قرآنِ کریم کے ظاہری اور باطنی معانی؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
انشاء اللہ اس ڈورے میں ہم احسن طریقے سے بات کریں گے تاکہ ایک دوسرے کی بات کا اچھی طرح سمجھ سکیں (بات کا ماننا یا نا ماننا ضروری نہیں ہوتا، مگر کسی بھی بات کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے)۔

بات ان دو قرانی آیات سے شروع ہوئی تھی۔

قرآن کہتا ہے:
و ما انت بمسمع من فی القبور (فاطر)
"اور تو انہیں نہیں سنا سکتا جو قبر میں ہیں"
اور کہتا ہے:
انک لا تسمع الموتٰی (النمل)
"بے شک تو مردوں کو سنانے والا نہیں"

یہ کرشمہ تصوف ہی میں مل سکتا ہے کہ ان واضح آیات کو "باطنی معانی" کی آڑ میں بالکل ہی الٹے مطلب پہنا دیے جائیں۔

ان دو آیات سے جدید مفسرین یہ ثابت کرتے ہیں کہ "مردے" کوئی سماعت نہیں رکھتے۔ (اسکو عام طور پر "سماعتِ موتیٰ" کا مسئلہ کہا جاتا ہے)۔

ان جدید مفسرین کے مقابلے میں علمائے قدیم یہ رائے رکھتے تھے کہ مردے سن سکتے ہیں اور ان دو آیات میں "سماعت موتی" کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور اگر ان آیات کو "باطنی معنوں" میں نہ سمجھا جائے تو یہ چیز دیگر قرانی آیات اور رسول اللہ کی بہت سے "صحیح احادیث" کے خلاف چلی جائے گی اور یہ ممکن نہیں کیونکہ قران میں تضاد نہیں۔

(ان دیگر قرانی آٰیات اور صحیح احادیث کا ذکر میں بعد میں کروں گی)۔

آئیے اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیوں مودودی صاحب اور محمد بن عبدالوہاب صاحب جیسے جدید مفسرین اس معاملے میں غلطی کا شکار ہیں اور کیا یہ واقعی انصاف ہو گا کہ قدیم علماء کی آراء کو پڑھنے بغیر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے؟

اللھم صلی علی محمد و آل محمد۔


پی ایس:

آپ کو یہ بھی بتاتی جاؤں کہ صرف اتنی سی بات نے کہ "ان دو آیات کو ظاہری معنوں میں لیا جائے یا باطنی معنوں میں" ۔۔۔ تو اس چھوٹی سی بات نے امت میں ایک عظیم فتنہ پیدا کیا ہوا ہے اور مسلمانوں کی دو گروہ اس بات پر عرصے سے ایک دوسرے سے اختلاف کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ صرف اگر ان دو آیات کے معنوں پر امت میں اتفاق ہو جائے تو شاید بہت سے فتنے خود بخود ختم ہو جائیں۔ انشاء اللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ آیات اس بات کو ثابت کر رہی ہیں کہ مردے نہیں سن سکتے، یا پھر یہ کہ یہ جدید مفسرین حضرات پھر اپنی ظاہر پرستی کی وجہ سے اس کا اصل مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔

وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاء وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاء وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ
(القران ۳۵:۸۰) اور زندہ اور مردے برابر نہیں ہوسکتے(یہ صرف) اللہ (ہے جو) جس کو چاہتا ہے اپنی بات سنا دیتا ہے (یعنی ہدایت دے دیتا ہے) اور آپ انہیں نہیں سناسکتے (یعنی ہدایت نہیں کر سکتے) جو قبروں کے اندر رہنے والے ہیں۔

اس آیتِ مبارکہ میں "سننا" مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد صرف اور صرف "بات کا ماننا" ہے۔

اسی طرح اوپر کی آیت میں "سننے" کا یہ لفظ اپنے اِس "بات یا ہدایت نہ ماننے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ مگر چونکہ یہ جدید مفسرین قران کو ظاہری معنوں میں لیتے ہیں، اسی لیے وہ اس آیت کو بھی ظاہری معنوں میں لیتے ہیں۔

اگر آپ اس آیت سے قبل اور اس آیت کے بعد آنے والی آیات پر ایک نظر ڈالیں گے تو یہ بات آپ پر اور واضح ہو جائے گی کہ اللہ اس "سننے" کے لفظ کو کن معنوں میں استعمال کر رہا ہے۔ اللہ اپنے حبیب ﷺ کو اگلی آیت نمبر ۲۳ میں کہہ رہا ہے کہ:

إِنْ أَنتَ إِلَّا نَذِيرٌ
آپ تو صرف ڈرانے والے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

اور ساتھ میں رسول ص کو یہ بھی کہہ رہا ہے کہ یہ آپ ص کا فرض نہیں ہے کہ لوگوں سے حق بات کو منوائیں بھی، کیونکہ یہ صرف اور صرف اللہ ہے جو ہر اُس شخص کو ہدایت دیتا ہے جسے وہ چاہتا ہے۔

دیکھئیے کہ اللہ اسی آیت کے شروع میں کیا کہہ رہا ہے:

إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاء
(یہ) اللہ ہی ہے جو جسے چاہے سنوا دیتا ہے

آیت کے اس حصے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو ان لوگوں کو ہدایت سننے (ماننے) کی توفیق دیتا ہے جس سے وہ خوش ہوتا ہے۔

ذرا تصور کریں، آپ کسی بھی کافر کے پاس جا کر بولنا شروع کر دیں، تو کیا وہ آپ کی آواز نہیں سنے گا؟ اور اگر وہ کافر آپ کی آواز سن سکتا ہے، تو پھر اللہ کے اس فرمان کا کیا مطلب ہوا کہ:

"(یہ) اللہ ہی ہے جو جسے چاہے سنوا دیتا ہے"

اگر ان جدید مفسرین حضرات کا یہ دعویٰ درست ہے کہ "سننا" یہاں پر اپنے ظاہری معنوں میں استعمال ہوا ہے تو پھر اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ معاذ اللہ قران میں تضاد ہے اور معاذ اللہ خدا جھوٹ بول رہا ہے۔ یعنی ایک طرف تو اللہ دعویٰ کر رہا ہے کہ صرف وہی شخص سن سکتا ہے کہ جسے اللہ چاہے، اور دوسری طرف آپ ہیں جو جا کر ہر اُس کافر کو اپنی آواز سنا رہے ہیں کہ جسے آپ چاہیں۔

اس آیت کا مطلب بالکل صاف ہے۔ اللہ کہہ رہا ہے کہ صرف ان لوگوں کے پاس ہدایت سننے (ماننے) یا پھر رد کرنے کا حق ہے جو کہ زندہ ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو مر چکے ہیں، ان کے پاس اب ہدایت سننے (ماننے) یا رد کرنے کا کوئی حق نہیں رہا ہے کیونکہ ان کے لیے اب بہت دیر ہو چکی ہے اور انکا ہدایت کو سننا (ماننا) ان کے لیے کسی فائدے کا نہیں رہا ہے۔(یعنی موت کے فرشتے کو دیکھ لینے کے بعد اللہ پر ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے)۔

اور اللہ یہی بات اپنے حبیب ص کو بتا رہا ہے کہ ان کفار کی مثال بھی اُن مردہ لوگوں جیسی ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے کفر میں اس درجہ آگے بڑھ گئے ہیں کہ جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ان سے یہ حق چھین لیا ہے کہ وہ ہدایت کو قبول کر سکیں۔ (یعنی جس طرح مردوں سے یہ حق چھین لیا گیا ہے، اسی طرح ان سے بھی یہ ہدایت ماننے کا حق چھین لیا گیا ہے)۔

اس لیے اللہ اپنے حبیب ص سے کہہ رہا ہے کہ وہ اس بات پر افسردہ نہ ہوا کریں اگر کوئی کافر ان کی بات اور ہدایت نہ سنے (مانے)۔ اسکی واحد وجہ یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر قفل لگا دیا ہے اور یہ حق ہی چھین لیا ہے جیسا کہ مردوں سے یہ حق چھین لیا ہے۔ اور یہ صرف اللہ ہی ہے جو جسے چاہے ہدایت دے اور دلوں پر پڑے قفل کو کھول دے۔ اللہ قران میں فرما رہا ہے:

إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
(القران ) پیغمبر بیشک آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور وہ ان لوگوں سے خوب باخبر ہے جو ہدایت پانے والے ہیں

اور یہی حقیقت اللہ نے اور بہت سے جگہ قران میں واضح فرمائی ہے:
وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ
(القران ) اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں آپ تو صرف ان لوگوں کو سناسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں

یہ آیت بہت اہم ہے۔

دیکھئیے کہ جب اللہ کہہ رہا ہے کہ:

اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں

اگر ہم ظاہر پرستی کی روش پر چلیں تو ہمیں یہ اعلان کرنا ہو گا کہ تمام کے تمام اندھے لوگ کبھی حق بات کو نہیں مان سکتے اور وہ ہمیشہ گمراہی میں پڑے رہیں گے۔

۲) اور اسی آیت کے دوسرے حصے میں اللہ نے خود "سننے" (تسمع) کا لفظ واضح طور پر استعمال کر کے اس کے مجازی معنوں کو ظاہر کر دیا ہے:

إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ
آپ تو صرف ان لوگوں کو سناسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں

اگر کوئی اب بھی اس بات کا انکار کرتا ہے کہ قران میں کوئی مجاز نہیں ہے، بلکہ یہ پورا کا پورا ظاہر ہے تو یقیناً ایسا شخص غلطی پر ہے۔

اور اس "سننے" کا مجازی معنی اس اگلی آیت میں اللہ نے اور اتنا واضح کر دیا ہے جب وہ کہہ رہا ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم رات اور دن کو آرام کرتے ہو اور پھر فضل خدا کو تلاش کرتے ہو کہ اس میں بھی سننے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں

اس آیت میں "سننے والی قوم" سے اللہ کی مراد "بات کو ماننے والی قوم" ہے ۔


(جاری ہے)​
 

مہوش علی

لائبریرین
لفظ "سننے" کا یہ مجازی استعمال (یعنی ماننے کے معنوں میں ) دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں پایا جاتا ہے۔​

مثلاً جب میرا چھوٹا بھائی میری والدہ کی بات نہیں مانتا تو وہ والد صاحب سے ان الفاظ میں شکایت کرتی ہیں:​

"اب آپ ہی اسے کہیں کہ یہ کام نہ کرے کیونکہ میری بات تو یہ سنتا نہیں ہے (یعنی میری بات تو یہ مانتا نہیں ہے)۔

اسی طرح دوسری زبانوں میں بھی اسکا یہ مجازی استعمال عام ہے۔ مثلاً:​
1.In English: Please you (my father) tell him (my younger brother) to do so and so. He does not Hear/listen to me.
2.In German: Bitte sag du es mal zu ihm um das und das zu tun. Er HÖRT auf mich nicht zu.
3.In Pashtu: Tasu aghey ta owaey che zama khabara de wouri​

اور اسی طرح بہت سی اور زبانوں میں سننا اِس بات نہ ماننے کے مجازی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔​
ابن کثیر الدمشقی کی سورہ فاطر کی اس آیت ۳۵:۲۲ کی تفسیر

ابن کثیر الدمشقی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیںَ:
آن لائن لنک:

وَقَوْله تَعَالَى : " إِنَّ اللَّه يُسْمِعُ مَنْ يَشَاء " أَيْ يَهْدِيهِمْ إِلَى سَمَاع الْحُجَّة وَقَبُولهَا وَالِانْقِيَاد لَهَا " وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُور " أَيْ كَمَا لَا يَنْتَفِع الْأَمْوَات بَعْد مَوْتهمْ وَصَيْرُورَتهمْ إِلَى قُبُورهمْ وَهُمْ كُفَّار بِالْهِدَايَةِ وَالدَّعْوَة إِلَيْهَا كَذَلِكَ هَؤُلَاءِ الْمُشْرِكُونَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمْ الشَّقَاوَة لَا حِيلَة لَك فِيهِمْ وَلَا تَسْتَطِيع هِدَايَتهمْ .
ترجمہ:
اور اللہ کا یہ فرمانا (اللہ جسے چاہتا ہے سنوا دیتا ہے) اسکا مطلب ہے کہ وہ یہ ہدایت دیتا ہے کہ لوگ حجت (ہدایت) کو سنیں اور اسے قبول کریں اور اس پر قائم رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ (اور تم ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں) اسکا مطلب ہے کہ جیسے کہ مردے مرنے کے بعد ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں اور انہیں سچ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ کفر کی حالت میں مرے ہیں اور اسی حالت میں قبر میں چلے گئے ہیں، اسی طرح آپ کی ہدایت اور دعوت ان کفار کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی کیونکہ ان کی شقاوت کی وجہ سے ان کی قسمت میں برباد ہونا لکھا گیا ہے اور آپ ان کو ہدایت نہیں کر سکتے۔

اسی طرح دیگر تمام علمائے قدیم کی دیگر مشہور تفاسیر میں بھی یہی بات لکھی ہوئی ہے کہ یہاں "سننے" سے مراد "ماننا" ہے۔ مثلاً:​

تفسیر ابن قرطبی میں اس آیت کی تفسیر اس لنک میں پڑھیں:
تفسیر جلالین میں اس آیت کی تفسیر اس لنک میں پڑھیں:
تفسیر طبری میں اس آیت کی تفسیر اس لنک میں پڑھیں:​

سورہ نمل کی آیت ۸۰ کی تفسیر

یہ جدید مفسرین حضرات سورہ نمل کی آیت ۸۰ کی غلط تفسیر پیش کر کے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مردے سن نہیں سکتے۔ یہ حضرات صرف یہ ایک آیت پیش کرتے ہیں اور اس سے اگلی آیت کو بالکل گول کر جاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ خود اس لفظ "سننے" کی وضاحت کر رہا ہے۔​

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ
.(القران ۲۷:۸۰) آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور بہروں کو اپنی پکار نہیں سنا سکتے اگر وہ منہ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں​

اس آیت میں پھر یہ حضرات اپنی ظاہر پرستی کا ثبوت دے رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس آیت میں "سننا" اپنے ظاہری معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ان کے دعویٰ کا پول کھولنے کے لیے یہ کافی ہے کہ ہم اس سے اگلی آیت کو غور سے پڑھیں جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود اس لفظ "سننے" کی تشریح کر دی ہے۔​

ذیل میں اس آیت اور اس سے اگلی آیت پیش کی جا رہی ہے اور ساتھ میں اس کی مختصر تفسیر بریکٹ میں ہے تاکہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے کے اللہ اس آیت میں کیا فرما رہا ہے۔​

(القران 27:80) آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے (یعنی انہیں ہدایت مانے پر مجبور نہیں کر سکتے)، اور نہ ہی بہروں کو (یعنی کفار کو) اپنی پکار (یعنی ہدایت) سنا سکتے ہیں (یعنی منوا سکتے ہیں) جبکہ وہ پیٹھ پھیر لیں (یعنی جب کفار آپ کی بات اور اللہ کی نشانیوں پر کان دھرنے کے لیے تیار ہی نہ ہوں۔ مگر اگر یہ کفار (بہرے) اللہ کی نشانیوں پر غور کریں تو اللہ انہیں ہدایت سننے کی توفیق دے دے گا)۔
(القرن ۲۷:۸۱) اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں آپ تو صرف ان لوگوں کو سنا(تسمع) سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں۔

امام قرطبی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:​

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى
الْمَوْتَى " يَعْنِي الْكُفَّار لِتَرْكِهِمْ التَّدَبُّر ; فَهُمْ كَالْمَوْتَى لَا حِسّ لَهُمْ وَلَا عَقْل . وَقِيلَ : هَذَا فِيمَنْ عَلِمَ أَنَّهُ لَا يُؤْمِن .

اور آیت (اور آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے) یہاں "الموتی (مردہ لوگوں)" سے مراد کفار ہیں کہ جنہوں نے تدبر کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ لوگ مردوں کی طرح ہیں جن میں (سوچنے سمجھنے) کی حس باقی نہیں رہیں ہے اور یہ عقل سے عاری ہو چکے ہیں۔ اور یہ (مردہ کا لفظ) ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جن کے بارے میں یہ یقین ہو گیا ہے کہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں (کیونکہ اللہ نے انکے دلوں پر قفل لگا دیا ہے)۔

مگر اب بھی کسی کو شک ہے کہ اس آیت میں اللہ نے بہرے سے مراد کفار لیے ہیں تو ذیل میں سورہ الانعام کی آیت ۲۵ کو ملاحظہ فرمائیں جس میں اللہ خود واضح فرما رہا ہے کہ قوم کے بہرے ہونے سے اسکی مراد کیا ہے:​

وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا حَتَّى إِذَا جَآؤُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَذَآ إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ {25}
اور ان میں سے بعض لوگ کان لگا کر آپ کی بات سنتے ہیں لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں ...یہ سمجھ نہیں سکتے ہیں اور ان کے کانوں میں بھی بہراپن ہے -یہ اگر تمام نشانیوں کو دیکھ لیں تو بھی ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ جب آپ کے پاس آئیں گے تو بھی بحث کریں گے اور کفار کہیں گے کہ یہ قرآن تو صرف اگلے لوگوں کی کہانی ہے {سورہ الانعام6:25}​

اسی طرح سورہ الانفال کی مندرجہ ذیل چار آیات ملاحظہ فرمائیں:​

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ {20}
ایمان والو اللہ و رسول کی اطاعت کرو اور اس سے رو گردانی نہ کرو جب کہ تم سن بھی رہے ہو {20}
وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لاَ يَسْمَعُونَ {21}
اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا حالانکہ وہ کچھ نہیں سن رہے ہیں {21}
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابَّ عِندَ اللّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ {22}
اللہ کے نزدیک بد ترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں {22}
وَلَوْ عَلِمَ اللّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ {23}
اور اگر خدا ان میں کسی خیر کو دیکھتا تو انہیں ضرور سناتا اور اگر سنا بھی دیتا تو یہ منہ پھرا لیتے اور اعراض سے کام لیتے {23}​


اللھم صلی علی محمد و آل محمد​
 

قسیم حیدر

محفلین
تفصیل سے لکھنے کا شکریہ۔ ان شاء اللہ پہلی فرصت میں اپنا موقف بیان کرتا ہوں۔ وطن جانے کی تیاری میں کسی دوسرے کام کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو رہا ہے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
یہ وضاحت کر دیں کہ مردوں کا سننا صرف قریب سے ہوتا ہے یا دور پار سے پکارنے والے کی پکار بھی وہ قبر میں سن سکتے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ وضاحت کر دیں کہ مردوں کا سننا صرف قریب سے ہوتا ہے یا دور پار سے پکارنے والے کی پکار بھی وہ قبر میں سن سکتے ہیں۔

بھائی جی،

بات شروع ہوئی تھی ان آیات کے ظاہری معنی پر۔

مگر آپ کی بات سیدھی چلی گئی ہے مردوں کے "دور یا قریب" کے سننے پر۔ جبکہ یہ بات اُس وقت تک شروع نہیں ہو سکتی جبتک پہلے قریب یا دور کی بجائے کم از کم یہ تو طے ہو کہ مردہ سنتا ہے کہ نہیں۔ ۔۔۔ یعنی اگر مردہ سنتا ہی نہیں تو چاہے دور ہو یا قریب یہ سب برابر ہے۔

یہ ایسا ہی کہ اللہ پر ایمان نہ لانے والے لوگوں سے "توحید" چھوڑ کر پہلے "قیامت اور جنت و جہنم" کی بات شروع کر دی جائے۔ ۔۔۔۔ یعنی جبتک وہ اللہ پر اور اسکی وحدت پر ہی یقین نہیں لائیں گے اُس وقت تک لازمی بات ہے کہ اُن کو اللہ کی وعدہ کردہ "قیامت" پر یقین دلوانا عجیب بات ہو گی۔

///////////////////

بہرحال، اگر آپ ان آیات کے ظاہری معنی والی بحث کو یہیں چھوڑ کر "سماعت موتیٰ" (یعنی مردوں کی سماعت) کی بحث شروع کرنا چاہتے ہیں تو بھی ٹھیک ہے۔

آپ سے درخواست ہے کہ:


1) وہ تمام قرانی آیات پیش کر دیجئیے جو کہ ثابت کر رہی ہیں کہ مردے سن نہیں سکتے۔

2) اور آپکو دوسری دعوت یہ ہے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کوئی "صرف ایک" حدیث ایسی پیش کر دیں جو کہ بیان کر رہی ہو مردے سن نہیں سکتے۔

///////////////////

مسئلہ یہ ہے کہ جو حضرات سماعتِ موتیٰ کے انکار کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ صرف ذیل کے دلائل پیش کرتے ہیں:


1) پہلی دلیل انکی یہ ہوتی ہے کہ اوپر بیان کردہ دونوں قرانی آیات میں "سننا" اپنے ظاہری معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

2ّ) ۔۔۔۔۔ اور دوسری کوئی دلیل ان حضرات کے پاس مجھے نہیں ملی ۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول ص کی "کوئی ایک بھی حدیث" یہ اپنے موقف پر پیش نہیں کر سکتے۔


نوٹ:
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث سے مراد قول یا فعل یا تقریرِ رسول ہے ۔۔۔۔ جبکہ کسی صحابی کا اجتہاد "حدیثِ رسول" نہیں کہلاتا۔ ان دو قرانی آیات کے معاملے میں صحابہ کے اجتہاد میں اختلاف ہو گیا تھا۔ مگر اس اختلاف کو ہم "حدیثِ رسول" نہیں کہ سکتے۔
ان دو قرانی آیات کے متعلق صحابہ میں جو اختلاف ہوا تھا، اس پر بھی سیر حاصل بحث ہم بعد میں کریں گے۔ انشاء اللہ۔

/////////////////

تو بھائی جی،

یہ میں آپ پر چھوڑتی ہوں کہ جیسے چاہیں بحث کو آگے بڑھائیں۔ چاہیں تو ان دو قرانی آیات کے ظاہری معنی کو ثابت کرنے کی بحث جاری رکھئیے ۔۔۔ یا پھر اس کو چھوڑ کر سماعتِ موتی کی بحث شروع کر دی جائے۔ میری کوشش فقط یہ ہو گی کہ جو چیزیں میں اپنی تحقیق کے دوران سیکھ چکی ہوں، وہ اچھے طریقے سے آپ تک پہنچا دوں۔ انشاء اللہ۔

والسلام۔
 

قسیم حیدر

محفلین
شکریہ، میں اپنا موقف پیش کروں گا ان شاء اللہ لیکن کچھ وقت لگے گا۔ مجھے ایک اہم کام سے وطن جانا پڑ گیا اور جلد وقت ملنے کی امید نہیں۔ جونہی فرصت ملتی ہے لکھنے کی کوشش کروں گا۔
 

قسیم حیدر

محفلین
معذرت قبول کیجیے کہ بعض نجی مصروفیات کی وجہ سے جواب لکھنے میں تاخیرہو گئی ۔
بہن مہوش، بہت شکریہ آپ کی وجہ سے مجھے قرآن کریم کی مذکورہ بالا دو آیات کو تفصیل سے سمجھنے کا موقع ملا۔ میرا خیال تھا کہ سوره النمل اور سوره فاطر کی یہ آیات سماع موتیٰ کی قطعی نفی کرتی ہیں لیکن تحقیق کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ کئی صحیح احادیث شاہد ہیں کہ بعض مواقع پر مردے سن سکتے ہیں ۔ البتہ یہ مجھے معلوم نہیں ہو سکا کہ بہن نے کس بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ یا مودودی صاحب رحمہ اللہ ان آیات سے سماع موتیٰ کی مطلقًا نفی ثابت کرتے ہیں۔
دیکھتے ہیں کہ کیوں مودودی صاحب اور محمد بن عبدالوہاب صاحب جیسے جدید مفسرین اس معاملے میں غلطی کا شکار ہیں اور کیا یہ واقعی انصاف ہو گا کہ قدیم علماء کی آراء کو پڑھنے بغیر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے؟

تفہیم القرآن میں ان آیات کی تفسیر میں مجھے کوئی ایسا مواد نہیں مل سکا جس سے میں یہ سمجھوں کہ مفسر اس سے وہی مطلب نکال ہیں جو بہن نے بیان کیا ہے۔
سوره فاطر کی آٰیت “تم مردوں کو نہیں سنا سکتے” کا تفسری حاشیہ یہ ہے۔ “یعنی ایسے لوگوں کو جن کے ضمیر مر چکے ہیں اور جن میں ضد اور ہٹ دھرمی اور رسم پرستی نے حق و باطل کا فرق سمجھنے کی کوئی صلاحیت باقی نہیں چھوڑی ہے”۔ سوره الروم میں یہ آیت انہی الفاظ میں ہے اور اس کی تشریح میں مودودی صاحب نے لکھا ہے “ یہاں مُردوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں، جن کے اندر اخلاقی زندگی کی رمق بھی باقی نہیں رہی ہے، جن کی بندگی نفس اور ضد اور ہت دھرمی نے اُس صلاحیت ہی کا خاتمہ کر دیا ہے جو آدمی کو حق بات سمجھنے اور قبول کرنے کے قابل بناتی ہے۔”
محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ کا موقف براہ راست مجھے معلوم نہیں ہو سکا البتہ سعودی نائب مفتی اعظم الشیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
“نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بتلایا ہے کہ میت کو جب دفن کیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور وہ تمہارے قدموں کی آواز سنتا ہے۔ یعنی ان لوگوں کے قدموں کی آواز جو اسے دفن کر کے جا رہے ہوتے ہیں۔ مردے کا یہ سماع تو دفن کے وقت ہوا۔
اسی طرح دوسرا واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بدر میں قتل ہونے والوں کو مخاطب کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے دریافت کرنے پر فرمایا کہ “ تم اس وقت میری بات ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو” (اوکماقال صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)۔
(مزید دلائل بیان کرنے بعداپنی بات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا)
“ جن مواقع پر حدیث سے مردے کا سننا ثابت ہے اس پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور جن کا ذکر نہیں ہے ان کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے”
(لقاء الباب المفتوح-87-الشيخ العثيمين)
میں دوبارہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں کہ قرآن کریم کی آیات کا غلط مفہوم سمجھتا رہا۔
اگلا قدم اٹھاتے ہوئے یہ بھی فرما دیں کہ صاحب قبر کا سننا قریب اور دور دونوں سے ہوتا ہے؟ اگر وہ سنتا ہے تو پکارنے والے کی فریاد رسی کر سکتا ہے؟
 

قسیم حیدر

محفلین
قرآن کریم کی کئی ایسی آیات ہیں جن کے عموم کی تخصیص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی احادیث میں فرما دی ہے۔ کسی مسئلے کے بارے میں وارد تمام آیات اور احادیث کو سامنے رکھ کو کوئی حکم لگانا "باطنی معنی" ہرگز نہیں ہو سکتے۔پہلے ہم ایک مسئلے پر کسی حتمی نتیجے پر پہنچ لیں یا کم از کم طرفین کا موقف تفصیل سے سامنے آ جائے تو پھر اس پر بات ہو گی کہ "باطنیت" کیا چیز ہے، "باطنی معنی" سے مراد کیا ہے، اور علماء اس بارے میں کیا کہتے آئے ہیں۔ (ان شاء اللہ)
 

مہوش علی

لائبریرین
میں شروع میں حیران ہوئی اور بعد میں خوشی ہوئی کہ آپ نے اتنی خوش دلی کے ساتھ دلائل کو قبول کیا۔ میرے نزدیک یہ چیز انسان کی اندر کی پاکیزگی کو ظاہر کرتی ہے۔ اللہ تعالی آپکے قلب کو مزید پاکیزگی و طہارت عطا فرمائے۔ امین۔

محمد بن عبد الوہاب صاحب کی شاید ایک عدد تفسیر القران موجود ہے اور جب میں نے یہ سوال ایک جگہ اٹھایا تھا تو ایک عالم نے ان آیات کی پوری تفسیر وہاں سے پڑھ کر سنائی تھی۔ اور اسکا لب لباب یہ تھا کہ "اس سے سماعتِ موتی ثابت ہوتا ہے۔"

مودودی صاحب کے لیے مجھے تھوڑا وقت دیجیئے۔ مجھے علم ہے کہ مودودی صاحب نے تفہیم میں سماعتِ موتی کے مسئلے کو نہیں اٹھایا، مگر آج سے پانچ چھ سال قبل سماعتِ موتی کے مسئلے پر مودودی صاحب کے حوالے سے ایک تحریر پڑھی تھی جہاں اس چیز کا ذکر تھا۔ ۔۔۔ مجھے مودودی صاحب کی دو چار کتب جیسے رسائل و مسائل وغیرہ کھنگالنے دیجئیے۔ اگر ریفرنس مل گیا تو ٹھیک، ورنہ مودودی صاحب کے حوالے سے میں اپنے الفاظ معذرت کے ساتھ واپس لے لوں گی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ان دو قرانی آیات کے غلط معنی سمجھنا کیا واقعی قسیم برادر کی غلطی تھی؟
قسیم برادر:
یں دوبارہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں کہ قرآن کریم کی آیات کا غلط مفہوم سمجھتا رہا۔
مگر قسیم بھائی، مجھے اس سے انکار ہے کہ یہ آپکی غلطی ہے۔

اگر آپکی غلطی ہوتی تو یہ ایک "انفرادی" غلطی ہوتی۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان دو آیات کے معنوں میں غلطی کرنا MASS لیول پر ہے اور Masses کی ایک اجتماعی غلطی بن چکا ہے؟

تو یہ غلطی آپکی ہے، اور نہ اُن لاکھوں مسلمانوں کی جو ان آیات کو ظاہری معنوں میں لیتے ہیں، بلکہ یہ غلطی ہے اں کی ہے جنہوں نے اس صدی میں آ کر ان غلط معنوں کو اپنی تفاسیر اور لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والی کتب کے ذریعے فروغ دیا۔

ان غلط معنوں کہ پھیلانے والے منابع

"۔۔۔قرآن کریم کی اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سماع موتی کا عقیدہ قران کے خلاف ہے۔ مردے کسی کی بات نہیں سن سکتے۔۔۔۔۔" [تفسیر سورہ نمل آیت 80، از شاہ فہد پرنٹنگ پریس سعودی عرب]

اکیلا یہ قران لاکھوں کی تعداد میں اردو زبان میں چھپ کر مفت تقسیم ہوا ہے۔
جرمنی میں "اسلامک سنٹر میونشن" نے قران کا ترجمہ اور تفسیر 5 جلدوں میں جرمن زبان میں شائع کیا ہے اور وہاں بھی یہی معنی درج ہیں۔

www.islam-qa.com
شیخ الصالح منجد کی یہ سائیٹ مختلف زبانوں میں ہے۔
اردو اور انگلش میں سماعت موتی پر کئی سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں اور ہر جگہ یہ آیات غلط معنوں میں استعمال کی گئی ہیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ میں بات کو مختصر کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔ انٹرنیٹ پر ہزاروں کی تعداد میں ویب سائیٹ عربی انگریزی اردو اور دیگر زبانوں میں ہیں جہاں یہ آیات غلط معنوں میں پیش کی جا رہی ہیں۔ مثلا www.deenekhalis.com۔۔۔۔ اور دیکھئیے اردو پیجز جیسے ڈسکشن فورمز جہاں مسلسل سماعت موتی پر یہ آرٹیکلز پیش ہوتے ہیں ۔۔

پھر لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والے کتابچے اور کتب، جو کہ مفت تقسیم کیے جاتے ہیں اور ہر جگہ ان آیات کے غلط معنی پیش کیے گئے۔

۔۔۔۔۔۔ تو یہ ہیں اس غلطی کے اصل منابع۔.....

اور اس چیز کا امتِ مسلمہ پر مجموعی اثر کیا ہے؟؟؟؟

تو ان ہزار ہا ویب سائیٹ پر موجود آرٹیکلز، اور لاکھ شائع شدہ کتابچوں اور کتب کا نتیجہ ہے کڑوڑ ہا مسلمانوں کا ان آیات کے غلط معنوں کی غلطی میں مبتلا ہونا۔

کیا مسلم علماء نے اس غلطی کی تصحیح کرنے کی کوششیں کیں؟

آٹے میں نمک کے برابر۔

بات یہ ہے کہ جن علماء نے اس غلطی پر احتجاج کیا، اُنکے پاس معاشی وسائل نہیں کہ وہ ان لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والے کتابچوں اور کتب کا مقابلہ کر سکیں۔ مسلمان قوم کا طرز عمل یہ ہے انہوں نے اسے ایک پراپیگنڈہ وار بنا دیا ہے کہ جسے طاقتور حریف نے دلائل نہیں بلکہ دولت کے بل بوتے پر جیت لیا ہے۔

کیا مودودی صاحب یا جماعتِ اسلامی سے اس غلطی کی اصلاح کی کوشش ہوئی؟


جب ایسی غلطیاں ہوتی ہیں تو ان کا تذکرہ کیا جانا بہت ضروری ہوتا ہے اور تذکرہ کر کے انکی اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر مودودی صاحب کی تفہیم، یا پھر جماعت اسلامی کی طرف سے ایک بھی اس غلطی کی اصلاح کی کوئی کاوش نظر نہیں آتی [بلکہ شاید پوری جماعت ہی مجموعی طور پر اس غلطی میں مبتلا ہو]۔

کیا شیخ عثیمین نے اس غلطی کی اصلاح کی؟

شیخ عثیمین نے ان دو آیات کے صحیح معنی بیان نہیں کیے اور نہ اُن لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی جو اس غلطی میں مبتلا ہیں۔ بلکہ انہوں نے صرف یہ کہا کہ مردے چند حالات میں سن سکتے ہیں۔ تو کیا یہ چیز اس غلطی کی اصلاح کے لیے کافی ہے؟ تو کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اس سے اپنی غلطی کی اصلاح کر لی؟

ان غلط معنوں کی وجہ سے امت مسلمہ میں پھیلنے والا فساد و فتنہ


آپ لوگ اس تھریڈ پر قسیم برادر کی پوسٹ پڑھیں ۔ یہ پوسٹ انہوں نے اُس وقت کی ہے جبتک انہیں ان آیات کے اصل معنی پتا نہیں چل گئے تھے۔ آپکو اس میں ہلکی سی "جارحیت" کی جھلک نظر آئے گی [قسیم برادر سے معذرت کے ساتھ]۔ مگر جب انہیں ان آیات کے صحیح معنی پتا چلے تو انکا رویہ مختلف تھا۔

اب قسیم برادر انتہائی نفیس انسان ہیں۔ جبکہ ہمیں پتا ہے کہ انتہا پسند ہر قوم اور ہر طبقے میں پائے جاتے ہیں۔ تو ان انتہا پسندوں کے ہاتھ میں یہ غلط معنی ایک خطرناک ہتھیار کی مانند ہیں کیونکہ ان آیات کے ذریعے وہ براہ راست "شرک" کے فتوے بلا جھجھک صادر کر دیتے ہیں۔


اور جب میں کہتی ہوں کہ قسیم برادر ایک نفیس انسان ہیں تو اس میں کوئی غلط بیانی نہیں کر رہی ہوتی بلکہ یہ اُن پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ اور آپکو اس چیز کا اندازہ اس بات سے ہو جائے گا کہ میں نے اس سے قبل پچیس تیس مرتبہ ان آیات کے صحیح معنی لوگوں کے سامنے پیش کیے ہیں۔ مگر مجھے ان پچیس تیس بار ایک مرتبہ بھی کامیابی نہیں ہوئی کہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکوں اور ان تمام کے تمام جملہ اصحاب نے مجھے جھٹلا دیا اور مجھ سے جھگڑنے لگے اور ان آیات کے غلط معنوں والے اپنے پرانے موقف پر قائم رہے اور بہت سوں نے مجھ پر مشرکہ کا فتوی بھی جاری کر دیا۔ ۔۔۔۔۔ تو ایسے تجربات کی روشنی میں قسیم برادر کا یہ رویہ ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے اور اس پر میں اپنے پالنے والے رب کا شکر ادا کر رہی ہوں۔

اللہ تعالی آپ سب پر اور محمد و آل محمد پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے۔ امین۔
 

مہوش علی

لائبریرین
قسیم بھائی آپ نے مزید لکھا ہے:

اگلا قدم اٹھاتے ہوئے یہ بھی فرما دیں کہ صاحب قبر کا سننا قریب اور دور دونوں سے ہوتا ہے؟ اگر وہ سنتا ہے تو پکارنے والے کی فریاد رسی کر سکتا ہے؟

تو اسکے لیے آپ کو تھوڑا صبر کرنا پڑے گا۔ دیکھئیے میں نے کتنے صبر سے آپ کا انتظار کیا ہے :)

میرے نزدیک یہ سوال سب سے آخر میں اٹھنا چاہیے تھا۔ صورتحال یہ ہے کہ ابھی تو مردوں کے سننے کے متعلق ایک بھی قرانی آیت یا روایت بطور دلیل پیش نہیں کی گئی ہے۔ پھر کچھ ایسے مسائل ہیں جو کہ قسیم برادر کے ان سوالات سے منسلک ہیں اور انکا حل اور طے کیا جانا پہلے ضروری ہے، ورنہ ہم کبھی اپنی بحث کو نتیجہ خیز نہیں بنا سکیں گے۔

چنانچہ قسیم برادر، مجھے صرف دو ڈورے الگ سے شروع کرنے دیں

پہلا: "شفاعت محمدی کو سمجھیے
دوسرا: آیتِ وسیلہ اور قرانی تراجم میں اختلاف و غلطیاں

اسکے بعد میں آپکے ان سوالات کا مکمل جواب عرض کروں گی

//////////////////////////

اگلا قدم اٹھاتے ہوئے یہ بھی فرما دیں کہ صاحب قبر کا سننا قریب اور دور دونوں سے ہوتا ہے؟ اگر وہ سنتا ہے تو پکارنے والے کی فریاد رسی کر سکتا ہے؟

مختصر عرض ہے:

1۔ جب رسول اللہ ص کو مدد کے لیے پکارا جاتا ہے تو نیت صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی شفاعت کے ذریعے ہماری مدد کریں۔ یعنی ہمارے حق میں اللہ تعالی سے "دعا" کرنے کو شفاعت کہا جاتا ہے۔

2۔ رسول اللہ کی یہ شفاعت اللہ کے احکام و مرضی کے تابع ہے اور عطائی ہے (ذاتی نہیں ہے)۔ یعنی اللہ نے شفاعت کے ذریعے مدد کرنے کا یہ حق صرف مسلمانوں کے لیے دے رکھا ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ رسول (ص) کفار کے حق میں دعا و استغفار فرما کر اُن کی مدد نہیں کر سکتے (بلکہ کفار کے لیے صرف یہ دعا ہے کہ اللہ انہیں راہِ راست دکھائے)۔

میں نے مختصر عرض تو کر دیا ہے، مگر بہتر ہے کہ آگے بڑھنے سے قبل تھوڑا انتظار کر لیا جائے۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ سوال کر کے آپ کون سی آیتِ مبارکہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ اس آیت پر مفصل گفتگو کریں گے۔

والسلام۔
 

قسیم حیدر

محفلین
ان غلط معنوں کہ پھیلانے والے منابع

"۔۔۔قرآن کریم کی اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سماع موتی کا عقیدہ قران کے خلاف ہے۔ مردے کسی کی بات نہیں سن سکتے۔۔۔۔۔" [تفسیر سورہ نمل آیت 80، از شاہ فہد پرنٹنگ پریس سعودی عرب]

اکیلا یہ قران لاکھوں کی تعداد میں اردو زبان میں چھپ کر مفت تقسیم ہوا ہے۔
آپ نے شاید اس آیت کی مکمل تفسیر نہیں پڑھی۔ آپ نے جو الفاظ نقل کیے ہیں ان کے بعد یہ جملے بھی موجود ہیں۔
" قرآن کریم کی اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سماع موتٰی کا عقیدہ قرآن کے خلاف ہے۔ مردے کسی کی بات نہیں سنتے۔ البتہ اس سے صرف وہ صورتیں مستثنٰی ہوں گی جہاں سماعت کی صراحت کسی نص سے ثابت ہو گی۔ جیسے حدیث میں آتا ہے ک مردے کو جب دفنا کر واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ "
 
صاحبو، بھائی ااور بہنو، یہ درست ہے کہ عقائد و اعتقاد بچپن سے ذہنوں میں راسخ‌کردئے جاتے ہیں، مردہ سن سکتے ہیں یا نہیں، یہ سوال کوئی نیا نہیں ہے۔ میں اس سلسلے میں جو کہنے کی جسارت کررہا ہوں اس سے کسی کے عقائد و احساسات کو ٹھیس لگانا مقصود نہیں۔ بس استدعا اتنی ہے کہ ہم کو اپنے عقائد سے قرآن کو ثابت کرنے کی کوشش کے بجائے کھلے دل سے قرآن کو پڑھ کر قرآن کی روشنی میں اپنے عقائد کو پرکھنا چاہئیے۔

بہت سادی سی بات ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے، اس کو اللہ نے اس طرح اتارا کہ عام انسان سمجھ سکے۔ اس کی گواہی اللہ تعالی خود دیتے ہیں۔

[AYAH]54:17[/AYAH] [ARABIC]وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ [/ARABIC]
Tahir ul Qadri اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے

اس کے وہ معنی جو سامنے اور واضح ہیں انسانوں کی عقل کے مطابق ہیں اور جو معنی انسانوں کی عقل سے باہر ہیں وہ بس عقل سے باہر ہیں، ان کو صرف اللہ ہی جانتا ہے، انسان کے بس سے باہر ہیں۔ دیکھئے۔

[AYAH]3:7[/AYAH] [ARABIC]هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الْأَلْبَابِ[/ARABIC]
Tahir ul Qadri وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِ اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے

لہذا جب اللہ تعللی فرماتے ہیں کہ [ARABIC]وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ[/ARABIC] اس کے جو واضح معنی ہیں وہ صرف اتنے ہیں کہ
[AYAH]35:22[/AYAH] َ[ARABIC]ومَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاء وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاء وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ[/ARABIC]
اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندے اور نہ مُردے۔ بلاشبہ اللہ سنواتا ہے جسے چاہے اور نہ تم (اے نبی) سنا سکتے ہو ان کو جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔

زندہ اور مردے کا کوئی فرق ہی نہیں رہ جاتا اگر مردہ اور زندہ مساوی طور پر سن سکتا ہے۔
اس سے مزید متشابہہ معنی اگر نکالنا ہی ہے تو ذہن مین رکھنا ضروری ہے کہ متشابہات کے معانی صرف اللہ عز و جل جانتے ہیں۔ ہمارے لئے ان متشابہہ معانی کا نکالنا ناممکن ہے۔

، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِ اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا،

اس لئے ہم کو صرف وہ معانی لینے چاہئیے ہیں جو واضح اور صاف ہیں ۔ کیونکہ متشابہات کے معنے صرف رب کریم ہی جانتا ہے۔
"وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں"
اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا،

غور فرمائیے کہ
َ[ARABIC]ومَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاء وَلَا الْأَمْوَاتُِ[/ARABIC]
زندہ اور مردے برابر نہیں ہوسکتے۔

