بسم اللہ
فاروق صاحب نے بہت مہذب طریقے سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے، مگر میں ظاہر پرست طبقہ فکر کا ایک عمومی رویہ پیش کر رہی ہوں۔ بہت عجیب بات ہے کہ ظاہر پرست طبقہ فکر کو جب بھی قران کے مجازی معنی سمجھائے جاتے ہیں تو وہ اس پر فورا "متشابہات" کے استعمال کا الزام عائد کرتے ہیں۔ [جبکہ آپ دیکھیں گے کہ یہ حضرات خود بہت سی جگہ پر مجازی معنوں کا استعمال کر رہے ہوں گے]
ریکارڈ کے طور پر میں یہ درج کروا دوں کہ یہ اکیلا میرا نظریہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کے جملہ مفسرین [تاوقتیکہ محمد بن عبداللہ وہاب صاحب کے پچھلی صدی میں آنے کے] کا اس پر اجماع ہے کہ یہان سننا ظاہری معنوں میں استعمال نہیں ہو رہا بلکہ اس سے مراد ہدایت کو ماننا ہے۔
بس ایک ہلکی سی نظر ان آیات پر ایک مرتبہ پھر۔۔۔ اور اللہ تعالی ہمیں دیدہ بینا عطا فرمائے۔امین۔
ان آیات میں بہرا ہونا، نابینا ہونا، سننا وغیرہ کے ظاہری معنی اور مجازی معنی آمنے سامنے
[قران آسان تحریک 30:51] اور اگر کہیں بھیجتے ہم کوئی ایسی ہوا کہ دیکھتے وہ (اس کے اثرسے) کھیتی کو کہ زرد پڑگئی ہے تو ضرور وہ اس کے بعد بھی کفر ہی کرتے رہتے۔
[قران آسان تحریک 30:52] پس
(اے نبی) تم ہرگز نہیں سنا سکتے مردوں کو اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو اپنی پکار جب وہ چلے جارہے ہوں پیٹھ پھیر کر۔
[قران آسان تحریک 30:53] اور نہیں ہوتم راہِ راست دکھانے والے اندھوں کو اُن کی گمراہی سے نکال کر، نہیں سناسکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں ہماری آیات پر پھر وہ سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔
آئیے اب ان کے مجازی معنوں کو دیکھتے ہیں جو علمائے قدیم نے بیان کیے ہیں:
(اے نبی) تم ہرگز نہیں سنا سکتے مردوں کو قدیم علماء کے مطابق یہاں موتی سے مراد وہ لوگ ہیں
"جنکے دل مر چکے" ہیں
اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو اپنی پکار جب وہ چلے جارہے ہوں پیٹھ پھیر کر۔ اور یہاں "الصم" [بہرے] سے مراد وہ لوگ ہیں "جنکے دلوں کے کان حق بات سننے سے بہرے ہو چکے "ہیں/
اور نہیں ہوتم راہِ راست دکھانے والے اندھوں کو اُن کی گمراہی سے نکال کر، اور یہاں "العمی" [اندھے] سے مراد وہ لوگ ہیں "
جنکے دلوں کی آنکھیں نور حق دیکھنے سے" اندھی ہو چکی ہیں۔
نہیں سناسکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں ہماری آیات پر پھر وہ سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ اور یہاں بھی سنانے کا لفظ ظاہری معنوں میں نہیں ہے بلکہ اللہ کہہ رہا ہے کہ "نہیں ھدایت دے سکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں۔۔۔"
اب آئیے ان آیات کو
ان معنوں میں سمجھتے ہیں جیسا کہ فاروق صاحب پیش کرنا چاہ رہے ہیں اور آپکا اندازہ ہو جائے گا کہ ان آیات کو ظاہری معنوں میں لینے سے کتنا ظلم ہو گا۔
(اے نبی) تم ہرگز نہیں سنا سکتے مردوں کو ۔۔۔ ظاہر پرست طبقہ فکر کے نزدیک یہاں مردے سے مراد "حقیقی مردے" ہیں اور "سنانے" سے مراد "اپنی آواز کا سنانا" ہے۔
اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو اپنی پکار جب وہ چلے جارہے ہوں پیٹھ پھیر کر۔ اور یہاں "بہروں" سے مراد "حقیقی بہرے" ہیں اور "سنانے" سے مراد "اپنی آواز کا سنانا" ہے۔
اور نہیں ہوتم راہِ راست دکھانے والے اندھوں کو اُن کی گمراہی سے نکال کر، اور یہاں "اندھوں" سے مراد حقیقی اندھے ہیں اور اگر ظاہر پرستی طبقہ فکر کی سوچ کی پیروی کی جائے تو اس آیت کا معنی ہوں گے
"اے رسول یہ جتنے [حقیقی ] نابینا اندھے لوگ ہیں [چاہے وہ مسلمان ہوں یا کافر]، یہ سب کے سب گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور اے رسول تم انہیں کبھی ان کی گمراہی سے نکال کر راہ راست پر نہیں لا سکتے۔" ۔۔۔۔۔ تو کیا کوئی اس ظاہری معنی کو قبول کر سکتا ہے؟؟؟
نہیں سناسکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں ہماری آیات پر پھر وہ سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ اور اگر ادھر بھی ظاہری معنی کی پیروی کی جائے تو اس آیت کا مطلب بن جائے گا: " اے رسول، تم اپنی حقیقی آواز نہیں سنا سکتے ہو کافروں کو [چاہے ان کے کانوں کے پردے صحیح ہی کیوں نہ ہوں] ۔۔۔۔۔۔ تو کیا واقعی ایسا تھا کہ کافروں کے کان رسول ص کی حقیقی آواز سننے سے قاصر تھے؟ یا پھر یہاں اللہ حقیقی آواز کی بات نہیں کر رہا، بلکہ بات ھدایت کی ہو رہی ہے؟
تو آپ نے دیکھ لیا کہ ظاہری معنی کی پیروی کرنے سے کیا نتائج نکلیں گے؟
//////////////////////////////////////////
ظاہری و مجازی معنی آمنے سامنے [پارٹ 2]
سورۃ الانفال:
[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ {20}[/ARABIC]
ایمان والو اللہ و رسول کی اطاعت کرو اور اس سے رو گردانی نہ کرو جب کہ تم سن بھی رہے ہو {20}
[ARABIC]وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لاَ يَسْمَعُونَ {21}[/ARABIC]
اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا حالانکہ وہ کچھ نہیں سن رہے ہیں {21}
[ARABIC]إِنَّ شَرَّ الدَّوَابَّ عِندَ اللّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ {22}[/ARABIC]
اللہ کے نزدیک بد ترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں {22}
[ARABIC]وَلَوْ عَلِمَ اللّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ {23}[/ARABIC]
اور اگر خدا ان میں کسی خیر کو دیکھتا تو انہیں ضرور سناتا اور اگر سنا بھی دیتا تو یہ منہ پھرا لیتے اور اعراض سے کام لیتے {23}
اللہ کے نزدیک بد ترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علمائے قدیم کے نزدیک یہاں "بہرے اور گونگے" سے مراد "جن کے دل بہرے ہو چکے ہیں اور "گونگے" سے مراد وہ لوگ جن کے دل حق بات نہیں بولتے۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اگر ظاہر پرست فکر کی پیروی کی جائے تو اس آیت سے مراد: " اللہ کے نزدیک بدترین لوگ ہیں "حقیقی بہرے و گونگے" جو عقل سے کام نہیں لیتے، جبکہ وہ لوگ جو کہ "حقیقی بہرے و گونگے" نہیں ہیں بلکہ سن اور بول سکتے ہیں، تو وہ دنیا کے بدترین لوگ نہیں ہیں چاہے وہ عقل سے کام لیں یا نہ لیں۔"
