مہوش صاحبہ سے سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مجھے اعتراف ہے کہ انہوں نے اپنی بات بہترین انداز میں واضح طور پر سامنے رکھی تھی۔ گذشتہ پانچ چھے ماہ میں نے ان کے مراسلے پر بارہا غور کیا، کتب تفاسیر کنگالیں، احادیث کی تحقیق کی۔ علماء کی آراء معلوم کیں۔ اس سارے عرصے میں مَیں نے بالارادہ اس دھاگے میں کچھ لکھنے سے پرہیز کیا۔ اب جبکہ مجھے ان آیات کے بارے میں شرح صدر ہو چکا ہے تو مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک دفعہ پھر اپنی گزارشات گوش گزار کر دوں۔ تحقیق میں مجھے کافی وقت لگا ہے۔اب حاصلِ مطالعہ پیش کرنے کا مرحلہ درپیش ہے جو بذات خود ایک وقت طلب کام ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں میری مدد کرے۔ میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ اس دھاگے میں ہمارا مطمع نظر بحث برائے بحث کی بجائے احسن طریقے سے اپنی بات پہنچا دینا اور سمجھا دینا ہونا چاہیے۔ عادل بھائی! آپ نے بڑے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کے جواب کے لیے آپ کو انتظار کی زحمت اٹھانی ہو گی۔ ہو سکتا ہے مہوش مجھ سے بہتر جواب دے سکیں۔
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا تھا کہ میرا گمان یہ تھا کہ ان آیات سے سماع موتیٰ کی مطلقا نفی ہوتی ہے لیکن احادیث اور تفاسیر کی روشنی میں مزید تدبر کرنے سے معلوم ہوا کہ بعض خاص حالات میں مردوں کا سننا احادیث میں مذکور ہے جن کی طرف نائب مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتوے میں اشارہ کر دیا تھا۔ لیکن ان سے آیات کے عموم کی نفی نہیں ہوتی۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ اگلے مراسلے میں بیان کروں گا۔ اس وقت میں چند ایسے نکات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جنہیں اپنی تحقیق کے دوران میں نے درست نہیں پایا۔ ان میں سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ انک لا تسمع الموتیٰ سے عدم سماع موتیٰ کی نفی کرنے والوں میں محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ اور مودودی رحمہ اللہ اولین تھے اور انہوں نے متقدمین کی رائے کے برعکس امت میں ایک نئے موقف کی بنیاد رکھی۔ مہوش لکھتی ہیں:
اسی طرح دیگر تمام علمائے قدیم کی دیگر مشہور تفاسیر میں بھی یہی بات لکھی ہوئی ہے کہ یہاں "سننے" سے مراد "ماننا" ہے۔
ان دو آیات سے جدید مفسرین یہ ثابت کرتے ہیں کہ "مردے" کوئی سماعت نہیں رکھتے۔ (اسکو عام طور پر "سماعتِ موتیٰ" کا مسئلہ کہا جاتا ہے)۔
ان جدید مفسرین کے مقابلے میں علمائے قدیم یہ رائے رکھتے تھے کہ مردے سن سکتے ہیں اور ان دو آیات میں "سماعت موتی" کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ آیات اس بات کو ثابت کر رہی ہیں کہ مردے نہیں سن سکتے، یا پھر یہ کہ یہ جدید مفسرین حضرات پھر اپنی ظاہر پرستی کی وجہ سے اس کا اصل مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔
آئیے اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیوں مودودی صاحب اور محمد بن عبدالوہاب صاحب جیسے جدید مفسرین اس معاملے میں غلطی کا شکار ہیں اور کیا یہ واقعی انصاف ہو گا کہ قدیم علماء کی آراء کو پڑھنے بغیر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے؟
یہ ایک ایسے محقق کی رائے معلوم ہوتی ہے جس نے اس مسئلے کو سراسر یکطرفہ نگاہ سے دیکھا ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ مہوش بہن نے اپنا مراسلہ کسی دوسرے کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے لکھا ہے اس لیے میں انہیں مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا۔ انہیں جو مواد اپنی مواقفت میں ملا وہ مناسب تبدیلی کے بعد انہوں نے ہمارے سامنے رکھ دیا تاہم قدیم تفاسیر سے رجوع کرنے پر صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ انک لا تسمع الموتیٰ سے سماع موتیٰ کی نفی دورِ صحابہ ہی سے شروع ہو گئی تھی۔ لہٰذا یہ دعوٰی قطعی غلط ہے کہ اس موقف کی بنیاد رکھنے والے محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ کچھ حوالہ جات پیش خدمت ہیں جن سے اس نظریے کا ضعف کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔
1۔جیسا میں نے عرض کیا کہ “انک لا تسمع الموتیٰ” سے سماع موتیٰ کی نفی سب سے پہلے صحابہ کرام نے سمجھی تھی۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے قلیب بدر والے واقعے کی تصحیح کرتے ہوئے سورۃ النمل کی یہی آیت پیش کی تھی۔ (یہاں یہ بات زیر بحث نہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا میں سے کس کا موقف درست تھا، میں ایک اصولی بات سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ صحابہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو اس آیت کی روشنی میں سمجھتے تھے کہ مردے نہیں سن سکتے)
[arabic]عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ
وَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَلِيبِ بَدْرٍ فَقَالَ هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ثُمَّ قَالَ إِنَّهُمْ الْآنَ يَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ فَذُكِرَ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ إِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُمْ الْآنَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِي كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ هُوَ الْحَقُّ ثُمَّ قَرَأَتْ
{ إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى }[/arabic]
ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے (جس میں کفار کی لاشیں ڈالی گئی تھیں) اور (مقتولین سے مخاطب ہو کر) فرمایا”کیا تم نے اسے حق پایا جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟” پھر فرمایا “جو میں کہہ رہا ہوں اس وقت یہ اسے سن رہے ہیں”۔ اس بات کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا تو انہوں نے کہا “نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے صرف یہ کہا تھا کہ “وہ اس وقت جانتے ہیں کہ جو کچھ میں ان سے کہا کرتا تھا وہ حق ہے” پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے (بطور دلیل) یہ آیت پڑھی “تو مردوں کو نہیں سنا سکتا”۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل)
اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائی تو اس حدیث پر بھی تفصیل سے بات ہو گی۔ فی الحال اتنا یاد رکھیں کہ امت میں سب سے پہلے “انک لا تسمع الموتٰٰی” سے سماع موتیٰ کی نفی کرنے والے محمد بن عبدالوھاب یا مودودی رحمہما اللہ نہیں بلکہ ایمان والوں کی ماں عائشہ رضی اللہ عنہا، وہ مبارک ہستی تھیں جنہیں بچپن ہی سے رسول رحمت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ساتھ نصیب ہوا۔ رفاقت نبوی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے وہ قرآن کریم اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا مطلب خوب سمجھتی تھیں۔ اور پھر ان کے موقف کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور اہل السنۃ والجماعۃ کے تمام مکاتب فکر کے نزدیک صحیح بخاری کتب حدیث میں سب سے اعلیٰ درجے کی کتاب ہے۔
ایک مثال لیتے ہیں۔ اردو اور دیگر تقریبا تمام زبانوں میں محاورتا کہا جاتا ہے کہ فلاں (مثلا زید) مردے کی طرح سویا ہوا ہے۔ آپ اس کا کیا مطلب لیں گے؟ یہی نا کہ زید اتنی گہری نیند سویا ہوا کہ اسے آس پاس کی کچھ خبر نہیں۔ اہل زبان اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں لیں گے کہ مردے بھی سوتے اور جاگتے ہیں۔ تشبیہہ بیان کرتے وقت مشبہ (زید) کو مشبہ بہ (مردے) سے تشبیہہ دی جاتی ہے، نہ کہ مشببہ بہ کو مشبہہ پر قیاس کیا جاتا ہے۔ مہوش صاحبہ نے جو تشریح بیان کی ہے اس میں ی بنیادی غلطی یہ ہے کہ مشبہ بہ کو مشبہ پر قیاس کر لیا ہے ۔ ان آیات میں کفار کو مردوں سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ وہ اپنے کفر اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ان پر کوئی بات اثر نہیں کرتی وہ نصیحت کی کوئی بات نہیں سنتے گویا کہ وہ مردے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ انک لا تسمع الموتی میں سماع حقیقی اور و لا تسمع الصم الدعاء میں سماع مجازی مراد ہے۔ آیات کی یہی تفسیر ہے جو علمائے متقدمین بیان کرتے آ رہے ہیں۔ نمبر وار اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ مفسرین کی تاریخِ وفات پر دھیان دیجیے گا۔
مقاتل بن سلیمان بن بشیر رحمۃ اللہ علیہ جن کی وفات 150 ھ میں ہوئی۔ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
[arabic]فشبه كفار مكة بالأموات
كما لا يسمع الميت النداء ، كذلك لا تسمع الكفار النداء ، ولا تفقهه [/arabic](تفسیر مقاتل)
"(اللہ تعالیٰ نے) مکہ کے کافروں کو مردوں سے تشبیہہ دی۔
جس طرح مردے پکار کو نہیں سنتے اسی طرح کافر (دعوت حق کی) پکار کو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں”
أبو محمد الحسين بن مسعود البغوي (المتوفی 516 ھ) اپنی تفسیر معالم التنزیل میں اس آیت کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں:
[arabic]أنهم لفرط إعراضهم عما يدعون إليه
كالميت الذي لا سبيل إلى إسماعه[/arabic] (معالم التنزیل)
"جس چیز کی طرف انہیں دعوت دی جاتی تھی (یعنی دعوتِ اسلام) اس سے ان کے انتہائی اعراض کی وجہ سے (کہا گیا کہ)
وہ مردوں کی مانند ہیں جنہیں سنانے کی کوئی راہ نہیں ہے”
السمرقندی (متوفی 375 ھ) اپنی تفسیر “بحر العلوم” میں رقم طراز ہیں:
[arabic]فهذا مثل ضربه للكفار ،
أي فكما أنك لا تسمع الموتى ، فكذلك لا تتفقه كفار مكة [/arabic] )بحر العلوم)
"یہ مثال ہے جو اللہ نے کافروں کے لیے بیان فرمائی ہے ک
ہ جس طرح آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے، اسی طرح کفار مکہ کو نہیں سمجھا سکتے”
جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے:
[arabic]هذا مثل ضربه الله للكافر
كما لا يسمع الميت كذلك لا يسمع الكافر ، [/arabic]
"یہ مثال اللہ نے کافر کے لیے بیان کی ہے کہ
جس طرح مردے نہیں سنتے اسی طرح کافر (دعوتِ حق) کو نہیں سنتا اور نہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے”
مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب میں نے شیعہ مفسرین کی تفاسیر سے رجوع کیا اور ان میں بھی مجھے یہی تفسیر ملی۔
طبرسی (متوفی 548 ھ) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
[arabic]ثم شبَّه الكفار بالموتى فقال { إنك لا تسمع الموتى } يقول
كما لا تسمع الميت الذي ليس له آلة السمع النداء كذلك لا تسمع الكافر النداء لأنه لا يسمع ولا يقبل الموعظة ولا يتدبر فيها
[/arabic]
"پھر کفار کو مردوں سے تشبیہہ دی اور کہا “آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے”۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح
آپ مردے کو نہیں سنا سکتے جس کے پاس پکار سننے کا عضو ہی نہیں اسی طرح آپ کافر کو بھی نہیں سنا سکتے کیونکہ وہ (خود ہی) نہیں سنتا اور نصیحت قبول نہیں کرتا اور نہ اس پر تدبر کرتا ہے”
شیعہ مفسر الطوسی متوفی 460 ھ اپنی تفسیر تفسير التبيان الجامع لعلوم القرآن میں لکھتے ہیں:
[arabic]ثم شبه الكفار بالموتى الذين لا يسمعون ما يقال لهم، وبالصم الذين لا يدركون دعاء من يدعوهم، من حيث انهم لم ينتفعوا بدعائه ولم يصيروا إلى ما دعاهم اليه، فقال { إنك } يا محمد { لا تسمع الموتى } لأن ذلك محال { ولا تسمع الصم الدعاء إذا ولو مدبرين } أي اعرضوا عن دعائك ولم يلتفتوا اليه ولم يفكروا في ما تدعوهم اليه، فهؤلاء الكفار بترك الفكر في ما يدعوهم اليه النبي (صلى الله عليه وسلم)
بمنزلة الموتى الذين لا يسمعون، وبمنزلة الصم الذين لا يدركون الأصوات.
[/arabic]
"پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہہ دی ہے جو سنتے نہیں ہیں، اور بہروں سے بھی تشبیہہ دی ہے جو بلانے والے کے بلاوے کا ادراک نہیں رکھتے۔۔۔ ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"آپ”
یعنی محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)
"
مردوں کو نہیں سنا سکتے”
کیوں کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔
"اور نہ بہروں کو سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہوں”
یعنی انہوں نے آپ کے بلاوے سے اعراض کیا اور اس کی طرف توجہ نہ کی اور اس پر غور ہی نہ کیا جس کی آپ انہیں دعوت دے رہے ہیں۔ پس یہ کفار نبی (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کی دعوت میں غور کرنے کو چھوڑ ک
ر مردوں کی مانند ہو چکے ہیں جو سنتے نہیں ہیں۔ اور ان کی حالت بہروں جیسی بن گئی ہے جو آواز کا ادراک نہیں رکھتے”۔
تفسیر المیزان دور حاضر میں شیعہ کی اہم تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے مصنف الطبطبائي (ت 1401 ه۔) نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
[arabic]إنما أمرناك بالتوكل على الله في أمر إيمانهم وكفرهم
لأنهم موتى وليس في وسعك أن تسمع الموتى دعوتك[/arabic]
"(اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں) ہم نے کفار کے ایمان اور کفر کے بارے میں آپ کو اللہ پر توکل کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ
وہ تو مردے ہیں اور آپ کے بس میں نہیں ہے کہ مردوں کو اپنی دعوت سنا دیں”۔
دوبارہ اہل سنت کی تفاسیر کی طرف آتے ہیں:
۔
زمحشری (متوفی 538 ھ) نے ااس کی تفسیر یوں لکھی ہے
[arabic]حالهم - لانتفاء جدوى السماع - كحال الموتى الذين فقدوا مصحح السماع[/arabic]
"ان کا حال ۔۔ ۔مردوں جیسا ہے جو سننے کی صلاحیت کھو چکے ہیں”
۔
الشوکانی (متوفی 1250 ھ) نے تو اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بہت دوٹوک انداز اختیار کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
[arabic]وظاهر نفي إسماع الموتى العموم، فلا يخصّ منه إلاّ ما ورد بدليل[/arabic]
"
اور (اس آیت سے) سماع موتیٰ کے عموم کی نفی ظاہر ہو گئی پس اس میں سے اسی کو مستثنٰی قرار دیا جائے جو دلیل سے ثابت ہے”
ابن جریر نے قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ:
عن قتادة قال :
[arabic] هذا مثل ضربه الله للكافر فكما لا يسمع الميت الدعاء كذلك لا يسمع الكاف[/arabic]ر
"اللہ تعالیٰ نے یہ کافر کی مثال بیان فرمائی ہے کہ
جس طرح مردہ پکار کو نہیں سنتا اسی طرح کافر بھی (دعوت حق) کو نہیں سنتا”
مفسرین کے علاوہ بہت سے دوسرے علماء بھی ان آیات سے عدم سماع موتیٰ کی دلیل لیتے چلے آ رہے ہیں۔ چونکہ الزام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ پر تھا اس لیے میں حنبلی علماء کی رائے نقل کرنے سے اجتناب کر رہا ہوں۔ حنفی کتب کی چند عبارات دیکھتے ہیں:
[arabic]۔ عِنْدَ أَكْثَرِ مَشَايِخِنَا هُوَ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَسْمَعُ (فتح القدیر۔ باب الجنائز ص 324)[/arabic]
"ہمارے اکثر مشائخ کا کہنا ہے کہ مردے نہیں سنتے”
حاشہ در مختار میں ہے:
[arabic] فقد أجاب عنه المشايخ بأنه غير ثابت: يعني من جهة المعنى، وذلك لان عائشة ردته بقوله تعالى: * (وما أنت بمسمع من فيالقبور) * (فاطر: 22) * (إنك لا تسمع الموتى) *[/arabic] (النمل: 08 )
"(قلیب بدر والی حدیث کا) ہمارے علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ وہ معنی کے لحاظ سے ثابت نہیں ہے اس لیے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے اس کا رد کیا تھا کہ “آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے”۔ ۔ ۔ ۔ “
(حاشیۃ در المختار جلد 4 باب اليمين في الضرب والقتل وغير ذلك)
ان سارے علماء میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کا ہم عصر رہا ہو یا ان کی آپس میں ملاقات یا رابطہ رہا ہو۔ ان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے لے کر آج تک کے مفسرین شامل ہیں جو سب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ سورۃ النمل کی اس آیت میں کفار کو بے حس قرار دیتے ہوئے انہیں مردوں سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ جس طرح مردے کو سنانا بے کار ہے اس لیے کہ وہ نہیں سن سکتا اسی طرح ہٹ دھرم کفار کو سنانا عبث ہے کہ ضد بازی کی وجہ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت وہ کھو چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے مہوش اگر خود تحقیق کرتیں تو یہ پہلو ان کی نظر سے اوجھل نہ رہ سکتا تھا۔ اب اگلے مراسلے تک اجازت دیجیے۔ ان شاء اللہ وقت ملتے ہی اس بارے میں مزید گزارشات پیش کروں گا۔