، لہٰذا آج اس جنگ کا کنٹرول امریکا کے پاس ہے ،وہی اسے طول دے سکتاہے اورمختصر کر سکتاہے۔
[/color][/COLOR]
 

خرم

محفلین
اگر پاکستانی ایجنسیاں دوہرا معیار نہ رکھتیں اور پہلے دن سے اپنے فرائض میں ایماندار رہتیں تو امریکہ کو ان ایجنٹوں پر انحصار نہ کرنا پڑتا۔ اب اس دوغلے پن کا فائدہ یہ ہوا کہ سو جوتے بھی کھانے پڑ رہے ہیں اور سو پیاز بھی۔ بم دھماکوں میں بھی مر رہے ہیں، لڑائیوں اور حملوں میں جانی نقصان بھی اٹھا رہے ہیں اور تمام دُنیا انگلیاں بھی اُٹھا رہی ہے۔ یہی ہوتا ہے ایک متذبذب قوم اور پالیسی کا انجام۔
 

امکانات

محفلین
اگر پاکستانی ایجنسیاں دوہرا معیار نہ رکھتیں اور پہلے دن سے اپنے فرائض میں ایماندار رہتیں تو امریکہ کو ان ایجنٹوں پر انحصار نہ کرنا پڑتا۔ اب اس دوغلے پن کا فائدہ یہ ہوا کہ سو جوتے بھی کھانے پڑ رہے ہیں اور سو پیاز بھی۔ بم دھماکوں میں بھی مر رہے ہیں، لڑائیوں اور حملوں میں جانی نقصان بھی اٹھا رہے ہیں اور تمام دُنیا انگلیاں بھی اُٹھا رہی ہے۔ یہی ہوتا ہے ایک متذبذب قوم اور پالیسی کا انجام۔

سات سمندر پار بیٹھ کر جو دکھ آپ کو ہے یہ اپ کے اس اقتباس میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے جس ملک کے نوجوانوں میں حب الوطنی کا اتنا جزبہ ہو وہ ملک مٹا نہیں کر تے آج جتنی حب الوطنی کا جزبہ پاکستانیوں میں اس نام نہاد جنگ نے پیدا کر دیا ہے یہ ہم بر سوں میں‌ پیدا نہ کر سکتے تھے اس جنگ کی اگر لاکھ برائیوں میں کوئی ایک اچھا ئی ہے تو اس جزبہ حب الوطنی کے سواء کچھ نہیں خرم اللہ آپ کو خوش رکھے
 