سننے کے قابل ہوناجاندار ہونے کا ثبوت ہے، مردار ہونے کا ثبوت نہیں۔

مزید دیکھئے: [AYAH]27:80[/AYAH][ARABIC] إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ[/ARABIC]
Tahir ul Qadri بیشک آپ نہ مُردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ ہی بہروں کو پکار سنا سکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر رُوگرداں ہو رہے ہوں
Yousuf Ali Truly thou canst not cause the dead to listen, nor canst thou cause the deaf to hear the call, (especially) when they turn back in retreat.​
Ahmed Ali البتہ تو مردوں کو نہیں سنا سکتا اور نہ بہروں کو اپنی پکارسنا سکتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹیں
Ahmed Raza Khan بیشک تمہارے سنائے نہیں سنتے مردے اور نہ تمہارے سنائے بہرے پکار سنیں جب پھریں پیٹھ دے کر
Shabbir Ahmed بے شک تم نہیں سُنا سکتے مُردوں کو اور نہ تم سُنا سکتے ہو بہروں کو، اپنی پکار جبکہ وہ بھاگے جارہے ہوں یٹھ پھیر کر۔
Literal That you do not make the deads hear/listen, and you do not make the deaf hear/listen (to) the call/prayer if they turned away giving their backs.​

اس آیت میں واضح طور پر بہروں اور مردوں کو مساوی رکھا گیا ہے۔ کہ آپ بہروں اور مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ گویا بہرہ اور مردہ برابر ہیں۔


مزید دیکھئے، کہ آپ کیا کر نہیں سکتے؟ آپ سنا نہیں سکتے ؟ کس کو بہرے کو ---- اور کس کو نہیں سنا سکتے ؟ مردے کو۔۔۔

اب یہ سوال یہ نہیں ہے کہ مردے سن سکتے ہیں‌یا نہیںِ‌اس کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے جب آپ مردوں کی "سنا ہی نہیں سکتے" ؟

[AYAH]30:52[/AYAH] [ARABIC] فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ[/ARABIC]
Tahir ul Qadri (اے حبیب!) بیشک آپ نہ تو (اِن کافر) مُردوں کو اپنی پکار سناتے ہیں اور نہ (بدبخت) بہروں کو، جبکہ وہ (آپ ہی سے) پیٹھ پھیرے جا رہے ہوں
Yousuf Ali So verily thou canst not make the dead to hear, nor canst thou make the deaf to hear the call, when they show their backs and turn away.​
Ahmed Ali بے شک تو مردوں کو نہیں سنا سکتا اور نہ بہروں کو آواز سنا سکتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کرپھر جائیں
Ahmed Raza Khan اس لیے کہ تم مُردوں کو نہیں سناتے اور نہ بہروں کو پکارنا سناؤ جب وہ پیٹھ دے کر پھیریں
Shabbir Ahmed پس (اے نبی) تم ہرگز نہیں سنا سکتے مردوں کو اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو اپنی پکار جب وہ چلے جارہے ہوں پیٹھ پھیر کر۔
Literal So that you do not make the deads hear/listen, and nor make the deaf hear/listen the call/prayer , if they turned away giving (their) backs.


مؤدبانہ استدعا ہے کہ تھوڑا تھوڑا کرکے قرآن کا مطالعہ کیجئے۔ اللہ تعالی نےہم کو تعلیم سے نوازا ہے ، اس تعلیم کی روشنی میں قرآن حکیم مزید ہدایت کاسرچشمہ بن جاتا ہے۔

ان واضح آیات کے بعد بھی اگر بالفرض‌محال یہ مان بھی لیا جائے کہ مردے سن سکتے ہیں تو فطری سوال یہ بیدا ہوتا ہے کہ کیا 1)‌آپ ان کو سنا سکتے ہیں؟ اور 2) کیا وہ بول بھی سکتے ہیں۔ اگر بول نہیں سکتے اور مانگنے والوں کی خواہشات آگے نہیں پہنچا سکتے تو پھر ان سے مانگنے کی کیا وجہ رہ جاتی ہے؟

والسلام۔
 

مہوش علی

لائبریرین
بسم اللہ

فاروق صاحب نے بہت مہذب طریقے سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے، مگر میں ظاہر پرست طبقہ فکر کا ایک عمومی رویہ پیش کر رہی ہوں۔ بہت عجیب بات ہے کہ ظاہر پرست طبقہ فکر کو جب بھی قران کے مجازی معنی سمجھائے جاتے ہیں تو وہ اس پر فورا "متشابہات" کے استعمال کا الزام عائد کرتے ہیں۔ [جبکہ آپ دیکھیں گے کہ یہ حضرات خود بہت سی جگہ پر مجازی معنوں کا استعمال کر رہے ہوں گے]

ریکارڈ کے طور پر میں یہ درج کروا دوں کہ یہ اکیلا میرا نظریہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کے جملہ مفسرین [تاوقتیکہ محمد بن عبداللہ وہاب صاحب کے پچھلی صدی میں آنے کے] کا اس پر اجماع ہے کہ یہان سننا ظاہری معنوں میں استعمال نہیں ہو رہا بلکہ اس سے مراد ہدایت کو ماننا ہے۔

بس ایک ہلکی سی نظر ان آیات پر ایک مرتبہ پھر۔۔۔ اور اللہ تعالی ہمیں دیدہ بینا عطا فرمائے۔امین۔

ان آیات میں بہرا ہونا، نابینا ہونا، سننا وغیرہ کے ظاہری معنی اور مجازی معنی آمنے سامنے

[قران آسان تحریک 30:51] اور اگر کہیں بھیجتے ہم کوئی ایسی ہوا کہ دیکھتے وہ (اس کے اثرسے) کھیتی کو کہ زرد پڑگئی ہے تو ضرور وہ اس کے بعد بھی کفر ہی کرتے رہتے۔
[قران آسان تحریک 30:52] پس (اے نبی) تم ہرگز نہیں سنا سکتے مردوں کو اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو اپنی پکار جب وہ چلے جارہے ہوں پیٹھ پھیر کر۔
[قران آسان تحریک 30:53] اور نہیں ہوتم راہِ راست دکھانے والے اندھوں کو اُن کی گمراہی سے نکال کر، نہیں سناسکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں ہماری آیات پر پھر وہ سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔

آئیے اب ان کے مجازی معنوں کو دیکھتے ہیں جو علمائے قدیم نے بیان کیے ہیں:

(اے نبی) تم ہرگز نہیں سنا سکتے مردوں کو قدیم علماء کے مطابق یہاں موتی سے مراد وہ لوگ ہیں "جنکے دل مر چکے" ہیں
اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو اپنی پکار جب وہ چلے جارہے ہوں پیٹھ پھیر کر۔ اور یہاں "الصم" [بہرے] سے مراد وہ لوگ ہیں "جنکے دلوں کے کان حق بات سننے سے بہرے ہو چکے "ہیں/
اور نہیں ہوتم راہِ راست دکھانے والے اندھوں کو اُن کی گمراہی سے نکال کر، اور یہاں "العمی" [اندھے] سے مراد وہ لوگ ہیں "جنکے دلوں کی آنکھیں نور حق دیکھنے سے" اندھی ہو چکی ہیں۔
نہیں سناسکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں ہماری آیات پر پھر وہ سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ اور یہاں بھی سنانے کا لفظ ظاہری معنوں میں نہیں ہے بلکہ اللہ کہہ رہا ہے کہ "نہیں ھدایت دے سکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں۔۔۔"

اب آئیے ان آیات کو ان معنوں میں سمجھتے ہیں جیسا کہ فاروق صاحب پیش کرنا چاہ رہے ہیں اور آپکا اندازہ ہو جائے گا کہ ان آیات کو ظاہری معنوں میں لینے سے کتنا ظلم ہو گا۔
(اے نبی) تم ہرگز نہیں سنا سکتے مردوں کو ۔۔۔ ظاہر پرست طبقہ فکر کے نزدیک یہاں مردے سے مراد "حقیقی مردے" ہیں اور "سنانے" سے مراد "اپنی آواز کا سنانا" ہے۔
اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو اپنی پکار جب وہ چلے جارہے ہوں پیٹھ پھیر کر۔ اور یہاں "بہروں" سے مراد "حقیقی بہرے" ہیں اور "سنانے" سے مراد "اپنی آواز کا سنانا" ہے۔
اور نہیں ہوتم راہِ راست دکھانے والے اندھوں کو اُن کی گمراہی سے نکال کر، اور یہاں "اندھوں" سے مراد حقیقی اندھے ہیں اور اگر ظاہر پرستی طبقہ فکر کی سوچ کی پیروی کی جائے تو اس آیت کا معنی ہوں گے "اے رسول یہ جتنے [حقیقی ] نابینا اندھے لوگ ہیں [چاہے وہ مسلمان ہوں یا کافر]، یہ سب کے سب گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور اے رسول تم انہیں کبھی ان کی گمراہی سے نکال کر راہ راست پر نہیں لا سکتے۔" ۔۔۔۔۔ تو کیا کوئی اس ظاہری معنی کو قبول کر سکتا ہے؟؟؟
نہیں سناسکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں ہماری آیات پر پھر وہ سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ اور اگر ادھر بھی ظاہری معنی کی پیروی کی جائے تو اس آیت کا مطلب بن جائے گا: " اے رسول، تم اپنی حقیقی آواز نہیں سنا سکتے ہو کافروں کو [چاہے ان کے کانوں کے پردے صحیح ہی کیوں نہ ہوں] ۔۔۔۔۔۔ تو کیا واقعی ایسا تھا کہ کافروں کے کان رسول ص کی حقیقی آواز سننے سے قاصر تھے؟ یا پھر یہاں اللہ حقیقی آواز کی بات نہیں کر رہا، بلکہ بات ھدایت کی ہو رہی ہے؟

تو آپ نے دیکھ لیا کہ ظاہری معنی کی پیروی کرنے سے کیا نتائج نکلیں گے؟

//////////////////////////////////////////

ظاہری و مجازی معنی آمنے سامنے [پارٹ 2]
سورۃ الانفال:

[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ {20}[/ARABIC]
ایمان والو اللہ و رسول کی اطاعت کرو اور اس سے رو گردانی نہ کرو جب کہ تم سن بھی رہے ہو {20}
[ARABIC]وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لاَ يَسْمَعُونَ {21}[/ARABIC]
اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا حالانکہ وہ کچھ نہیں سن رہے ہیں {21}
[ARABIC]إِنَّ شَرَّ الدَّوَابَّ عِندَ اللّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ {22}[/ARABIC]
اللہ کے نزدیک بد ترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں {22}
[ARABIC]وَلَوْ عَلِمَ اللّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ {23}[/ARABIC]
اور اگر خدا ان میں کسی خیر کو دیکھتا تو انہیں ضرور سناتا اور اگر سنا بھی دیتا تو یہ منہ پھرا لیتے اور اعراض سے کام لیتے {23}


اللہ کے نزدیک بد ترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علمائے قدیم کے نزدیک یہاں "بہرے اور گونگے" سے مراد "جن کے دل بہرے ہو چکے ہیں اور "گونگے" سے مراد وہ لوگ جن کے دل حق بات نہیں بولتے۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن اگر ظاہر پرست فکر کی پیروی کی جائے تو اس آیت سے مراد: " اللہ کے نزدیک بدترین لوگ ہیں "حقیقی بہرے و گونگے" جو عقل سے کام نہیں لیتے، جبکہ وہ لوگ جو کہ "حقیقی بہرے و گونگے" نہیں ہیں بلکہ سن اور بول سکتے ہیں، تو وہ دنیا کے بدترین لوگ نہیں ہیں چاہے وہ عقل سے کام لیں یا نہ لیں۔"


اللہ تعالی مجھے صبر دے اور مجھے توفیق دے کہ میں صرف وہ کام کروں جو میرے ذمہ لگایا گیا ہے، یعنی اچھے طریقے سے اپنے دلائل پیش کروں اور ھدایت سننے یا نہ سننے کا کام اللہ پر چھوڑ دوں۔

////////////////////////////////////////////

ظاہری و مجازی معنی آمنے سامنے [پارٹ 3]

[قران آسان تحریک 35:19] اور نہیں برابر ہوسکتا اندھا اور آنکھوں والا۔
[قران آسان تحریک 35:20] اور نہ تاریکیاں اور نہ روشنی
[قران آسان تحریک 35:21] اور نہ چھاؤں اور نہ دُھوپ کی تپش۔
[قران آسان تحریک 35:22] اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندے اور نہ مُردے۔ بلاشبہ اللہ سنواتا ہے جسے چاہے اور نہ تم (اے نبی) سنا سکتے ہو ان کو جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔
[قران آسان تحریک 35:23] نہیں ہو تم مگر متنبہ کرنے والے۔

اور نہیں برابر ہوسکتا اندھا اور آنکھوں والا۔ ۔۔۔۔ ظاہر پرست طبقہ کے مطابق یہاں "اندھے اور "آنکھوں والے سے مراد حقیقی اندھے اور آنکھوں والے ہیں۔
جبکہ علمائے قدیم کے مطابق یہاں "اعمی" اندھے سے مراد "کافر" اور "بصیر" آنکھوں والا سے مراد "مومن" ہے۔

اور نہ تاریکیاں اور نہ روشنی ظاہر پرست ظبقہ کے نزدیک یہاں حقیقی تاریکیاں اور روشنی
جبکہ علمائے قدیم کے مطابق یہاں "ظلمت [تاریکیوں]" سے مراد "باطل" جبکہ "نور [روشنی]" سے مراد "حق" ہے۔

اور نہ چھاؤں اور نہ دُھوپ کی تپش۔ ظاہر پرست طبقہ کے مطابق یہاں حقیقی چھاوں اور دھوپ مراد ہے
جبکہ علمائے قدیم نے فرمایا ہے کہ یہاں "ظل [سایہ]" سے مراد "ثواب و راحت" اور "حرور [سخت گرمی/دھوپ] سے مراد عتاب و عذاب ہے

اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندے اور نہ مُردے۔ بلاشبہ اللہ سنواتا ہے جسے چاہے ۔۔۔۔۔ ظاہر پرست طبقہ کے مطابق یہاں حقیقی زندے و مردے ہیں اور سنانے سے مراد حقیقی سنانا ہے ، یعنی اللہ چاہے تو مردے کو بھی اے رسول آپکی آواز سنا دے [نوٹ: مجھے علم نہیں کہ اگر اللہ اپنے رسول کی حقیقی آواز مردے کو سنوا بھی دے تو اس سے مردے کو کیا فائدے پہنچنے والا ہے؟ ظاہر پرست حضرات سے درخواست ہے کہ وہ لازمی طور پر یہ واضح کریں کہ اگر اللہ رسول کی حقیقی آواز کو مردوں کو سنوا بھی دے تو اس سے مردے کو کیا فائدہ پہنچنے والا ہے]

جبکہ علمائے قدیم فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دلوں کے زندے اور دلوں کے مردے برابر نہیں ہیں۔ اور سنوانا سے مراد ہے "ھدایت کو ماننا"۔
میں نے اپنی اوپر والی تحریروں میں دیگر قرانی آیات سے واضح کیا تھا کہ جب کفار اپنے کفر پر اڑے رہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ اللہ انکے دلوں پر "مہر ثبت" کر دیتا ہے۔ تو ایسے کفار کو سوائے اللہ کے، اور کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ تو یہاں مردوں سے مراد وہی دل کے مردے ہیں کہ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر ثبت کر دی ہے۔

اور نہ تم (اے نبی) سنا سکتے ہو ان کو جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔ ظاہر پرست طبقہ فکر کے نزدیک یہاں سنانے سے مراد اپنی حقیقی آواز کا سنانا ہے۔
جبکہ علمائے قدیم مثلا علامہ قرطبی نے اسکی تفسیر کی ہے " یعنی یہ کافر اہل قبور کی طرح ہیں کہ انکو اگر کوئی نصیحت کی جائے تو یہ اس سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ اسے قبول کرتے ہیں۔"
جیسا کہ میں نے اپنی اوپر والی تحریروں میں واضح کیا تھا کہ:
1۔ ہدایت کو قبول کرنے کا حق و موقع انسان کے پاس صرف اُس وقت تک رہتا ہے جبتک وہ زندہ ہے۔ اور جہاں اُس نے موت کے فرشتوں کو دیکھا، وہیں وہ اس حق سے محروم ہو گیا۔ یعنی موت کے فرشتوں کو دیکھنے کے بعد وہ جتنی توبہ کرتا رہے وہ قبول نہ ہو گی۔
2۔ مگر جو کافر اپنے کفر پر "بہت سختی" سے اڑے رہتے ہیں، اُن کے متعلق اللہ فرماتا ہے کہ موت کے فرشتے دیکھنے سے قبل ہی اللہ اُن سے ہدایت قبول کرنے کا حق چھین لیتا ہے اور ان کے دلوں پر مہر ثبت کر دیتا ہے۔ چنانچہ یہ سخت کفار اپنی زندگیوں میں ہی ہدایت سننے کا حق کھو دیتے ہیں اور انکی مثال اُن مردوں جیسی ہو جاتی ہے جو مرنے کے بعد ہدایت سننے و قبول کرنے کے حق سے محروم ہو چکے ہیں۔

نہیں ہو تم مگر متنبہ کرنے والے۔ ۔۔۔۔ ہوتا یہ تھا کہ جب یہ سخت کفار رسول ص کی انتہائی تبلیغ کے بعد بھی ہدایت قبول نہیں کر رہے ہوتے تھے تو اس پر رسول ص انتہائی افسردہ و ملول ہو جاتے تھے۔ اس پر اللہ تعالی اپنے حبیب کو حوصلہ دے رہا ہے اور بتلا رہا ہے کہ ان سخت کفار کو اگر ہدایت فائدہ نہیں پہنچا رہی تو اسکی وجہ یہ ہے کہ میں نے انکی زندگیوں میں ہی ان سے حق قبول کرنے کا حق چھین لیا ہے اور انکے دلوں پر مہر ثبت کر دی ہے اور یہ صرف میں ہی ہوں جو چاہوں تو ان میں سے کسی مردہ دل کو ہدایت سننے کی توفیق عطا فرما دوں۔

اب میں آگے بڑھ کر مزید آیات کے متعلق یہ موازنہ پیش کر سکتی ہوں، مگر میرے خیال میں بہت ہو گیا۔۔۔یہ چیز ہدایت حاصل کرنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔

اب ہم دوسری چیزوں پر توجہ دیتے ہیں۔

//////////////////////////////////////////

ان آیات کو متشابہات قرار دیجیئے

جیسا میں نے اوہر ذکر کیا تھا کہ ظاہر پرست طبقہ فکر کا عمومی رویہ ہے کہ جب بھی ہم قرانی آیات کے مجازی معنی واضح کرنے کی کوشش کریں ویسے ہی ہم پر متشابہات کے استعمال کا الزام عائد ہو جاتا ہے۔ مگر جب یہ حضرات خود کچھ آیات کو مجاز میں لے جائیں تو اس پر کچھ بھی نہیں ہوتا۔

ذیل کے آیات ہمارے نزدیک بالکل صاف ہیں اور علمائے قدیم اسکو مجاز میں نہیں لے جاتے۔ مگر حیرت ہے کہ ظاہر پرست طبقہ فکر خود اس کو مجاز میں لے جاتا ہے اور پھر بھی خود کو متشابہات کے استعمال کا مرتکب نہیں گردانتا۔

سورۃ الاعراف، ترجمہ از طاہر القادری صاحب:

77۔ پس انہوں نے اونٹنی کو (کاٹ کر) مار ڈالا اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے: اے صالح! تم وہ (عذاب) ہمارے پاس لے آؤ جس کی تم ہمیں وعید سناتے تھے اگر تم (واقعی) رسولوں میں سے ہوo
78۔ سو انہیں سخت زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا پس وہ (ہلاک ہو کر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئےo
79۔ پھر (صالح علیہ السلام نے) ان [مرے ہوئے اپنی قوم کے لوگوں سے] منہ پھیر لیا اور [ان مردوں کو کہا] کہا: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا اور نصیحت (بھی) کر دی تھی لیکن تم نصیحت کرنے والوں کو پسند (ہی) نہیں کرتے

اس آیت میں صالح علیہ السلام اپنی اُس قوم سے منہ پھیر کر خطاب کر رہے ہیں کہ جنہیں زلزلے نے آ لیا تھا اور وہ مر چکے تھے، مگر پھر بھی صالح علیہ السلام کو یقین ہے کہ یہ مردے انکا خطاب سن رہے ہیں اور اللہ بھی صالح علیہ السلام کا مردوں کو یہ خطاب اپنے قران میں نقل کر رہا ہے بنا یہ الزام عائد کیے کہ مردے نہیں سن سکتے۔

تو یہ چیز سماع موتی کی مخالفت رکھنے والے طبقہ فکر کے لیے ناقابل قبول تھی اس لیے انہوں نے کہا کہ اس آیت میں اللہ کے رسول صالح نے جو اپنی قوم سے خطاب کیا ہے، تو یہ صرف مجازی معنوں میں تھا اور حقیقتا اُنکی مری ہوئی قوم نے انکے خطاب کا ایک لفظ بھی نہیں سنا ہے۔

تو ظاہر پرست طبقہ فکر کی جانب سے یہ "مجاز" کا ایک عجیب و غریب استعمال ہے [بلکہ توہین ہے]۔ اور حیرت ہے کہ اس موقع پر وہ اپنے اپ پر متشابہات کے استعمال کا الزام بھی نہیں عائد کرتے۔

////////////////////////////////

اسی سورۃ الانفال میں آگے شعیب علیہ السلام اور انکی قوم کا ذکر بھی ان معنوں میں ہو رہا ہے:

90۔ اور ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو کفر (و انکار) کے مرتکب ہو رہے تھے کہا: (اے لوگو!) اگر تم نے شعیب (علیہ السلام) کی پیروی کی تو اس وقت تم یقیناً نقصان اٹھانے والے ہوجاؤ گےo
91۔ پس انہیں شدید زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو وہ (ہلاک ہوکر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئےo
92۔ جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا (وہ ایسے نیست و نابود ہوئے) گویا وہ اس (بستی) میں (کبھی) بسے ہی نہ تھے۔ جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا (حقیقت میں) وہی نقصان اٹھانے والے ہوگئےo
93۔ تب (شعیب علیہ السلام) ان [اپنی مردہ قوم والوں سے] سے کنارہ کش ہوگئے اور [اپنی مردہ قوم سے مخاطب ہو کر ] کہنے لگے: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے تھے اور میں نے تمہیں نصیحت (بھی) کردی تھی پھر میں کافر قوم (کے تباہ ہونے) پر افسوس کیونکر کروں

انشاء اللہ باقی دلائل جاری رہیں گے ۔

والسلام۔
 

damsel

معطل
اسلام و علیکم مہوش
آپ کے دلائل پڑھ کے کتنی خوشی ہوئی شاید میں بیان نہ کر پاوں :) آپ نے بہت عمدہ طریقے سے قسیم اور فاروق صاحب کے سوالوں کے جواب دیے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتنے سامنے کی باتیں لیکن پھر بھی نہ جانے لوگ کیوں نہیں سنتے اور مانتے اور اگر مان بھی لیں تو عمل کی طرف نہیں آتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ہمیں اور ان کو ہدایت دے آمین اور آپ کو جزاے خیر ّ عطا کرے۔
ایک اور موضوع ہے اگر آپ اس پر روشنی ڈالیں یہ بھی بڑا متنازع موضوع ہے۔۔۔اسلام میں پردے کے احکامات اور معاشرے میں مرد و زن کا اختلاط کس حد تک جائز ہے نیز یہ بھی کہ کیا پردے کے احکامات صرف اور صرف امہات المومنین کے لیے تھے یا پھر صرف اس دور کے لیے۔
اسلام و علیکم
 
لائق صد احترام مہوش علی صاحبہ،
(میرا طرز تخاطب بہت پرسکون اور خوشدلانہ ہے، اور کسی بھی طنز سے عاری ہے۔ ایسے ہی پڑھئے، میں نے خاص احتیاط کی ہے کہ کوئی جملہ آپ پر یا کسی پر بھی طنز ، شکایت یا ذاتی حملہ کا شائبہ بھی نہ رکھتا ہو۔ اگر کہیں کوتاہی ہوئی ہو تو پیشگی معافی کا خواستگار ہوں، میری کوشش ہوتی ہے کے بات کو عام انداز میں سب کے لئے کیا جائے، بسا اوقات میں سب سے مخااطب ہو، صرف آپ سے نہیں۔ اگر کسی جگہ آپ کی ذاتی وضاحت کی ضرورت ہے تو طلب کی ہے، صرف اس جگہ آپ اس کو اپنی طرف سمجھیں لیکن خوشدلی سے، مقصد قطعاً کردار کشی نہیں۔ اگر ہمارے کام سے کچھ لوگوں کا بھلا ہوجائے تو اس بحث کا ثواب ہم سب کو پہنچے گا )

بہت شکریہ، جو وجوہات اور مثالیں آپ نے پیش کیں وہ بہت حد تک درست ہے اور ایک دوسرے کے مترادف ہیں لیکن جو نتیجہ آپ نے اخذ کیا کہ 'مردے ہماری بات سن سکتے ہیں' وہ درستگی سے بہت دور ہیں۔ آپ کا قرآن کے مجازی معنوں‌ یعنی سمبل ازم کی طرف توجہ دلانے کا۔ عرض‌یہ ہے کہ ایسے سمبل جیسے روشنی، حقیقی روشنی اور علم کی روشنی بسا اوقات ساتھ ساتھ رکھی اور سمجھی جاسکتی ہیں۔ لیکن مخالف معنوں میں لینا کس طور درست ہے، ۔ یعنی مردہ کو زندہ اور زندہ کو مردہ۔ یہ کہنا کہ

جو لوگ مردہ ہیں اور سن نہیں‌سکتے ممکنہ معانی یہ لئے جاسکتے ہیں کہ جو مردہ دل ہیں وہ سن ہی نہیں‌سکتے یہ ایک شاعرانہ یا مجازی یا سمبل ازم پر مبنی بات ہوگی اور عموماَ مترادفات کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے لیکن مخالفات کے طور پر نہیں ۔ آپ اس کو جواز نہیں بنا سکتے کہ بس مجازی معانی ہی لینے چاہئیے ہیں اور حقیقی معانی کو چھوڑ دینا بہتر ہوگا۔ اس کا مقصد کچھ سمجھ نہیں آیا۔ کیا آپ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ مردے زندہ ہیں اور وہ آپ کی بات سن کر شفاعت کرتے ہیں؟ کچھ مقصد کی طرف بھی روشنی ڈالئے؟

جب یہ کہا جائے کہ "تم سنا ہی نہیں سکتے مردوں کو " تو اس کے دونوں معانی ممکن ہیں‌کہ تم مردہ دلوں کو سنا ہی نہیں سکتے اور تم مردوں کو سنا ہی نہیں سکتے۔ یعنی بہر صورت معانی مترادفات میں سے ہی ہوں گے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ "مردہ دلوں "‌ کی بات کی گئی ہے لہذا یہ مردہ دل زندہ لوگ شمار ہوں گے۔ اور لہذا مردہ کےمعنی زندہ کے ہوئے۔ عموماَ اپنے عقائد کوقرآن سے درست ثابت کرنے کے لئے بہت سے لوگ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں۔

آپ کی تفریح طبع کے لئے یہ حکایت لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔
ایک شخص ایک " مجازیات کے عالم " کے پاس شکایت لے کر حاضر ہوا، جناب میری بیوی بہت ہی چرب زبان ہے اور ہر وقت طعنے تشنہ سے بات کرتی ہے۔
"عالم مجازیات " نے فرمایا - "کیا ہوا؟‌"‌کوئی مثال دو
بندہ نے عرض‌کی، صاحب میں دن بھر کام کرکے کما کر واپس آیا اور پوچھا کیا پکایا ہے۔ تو کہنے لگی "جہنمی ‌خاک "
"ہو ہو ہو ہو "
عالم مجازیات نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔ " تمہاری سمجھ میں نہیں آتا"
"دیکھو خاک کو الٹ لو تو بنتا ہے "کاخ" اور "کاخ‌" فارسی کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہوئے "محل" " ---- " جی؟"
"اور چونکہ آپ نے لفظ کو ایک بار الٹا تھا اس لئے اب اس کو سیدھا کرلیجئے" ۔۔۔۔
"تو یہ 'محل' الٹنے سے بن گیا 'لحم'، جو کہ عربی کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہوئے 'گوشت " کے
چونکہ جہنم میں آگ ہوتی ہے ، اس لئے ہو نہ ہو تمہاری بیوی نے " آگ پر گوشت " بھونا ہوگا۔۔
اس بندہ نے عرض کی اگر اجازت ہو تو آئیندہ بار آپ کے لئے' بھنے ہوئے گوشت' کی جگہ کچھ تپتی ہوئی 'جہنمی خاک ' لیتا آؤں؟ ۔۔۔۔

صاحب ایسی منطقی تراکیب جو الفاظ کو یا جملے کو الٹ ثابت کردیں ، اور مجازیات کہلائیں ، کسی ذی ہوش انسان کو مناسب نہیں لگتی ہیں۔ وہ معانی جو لغۃ القریش میں عمومی طور پر سمجھے جاتے ہیں وہی عام معانی ہیں۔ اگر کسی کوایک آیت کے ایسے معانی بھی نظر آتے ہیں جو درحقیقت کسی سمبل ازم (مجازی) یا ضرب المثل کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو بھی ممکن ہے کہ درست ہو - مثال ان مترادفات کی ہے روشنی اور علم کا نور - بینائی اور دل کی بینائی، کہ یہ مترادفات ہیں۔ لیکن مخالفات نہیں -

'زندہ' کو 'مردہ ' ثابت کرنا ، بہرے کو ' سننے والا ' ثابت کرنا ، 'اندھے' کو 'بینا' ثابت کرنا۔ مخالفات ہیں۔ مجازیات یعنی سمبل ازم نہیں۔

کہ 'جاؤ علم کا نور حاصل کرو' - کسی طور بھی علم کو جلادو اور اس سے جو تاریکی یعنی جاہلیت حاصل ہو کے مصداق 'جا کر جاہلیت حاصل کرنے کے' معنوں میں نہیں‌لیا جائے گا۔

صرف مجازی یا ظاہری میں سے ایک معنوں کا انتخاب کیونکر درست طریقہ ہے، اس کی کیا توجہیہ ہے؟ سمجھ سے باہر ہے ۔ سب سے پہلے ہم قرآن کے وہ معنی لیں گی جو ' واضح ، روشن اور کلیر ہیں، اس کی دلیل یہ آیات مبارکہ ہیں:

[AYAH]3:138[/AYAH] [AYAH] هَ۔ذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ [/AYAH]
Tahir ul Qadri یہ قرآن لوگوں کے لئے واضح بیان ہے اور ہدایت ہے اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے

[AYAH]27:1[/AYAH] [ARABIC]طس تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ [/ARABIC]
Tahir ul Qadri طا، سین (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتیں ہیں

[AYAH]28:2[/AYAH] [ARABIC] تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ [/ARABIC]
Tahir ul Qadri یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں

[AYAH]43:2[/AYAH] [ARABIC]وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ[/ARABIC]
Shabbir Ahmed قسم ہے کتاب کی جو (ہر بات) کھول کر بیان کرنے والی ہے۔

[AYAH]65:11[/AYAH] [ARABIC]رَّسُولًا يَتْلُواْ عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا [/ARABIC]
Tahir ul Qadri (اور) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (بھی بھیجا ہے) جو تم پر اللہ کی واضح آیات پڑھ کر سناتے ہیں تاکہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے، اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے وہ اسے ان جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، بیشک اللہ نے اُس کے لئے نہایت عمدہ رزق (تیار کر) رکھا ہے

[AYAH]46:9[/AYAH] [ARABIC]قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ [/ARABIC]
Tahir ul Qadri آپ فرما دیں کہ میں (انسانوں کی طرف) کوئی پہلا رسول نہیں آیا (کہ مجھ سے قبل رسالت کی کوئی مثال ہی نہ ہو) اور میں اَزخود (یعنی محض اپنی عقل و درایت سے) نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور نہ وہ جو تمہارے ساتھ کیا جائے گا، (میرا علم تو یہ ہے کہ) میں صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے (وہی مجھے ہر شے کا علم عطا کرتی ہے) اور میں تو صرف (اس علم بالوحی کی بنا پر) واضح ڈر سنانے والا ہوں

[AYAH]44:2[/AYAH] [ARABIC]وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ [/ARABIC]
Tahir ul Qadri اس روشن کتاب کی قسم

[AYAH]36:69[/AYAH] [ARABIC] وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ [/ARABIC]
Tahir ul Qadri اور ہم نے اُن کو (یعنی نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ اُن کے شایانِ شان ہے۔ یہ (کتاب) تو فقط نصیحت اور روشن قرآن ہے


یہ ہیں اللہ تعالی کے واضح الفاظ ، مندرجہ بالاء ‌آیات سے یہ بہت واضح ہے کہ قرآن ایک روشن ، واضح ، کھلی اور سامنے کی بات جیسی کتاب ہے اور رسول کو اللہ تعالی نے شاعری نہیں سکھائی، سمبل ازم نہیں سکھایا۔ انسانوں کی ساری منظق کو ایک طرف رکھئے، استدعایہ ہے کہ اللہ تعالی کی ان آیات کو سامنے لائیے جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ قرآن کے معانی 'صرف مجازی ' ہیں۔ اور ان کو صرف گھما پھرا کر اپنی مرضی سے لینا چاہئیے۔ جو چاہیں لیں جو چاہیں چھوڑ دیں ، عموماَ نصف آیات پیش کی جاتی ہیں - کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی آیات، نعوذ باللہ ، اضافی و غیر ضروری الفاظ سے بنی ہیں؟

مردوں کے سننے والی بات آپ نے صرف ایک طرح سے پیش کی کہ مردے سن نہیں سکتے اور پھر آپ نے منطق سے یہ ثابت کیا کہ
1۔ مردے سن سکتے ہیں لیکن وہ بچوں کی طرح ہیں کہ بات نہیں مانتے۔ تو کیا بات بنی؟

جب کہ آیات کے ان حصوں کو آپ نے اپنا نکتہ نظر ثابت کرنے کے لئے نظر انداز کردیا۔۔
1۔ مردہ اور زندہ مساوی نہیں ہوسکتے۔
2۔ مردوں کو آپ سنا بھی نہیں سکتے (‌یعنی نہ آپ کی ٹرانسمشن وہاں جاتی ہے اور نہ ہی وہ آپ کی ٹرانسمشن ریسیو کرنے کے قابل ہیں)

آپ کی طرف سے ان دو نکات کی وضاحت کا انتظار رہے گا۔
1۔ آپ نے کن وجوہات پر ان آیات کے ان دو حصوں کو نظر انداز کیا ہے ؟‌ کیا یہ آپ کے عقائد سے ٹکراتے ہیں ؟‌
اگر یہ نکات آپ کے عقائد سے ٹکراتے ہیں تو میں آپ کے 'ایمان' کو تبدیل کرنے کی کوشش قطعاً‌ نہیں کروں گا۔ دنیا میں طرح طرح کے مذاہب اور ایمان ہیں جو قرآن سے اپنے مذہب کو ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ میں صرف آیات بطور ریفرنس شئیر کرتا ہوں ، کسی کو بھی تبدیل کرنا میرا مقصد نہیں ہے ، آپ کا ایمان بہر طور ہمارے لئے قابل صد احترام ہے۔

2۔ اللہ تعالی کی ایسی آیات پیش کیجئے جس میں واضح الفاظ بیان کیا گیا ہو کہ ان آیات کا مطلب الٹا کر اور گھما پھرا کر لینا ہے؟ یعنی مترادفات نہیں بلکہ مخالفات لینا ہے اور قرآن کے واضح معنی نہیں بلکہ 'مجازی اور مخالف معانی ' درست ہیں۔ ذاتی بیانات یا انسانی توجہیات دریافت کرنا مقصد نہیں ، صرف قرآن سے آیات کا حوالہ عطا فرمائیے۔ میری یہ استدعا آپ کے وضع کئے ہوئے اصول سے مختلف نہیں ۔

وقت کے ساتھ ساتھ عربی زبان سے لوگون کی واق۔فیت بڑھتی جارہی ہے یا ایسے لوگوں کا آجافہ ہوتا جارہا ہے جو عربی بذریعہ اردو یا انگریزی سمجھتے ہیں یا جن کی زبان عربی ہے اور اب اردو اور انگریزی بھی جانتے ہیں۔ اس وجہ سے ان آیات کے تراجم ، جو فرقہ واریت کی بنیادوں پر کئے گئے لوگ درست کرتے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں مثبت پیش رفت یہ ہوگی کہ ان آیات کے معانی کو درست کیا جائے جن کو کل کے افراد اپنے فرقہ کے عقائد کے لحاظ سے اپنی طرف جھکاتے رہیں‌ ہیں۔

مترجمین کے کام پر مناسب تنقید ایک صحت مندانہ عمل ہے لیکن اس کو مجاز پرستی یہ ظاہر پرستی یا حقیقت پرستی کے لی۔ب۔ل لگانا کم از کم میرے نزدیک ایک کریہہ عمل ہے کہ ایک شخص نے محنت کرکے عربی سیکھی یا عرب نے دوسری زبان سیکھی اور اللہ کی خدمت کے لئے ، خلوص دل سے عوام الناس تک اللہ کے الفاظ کو پہنچانے کی کاوش کی اور ہم اس کو مجاز پرست یا حقیقت پرست کہہ کر اس کی بے عزتی و توہین کریں۔ اگر کسی جگہ کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اس کا مداوا صحت مندانہ طریقہ پر کرنا تو درست ہے لیکن توہین ایک درست عمل نہیں۔

منفی پیش رفت یہ ہوگی کہ اپبنے فرقہ کا بچاؤ کیا جائے اور باقی سب مترجمین کو 'کافر ' ثابت کیا جائے۔

بحیثیت ایک طالب علمِ قرآن، میرا اپنا مقصد ، قرآن سے علم کا نور حاصل کرنا ہے، آپ سمیت ، کسی کی چھوٹی سی بھی کوشش میرے لئے مشعل راہ ہوتی ہے۔ تمام مترجمین کی دل سے عزت کرتا ہوں ماسوائے ان لوگوں کے جن کا مقصد قرآن کی تک۔فیر تھی۔ لہذا احتیاط سے تمام طبع شدہ تراجم کو اپنی ویب سائٹ پر مرتب کرنے کی اپنی سی کاوش کرتا رہتا ہوں۔ قرآن سے روشنی و ہدایت حاصل کرنا میرا ذاتی مقصد ہے ۔

اگر آپ میں‌سے کوئی بھی صاحب قرآن کا وسیع طور پر قابل قبول کوئی بھی ترجمہ یونی کوڈ‌میں مزید فراہم کرسکیں تو عنایت ہوگی۔ ایک سے زیادہ تراجم سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مختلف مترجمین کا کیا ایک ہی آیت کے بارے میں کیا خیال رہا ہے۔ اگر کسی نے مجازی ترجمہ کیا ہے تو وہ بھی حاضر ہے اور اگر حقیقی ترجمہ کیا ہے تو وہ بھی حاضر ہے۔ جو تراجم جمع کئے ہیں وہ پچھلے 300 سال کے عرصے میں لکھے گئے ہیں ۔ مسلمین اور غیر مسلمین دونوں کے ہیں ، وہ تراجم جو عام طور پر قابل قبول نہیں قرار پائے ان پر نشان لگا دیا ہے۔ اور مزید تراجم کو شامل کرتے رہنے کا مصمم ارادہ ہے۔ ان تراجم کے علاوہ کوئی دوسرے تراجم اس وقت تک دستیاب ہی نہیں ہیں‌ یا میرے علم میں نہیں ہیں۔ اگر یہ سب تراجم، اپنی کاملہ حیثیت، میں قابل قبول نہیں ہیں تو پھر کونسے تراجم درست ہیں؟ سامنے لائیے، تاکہ ان کو شامل کرکے آپ کی کوئی خدمت کرسکوں۔ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ صرف اس کے مکتبہ فکر کا ترجمہ درست ہے اور باقی تراجم کو نہ دیکھئے تو ان حضرات و خواتیں کا ایسا سمجھنا ان کے عقائد کے مطابق ہے۔ یہ کام ہم عقائد کی تبدیلی کے لئے نہیں کررہے بلکہ اس لئے کہ سب کچھ صاف صاف سب کے سامنے ہو تاکہ سب کو فیصلے میں آسانی ہو، کہ اس روشنی سے روشناس ہوں اور سمجھ سکیں کہ کیا واضح دلیل ہے ؟

میں‌یہ دیکھتا ہوں کہ تقریباَ‌ تمام تراجم ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں۔ لہذا اس ظاہری اور باطنی کی بحث کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ کسی ایک مکتبہ فکر کے خیالات و عقاید کو قائم کرنے کی ایک بچکانہ اور معاندانہ کوشش ہے کہ سب کے تراجم کو غلظ ثابت کیا جائے اور کسی ایک ترجمہ کو درست۔
والسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
اسلام و علیکم مہوش
آپ کے دلائل پڑھ کے کتنی خوشی ہوئی شاید میں بیان نہ کر پاوں :) آپ نے بہت عمدہ طریقے سے قسیم اور فاروق صاحب کے سوالوں کے جواب دیے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتنے سامنے کی باتیں لیکن پھر بھی نہ جانے لوگ کیوں نہیں سنتے اور مانتے اور اگر مان بھی لیں تو عمل کی طرف نہیں آتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ہمیں اور ان کو ہدایت دے آمین اور آپ کو جزاے خیر ّ عطا کرے۔
ایک اور موضوع ہے اگر آپ اس پر روشنی ڈالیں یہ بھی بڑا متنازع موضوع ہے۔۔۔اسلام میں پردے کے احکامات اور معاشرے میں مرد و زن کا اختلاط کس حد تک جائز ہے نیز یہ بھی کہ کیا پردے کے احکامات صرف اور صرف امہات المومنین کے لیے تھے یا پھر صرف اس دور کے لیے۔
اسلام و علیکم

السلام علیکم
اللہ تعالی آپ پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے کہ میرے دل سے بھی آپکے لیے بہت دعائیں نکلی ہیں۔
بھائی جی، میں بہت کم علم ہوں اور بہت سے موضوعات پر میری تحقیق اتنی نہیں کہ یقین کی وہ حد آ جائے جہاں میں مطمئین ہو کہ کہہ سکوں کہ میں نے اس موضوع پر تحقیق کا حق ادا کر لیا ہے۔ حجاب پر کتب پڑھی ہیں، مگر یہ کسی مسئلے پر قلم اٹھانے کے لیے کافی نہیں۔
والسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
فاروق صاحب، السلام علیکم

میں بحث کو غیر ضروری طور پر طول دینے کے حق میں نہیں، اس لیے "سننے" کے متعلق ان آیات پر بحث ختم کرتے ہیں۔ اب یہ پڑھنے والوں کا کام ہے کہ وہ اللہ کو گواہ بناتے ہوئے اس موضوع سے انصاف کریں۔ اللہ تعالی ہم سب کو سیدھے راستے پر انصاف سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین۔

فاروق صاحب، البتہ آپکی طرف سے ایک چیز تشنہ رہ گئی ہے اور وہ ہے قران کی وہ آیات جو میں نے اوپر پیش کی تھیں جن میں صالح علییہ السلام اور شعیب علیہ السلام کا اپنی مردہ قوم سے خطاب تھا۔

والسلام۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top