محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
کے ٹو کے بلند وبالا پہاڑ ی سلسلہ ہو یا دریائے سندھ کے زرخیز میدانی علاقے پاکستان ، نگاہیں خیرہ کردینے والے نظاروں اورمتنوع آب وہوا پر مشتمل سرزمین ہےجبکہ اسکا ثقافتی ورثہ متاثر کن ہے۔ عہد قدیم کا سلک روڈاور موہنجودڑو کےکھنڈرات اگر ایک جانب یہاں کا سفر کرنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں تو دوسری جانب یہاں کے میدانی علاقے اور اب تک لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ علاقے ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔
آئیے آپ کو ان خوبصورت علاقوں اور وادیوں کی سیرکرائیں اور یہاں کی خاص خاص باتوں سے آپ کو آگا ہ کریں ،،،،!!!
دیوسائی نیشنل پارک
یہ جن یا دیوزادوں کی سرزمین کے نام سے جانی جاتی ہے۔یہاں برف سے ڈھکے ہوئے بلندوبالا پہاڑوں کے درمیان سطح مرتفع پر جھیلیں ہیں۔بہاروں کے موسم میں یہ سرسبز وادی جنگلی پھولوں اور تتلیوں سے ڈھک جاتی ہے۔ مقامی لوگ اسے گرمائی محل بھی کہتے ہیں اور موسم سرما کے بعد وہ جنگلی حیات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔یہ حیاتیاتی تنوع سے بھرپور علاقہ تبتی بھیڑیوں، ہمالیائی پہاڑی بکروں، تبتی سرخ لومڑیوں اور سنہرے گلہریوں کا خاص علاقہ ہے۔حکومت نے اس پارک کو 1993میں جنگلی حیات کے لیے محفوظ پارک قرار دیا تھا، اس کا مقصد معدوم ہوتے ہوئے ہمالیائی براؤن ریچھ کا تحفظ ہے۔اس پارک کو 2016میں عالمی ورثے کے طور پر نامزد کیا جاچکا ہے۔
وادی کاغان
انتہائی خوبصورت اور دلکش وادی کاغان شمالی پاکستان میں پریوں کے دیس جیسا علاقہ ہے۔ ایک پرانی مقامی کہانی کے مطابق پرشیا کا ایک شہزادہ جھیل سیف الملوک کے شفاف پانی کے اوپر ایک پریوں کی شہزادی کے عشق میں مبتلا ہوگیا لیکن ایک جن بھی اس شہزادی کا عاشق تھا لہٰذا اس نے شہزادی کو قید کرلیا۔ایک دن موقع پاکر شہزادہ اس پری کو لیکر یہاں سے فرار ہوگیا۔ اس صورتحال پر جن بہت گرجا برسا اور اس نے غصے میں آکر اپنے آنسوؤں سے اس وادی میں سیلاب برپا کردیا جس سے یہاں جھیلیں بن گئیں۔آج دنیا بھر سے لوگ وادی کاغان کا رخ کرتے ہیں جہاں بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان جھیلیں اور دل کو موہ لینے والے نظارے ان کے منتظر ہوتے ہیں جبکہ راتوں میں یہاں کے آسمان بالکل صاف ہوتے ہیں۔
ساحل مکران
مکران کوسٹل ہائی وے ایک نہایت ہی خوبصور ت شاہراہ ہے جو جنوبی پاکستان میں بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ تعمیر کیا گیا ہے، یہ کراچی سے شروع ہوکر گوادر سے ہوتا ہوا یرانی سرحد تک جاتا ہے، اسے اس علاقے میں ترقیاتی حوالے سے ایک بڑا انفراسٹرکچرل کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔اس شاہراہ کا ایک سیکشن ہنگول نیشنل پارک میں درہ بوزی سے گزرتا ہے جو آسمان سے بات کرتے اپنی چٹانوں کی وجہ سے بہت ہی دلکش نظر آتا ہے۔یہاں قدرتی طور پر بنے مجسمے بھی موجود ہیں ۔ان مجسموں کا دھڑتو کسی جانور کا معلوم ہوتا ہے جبکہ اس کا سرانسانوں جیساہے،یہ ’شیر بلوچستان‘ بھی کہلاتا ہے۔
ہنزہ
وادی ہنزہ گلگت بلتستان کا شمالی علاقہ ہے ،یہاں دریائے ہنزہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ بہہ رہا ہے جبکہ اس کے اوپر برفانی پہاڑوں کا ایک سلسلہ ایک جانب سے دوسری جانب پھیلا ہوا ہے ۔ہنزہ اپنے ہم نام دریا کے کنارے واقع ہےجبکہ اطراف میں بلندوبالا گلیشیئرز اورگھاٹیاں ہیں۔یہ روایتی طور پر ہندوکش پہاڑسے وادی کشمیر جانے والے مسافروں کے لیے نیچے اترنے کے دوران آرام کرنے کی جگہ کے طور پرجانا جاتا تھا۔یہ وادی برفانی چیتے ، مارخور ، پہاڑی بکرے اور سرخ دھاری والے لومڑیوں کا مرغوب علاقہ ہے۔
ہنگول نیشنل پارک
بالتورو گلیشیئر
وادی نیلم
عطاآباد جھیل
یہ مصنوعی جھیل وادی ہنزہ میں واقع ہے اس کا نیلگوں پانی تیزی سے بہتا ہوا نوکیلے چٹانوں کو کاٹ کر اپنا رستہ بنارہا ہے۔ گو کہ اپنے دلکش نظارے سے یہ یہاں آنے والوں کو مبہوط کردیتا ہے لیکن اس کے وجود میں آنے کی کہانی بڑی خوفناک ہے۔ یہ جنوری 2010میں اس وقت وجود میں آیا جب ایک گاؤں عطاآباد کے قریب ایک بڑی لینڈ سلائیڈ نگ (چٹان سرکنا) ہوئی اور قریبی قصبہ میں سیلاب آگیا جس کے نتیجے میں دریائے ہنزہ کا بہاؤ رک گیا ۔اس تباہ کن صورتحال سے علاقے کے ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے لیکن آج یہ ایک مشہور سیاحتی مقام بن گیا ہے اور سیاح یہاں آکر رکتے ہیں اور اس جھیل میں کشتی رانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔روزنامہ جنگ