امن وسیم
محفلین
*قرآن سے دوری کیسے ختم ہو*
تحریر : امن وسیم
اندھیری رات ہو، راستہ ٹیڑھا میڑھا اور نا ہموار ہو، جھاڑ جھنکاڑ کی وجہ سے سانپ بچھّو اور دیگر موذی جانوروں اور حشرات الارض کا ہر وقت کھٹکا لگا ہو، ایسے میں ایک شخص چلا جارہا ہو، اس کے ہاتھ میں ٹارچ ہو، لیکن اسے اس نے بجھا رکھا ہو، اس شخص کی بے وقوفی پر ہم میں سے ہر ایک کو ہنسی آئے گی۔ وہ ٹارچ جلاکر اپنا راستہ دیکھ سکتا ہے، راہ کی ناہمواریوں میں گرنے پڑنے سے بچ سکتا ہے، موذی جانوروں سے اپنی حفاظت کرسکتا ہے، لیکن اس کی مت ماری گئی ہے کہ وہ ٹارچ جیسی مفید چیز اپنے پاس ہوتے ہوئے اس سے فائدہ نہیں اٹھارہا ہے۔
ٹھیک ایسا ہی رویّہ ہم مسلمانوں نے قرآن کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے۔ ہم مصائب و مشکلات کا شکار ہیں۔ ہمیں صحیح راہِ عمل سجھائی نہیں دے رہی ہے ۔ ایسی صورت حال میں قرآن کی شکل میں ہمارے پاس ایک روشنی موجود ہے جس سے ہم گھٹا ٹوپ تاریکیاں دور کرسکتے ہیں ، اپنی مشکلات و مسائل کا ازالہ کرسکتے ہیں ، اس کی رہ نمائی میں ترقی اور کامیابی کی منزلیں طے کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اسے گل کر رکھا ہے۔
’’تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں، سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہ نمائی کرتا ہے۔‘‘(المائدۃ:۱۵۔۱۶)
اگر کوئی شخص بیمار ہو اور دوائیوں کی کوئی کتاب لے کر پڑھنے بیٹھ جائے اور یہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دور ہوجائے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ کیا آپ نہیں کہیں گے کہ بھیجو اسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ مگر شافئ مطلق نے جو کتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔ آپ اس کو پڑھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دوٗر ہوجائیں گے۔
*قرآن سے دوری کی وجوہات*
قرآن مجید کے بارے میں ہمارا تصور بس یہی ہے کہ یہ ہماری مقدس کتاب ہے جسے چھونے سے قبل وضو کرنا واجب ہے، جب اسے پکڑیں تو چومنا اور آنکھوں سے لگانا ضروری ہے۔ ریشم کا غلاف چڑھانا، شادی پہ بیٹیوں کو ہدیہ دینا اور رخصتی کے وقت قرآن کا سایہ کرنا، لڑائی جھگڑے میں قسم کے لیے استعمال کرنا اور جب کوئی وفات پا جائے تو ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کرنا ہی اصل مقصد ہے۔ ہم مختلف امراض کے علاج کے لیے اس کی آیتوں کے تعویذ بناکر گلے میں باندھتے اور پانی میں گھول کر پیتے ہیں، جنّات اور بھوت پریت بھگانے کے لیے اسے پڑھ کر پھونکتے ہیں۔ دوکانوں اور مکانوں کی برکت کے لیے قرآن خوانی کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں
آنکھوں پہ لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں
دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جزداں حریر و ریشم کے
اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے
خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح سے طوطا مینا کو
کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں
اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول و قسم لینے کے لیے
تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے
ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
بہت سے مسلمان ہیں جو قرآن کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں، روزانہ اس کا کچھ حصہ پڑھتے ہیں، ماہ رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے جب حفّاظ کرام قرآن سنانے کے لیے کمربستہ ہوجاتے ہیں اور عام مسلمان تراویح میں، اپنی نفل نمازوں میں اور نمازوں کے علاوہ بھی اپنا زیادہ تر وقت قرآن پڑھنے میں لگاتے ہیں، لیکن ان کا یہ پڑھنا بغیر سمجھے بوجھے ہوتا ہے۔
اے ایمان والو، نشے کے حال میں نماز کے پاس نہ جایا کرو یہاں تک کہ جو کچھ تم زبان سے کہتے ہو اس کو *سمجھنے لگو* ( سورہ : نساء آیت : ۴۳ )