مہوش علی

لائبریرین
قبائلی علاقوں میں آستین کے سانپ ؟ کالم زبیر احمد ظہیر

کیاامر یکی فضائی حملے رک پائیں گے ؟اب تک کی سفا ر تی کو ششوں اور سرکا ری احتجاج سے لے کر صدر زرداری اورصدربش حالیہ ملاقات تک اس با ت کی ٹھوس ضمانت نہیں مل سکی کہ اب مزید فضا ئی حملے نہیں ہو نگے، لہٰذاعام قبائلی بدستور امریکی دہشت گردی کی زد میں ہیں۔ ان فضا ئی حملوں کا تعلق دہشت گر دی کے خلا ف جنگ سے جڑا ہواہے، مگر ان میزائل حملوںسے ہدف کی بجا ئے عا م لو گ ،خو ا تین اور بچے زیادہ جاں بحق ہورہے ہیں۔ یوں ان معصوم شہریوں کی مسلسل امو ا ت سے یہ ثا بت ہو تا ہے کہ ا مر یکی حملے نا قص انٹیلی جنس کا نتیجہ ہیں۔ امر یکا نے کا فی عر صے کی محنت سے قبا ئلی علا قو ں میں مقا می مخبر وں کا تعا ون حا صل کرلیا ہے، جس کی وجہ سے اس نے پا کستا نی انٹیلی جنس پر اپنا ا نحصا ر کم کر لیا ہے،بلکہ یکطرفہ طور پر ختم کردیا ہے ،اس بات کی تصد یق ان انٹیلی جنس معلو ما ت سے ہو تی ہے جن میں پا کستا نی انٹیلی جنس نے معلو ما ت فر اہم کییں، مگر ا مریکا نے کا رروائی نہ کی اوراتنی تا خیر کر د ی کہ عسکر یت پسندوں کو نکلنے کا مو قع مل گیا۔پاکستانی اداروں کو مسلسل لاعلم رکھ کر میزائل حملے کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ امریکا نے پاکستانی اداروں کی معلومات پر اپنا انحصار ختم کر دیا ہے ۔امریکا نے یہ انحصار اس لیے کم کیا کہ اس نے ان علاقوں میں اپنا جاسوسی نظام فعال بنا لیا ہے ،امریکا کی قبائلی علاقوں میں جاسوسی کی دیوار جن پتھروں پر کھڑی ہے وہ اس کے مقامی ایجنٹ ہیں۔ قبائلی علاقوں اور افغانستان میں امریکی جنگ کا دارومدار جن ایجنٹوں کی معلومات پر ہے، ان کا انٹیلی جنس معیار کتنا بلند ہے ؟یہ دیکھنے کے لیے کسی دور بین کی ضرورت نہیں ۔ ایسے کرائے کے مقا می ا یجنٹ با لعمو م غیر تر بیت یا فتہ لوگ ہو تے ہیں، یہ کم علمی کی و جہ سے معلو ما ت کی جا نچ پڑ تا ل کر نے کی زحمت گو ا را نہیں کر تے اورجوں کی توں معلو ما ت آگے بڑ ھا د یتے ہیں، امر یکی ان معلو ما ت کی تصد یق کیے بغیربٹن د با دیتے ہیں۔ قبا ئلی علا قو ں میں صد یوں پر ا نی ر نجشیں چلی آر ہی ہیں، اس لیے ان مقا می مخبروں کی اطلا عا ت کو ذا تی مخالفت سے پا ک تصو ر جا سکتا۔ امر یکا کے بیشتر فضا ئی حملو ں کود یکھا جا ئے تو ا س میں مختلف لو گو ں کی بجا ئے عا م طور پر ایک ہی خا ند ان کے افر ا د نشا نہ بنے ہیں۔ان وا قعا ت سے یہ اند ا زہ لگا نا مشکل نہیں کہ ان کارر وا ئیو ں میں مقا می ذا تی مخالفت کا کہیں نہ کہیں تعلق ضر ور ہے۔یہ رنجش اور اس کے ذریعے دشمنی نکالنے کا معا ملہ صرف قبائلی علاقوں تک محدوود نہیں ،یہ وبا پورے ملک میں پھیل چکی ہے ۔
اس وقت ملک میں طا لبا ن اور القا عد ہ کے نا م پر گر فتا ر کر ا نے کی دھمکیا ں دینا عام سی بات بن گئی ہے، کسی کو بھی خوف زدہ کرنے کے لیے یہ دھمکی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے اب یہ دھمکی
ہر گلی محلے کی چھوٹی لڑائیوں کا حصہ بن گئی ہے اور تو اور مذہبی افراد کو تھانے دار معمولی تنازعوں میں طالبان کے نام پر فٹ کر انے کی دھمکی دے کر پیسے بٹورلیتے ہیں۔ حد تویہ ہے کہ یہ
دھمکیاں اب ایسے افراد کو ملنے لگی ہیں، جنہیں نماز جمعہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔ اب تو یہ وبا پورے ملک میں کسی موذی مرض کی طرح پھیل گئی ہے ۔جب پر امن شہروں کی صورت حال یہ ہو تو جنگ زدہ اور صدیوں پرانی رنجشوں کے جنگل میں انتقامی صورت حال سے قبائلی علاقوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا ،لہٰذا مقامی ایجنٹوں کی معلومات کو ذاتی مخالفت سے پاک نہیں کہا جا سکتا۔قبائلی علاقہ جات میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹتے رہتے ہیں ۔ان علاقوں میں تو بطور خاص یہ وبا طاعون کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات پہنچائی جاتی ہیں، جب امریکا یا فورسز کارروائی کر کے چلی جاتی ہیں تو پھر بدلہ ان سے لیا جاتا ہے ،جن پر مخبری کا شک گزرے۔ایسے لوگوں کی معلومات پر کارروئی کر نا اتنی بڑی بے وقوفی ہے ،جس کا امریکابار بار ارتکاب کر تا جارہاہے اور ایسی بدنامی کا بیج کاشت کر تا جا رہا ہے، جس کی فصل بر سوں امریکی دشمنی اگاتی رہے گے۔ امریکا کی قبائلی علاقوں پر گہری نظر تھی ،بر طانیہ کی ماضی میں قبائلیوں سے شکست اسے یاد ہے اور بھارت بھی یہ نہیں بھولا کہ آزاد کشمیر کی آزادی ان قبائلیوں نے دلائی تھی۔ امریکاکو روس دور کی پاکستان کی دور اندیشی اور اپنی غلطی بھی یاد تھی، جب پاکستان نے امریکا کو مجاہدین سے براہ راست ڈیل کی رسائی نہ دے کر اس کے ہاتھ پاوں باندھ دیے تھے۔ اس بار امریکا نے ایسا نہیں کیاکہ ادھر سوچا اور ادھران علاقوں پر چڑھائی کردی ،بلکہ امریکا نے طویل عرصے اس پر کام کیا اور جب لوہا گرم دیکھاتوہتھوڑے کی ضرب لگادی ۔امریکا نے ترقیاتی فنڈ دیے ،سڑکیں بناکر دیں ، اس بہانے امریکیوں کی قبائلی علاقوں میں آمد شروع ہوئی ۔امریکا نے مزاحمت کم سے کم کرنے کے لیے جرائم پیشہ عناصر سے مدد لی اوراپنا نیٹ ورک پھیلا دیا۔ اس سے قبائلیوں میں باہمی تصادم ہوا اوران کی طاقت تقسیم ہو کررہ گئی ۔حکومت نے امن معاہدے کیے اورجانی ومالی نقصان سے بچنے کی کوشش کی۔ امریکا نے فضائی حملے شروع کردیے اوریوں جلتی پر تیل کے اس چھڑکاﺅ نے امن معاہدے ختم کر وادیے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا نے عملا میزائل حملوں کوبچوں کا کھیل بنا لیا ہے ،جب مرضی آئی میزائل داغ دیے ۔ان حملوں کے بعد پاکستان جانے اور اس کے سیکورٹی ادارے جانیں۔مجودہ حکومت کے دور مٰیں جتنے تواتر سے امریکہ نے حملے کئے ہیں‌انتے حملے مشرف کے آٹھ سالہ دور میں نہیں‌ہوئے اس سے معلوم ہوتا ہے امریکہ کو اقتدار اعلی جمہوری حکومت اور پاریمنٹ میں بکھر ہوا قطعی پسند نہیں اسے تو ایک آمر چاہیے جو یک جنبش قلم امریکہ کی مان لے آج پاکستان میں جمہوری حکومت دن بدن کمزور ہورہی ہے اس کی وجہ اپوزیشن ہے ن فوج بلکہ داتی مفادات کا عالمی خود غرض امریکہ ہے
پاکستان نے امریکا کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟پاکستان کے سیکورٹی حکام نے امریکا کی جانب بڑھتی گولی اپنے سینے پر کھا کر یہ جنگ لڑی۔ امریکا کے کندھوں سے کندھے ملا کر ڈنکے کی چوٹ پر امریکا کا ساتھ دیا ۔ایک ہزار فوجیوں کی قربانی دی ،ایک لاکھ بیس ہزارفوجی امریکا کے تحفظ کے لیے افغان سر حد پر لگادیے۔ اس ساری محنت پر امریکا اس وقت پانی پھیر دیتا ہے،جب امریکا ایک ہزار فوجیوں کی قربانی سے آنکھیں پھیر کر اورایک لاکھ بیس ہزار فوج کو غیر ضروری سمجھ کر افغانستان سے اندھیرے میں تیر چلا دیتا ہے، ا نہیں لا علم رکھ کر ا مر یکا جب فضا ئی حملے کر تاہے ،تو یہ لا علمی کے حملے قبائلی علاقوں میں آستین کے سانپوں کی موجودگی کی چغلی کھا رہے ہوتے ہیں ،جن کی چغلی قبائیلوں کے خون بہنے پرمنتج ہوتی ہے ۔جتنا قصور امریکیوں کا ہے ،اتناہی قصور آستین کے ان سانپوں کا ہے ۔امریکا فضاسے جاسوسی کی لاکھ کوشش کرلے ،جب تک ہدف کاتعین زمین سے نہیں ہوتا ،سیٹلائیٹ کی تصاویر کی اہمیت اندازے اورتخمینے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی ۔
ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، اس کے مسائل ہماری طر ح ہیں۔ امریکا اس پر حملوں کی آئے روز دھمکیا ں دیتا ہے اور ہمارے اوپر آئے روز حملے کر تاہے ۔ایران میں بارہ سال پہلے ایک بم دھماکہ ہوا تھا، ایران نے اس کی تفتیش میں بال کی کھال نکال دی، جس کا اثر بارہ سال رہا۔ گزشتہ دنوں جو بم دھماکہ ایران میں ہوا یہ بارہ سال بعد ہوا ہے۔ ایک ہمار ملک ہے،جہاں ہر نیا دھماکہ پہلے والے سے بھاری ہوتا ہے ۔آخر کیا وجہ ہے؟ ایران امریکا کو دھمکیاں دے اوراسرائیل پرتڑیاں جمائے۔ امریکا ایران سے زیادہ دور بھی نہیں،اس کے پڑوسی ملک کی سرحدوں پر موجود ہے، اندر خفیہ علیحدگی کی تحریکیں بھی چل رہی ہے، مگر مجال ہے کہ امریکا ایران کا بال تک بیکا کرسکے ۔اگر ایرانی صدر امریکا کو دھمکی دیتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی سیکورٹی ایجنسیاںکسی کو ایران کے اندر پر نہیں مارنے دیں گی، اس لیے ایران میں در اندازی میں کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایران کے اس امن کا راز اس میں ہے کہ اس کی قوم مخبری جیسے غلیظ کام میں ہاتھ ڈالنے کوتیار نہیں، ایک پاکستان ہے کہ جس پتھر کو اٹھائیں ڈالروں میں بکا لگتاہے ۔قبائلی علاقوں میں دراصل امریکابمبار ی نہیں کررہا ،ڈالروں میں بکے وہ مقامی مخبر پیاس بجھانے کی خاطر قبائلی علاقوں کو آگ وخون میں ڈالے ہوئے ہیں۔ اگر امریکی میزائل حملے نہیں روک سکتے، توان غداروں کو تو روکا جاسکتا ہے۔ قبائلی علاقوں سے آئے روز جاسوسوں کو مارے جانے کی خبریں آتی ہیں مگر ان خبروں پر غور کوئی نہیں کر تا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبائیلوں کو بغل میں‌چھپے دشمن کا بخوبی ادراک ہے ۔مان لیا کہ امریکا کے پاس جاسوسی کی جدید ٹیکنالوجی ہے ،یہ فضا سے مچھر کے پر گن سکتی ہے ۔سب ٹھیک ،مگر ٹیکنالوجی ہے کو ئی دیو جن قسم کی مخلوق ہر گز نہیں۔ ٹیکنالوجی بھی انسان کی محتاج ہوتی ہے۔ امریکا کے پاس ان عسکریت پسندوں کی تصاویر ہیں،نہ ان کی آوازاور جدید آلات کی مدد سے ہدف کی تلاش کے لیے یہ چیزیں ضروری ہیں ۔امریکی حملے جدید ٹیکنالوجی کی بدولت سیٹلائٹ فون کی آواز یا تصویر کی مددسے ہوتے ہیں۔اگر یہ مان لیا جائے تواسامہ بن لادن پر ایسے کتنے حملے ہوئے ہیں ؟یا یہ حملے کامیاب کیوں نہیں ہوسکے
اگر ہم نیٹو افواج کی سپلائی بند نہیں بند کرسکتے ،دباﺅ کا خطر ہ ہے، سفارتی تعلقات خراب ہوجاتے ہیں یا ہم مخبری کے جال کو توڑ نہیں سکتے تو کم از کم جب تک امریکی صدراتی انتخاب نہیں ہوپاتا، اس وقت تک قبائلی علاقوں میں کفن دفن کا انتظام حکومت اپنے ذمے لے، تاکہ جاں بحق ہونے والوں کو ہم زندگی نہ دے سکیں، یہ ہمارے بس میں نہ رہا تو آخر ی مذہبی رسومات کا حق توپورا کرسکتے ہیں، جو حکومت اپنے شہریوں کو زندہ رہنے کی ضمانت نہیں دے سکتی وہ ان سے اپنے مطالبات کیسے منوائے گئی ۔روس کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکاکو مجاہدین تک رسائی نہ دے کر جس دور اندیشی کا مظاہر ہ کیا تھا، آج اسی دور اندیشی کو امریکا نے ہمارے اورپرالٹ دیا ہے، روس کے خلاف جنگ کاکنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا ہماری مجبوری تھا ،کیونکہ یہ پاکستان کے دفاع کی جنگ تھی ،اس بار امریکا نے ابتداء ہی سے ماضی کی غلطی نہیں دہرائی اورافغانستان اور قبائلی علاقوںمیں براہ راست اپنے حامی پیدا کیے اور مخبروں کا جال بچھا لیا، لہٰذا آج اس جنگ کا کنٹرول امریکا کے پاس ہے ،وہی اسے طول دے سکتاہے اورمختصر کر سکتاہے۔
[/color][/color]