اللہ تعالی مجھے صبر دے اور مجھے توفیق دے کہ میں صرف وہ کام کروں جو میرے ذمہ لگایا گیا ہے، یعنی اچھے طریقے سے اپنے دلائل پیش کروں اور ھدایت سننے یا نہ سننے کا کام اللہ پر چھوڑ دوں۔
////////////////////////////////////////////
ظاہری و مجازی معنی آمنے سامنے [پارٹ 3]
[قران آسان تحریک 35:19] اور نہیں برابر ہوسکتا اندھا اور آنکھوں والا۔
[قران آسان تحریک 35:20] اور نہ تاریکیاں اور نہ روشنی
[قران آسان تحریک 35:21] اور نہ چھاؤں اور نہ دُھوپ کی تپش۔
[قران آسان تحریک 35:22] اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندے اور نہ مُردے۔ بلاشبہ اللہ سنواتا ہے جسے چاہے اور نہ تم (اے نبی) سنا سکتے ہو ان کو جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔
[قران آسان تحریک 35:23] نہیں ہو تم مگر متنبہ کرنے والے۔
اور نہیں برابر ہوسکتا اندھا اور آنکھوں والا۔ ۔۔۔۔ ظاہر پرست طبقہ کے مطابق یہاں "اندھے اور "آنکھوں والے سے مراد حقیقی اندھے اور آنکھوں والے ہیں۔
جبکہ علمائے قدیم کے مطابق یہاں "اعمی" اندھے سے مراد "کافر" اور "بصیر" آنکھوں والا سے مراد "مومن" ہے۔
اور نہ تاریکیاں اور نہ روشنی ظاہر پرست ظبقہ کے نزدیک یہاں حقیقی تاریکیاں اور روشنی
جبکہ علمائے قدیم کے مطابق یہاں "ظلمت [تاریکیوں]" سے مراد "باطل" جبکہ "نور [روشنی]" سے مراد "حق" ہے۔
اور نہ چھاؤں اور نہ دُھوپ کی تپش۔ ظاہر پرست طبقہ کے مطابق یہاں حقیقی چھاوں اور دھوپ مراد ہے
جبکہ علمائے قدیم نے فرمایا ہے کہ یہاں "ظل [سایہ]" سے مراد "ثواب و راحت" اور "حرور [سخت گرمی/دھوپ] سے مراد عتاب و عذاب ہے
اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندے اور نہ مُردے۔ بلاشبہ اللہ سنواتا ہے جسے چاہے ۔۔۔۔۔ ظاہر پرست طبقہ کے مطابق یہاں حقیقی زندے و مردے ہیں اور سنانے سے مراد حقیقی سنانا ہے ، یعنی اللہ چاہے تو مردے کو بھی اے رسول آپکی آواز سنا دے [نوٹ: مجھے علم نہیں کہ اگر اللہ اپنے رسول کی حقیقی آواز مردے کو سنوا بھی دے تو اس سے مردے کو کیا فائدے پہنچنے والا ہے؟ ظاہر پرست حضرات سے درخواست ہے کہ وہ لازمی طور پر یہ واضح کریں کہ اگر اللہ رسول کی حقیقی آواز کو مردوں کو سنوا بھی دے تو اس سے مردے کو کیا فائدہ پہنچنے والا ہے]
جبکہ علمائے قدیم فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دلوں کے زندے اور دلوں کے مردے برابر نہیں ہیں۔ اور سنوانا سے مراد ہے "ھدایت کو ماننا"۔