اس آیت میں نماز سے روکنے کی اصل وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ نشے میں انسان کیا کچھ بول جائے اسے خود بھی پتہ نہیں ہو گا ۔ کیا معلوم وہ بارگاہ الہی میں کیا بے ادبی کر بیٹھے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نماز میں جو کچھ بول رہے ہوتے ہیں کیا اس کو سمجھتے بھی ہیں۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔
ہم مسلمان ( جمہور کا اجماع ) اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قران کی قرات کرنے سے ثواب حاصل ہوتا ہے اور اس بارے میں ہمارے پاس دلیل کے طور پر صرف ایک حدیث کے سوا کچھ نہیں ۔ حدیث کا مفہوم ہے : قرآن پاک کے ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ اس حدیث سے ہم نے یہ سمجھ لیا کہ قرآن کی صرف تلاوت کرنے پر ہی ثواب مل جاتا ہے۔ مگر قرآن خود اپنے بارے میں کہتا ہے :
یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔
(سورہ:ص آیت:۲۹)
میں کچھ مثالوں کے ذریعے سے اپنی بات کی وضاحت کروں گا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے : جو شخص اس حال میں مرے کہ شرک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے : جس نے دو رکعت نماز اچھے طریقے سے ادا کی اس پر جنت واجب ہو گئی۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ اگر اس نے دو رکعت نماز بہت اچھے طریقے سے پڑھ لی تو سمجھو جنت واجب ، اب چاہے وہ جھوٹ بولے ، چوری کرے ، بے ایمانی ، ہیرا پھیری یا اور کوئی گناہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ( معاذاللہ)۔ اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان شرک سے بچا رہے تو باقی گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ضرور جنت میں جائے گا لیکن قرآن تو کچھ اور کہ رہا ہے :
اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر خدا کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے ایک عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔
(سورہ : نساء آیت : ۹۳ )
اس آیت میں شرک نہ کرنے کے باوجود (قتل کرنے پر) ہمیشہ کیلیے جہنم کی سزا ہے۔
جنت میں داخل ہونے کیلیے کڑی شرائط ہیں۔ جو ہمیں صرف قرآن سے ہی معلوم ہو سکتی ہیں۔ ہمیں ان سب کو جاننا ہو گا اور ان سب پر عمل کرنا ہو گا نہ کہ کسی ایک پر۔
لہذا ثابت ہوا کہ کسی حدیث کو سمجھنے کیلیے اس حدیث کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا پڑتا ہے اور اسے قرآن کے تحت سمجھنا پڑتا ہے ۔ صرف ظاہری الفاظ سے نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔
اب آتے ہیں اپنے اصل مسئلہ کی طرف ، ہم سب جانتے ہیں کہ وضو کرنے پر گناہ جھڑ جاتے ہیں اور بے شمار نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اب ایک شخص فجر کی اذان سن کر نیند سے بیدار ہوا، مسجد گیا، ٹھنڈے پانی سے وضو کیا لیکن نماز پڑھے بغیر گھر واپس آ کر سو رہا، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء میں بھی اس نے یہی عمل دوہرایا کہ مسجد تک جا کر وضو تو کرتا لیکن نماز پڑھے بغیر واپس آ جاتا۔ اب اگر وہ یہ سمجھے کہ میرا ہر کام چھوڑ کر مسجد جانا وہاں جا کر وضو کرنا ، میرے لیے بہت بڑے ثواب کا باعث ہے اور اب مجھے نماز پڑھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تو یقینا وہ بہت بڑا بے وقوف ہے یا شدید غلط فہمی کا شکار ہے۔
بالکل یہی معاملہ قرآن کا ہے یہ نازل کیا گیا سمجھنے کیلیے ، ہدایت اور نصیحت حاصل کرنے کیلیے ۔ اب اگر کوئی شخص قرآن کو اس طرح پڑھ رہا ہے کہ جو لفظ وہ پڑھتا ہے اس کا مطلب اسے پتہ ہوتا ہے جو واقعہ پڑھتا ہے اس کا پس منظر اس کے ذہن میں آ جاتا ہے یعنی جب وہ پڑھتا ہے (ذالک الکتاب لا ریب فیہ) تو اسے اس جملے کا مفہوم بھی معلوم ہے کہ ( یہ ایسی کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں) تو اسے یقینا ہر حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ملیں گی ۔
لیکن کوئی شخص بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت کر رہا ہو اور وہ سمجھے کہ ثواب حاصل کرنے کیلیے تلاوت ہی کافی ہے تو وہ بھی انتہا درجے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ ناظرہ سیکھنا ، قرآن کو سیکھنے کی ابتدا ہے نہ کہ انتہا جیسا کہ وضو نماز کی ابتدا ہے۔ ناظرہ سیکھنے کے بعد ہمیں چاہیے کہ ترجمہ اور پھر تفسیر بھی سیکھیں تاکہ قرآن سیکھنے کا عمل مکمل ہو سکے۔ جس طرح کہ وضو کے بعد نماز کیلیے تکبیر ، قیام اور باقی سارے ارکان اور آخر میں سلام پھیرنا جس کے بعد ہی آپ کو وضو اور نماز کے تمام اراکین کو ادا کرنے کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ناظرہ سیکھ لیتا ہے تو اس کا ثواب پنڈنگ ہو جائے گا اب جب وہ قرآن کو سمجھنے لگ جائے گا تو تلاوت کا سارا ثواب بھی ملے گا اور ترجمہ تفسیر سمجھنے کا اور بعد میں عمل کرنے کا۔
بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قرآن مجید بہت مشکل کتاب ہے، اسے پڑھنا اور سمجھنا نہایت کٹھن ہے۔ یہ تصور ان لوگوں کا تو ہو سکتا ہے جنہوں نے کبھی قرآن کو سمجھنے یا سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی، مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ہدایت کے لیے قرآن سے زیادہ آسان کتاب نہیں۔
"ہم نے قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے آسان بنایا ہے پھر ہے کوئی جو اس پر غور کرے" (القمر ۱۷)
*مسئلے کا حل*
اس مسئلے کا حل بہت سادہ ہے۔ جو لوگ کچھ وقت نکال کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں وہ تلاوت کی بجائے تفسیر پڑھیں اور جو تلاوت تک کیلیے وقت نہیں نکال پاتے وہ کوشش کر کے چند منٹ قرآن کیلیے نکالیں۔
آج کل موبائل اور انٹرنیٹ کی بدولت یہ کام بہت آسان ہو گیا ہے ۔ آڈیو ، ویڈیو اور ایپس کی شکل میں بہت سی تفاسیر آپ کو آسانی سے مل جائیں گی۔ روزانہ صرف پندرہ منٹ نکال کر ایک سال میں پورے قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو قرآن پاک کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تحریر : امن وسیم
اندھیری رات ہو، راستہ ٹیڑھا میڑھا اور نا ہموار ہو، جھاڑ جھنکاڑ کی وجہ سے سانپ بچھّو اور دیگر موذی جانوروں اور حشرات الارض کا ہر وقت کھٹکا لگا ہو، ایسے میں ایک شخص چلا جارہا ہو، اس کے ہاتھ میں ٹارچ ہو، لیکن اسے اس نے بجھا رکھا ہو، اس شخص کی بے وقوفی پر ہم میں سے ہر ایک کو ہنسی آئے گی۔ وہ ٹارچ جلاکر اپنا راستہ دیکھ سکتا ہے، راہ کی ناہمواریوں میں گرنے پڑنے سے بچ سکتا ہے، موذی جانوروں سے اپنی حفاظت کرسکتا ہے، لیکن اس کی مت ماری گئی ہے کہ وہ ٹارچ جیسی مفید چیز اپنے پاس ہوتے ہوئے اس سے فائدہ نہیں اٹھارہا ہے۔
ٹھیک ایسا ہی رویّہ ہم مسلمانوں نے قرآن کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے۔ ہم مصائب و مشکلات کا شکار ہیں۔ ہمیں صحیح راہِ عمل سجھائی نہیں دے رہی ہے ۔ ایسی صورت حال میں قرآن کی شکل میں ہمارے پاس ایک روشنی موجود ہے جس سے ہم گھٹا ٹوپ تاریکیاں دور کرسکتے ہیں ، اپنی مشکلات و مسائل کا ازالہ کرسکتے ہیں ، اس کی رہ نمائی میں ترقی اور کامیابی کی منزلیں طے کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اسے گل کر رکھا ہے۔
’’تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں، سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہ نمائی کرتا ہے۔‘‘(المائدۃ:۱۵۔۱۶)
اگر کوئی شخص بیمار ہو اور دوائیوں کی کوئی کتاب لے کر پڑھنے بیٹھ جائے اور یہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دور ہوجائے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ کیا آپ نہیں کہیں گے کہ بھیجو اسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ مگر شافئ مطلق نے جو کتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔ آپ اس کو پڑھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دوٗر ہوجائیں گے۔
*قرآن سے دوری کی وجوہات*