یہ صاحب ایران کو گھسیٹ کر درمیان میں تو لا رہے ہیں، مگر یہ بھول رہے ہیں کہ اگر واقعی ایران یہ کاروائیاں کر بھی رہا ہے تو بھی یہ ریاست کی سطح پر جہاد ہے اور اسی لیے کامیاب ہے اور امریکہ کھلے عام ایران پر جوابی حملہ نہیں کر پا رہا ہے۔
اسی طرح لبنان میں حزب اللہ نے پوری کوشش کی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں رہتے ہوئے ایک مزاحمت کار تنظیم کو جو رائیٹز حاصل ہیں انکے اندر رہے۔ اسی لیے کبھی نہیں سنتے کہ لبنان میں لوگوں کو ذبح کیا جا رہا ہو، یا خود کش حملوں کی تعلیمات دی جا رہی ہوں۔ اسی لیے کوشش کے باوجود امریکہ اور دیگر بڑی طاقتیں حزب اللہ کو یو این او کے پلیٹ فارم سے دہشت گرد تنظیم نہیں قرار دلوا سکیں اور بہت سے مغربی ممالک میں ابھی تک حزب اللہ لیگل مزاحمتی جماعت ہے۔

تو ان صاحب نے بلا سوچے سمجھے ایران کی مثال تو دے دی، مگر انہیں ریاستی سطح پر جہاد کا فرق واضح کرنا چاہیے تھا اور سمجھانا چاہیے تھا کہ اس ریاستی جہاد میں اور اُس طالبانی جہاد میں کیا فرق ہے کہ جہاں لوگوں کو ذبح کر کے جہاد کیا جا رہا ہے اور چھوٹے چھوٹے گروہ اسلام کے نام پر ہر وہ کام کر رہے ہیں جو انکے نزدیک شریعت ہے۔
 

امکانات

محفلین
یہ صاحب ایران کو گھسیٹ کر درمیان میں تو لا رہے ہیں، مگر یہ بھول رہے ہیں کہ اگر واقعی ایران یہ کاروائیاں کر بھی رہا ہے تو بھی یہ ریاست کی سطح پر جہاد ہے اور اسی لیے کامیاب ہے اور امریکہ کھلے عام ایران پر جوابی حملہ نہیں کر پا رہا ہے۔
اسی طرح لبنان میں حزب اللہ نے پوری کوشش کی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں رہتے ہوئے ایک مزاحمت کار تنظیم کو جو رائیٹز حاصل ہیں انکے اندر رہے۔ اسی لیے کبھی نہیں سنتے کہ لبنان میں لوگوں کو ذبح کیا جا رہا ہو، یا خود کش حملوں کی تعلیمات دی جا رہی ہوں۔ اسی لیے کوشش کے باوجود امریکہ اور دیگر بڑی طاقتیں حزب اللہ کو یو این او کے پلیٹ فارم سے دہشت گرد تنظیم نہیں قرار دلوا سکیں اور بہت سے مغربی ممالک میں ابھی تک حزب اللہ لیگل مزاحمتی جماعت ہے۔

تو ان صاحب نے بلا سوچے سمجھے ایران کی مثال تو دے دی، مگر انہیں ریاستی سطح پر جہاد کا فرق واضح کرنا چاہیے تھا اور سمجھانا چاہیے تھا کہ اس ریاستی جہاد میں اور اُس طالبانی جہاد میں کیا فرق ہے کہ جہاں لوگوں کو ذبح کر کے جہاد کیا جا رہا ہے اور چھوٹے چھوٹے گروہ اسلام کے نام پر ہر وہ کام کر رہے ہیں جو انکے نزدیک شریعت ہے۔
باجی میری تحریر میں ایران کا ذکر اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ خلاف ہوگئی آپ نے خواہ مخواہ یہ تصور کر لیا ہے اگرآپ نے تحریر غور سے پڑھی ہوتی تو آپ کو ایران کی تعریف نظر آتی تو مان یا نہ مان میں‌ مفت میں ایران کا ترجمان والی کہانی ہے ایسے مفت کے ترجمان جواب دینے سے پہلے پڑہنے کی زحمت گوارہ نہیں‌کرتے اس پیرا گراف کودوبارہ پڑھ لیں
اگر ایرانی صدر امریکا کو دھمکی دیتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی سیکورٹی ایجنسیاںکسی کو ایران کے اندر پر نہیں مارنے دیں گی، اس لیے ایران میں در اندازی میں کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایران کے اس امن کا راز اس میں ہے کہ اس کی قوم مخبری جیسے غلیظ کام میں ہاتھ ڈالنے کوتیار نہیں،
 

مہوش علی

لائبریرین
باجی میری تحریر میں ایران کا ذکر اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ خلاف ہوگئی آپ نے خواہ مخواہ یہ تصور کر لیا ہے اگرآپ نے تحریر غور سے پڑھی ہوتی تو آپ کو ایران کی تعریف نظر آتی تو مان یا نہ مان میں‌ مفت میں ایران کا ترجمان والی کہانی ہے ایسے مفت کے ترجمان جواب دینے سے پہلے پڑہنے کی زحمت گوارہ نہیں‌کرتے اس پیرا گراف کودوبارہ پڑھ لیں
اگر ایرانی صدر امریکا کو دھمکی دیتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی سیکورٹی ایجنسیاںکسی کو ایران کے اندر پر نہیں مارنے دیں گی، اس لیے ایران میں در اندازی میں کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایران کے اس امن کا راز اس میں ہے کہ اس کی قوم مخبری جیسے غلیظ کام میں ہاتھ ڈالنے کوتیار نہیں،

بھائی جی، کالم نویس نے ایران کے حوالے سے تصویر کا صرف ایک رخ دکھایا ہے جبکہ دوسرا اہم رخ نظر انداز کر گیا ہے۔
ایرانی ایجنسیز کو بیرونی محاذ پر کامیابی اس لیے مل رہی ہے کیونکہ قوم اندرونی طور پر مضبوط ہے اور اپنے معاشرے میں کسی ایسے چھوٹے موٹے جہادی ٹولے کو پروان نہیں چڑھنے دی رہی جو کہ خود کو قانون سے بالاتر کر لے اور اپنی اپنی شریعتیں نافذ کرنے کے نام پر ملک میں فساد برپا کرتا رہے اور اسی شریعت کے نام پر لوگوں کو ذبح کرتا ہو یا خود کش حملوں کی تبلیغ کرتا ہو۔
جس دن ہمارا معاشرہ بھی اندرونی طور پر اتنا مضبوط ہو جائے گا اور کسی ٹولے کو قانون سے بالاتر نہیں ہونے دے گا، اُس دن ہماری ایجنسیاں بھی بہت بہتر طور پر بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ۔
والسلام۔
 

امکانات

محفلین
بھائی جی، کالم نویس نے ایران کے حوالے سے تصویر کا صرف ایک رخ دکھایا ہے جبکہ دوسرا اہم رخ نظر انداز کر گیا ہے۔
ایرانی ایجنسیز کو بیرونی محاذ پر کامیابی اس لیے مل رہی ہے کیونکہ قوم اندرونی طور پر مضبوط ہے اور اپنے معاشرے میں کسی ایسے چھوٹے موٹے جہادی ٹولے کو پروان نہیں چڑھنے دی رہی جو کہ خود کو قانون سے بالاتر کر لے اور اپنی اپنی شریعتیں نافذ کرنے کے نام پر ملک میں فساد برپا کرتا رہے اور اسی شریعت کے نام پر لوگوں کو ذبح کرتا ہو یا خود کش حملوں کی تبلیغ کرتا ہو۔
جس دن ہمارا معاشرہ بھی اندرونی طور پر اتنا مضبوط ہو جائے گا اور کسی ٹولے کو قانون سے بالاتر نہیں ہونے دے گا، اُس دن ہماری ایجنسیاں بھی بہت بہتر طور پر بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ۔
والسلام۔
کالم میں ایرانی ایجسنسی کے بیرونی کرردار کا کہیں ذکر نہیں صرف داخلی استحکام کی تحسین کی گئی گئی آپ خواہ مخواہ ایران کے دیگر معاملات کو بیچ میں‌ لے اتی ہین فضول بحث کر نا ہمارا کام نہیں میرا تعلق میڈیا سے ہے اور میڈیا کے لوگ عام طور پر غیر جانب دار رہتے ہیں‌
 

مہوش علی

لائبریرین
کالم میں ایرانی ایجسنسی کے بیرونی کرردار کا کہیں ذکر نہیں صرف داخلی استحکام کی تحسین کی گئی گئی آپ خواہ مخواہ ایران کے دیگر معاملات کو بیچ میں‌ لے اتی ہین فضول بحث کر نا ہمارا کام نہیں میرا تعلق میڈیا سے ہے اور میڈیا کے لوگ عام طور پر غیر جانب دار رہتے ہیں‌
امکانات برادر، میری تنقید کالم نگار پر تھی، مگر پتا نہیں آپ کیوں اسے پرسنل لے رہے ہیں۔ میری رائے میں وہ اگر وہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھا دیتا کہ ایرانی ایجنسیاں اتنی کامیاب کیوں ہیں اور ہمارے ملک میں ایجنسیوں کیوں ناکام ہیں اور دونوں ممالک میں حالات کا اتنا فرق کیوں ہے کہ ایک جگہ دو دھماکے ہوں قوم چیخ اٹھے اور دوسری جگہ ہزاروں لوگ قتل و ذبح ہو چکے ہوں تو بھی قوم سوتی رہ جائے تو اس سے اصل فتنے کے سدباب کرنے کے زیادہ مواقع میسر آتے۔
اگر آپ کو میری رائے سے اختلاف ہے تو کوئی بات نہیں، بہرحال میری یہ پوسٹ اس حوالے سے ہے کہ ہر کسی کو اپنی رائے پیش کرنے اور تنقید کرنے کا حق ہے اور اس ضمن میں ایک دوسرے پر براہ راست پرسنل تنقید کرنے سے زیادہ سے زیادہ احتراز کرنا چاہیے۔
والسلام۔
 

امکانات

محفلین
مہوش امکانات ہی زبیر احمد زہیر ہیں ۔۔ کیا اب وہ اس کو پرسنل لے سکتے ہیں‌:blush:

جہانزیب بھائی اس کھلے راز کو کچھ دنوں اور راز ہی رہنے دیتے تاکہ کالم نگار کو اپنی کالم نگاری کی حقیقت معلوم ہوجاتی (مسکراتے ہو ہیے (
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش امکانات ہی زبیر احمد زہیر ہیں ۔۔ کیا اب وہ اس کو پرسنل لے سکتے ہیں‌:blush:
السلام علیکم
بہت شکریہ جہانزیب۔ ماشاء اللہ ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہم یہاں پر بلند مرتبہ برادران کی صحبت سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔
/////////////////////////////////////////////
بھائی جی، بات اب گھوم پھر کر امکانات برادر کے پاس براہ راست چلی گئی ہے تب بھی استدعا ہے کہ اسے پرسنل نہ لیجئے، اور میری رائے یہی ہے کہ ایرانی ایجنسیز کے مقابل پاکستان ایجنسیز کو ناکارہ کہنا کچھ صحیح نہ ہو گا کیونکہ پاکستان کے اندرونی حالات اور ایران کے اندرونی حالات میں بہت فرق ہے۔ اور اگر ہم اپنی ایجنسیز کو بھی بیرونی دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے بطور قوم ہمیں اندرونی طور پر اپنی اصلاح کرنا ہو گی۔
از مہوش:
ایرانی ایجنسیز کو بیرونی محاذ پر کامیابی اس لیے مل رہی ہے کیونکہ قوم اندرونی طور پر مضبوط ہے اور اپنے معاشرے میں کسی ایسے چھوٹے موٹے جہادی ٹولے کو پروان نہیں چڑھنے دی رہی جو کہ خود کو قانون سے بالاتر کر لے اور اپنی اپنی شریعتیں نافذ کرنے کے نام پر ملک میں فساد برپا کرتا رہے اور اسی شریعت کے نام پر لوگوں کو ذبح کرتا ہو یا خود کش حملوں کی تبلیغ کرتا ہو۔
جس دن ہمارا معاشرہ بھی اندرونی طور پر اتنا مضبوط ہو جائے گا اور کسی ٹولے کو قانون سے بالاتر نہیں ہونے دے گا، اُس دن ہماری ایجنسیاں بھی بہت بہتر طور پر بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ۔
 

امکانات

محفلین
السلام علیکم
بہت شکریہ جہانزیب۔ ماشاء اللہ ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہم یہاں پر بلند مرتبہ برادران کی صحبت سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔
/////////////////////////////////////////////
بھائی جی، بات اب گھوم پھر کر امکانات برادر کے پاس براہ راست چلی گئی ہے تب بھی استدعا ہے کہ اسے پرسنل نہ لیجئے، اور میری رائے یہی ہے کہ ایرانی ایجنسیز کے مقابل پاکستان ایجنسیز کو ناکارہ کہنا کچھ صحیح نہ ہو گا کیونکہ پاکستان کے اندرونی حالات اور ایران کے اندرونی حالات میں بہت فرق ہے۔ اور اگر ہم اپنی ایجنسیز کو بھی بیرونی دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے بطور قوم ہمیں اندرونی طور پر اپنی اصلاح کرنا ہو گی۔

مہوش باجی تحریکیں وہاں ابھرتی ہیں‌جہاں خلاء رہ گیاہو پاکستان میں نفاذ اسلام کی تحریک قیام پاکستان سے شروع ہوگئی تھی 1857 کی جنگ آزادی کی تحریک سے لیکر قیام پاکستان تک اور قیام پاکستان ست آج کے طالبان تک یہ سب ایک خلاء چلا آ رہا ہے جب تب پاکستان کے مسلمانوں کی اس خواہش کا احترام نہیں کیا جائے گا تحریکیں ابھرتی اور کچلی جاتی رہیں گئی تحریک نظام مصطفی کے دوران دس ہزار افراد نے جان کی قربانی دی 2002 متحدہ مجلس عمل کی کامیابی یہ سب ایک رخ ہے قیام پاکستان سے لے آج تک ہم نے مذہبی جماعتوں کو قومی دھارے سے باہر نکال دیا ہے جب مذہبی طاقتیں فیصلہ سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گئی تو نفاذ اسلام کی مثبت سوچ منفی رخ اختیار کر جائے گی پاکستان کی بنیادوں میں اسلام کا خون شامل ہے اس سےجب نظر انداز کیا جائے گا تو امن قائم نہیں ہو سکتا آج اپ اعلان کریں پاکستان کے تمام قانوں اسلام کے مطابق ہونگے نظام اسلام ہوگا ان ساری تحریکوں سے جان نکل جائے گی ایران میں‌ مذہبی طاقیں فیصلہ ساز ہیں سارا اختیار علی خامنہ ای کے پاس ہے اس لیے مذہبی قوتیں مطمئن ہیں شاہ کے خلاف تحریک میں ان ہی مذبھی قوتوں‌ نے تحریک چلائی تھی اپ اج ایران سے علی خامنہ ای کی دستوری بالادستی کا خاتمہ کر دیں‌ کل کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں اج ہی ایران میں تحریکین‌ پھوٹ پڑیں گئی اس لحاظ سے پاکستان کی مذہبی قوتیں قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے ان تحریکوں کو کبھی علیحدگی پسندی میں ڈھلنے نہیں‌دیا اورآج60
سالوں سے اس ناانصافی کو برداشت کر لیا اسلام کے نام قیام پاکستان کے لیےچھ لاکھ جانوں کا نظرانہ جن لوگوں نے پیش کیا وہ غریب تھے ہر گز نہں‌ انڈیا میں وہ لوگ محلات اور بڑے بڑے باغات چھوڑ‌کر آئے تھے اوریہان آکر انہوں‌نے بھیک بھی مانگ کر گزاراہ کیا ہے یہ سب کیا تھا
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش باجی تحریکیں وہاں ابھرتی ہیں‌جہاں خلاء رہ گیاہو پاکستان میں نفاذ اسلام کی تحریک قیام پاکستان سے شروع ہوگئی تھی 1857 کی جنگ آزادی کی تحریک سے لیکر قیام پاکستان تک اور قیام پاکستان ست آج کے طالبان تک یہ سب ایک خلاء چلا آ رہا ہے جب تب پاکستان کے مسلمانوں کی اس خواہش کا احترام نہیں کیا جائے گا تحریکیں ابھرتی اور کچلی جاتی رہیں گئی تحریک نظام مصطفی کے دوران دس ہزار افراد نے جان کی قربانی دی 2002 متحدہ مجلس عمل کی کامیابی یہ سب ایک رخ ہے قیام پاکستان سے لے آج تک ہم نے مذہبی جماعتوں کو قومی دھارے سے باہر نکال دیا ہے جب مذہبی طاقتیں فیصلہ سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گئی تو نفاذ اسلام کی مثبت سوچ منفی رخ اختیار کر جائے گی پاکستان کی بنیادوں میں اسلام کا خون شامل ہے اس سےجب نظر انداز کیا جائے گا تو امن قائم نہیں ہو سکتا آج اپ اعلان کریں پاکستان کے تمام قانوں اسلام کے مطابق ہونگے نظام اسلام ہوگا ان ساری تحریکوں سے جان نکل جائے گی ایران میں‌ مذہبی طاقیں فیصلہ ساز ہیں سارا اختیار علی خامنہ ای کے پاس ہے اس لیے مذہبی قوتیں مطمئن ہیں شاہ کے خلاف تحریک میں ان ہی مذبھی قوتوں‌ نے تحریک چلائی تھی اپ اج ایران سے علی خامنہ ای کی دستوری بالادستی کا خاتمہ کر دیں‌ کل کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں اج ہی ایران میں تحریکین‌ پھوٹ پڑیں گئی اس لحاظ سے پاکستان کی مذہبی قوتیں قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے ان تحریکوں کو کبھی علیحدگی پسندی میں ڈھلنے نہیں‌دیا اورآج60
سالوں سے اس ناانصافی کو برداشت کر لیا اسلام کے نام قیام پاکستان کے لیےچھ لاکھ جانوں کا نظرانہ جن لوگوں نے پیش کیا وہ غریب تھے ہر گز نہں‌ انڈیا میں وہ لوگ محلات اور بڑے بڑے باغات چھوڑ‌کر آئے تھے اوریہان آکر انہوں‌نے بھیک بھی مانگ کر گزاراہ کیا ہے یہ سب کیا تھا
السلام علیکم
آپ کی بات بالکل صحیح اور دل کو لگنے والی ہے کہ پاکستان میں جو کرپشن ہے اور قانون و انصاف کا جسطرح امیرزادے اور کرپٹ لوگ قتل کرتے ہیں، اس سے باغی قوتوں کو فروغ ملتا ہے [چاہے وہ مذہب کے نام پر ہو یا پھر ذات پات و لسانی و صوبائی بنیادوں پر]

مذھبی قوتوں کو بہرحال "آج کے حالات" کے مطابق فیصلہ کرنا ہے٫

1۔ جہاد بالسیف کا وقت آنے کی ایک پری کنڈیشن یہ ہے کہ آپکو اسلام کی تبلیغ نہ کرنے دی جا رہی ہو۔ دوسرا یہ کہ آپ کو اسلامی شعار پر عمل نہ کرنے دیا جا رہا ہو۔
2۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں جہاد بالسیف کی کوئی بھی شرط پوری نہیں ہو رہی ہے کہ خون بہا کر طاقت میں آیا جائے۔
3۔ لہذا "آجکل کے حالات" اور پاکستان کی جمہوری سیاسی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے مذھبی قوتوں کے لیے اسکے علاوہ کوئی اور بہترین راہ نہ ہو گی کہ وہ "تبلیغ" پر زور صرف کریں اور عوام میں شعور پیدا کریں۔
4۔ ایک دفعہ عوام میں اس جہاد بالشعور کے ذریعے علم آیا تو پھر یہی عوام جو نواز و زرداری کو منتخب کرتی ہے، وہی مذھبی قوتوں کو بھی منتخب کر سکتی ہے۔
5۔ خصوصی طور پر آجکل کے حالات کے مطابق مذھبی قوتوں میں کئی پہلو سے کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں، مثلا مذھبی قوتوں کا آپس میں اختلافات و رنجشیں اور متحد نہ ہونا۔۔۔۔۔ ایک بہت بڑے طبقے کا طالبنائزیشن کے لیے دہشتگردی و خود کش حملوں کا استعمال و تعلیمات دینا [جو کہ جمہوری حوالے سے مذھبی قوتوں کے لے سب سے زیادہ خطرناک ہے اور عام لوگ ہر صورت اسکے بعد ان مذھبی لوگوں سے متنفر اور بیزار ہوں گے]
6۔ ایران، ترکی اور الجزائر کی اسلامک سالویشن فرنٹ، اور اسی طرح ملائشیا وغیرہ میں اسلامی قوتیں عوامی لیول پر مقبول ہیں۔ ترکی کی مثال سب سے شاید بہترین ہو کہ وہاں اسلامی جماعت سب سے زیادہ سوشل سروسز مہیا کرتی ہے [برعکس طالبانی قوتوں کے]۔
7۔ پاکستان میں مذھبی قوتیں جمہوریت کے محاذ پر آج کی نسبت کہیں زیادہ مضبوط ہوتیں اگر پاکستان میں یہ طالبانی خون خرابہ نہ ہوا ہوتا۔
8۔ اگر آجکل کے حالات میں پاکستان میں اسلامی انقلاب لانا ہے تو طالبانی طبقے کو اس خون خرابے سے ہاتھ کھینچنے ہوں گے اور پرامن طریقے سے تبلیغ کے ذریعے اکثریت حاصل کر کے قوت میں آنا ہو گا۔ ورنہ اس خون خرابے سے وہ پاکستان میں صرف اسلام کو مزید نقصان ہی پہنچاتے رہیں گے۔

ایران، لبنان، ترکی میں اسلامی قوتوں کو غیر جمہوری طریقوں سے دبایا گیا مگر کبھی بھِی مذھبی قوتوں نے ایسے خودکش حملے وغیرہ نہیں کیے اور نہ ہی لوگوں کو ذبح کیا۔ بہتر ہے کہ پاکستانی مذھبی قوتیں ادراک کریں کہ کیا چیز اسلام کے نام پر فتنہ بن گئی ہے اور جہاد و فساد میں فرق کریں۔
 

امکانات

محفلین
السلام علیکم
آپ کی بات بالکل صحیح اور دل کو لگنے والی ہے کہ پاکستان میں جو کرپشن ہے اور قانون و انصاف کا جسطرح امیرزادے اور کرپٹ لوگ قتل کرتے ہیں، اس سے باغی قوتوں کو فروغ ملتا ہے [چاہے وہ مذہب کے نام پر ہو یا پھر ذات پات و لسانی و صوبائی بنیادوں پر]
4۔ ایک دفعہ عوام میں اس جہاد بالشعور کے ذریعے علم آیا تو پھر یہی عوام جو نواز و زرداری کو منتخب کرتی ہے، وہی مذھبی قوتوں کو بھی منتخب کر سکتی ہے۔
7۔ پاکستان میں مذھبی قوتیں جمہوریت کے محاذ پر آج کی نسبت کہیں زیادہ مضبوط ہوتیں اگر پاکستان میں یہ طالبانی خون خرابہ نہ ہوا ہوتا۔

وعلیکم السلام مہوش میں آپ کو ایک معمولی لڑکی سمجھتا تھا مگر آپ کی معلوماات نے آپ کوغیر معمولی بنادیا ہے آپ کی معلومات کی داد نہ دینا آپ کی علم دوستی کی نا قدری ہے ایک وضاحت میں آج تک جب کسی خاتون کو باجی لکھتا رہا ہون تو یہ میرا غصے کے اظپار کا ایک طریقہ ہوتا ہے مطلب آپ باجی ہیں بڑی ہیں آپ نے کہان ماننا عام طور پر چھوٹے بہن بھائی بڑوں کے اس ظلم کا شکار رہتے ہیں مگر اج جب میں آپ کو باجی مخاطب کروں تو اس کا مطلب غصہ نہیں ہوگا بلکہ عقیدت ہوگی
باجی بات یہ کہ آپ نے جہوریت کی بات کی ہے جہوریت کے ذریعے مذہبی جماعتوں نے انقلاب لانے کی بہت کوشش کی مگر یہ کوشش ناکاام بنادی گئی پاکستان میں شروع ہی سے مذھبی جماعتوں کو فیصلہ سازی سے دور رکھا گیا ہے میں صرف جماعت اسلامی کی مثال دونگا اس کے دستور میں یہ بات شامل ہے کہ وہ انتخانی اورجمہوری عمل کے ذریعے انقلاب لائے گئ جس جماعت کا دستوری یقین اتنا مضبوط ہو اور اس نے جدوجہد میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو اس کا حال یہ کہ اس نے 2008 کے انتخاب میں بائکاٹ کر دیا جماعت اسلامی کے بائیکاٹ نے مذہبی جماعتوں کے انتخابی سیاست پے سے اٹھے ہوئے اعتماد کو واضح کردیا ہے مذہبی جماعتوں نے انتخابی سیاست سے مایوس ہوکر کنارہ کشی اختیار کرلی ہے ایک وقت تھا انتخاب مذہبی اور سیکولر قوتوں کے مابین ہو کرتا تھا ااورمذہبی جمااعتون کی تعداد درجنوں میں تھی اوراج انتخانی سیاست پر یقین رکھنے والی ایک جماعت باقی رہ گئی ہے یہ جے یو ائی ہے کچھ لوگ اسے مذہبی نہیں خالصتا سیاسی جماعت سمجھتے ہیں اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ مذہبی جما عتوں کا انتخابی سیاست پر ٹوٹا ہوا اعتماد اب بحال نہیں ہوگا مجلس سر حد کے اقتدار میں تھی امریکی حملے بھی جاری رہے اورعسکریت پشدی اتنی کہیں نہ تھی جب انکا اقتدار گیا مایوسی نے انتہا کردی پاکستان میں جب تک مذہبی قوتوں کو اقتدار میں شراکت کا جائز موقع نیہیں دیا جائے گا اور انتخابی سیاست پر ان کا ٹوٹا ہوا اعتماد بحال نہیں کیا جائے گا ان تحریکوں کو کوئی نہیں روک سکتا میں صرف ایک مثال دیتا ہوں کہ سرحد حکومت کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ مذہبی قوتوں نے احتجاج کی بجائے خاموشی اختیار کر لی ایک بار میں نےایک بڑی مذہبی شخصت سے رابطہ کیا کہ فلان واقعے پر آپ کا کیا ردعمل ہے تو انہوں نے مجھے آف دی ریکارڈ بتایا کہ ہم احتجاج کس طرح کریں ہم نے ووٹ دے حکومت بنوائی ہے احتجاج کریں گے تولوگ کہیں گے کہ اپنی حکومت کےخلاف احتجاج کر رہے ہیں آج کی سرحد حکومت جب جنگجووں سے مذاکرات کرتی تو امریکہ کےعلاوہ سب اسے اچھا کہتے ہیں اور جب مجلس کی حکومت نے قبائلیوں سے مذاکرات کی بات کی تو سب نے کہا مجلس دہشت گردوں سے ملی ہوئی ہےیہ طالبانی تحریکیں مذھبی طاقتوں کے انتخابی سیاست پر اٹھا ہوئے اعتماد کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں انہیں اقتدار میں شریک کرکے انکی مایوسی ختم کی جاسکتی ہے یہ کام ہم نے قیام م پاکسان سے لیکر آج تک نہیں کیا اس موضوع پر میں نے پورا کالم لکھنا تھا آدھا اپ نے لکھوادیا ہے
 

مغزل

محفلین
زبیر صاحب ۔۔ مہوش کے اٹھائے ہوئے نکات اور آپ کی وضاحیتیں گر جمع کردیں جائیں تو ایک اور ’’ کالم ‘‘ تیار ہے ۔
ویسے ایک خبر ہوئی کہ آپ ’’ باجی ‘‘ کیوں کہتے ہیں ۔۔ لیکن ہم آپ کو خبر نہ ہونے دیں گے کہ ہم آپ کو ’’ بھیا ‘‘ کیوں
کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہہہہ

ویسے موضوع ابھی تشنہ ہے ۔۔ مہوش بی بی ،۔۔۔ مزید حملے !! شاباش !!

آپ دونوں کی بصیرت کا قائل
نیاز مشرب
 

امکانات

محفلین
زبیر صاحب ۔۔ مہوش کے اٹھائے ہوئے نکات اور آپ کی وضاحیتیں گر جمع کردیں جائیں تو ایک اور ’’ کالم ‘‘ تیار ہے ۔
ویسے ایک خبر ہوئی کہ آپ ’’ باجی ‘‘ کیوں کہتے ہیں ۔۔ لیکن ہم آپ کو خبر نہ ہونے دیں گے کہ ہم آپ کو ’’ بھیا ‘‘ کیوں
کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہہہہ

ویسے موضوع ابھی تشنہ ہے ۔۔ مہوش بی بی ،۔۔۔ مزید حملے !! شاباش !!

آپ دونوں کی بصیرت کا قائل
نیاز مشرب

باجی سے لڑ کر دماغ ویسے ہی آدھا ہو گیا ہے آپ کے کیا ارادے ہیں‌
 

جہانزیب

محفلین
کالم نگار کو تو ہر دم تنفید کے لئے تیار رہنا چاہیے ۔۔ کیا آپ نے ہم سے صرف واہ واہ سننے کے لئے کالم یہاں‌ چپکایا ہے:grin:
 

امکانات

محفلین
کالم نگار کو تو ہر دم تنفید کے لئے تیار رہنا چاہیے ۔۔ کیا آپ نے ہم سے صرف واہ واہ سننے کے لئے کالم یہاں‌ چپکایا ہے:grin:

کیا آپ کا بھی تنقید کرنے کا اردہ ہے پہلے آپ نے تعریف کب کی جو ڈرانے آگے ہیں‌ ہہلے آپ تنقید کریں یہ دماغی دھمکیاں روز کے بخار کو تھیں آپ کے لیے تازہ دم ہیں مہوش نے جو تعریف کی ہے اس سے دماغ ٹھکانے ایا تھا اب ٹھیک ہوگیا اخر افطاری کا ٹا ہم قریب ہورہا ہے
 

امکانات

محفلین
میرے پاس تو دماغ ہے ہی نہیں ۔۔۔

پھر مہربانی فر ما کر آپ آج گھر نہ جا ئیں ورنہ مفت میں بھا بی کی شامت آجائے گی اس لڑائی کو سن کر میری بھتیجی روپڑے گی مرد جب کچھ نہیں کر سکتے تو مظلوم عورت پر رعب جھاڑتے ہیں حقوق نسواں کی تقریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہنےدیں لمبی ہو جائے افظاری کا وقت قریب ہے اس سے زیادہ جھوٹ لکھنے کی طاقت نہیں
 
Top