میں نے اپنی اوپر والی تحریروں میں دیگر قرانی آیات سے واضح کیا تھا کہ جب کفار اپنے کفر پر اڑے رہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ اللہ انکے دلوں پر "مہر ثبت" کر دیتا ہے۔ تو ایسے کفار کو سوائے اللہ کے، اور کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ تو یہاں مردوں سے مراد وہی دل کے مردے ہیں کہ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر ثبت کر دی ہے۔
اور نہ تم (اے نبی) سنا سکتے ہو ان کو جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔ ظاہر پرست طبقہ فکر کے نزدیک یہاں سنانے سے مراد اپنی حقیقی آواز کا سنانا ہے۔
جبکہ علمائے قدیم مثلا علامہ قرطبی نے اسکی تفسیر کی ہے " یعنی یہ کافر اہل قبور کی طرح ہیں کہ انکو اگر کوئی نصیحت کی جائے تو یہ اس سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ اسے قبول کرتے ہیں۔"
جیسا کہ میں نے اپنی اوپر والی تحریروں میں واضح کیا تھا کہ:
1۔ ہدایت کو قبول کرنے کا حق و موقع انسان کے پاس صرف اُس وقت تک رہتا ہے جبتک وہ زندہ ہے۔ اور جہاں اُس نے موت کے فرشتوں کو دیکھا، وہیں وہ اس حق سے محروم ہو گیا۔ یعنی موت کے فرشتوں کو دیکھنے کے بعد وہ جتنی توبہ کرتا رہے وہ قبول نہ ہو گی۔
2۔ مگر جو کافر اپنے کفر پر "بہت سختی" سے اڑے رہتے ہیں، اُن کے متعلق اللہ فرماتا ہے کہ موت کے فرشتے دیکھنے سے قبل ہی اللہ اُن سے ہدایت قبول کرنے کا حق چھین لیتا ہے اور ان کے دلوں پر مہر ثبت کر دیتا ہے۔ چنانچہ یہ سخت کفار اپنی زندگیوں میں ہی ہدایت سننے کا حق کھو دیتے ہیں اور انکی مثال اُن مردوں جیسی ہو جاتی ہے جو مرنے کے بعد ہدایت سننے و قبول کرنے کے حق سے محروم ہو چکے ہیں۔
نہیں ہو تم مگر متنبہ کرنے والے۔ ۔۔۔۔ ہوتا یہ تھا کہ جب یہ سخت کفار رسول ص کی انتہائی تبلیغ کے بعد بھی ہدایت قبول نہیں کر رہے ہوتے تھے تو اس پر رسول ص انتہائی افسردہ و ملول ہو جاتے تھے۔ اس پر اللہ تعالی اپنے حبیب کو حوصلہ دے رہا ہے اور بتلا رہا ہے کہ ان سخت کفار کو اگر ہدایت فائدہ نہیں پہنچا رہی تو اسکی وجہ یہ ہے کہ میں نے انکی زندگیوں میں ہی ان سے حق قبول کرنے کا حق چھین لیا ہے اور انکے دلوں پر مہر ثبت کر دی ہے اور یہ صرف میں ہی ہوں جو چاہوں تو ان میں سے کسی مردہ دل کو ہدایت سننے کی توفیق عطا فرما دوں۔
اب میں آگے بڑھ کر مزید آیات کے متعلق یہ موازنہ پیش کر سکتی ہوں، مگر میرے خیال میں بہت ہو گیا۔۔۔یہ چیز ہدایت حاصل کرنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔
اب ہم دوسری چیزوں پر توجہ دیتے ہیں۔
//////////////////////////////////////////
ان آیات کو متشابہات قرار دیجیئے
جیسا میں نے اوہر ذکر کیا تھا کہ ظاہر پرست طبقہ فکر کا عمومی رویہ ہے کہ جب بھی ہم قرانی آیات کے مجازی معنی واضح کرنے کی کوشش کریں ویسے ہی ہم پر متشابہات کے استعمال کا الزام عائد ہو جاتا ہے۔ مگر جب یہ حضرات خود کچھ آیات کو مجاز میں لے جائیں تو اس پر کچھ بھی نہیں ہوتا۔
ذیل کے آیات ہمارے نزدیک بالکل صاف ہیں اور علمائے قدیم اسکو مجاز میں نہیں لے جاتے۔ مگر حیرت ہے کہ ظاہر پرست طبقہ فکر خود اس کو مجاز میں لے جاتا ہے اور پھر بھی خود کو متشابہات کے استعمال کا مرتکب نہیں گردانتا۔
سورۃ الاعراف، ترجمہ از طاہر القادری صاحب:
77۔ پس انہوں نے اونٹنی کو (کاٹ کر) مار ڈالا اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے: اے صالح! تم وہ (عذاب) ہمارے پاس لے آؤ جس کی تم ہمیں وعید سناتے تھے اگر تم (واقعی) رسولوں میں سے ہوo
78۔ سو انہیں سخت زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا پس وہ (ہلاک ہو کر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئےo
79۔
پھر (صالح علیہ السلام نے) ان [مرے ہوئے اپنی قوم کے لوگوں سے] منہ پھیر لیا اور [ان مردوں کو کہا] کہا: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا اور نصیحت (بھی) کر دی تھی لیکن تم نصیحت کرنے والوں کو پسند (ہی) نہیں کرتے
اس آیت میں صالح علیہ السلام اپنی اُس قوم سے منہ پھیر کر خطاب کر رہے ہیں کہ جنہیں زلزلے نے آ لیا تھا اور وہ مر چکے تھے، مگر پھر بھی صالح علیہ السلام کو یقین ہے کہ یہ مردے انکا خطاب سن رہے ہیں اور اللہ بھی صالح علیہ السلام کا مردوں کو یہ خطاب اپنے قران میں نقل کر رہا ہے بنا یہ الزام عائد کیے کہ مردے نہیں سن سکتے۔
تو یہ چیز سماع موتی کی مخالفت رکھنے والے طبقہ فکر کے لیے ناقابل قبول تھی اس لیے انہوں نے کہا کہ اس آیت میں اللہ کے رسول صالح نے جو اپنی قوم سے خطاب کیا ہے، تو یہ صرف مجازی معنوں میں تھا اور حقیقتا اُنکی مری ہوئی قوم نے انکے خطاب کا ایک لفظ بھی نہیں سنا ہے۔
تو ظاہر پرست طبقہ فکر کی جانب سے یہ "مجاز" کا ایک عجیب و غریب استعمال ہے [بلکہ توہین ہے]۔ اور حیرت ہے کہ اس موقع پر وہ اپنے اپ پر متشابہات کے استعمال کا الزام بھی نہیں عائد کرتے۔
////////////////////////////////
اسی سورۃ الانفال میں آگے شعیب علیہ السلام اور انکی قوم کا ذکر بھی ان معنوں میں ہو رہا ہے:
90۔ اور ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو کفر (و انکار) کے مرتکب ہو رہے تھے کہا: (اے لوگو!) اگر تم نے شعیب (علیہ السلام) کی پیروی کی تو اس وقت تم یقیناً نقصان اٹھانے والے ہوجاؤ گےo
91۔ پس انہیں شدید زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو وہ (ہلاک ہوکر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئےo
92۔ جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا (وہ ایسے نیست و نابود ہوئے) گویا وہ اس (بستی) میں (کبھی) بسے ہی نہ تھے۔ جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا (حقیقت میں) وہی نقصان اٹھانے والے ہوگئےo
93۔ تب (شعیب علیہ السلام) ان [اپنی مردہ قوم والوں سے] سے کنارہ کش ہوگئے اور [اپنی مردہ قوم سے مخاطب ہو کر ] کہنے لگے: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے تھے اور میں نے تمہیں نصیحت (بھی) کردی تھی پھر میں کافر قوم (کے تباہ ہونے) پر افسوس کیونکر کروں
انشاء اللہ باقی دلائل جاری رہیں گے ۔
والسلام۔