قرآن مجید کے بارے میں ہمارا تصور بس یہی ہے کہ یہ ہماری مقدس کتاب ہے جسے چھونے سے قبل وضو کرنا واجب ہے، جب اسے پکڑیں تو چومنا اور آنکھوں سے لگانا ضروری ہے۔ ریشم کا غلاف چڑھانا، شادی پہ بیٹیوں کو ہدیہ دینا اور رخصتی کے وقت قرآن کا سایہ کرنا، لڑائی جھگڑے میں قسم کے لیے استعمال کرنا اور جب کوئی وفات پا جائے تو ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کرنا ہی اصل مقصد ہے۔ ہم مختلف امراض کے علاج کے لیے اس کی آیتوں کے تعویذ بناکر گلے میں باندھتے اور پانی میں گھول کر پیتے ہیں، جنّات اور بھوت پریت بھگانے کے لیے اسے پڑھ کر پھونکتے ہیں۔ دوکانوں اور مکانوں کی برکت کے لیے قرآن خوانی کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں
آنکھوں پہ لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں
دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جزداں حریر و ریشم کے
اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے
خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح سے طوطا مینا کو
کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں
اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول و قسم لینے کے لیے
تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے
ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
بہت سے مسلمان ہیں جو قرآن کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں، روزانہ اس کا کچھ حصہ پڑھتے ہیں، ماہ رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے جب حفّاظ کرام قرآن سنانے کے لیے کمربستہ ہوجاتے ہیں اور عام مسلمان تراویح میں، اپنی نفل نمازوں میں اور نمازوں کے علاوہ بھی اپنا زیادہ تر وقت قرآن پڑھنے میں لگاتے ہیں، لیکن ان کا یہ پڑھنا بغیر سمجھے بوجھے ہوتا ہے۔
اے ایمان والو، نشے کے حال میں نماز کے پاس نہ جایا کرو یہاں تک کہ جو کچھ تم زبان سے کہتے ہو اس کو *سمجھنے لگو* ( سورہ : نساء آیت : ۴۳ )
اس آیت میں نماز سے روکنے کی اصل وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ نشے میں انسان کیا کچھ بول جائے اسے خود بھی پتہ نہیں ہو گا ۔ کیا معلوم وہ بارگاہ الہی میں کیا بے ادبی کر بیٹھے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نماز میں جو کچھ بول رہے ہوتے ہیں کیا اس کو سمجھتے بھی ہیں۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔
ہم مسلمان ( جمہور کا اجماع ) اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قران کی قرات کرنے سے ثواب حاصل ہوتا ہے اور اس بارے میں ہمارے پاس دلیل کے طور پر صرف ایک حدیث کے سوا کچھ نہیں ۔ حدیث کا مفہوم ہے : قرآن پاک کے ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ اس حدیث سے ہم نے یہ سمجھ لیا کہ قرآن کی صرف تلاوت کرنے پر ہی ثواب مل جاتا ہے۔ مگر قرآن خود اپنے بارے میں کہتا ہے :
یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔
(سورہ:ص آیت:۲۹)
میں کچھ مثالوں کے ذریعے سے اپنی بات کی وضاحت کروں گا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے : جو شخص اس حال میں مرے کہ شرک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے : جس نے دو رکعت نماز اچھے طریقے سے ادا کی اس پر جنت واجب ہو گئی۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ اگر اس نے دو رکعت نماز بہت اچھے طریقے سے پڑھ لی تو سمجھو جنت واجب ، اب چاہے وہ جھوٹ بولے ، چوری کرے ، بے ایمانی ، ہیرا پھیری یا اور کوئی گناہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ( معاذاللہ)۔ اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان شرک سے بچا رہے تو باقی گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ضرور جنت میں جائے گا لیکن قرآن تو کچھ اور کہ رہا ہے :
اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر خدا کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے ایک عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔
(سورہ : نساء آیت : ۹۳ )
اس آیت میں شرک نہ کرنے کے باوجود (قتل کرنے پر) ہمیشہ کیلیے جہنم کی سزا ہے۔
جنت میں داخل ہونے کیلیے کڑی شرائط ہیں۔ جو ہمیں صرف قرآن سے ہی معلوم ہو سکتی ہیں۔ ہمیں ان سب کو جاننا ہو گا اور ان سب پر عمل کرنا ہو گا نہ کہ کسی ایک پر۔
لہذا ثابت ہوا کہ کسی حدیث کو سمجھنے کیلیے اس حدیث کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا پڑتا ہے اور اسے قرآن کے تحت سمجھنا پڑتا ہے ۔ صرف ظاہری الفاظ سے نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔
اب آتے ہیں اپنے اصل مسئلہ کی طرف ، ہم سب جانتے ہیں کہ وضو کرنے پر گناہ جھڑ جاتے ہیں اور بے شمار نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اب ایک شخص فجر کی اذان سن کر نیند سے بیدار ہوا، مسجد گیا، ٹھنڈے پانی سے وضو کیا لیکن نماز پڑھے بغیر گھر واپس آ کر سو رہا، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء میں بھی اس نے یہی عمل دوہرایا کہ مسجد تک جا کر وضو تو کرتا لیکن نماز پڑھے بغیر واپس آ جاتا۔ اب اگر وہ یہ سمجھے کہ میرا ہر کام چھوڑ کر مسجد جانا وہاں جا کر وضو کرنا ، میرے لیے بہت بڑے ثواب کا باعث ہے اور اب مجھے نماز پڑھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تو یقینا وہ بہت بڑا بے وقوف ہے یا شدید غلط فہمی کا شکار ہے۔
بالکل یہی معاملہ قرآن کا ہے یہ نازل کیا گیا سمجھنے کیلیے ، ہدایت اور نصیحت حاصل کرنے کیلیے ۔ اب اگر کوئی شخص قرآن کو اس طرح پڑھ رہا ہے کہ جو لفظ وہ پڑھتا ہے اس کا مطلب اسے پتہ ہوتا ہے جو واقعہ پڑھتا ہے اس کا پس منظر اس کے ذہن میں آ جاتا ہے یعنی جب وہ پڑھتا ہے (ذالک الکتاب لا ریب فیہ) تو اسے اس جملے کا مفہوم بھی معلوم ہے کہ ( یہ ایسی کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں) تو اسے یقینا ہر حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ملیں گی ۔
لیکن کوئی شخص بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت کر رہا ہو اور وہ سمجھے کہ ثواب حاصل کرنے کیلیے تلاوت ہی کافی ہے تو وہ بھی انتہا درجے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ ناظرہ سیکھنا ، قرآن کو سیکھنے کی ابتدا ہے نہ کہ انتہا جیسا کہ وضو نماز کی ابتدا ہے۔ ناظرہ سیکھنے کے بعد ہمیں چاہیے کہ ترجمہ اور پھر تفسیر بھی سیکھیں تاکہ قرآن سیکھنے کا عمل مکمل ہو سکے۔ جس طرح کہ وضو کے بعد نماز کیلیے تکبیر ، قیام اور باقی سارے ارکان اور آخر میں سلام پھیرنا جس کے بعد ہی آپ کو وضو اور نماز کے تمام اراکین کو ادا کرنے کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ناظرہ سیکھ لیتا ہے تو اس کا ثواب پنڈنگ ہو جائے گا اب جب وہ قرآن کو سمجھنے لگ جائے گا تو تلاوت کا سارا ثواب بھی ملے گا اور ترجمہ تفسیر سمجھنے کا اور بعد میں عمل کرنے کا۔
بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قرآن مجید بہت مشکل کتاب ہے، اسے پڑھنا اور سمجھنا نہایت کٹھن ہے۔ یہ تصور ان لوگوں کا تو ہو سکتا ہے جنہوں نے کبھی قرآن کو سمجھنے یا سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی، مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ہدایت کے لیے قرآن سے زیادہ آسان کتاب نہیں۔
"ہم نے قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے آسان بنایا ہے پھر ہے کوئی جو اس پر غور کرے" (القمر ۱۷)
*مسئلے کا حل*
اس مسئلے کا حل بہت سادہ ہے۔ جو لوگ کچھ وقت نکال کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں وہ تلاوت کی بجائے تفسیر پڑھیں اور جو تلاوت تک کیلیے وقت نہیں نکال پاتے وہ کوشش کر کے چند منٹ قرآن کیلیے نکالیں۔
آج کل موبائل اور انٹرنیٹ کی بدولت یہ کام بہت آسان ہو گیا ہے ۔ آڈیو ، ویڈیو اور ایپس کی شکل میں بہت سی تفاسیر آپ کو آسانی سے مل جائیں گی۔ روزانہ صرف پندرہ منٹ نکال کر ایک سال میں پورے قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو قرآن پاک کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین