امن وسیم

محفلین
*قرآن سے دوری کیسے ختم ہو*
تحریر : امن وسیم

اندھیری رات ہو، راستہ ٹیڑھا میڑھا اور نا ہموار ہو، جھاڑ جھنکاڑ کی وجہ سے سانپ بچھّو اور دیگر موذی جانوروں اور حشرات الارض کا ہر وقت کھٹکا لگا ہو، ایسے میں ایک شخص چلا جارہا ہو، اس کے ہاتھ میں ٹارچ ہو، لیکن اسے اس نے بجھا رکھا ہو، اس شخص کی بے وقوفی پر ہم میں سے ہر ایک کو ہنسی آئے گی۔ وہ ٹارچ جلاکر اپنا راستہ دیکھ سکتا ہے، راہ کی ناہمواریوں میں گرنے پڑنے سے بچ سکتا ہے، موذی جانوروں سے اپنی حفاظت کرسکتا ہے، لیکن اس کی مت ماری گئی ہے کہ وہ ٹارچ جیسی مفید چیز اپنے پاس ہوتے ہوئے اس سے فائدہ نہیں اٹھارہا ہے۔

ٹھیک ایسا ہی رویّہ ہم مسلمانوں نے قرآن کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے۔ ہم مصائب و مشکلات کا شکار ہیں۔ ہمیں صحیح راہِ عمل سجھائی نہیں دے رہی ہے ۔ ایسی صورت حال میں قرآن کی شکل میں ہمارے پاس ایک روشنی موجود ہے جس سے ہم گھٹا ٹوپ تاریکیاں دور کرسکتے ہیں ، اپنی مشکلات و مسائل کا ازالہ کرسکتے ہیں ، اس کی رہ نمائی میں ترقی اور کامیابی کی منزلیں طے کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اسے گل کر رکھا ہے۔

’’تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں، سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہ نمائی کرتا ہے۔‘‘(المائدۃ:۱۵۔۱۶)

اگر کوئی شخص بیمار ہو اور دوائیوں کی کوئی کتاب لے کر پڑھنے بیٹھ جائے اور یہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دور ہوجائے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ کیا آپ نہیں کہیں گے کہ بھیجو اسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ مگر شافئ مطلق نے جو کتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔ آپ اس کو پڑھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دوٗر ہوجائیں گے۔

*قرآن سے دوری کی وجوہات*

قرآن مجید کے بارے میں ہمارا تصور بس یہی ہے کہ یہ ہماری مقدس کتاب ہے جسے چھونے سے قبل وضو کرنا واجب ہے، جب اسے پکڑیں تو چومنا اور آنکھوں سے لگانا ضروری ہے۔ ریشم کا غلاف چڑھانا، شادی پہ بیٹیوں کو ہدیہ دینا اور رخصتی کے وقت قرآن کا سایہ کرنا، لڑائی جھگڑے میں قسم کے لیے استعمال کرنا اور جب کوئی وفات پا جائے تو ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کرنا ہی اصل مقصد ہے۔ ہم مختلف امراض کے علاج کے لیے اس کی آیتوں کے تعویذ بناکر گلے میں باندھتے اور پانی میں گھول کر پیتے ہیں، جنّات اور بھوت پریت بھگانے کے لیے اسے پڑھ کر پھونکتے ہیں۔ دوکانوں اور مکانوں کی برکت کے لیے قرآن خوانی کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔

طاقوں میں سجایا جاتا ہوں
آنکھوں پہ لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں
دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جزداں حریر و ریشم کے
اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے
خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح سے طوطا مینا کو
کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں
اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول و قسم لینے کے لیے
تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے
ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں

بہت سے مسلمان ہیں جو قرآن کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں، روزانہ اس کا کچھ حصہ پڑھتے ہیں، ماہ رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے جب حفّاظ کرام قرآن سنانے کے لیے کمربستہ ہوجاتے ہیں اور عام مسلمان تراویح میں، اپنی نفل نمازوں میں اور نمازوں کے علاوہ بھی اپنا زیادہ تر وقت قرآن پڑھنے میں لگاتے ہیں، لیکن ان کا یہ پڑھنا بغیر سمجھے بوجھے ہوتا ہے۔

اے ایمان والو، نشے کے حال میں نماز کے پاس نہ جایا کرو یہاں تک کہ جو کچھ تم زبان سے کہتے ہو اس کو *سمجھنے لگو* ( سورہ : نساء آیت : ۴۳ )

اس آیت میں نماز سے روکنے کی اصل وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ نشے میں انسان کیا کچھ بول جائے اسے خود بھی پتہ نہیں ہو گا ۔ کیا معلوم وہ بارگاہ الہی میں کیا بے ادبی کر بیٹھے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نماز میں جو کچھ بول رہے ہوتے ہیں کیا اس کو سمجھتے بھی ہیں۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔

ہم مسلمان ( جمہور کا اجماع ) اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قران کی قرات کرنے سے ثواب حاصل ہوتا ہے اور اس بارے میں ہمارے پاس دلیل کے طور پر صرف ایک حدیث کے سوا کچھ نہیں ۔ حدیث کا مفہوم ہے : قرآن پاک کے ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ اس حدیث سے ہم نے یہ سمجھ لیا کہ قرآن کی صرف تلاوت کرنے پر ہی ثواب مل جاتا ہے۔ مگر قرآن خود اپنے بارے میں کہتا ہے :

یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔
(سورہ:ص آیت:۲۹)

میں کچھ مثالوں کے ذریعے سے اپنی بات کی وضاحت کروں گا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے : جو شخص اس حال میں مرے کہ شرک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے : جس نے دو رکعت نماز اچھے طریقے سے ادا کی اس پر جنت واجب ہو گئی۔

اب اگر کوئی یہ کہے کہ اگر اس نے دو رکعت نماز بہت اچھے طریقے سے پڑھ لی تو سمجھو جنت واجب ، اب چاہے وہ جھوٹ بولے ، چوری کرے ، بے ایمانی ، ہیرا پھیری یا اور کوئی گناہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ( معاذاللہ)۔ اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان شرک سے بچا رہے تو باقی گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ضرور جنت میں جائے گا لیکن قرآن تو کچھ اور کہ رہا ہے :

اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر خدا کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے ایک عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔
(سورہ : نساء آیت : ۹۳ )

اس آیت میں شرک نہ کرنے کے باوجود (قتل کرنے پر) ہمیشہ کیلیے جہنم کی سزا ہے۔

جنت میں داخل ہونے کیلیے کڑی شرائط ہیں۔ جو ہمیں صرف قرآن سے ہی معلوم ہو سکتی ہیں۔ ہمیں ان سب کو جاننا ہو گا اور ان سب پر عمل کرنا ہو گا نہ کہ کسی ایک پر۔

لہذا ثابت ہوا کہ کسی حدیث کو سمجھنے کیلیے اس حدیث کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا پڑتا ہے اور اسے قرآن کے تحت سمجھنا پڑتا ہے ۔ صرف ظاہری الفاظ سے نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔

اب آتے ہیں اپنے اصل مسئلہ کی طرف ، ہم سب جانتے ہیں کہ وضو کرنے پر گناہ جھڑ جاتے ہیں اور بے شمار نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اب ایک شخص فجر کی اذان سن کر نیند سے بیدار ہوا، مسجد گیا، ٹھنڈے پانی سے وضو کیا لیکن نماز پڑھے بغیر گھر واپس آ کر سو رہا، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء میں بھی اس نے یہی عمل دوہرایا کہ مسجد تک جا کر وضو تو کرتا لیکن نماز پڑھے بغیر واپس آ جاتا۔ اب اگر وہ یہ سمجھے کہ میرا ہر کام چھوڑ کر مسجد جانا وہاں جا کر وضو کرنا ، میرے لیے بہت بڑے ثواب کا باعث ہے اور اب مجھے نماز پڑھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تو یقینا وہ بہت بڑا بے وقوف ہے یا شدید غلط فہمی کا شکار ہے۔

بالکل یہی معاملہ قرآن کا ہے یہ نازل کیا گیا سمجھنے کیلیے ، ہدایت اور نصیحت حاصل کرنے کیلیے ۔ اب اگر کوئی شخص قرآن کو اس طرح پڑھ رہا ہے کہ جو لفظ وہ پڑھتا ہے اس کا مطلب اسے پتہ ہوتا ہے جو واقعہ پڑھتا ہے اس کا پس منظر اس کے ذہن میں آ جاتا ہے یعنی جب وہ پڑھتا ہے (ذالک الکتاب لا ریب فیہ) تو اسے اس جملے کا مفہوم بھی معلوم ہے کہ ( یہ ایسی کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں) تو اسے یقینا ہر حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ملیں گی ۔

لیکن کوئی شخص بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت کر رہا ہو اور وہ سمجھے کہ ثواب حاصل کرنے کیلیے تلاوت ہی کافی ہے تو وہ بھی انتہا درجے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ ناظرہ سیکھنا ، قرآن کو سیکھنے کی ابتدا ہے نہ کہ انتہا جیسا کہ وضو نماز کی ابتدا ہے۔ ناظرہ سیکھنے کے بعد ہمیں چاہیے کہ ترجمہ اور پھر تفسیر بھی سیکھیں تاکہ قرآن سیکھنے کا عمل مکمل ہو سکے۔ جس طرح کہ وضو کے بعد نماز کیلیے تکبیر ، قیام اور باقی سارے ارکان اور آخر میں سلام پھیرنا جس کے بعد ہی آپ کو وضو اور نماز کے تمام اراکین کو ادا کرنے کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ناظرہ سیکھ لیتا ہے تو اس کا ثواب پنڈنگ ہو جائے گا اب جب وہ قرآن کو سمجھنے لگ جائے گا تو تلاوت کا سارا ثواب بھی ملے گا اور ترجمہ تفسیر سمجھنے کا اور بعد میں عمل کرنے کا۔

بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قرآن مجید بہت مشکل کتاب ہے، اسے پڑھنا اور سمجھنا نہایت کٹھن ہے۔ یہ تصور ان لوگوں کا تو ہو سکتا ہے جنہوں نے کبھی قرآن کو سمجھنے یا سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی، مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ہدایت کے لیے قرآن سے زیادہ آسان کتاب نہیں۔

"ہم نے قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے آسان بنایا ہے پھر ہے کوئی جو اس پر غور کرے" (القمر ۱۷)

*مسئلے کا حل*

اس مسئلے کا حل بہت سادہ ہے۔ جو لوگ کچھ وقت نکال کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں وہ تلاوت کی بجائے تفسیر پڑھیں اور جو تلاوت تک کیلیے وقت نہیں نکال پاتے وہ کوشش کر کے چند منٹ قرآن کیلیے نکالیں۔
آج کل موبائل اور انٹرنیٹ کی بدولت یہ کام بہت آسان ہو گیا ہے ۔ آڈیو ، ویڈیو اور ایپس کی شکل میں بہت سی تفاسیر آپ کو آسانی سے مل جائیں گی۔ روزانہ صرف پندرہ منٹ نکال کر ایک سال میں پورے قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کو قرآن پاک کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

الشفاء

لائبریرین
اب آتے ہیں اپنے اصل مسئلہ کی طرف ، ہم سب جانتے ہیں کہ وضو کرنے پر گناہ جھڑ جاتے ہیں اور بے شمار نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اب ایک شخص فجر کی اذان سن کر نیند سے بیدار ہوا، مسجد گیا، ٹھنڈے پانی سے وضو کیا لیکن نماز پڑھے بغیر گھر واپس آ کر سو رہا، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء میں بھی اس نے یہی عمل دوہرایا کہ مسجد تک جا کر وضو تو کرتا لیکن نماز پڑھے بغیر واپس آ جاتا۔ اب اگر وہ یہ سمجھے کہ میرا ہر کام چھوڑ کر مسجد جانا وہاں جا کر وضو کرنا ، میرے لیے بہت بڑے ثواب کا باعث ہے اور اب مجھے نماز پڑھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تو یقینا وہ بہت بڑا بے وقوف ہے یا شدید غلط فہمی کا شکار ہے۔
اسلام میں مختلف اعمال پر جزا و سزا مقرر ہے۔ وضو کرنا ایک عمل ہے اور نماز پڑھنا دوسرا عمل۔ اگر آپ ثواب کی نیت سے وضو کرتے ہیں تو اس کا ثواب آپ کو اللہ کے فضل سے ضرور ملے گا۔ اور اگر نماز میں کوتاہی ہو گی تو اس کا گناہ اپنی جگہ ہے۔۔۔

لیکن کوئی شخص بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت کر رہا ہو اور وہ سمجھے کہ ثواب حاصل کرنے کیلیے تلاوت ہی کافی ہے تو وہ بھی انتہا درجے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ ناظرہ سیکھنا ، قرآن کو سیکھنے کی ابتدا ہے نہ کہ انتہا جیسا کہ وضو نماز کی ابتدا ہے۔ ناظرہ سیکھنے کے بعد ہمیں چاہیے کہ ترجمہ اور پھر تفسیر بھی سیکھیں تاکہ قرآن سیکھنے کا عمل مکمل ہو سکے۔ جس طرح کہ وضو کے بعد نماز کیلیے تکبیر ، قیام اور باقی سارے ارکان اور آخر میں سلام پھیرنا جس کے بعد ہی آپ کو وضو اور نماز کے تمام اراکین کو ادا کرنے کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ناظرہ سیکھ لیتا ہے تو اس کا ثواب پنڈنگ ہو جائے گا اب جب وہ قرآن کو سمجھنے لگ جائے گا تو تلاوت کا سارا ثواب بھی ملے گا اور ترجمہ تفسیر سمجھنے کا اور بعد میں عمل کرنے کا۔
اگرچہ قرآن کا اصل مقصد اسے سمجھ کر پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ہے لیکن قرآن کو بغیر سمجھے پڑھنا بھی ثواب سے خالی نہیں۔ اس کی اپنی برکات ہیں۔ خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ قرآن کے ہر حرف پر دس نیکیاں ہیں۔ اور الم ایک حرف نہیں بلکہ ا ایک حرف ہے ، ل دوسرا حرف ہے اور م تیسرا حرف ہے۔ لہٰذا حدیث کے مطابق صرف الم پڑھنے سے تیس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ حالانکہ مثال میں بتائے گئے حروف پر عمل کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آتی۔ تو جب شارع علیہ الصلاۃ والسلام نے اس ثواب کو مشروط نہیں فرمایا تو کوئی دوسرا شخص اس ثواب کو مشروط کر کے اس کا ثواب عمل تک "پنڈنگ" کیسے کر سکتا ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کا نہ صرف پڑھنا باعث ثواب ہے بلکہ اس کو محبت سے چھونا بلکہ دیکھنا بھی اجر و ثواب رکھتا ہے۔۔۔
 

امن وسیم

محفلین
اگرچہ قرآن کا اصل مقصد اسے سمجھ کر پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ہے لیکن قرآن کو بغیر سمجھے پڑھنا بھی ثواب سے خالی نہیں۔
جب اصل مقصد ہی پورا نہ ہو تو ثواب کیسا؟

رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم کو مشروط کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ، ان کیلیے تلاوت کا مطلب ہی سمجھ کر پڑھنا ہوتا تھا، جیسا کہ میں کوئی ناول پڑھوں ( تلاوت کروں ) تو میں اس کو سمجھ بھی رہا ہوں۔ اس لیے یہاں سمجھ کر پڑھنے کا حکم دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن ہم عربی نہیں جانتے اس لیے ترجمہ ، تفسیر سمجھنا ہمارے لیے فرض ہے یا پھر عربی سمجھنا تاکہ قرآن کو سمجھا جا سکے۔

یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ میں کسی مقصد کو پانے کیلیے جو دس اقدام کرنے ہیں ان میں سے صرف پہلا کروں اور مجھے انعام مل جائے

مثال کے طور پر میں نے میٹرک کرنی ہے تو اس کیلیے مجھے ایڈمیشن لینا ہو گا، مضامین کو سمجھنے کیلیے ٹیوشن لینا ہو گا۔ اسباق کو یاد کرنا ہو گا۔ سنٹر میں جا کر پیپر دینے ہوں گے۔ تب جا کر انعام ( سند ) ملے گا۔ اب اگر میں اسباق تو سارے یاد کرلوں لیکن پیپر دینے نہ جاؤں تو کیا میں انعام کی توقع کر سکتا ہوں۔

اسی طرح نماز کے ہر رکن پر ثواب ہے۔ تکبیر، قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ۔ لیکن اگر میں ایک آدھا رکن چھوڑ دیا کروں تو کیا مجھے باقی ( ادا کردہ ) اراکین پر ثواب ملے گا۔ ہو ہی نہیں سکتا۔
 

امن وسیم

محفلین
وضو کرنا ایک عمل ہے اور نماز پڑھنا دوسرا عمل۔ اگر آپ ثواب کی نیت سے وضو کرتے ہیں تو اس کا ثواب آپ کو اللہ کے فضل سے ضرور ملے گا۔
میں نے جو مثال دی اس میں ، میں نے کہا کہ نماز کا وقت ہوا ، ایک شخص سوتے تے اٹھ کر مسجد گیا، وضو کیا، جماعت کھڑی تھی لیکن وہ نماز پڑھے بغیر گھر آ کر سو گیا۔ اس سیچوئیشن میں ثواب کی کوئی تک بنتی ہی نہیں۔

ایک شخص اگر پانچ وقت کا نمازی ہے۔ وہ اگر اپنے آپ کو پاک رکھنے کیلیے ہر وقت وضو میں رہتا ہے تو کیوں نہیں اس کو ثواب ملے گا؟ کیونکہ وہ وضو کا اصل مقصد پورا کر رہا ہے ( یعنی نماز )۔

ایک شخص سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتا، اس کو وضو کا ثواب آخر کیوں ملنے لگا۔ وضو کوئی الگ سے عبادت تو ہے نہیں۔ وضو بنیادی طور پر نماز ہی کی ایک شرط یا نماز کا رکن کہ سکتے ہیں۔

بہرحال جب تک مقصد پورا نہ ہو ثواب نہیں مل سکتا ورنہ تو صبح اٹھ کر منہ ہاتھ دھونے پہ بھی ثواب، نماز کی ایک رکعت پڑھ کر بندہ گھر آ جائے ، آدھا ثواب، آدھے دن کا روزہ رکھ لیا جائے تو آدھا ثواب تو مل جائے گا۔ یہ سب ال لاجیکل باتیں ہیں۔ یہ تو عقل کے معیار بھی ہی پوری نہیں اتر رہیں۔ قرآن و سنت سے ثبوت کی تو ضرورت ہی نہیں۔
 

الشفاء

لائبریرین
محترم پہلے تو آپ نے اپنے ارشادات کو قرآن و سنت کے حوالے سے معتبر بنانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پھر ہم نے حدیث کے حوالے سے جو معروضات پیش کیں ان کو آپ نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ
یہ تو عقل کے معیار بھی ہی پوری نہیں اتر رہیں۔ قرآن و سنت سے ثبوت کی تو ضرورت ہی نہیں۔
ہمارے خیال میں بہتر یہی ہے کہ آپ کسی جید عالم دین سے رجوع فرمائیں۔ جزاک اللہ خیر۔۔۔
 

امن وسیم

محفلین
ہمارے خیال میں بہتر یہی ہے کہ آپ کسی جید عالم دین سے رجوع فرمائیں۔
میرے پیارے دوست ( بلکہ بھائی )۔ آپ کو شاید غلط فہمی ہوئی ہے یا آپ نے میرا جواب غور سے پڑھا نہیں۔ میں نے کچھ فرضی مثالیں بیان کر کے ان پر کچھ اعتراض کیا تھا۔ مثلا کوئی شخص صبح کی نماز پڑھنے گیا تو دوسری رکعت شروع ہو چکی تھی ، وہ بھی ساتھ مل گیا لیکن باقی نمازیوں کے ساتھ ہی اس نے سلام پھیر دیا تو کیا اس کو ثواب ملے گا؟ اسی کو میں نے ال لاجیکل کہا تھا اور اسی کیلیے کہا تھا کہ قرآن و سنت سے ثابت کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ خود بھی میری اس بات سے اتفاق کریں گے ورنہ کسی بھی عالم سے آپ رائے لے لیں وہ یہی کہیں گے۔ میں نے خود کئی عالموں سے اس طرح کے سوالات کیے ہیں ، سب کی رائے یہی ہوتی ہے۔

میں تو خود آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہر عمل کا الگ الگ ثواب و گناہ ہوتا ہے، تلاوت کا بھی ثواب ہو گا۔ اس بات کا اعتراف میں نے اپنے آرٹیکل میں بھی کیا ہے۔ لیکن اگر کوئی آپ کو سو روپے گفٹ دے اور آپ کے پانچ سو چوری کر لے تو آپ یہی کہیں گے کہ وہ شخص میرے چار سو روپے چوری کر گیا۔ اسی طرح اگر کوئی فجر کی نماز میں ایک رکعت پڑھ کر گھر آ جائے تو نماز ادھوری چھوڑنے کا اتنا گناہ ہو گا کہ وضو وغیرہ کے ثواب کا ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہی کہنا پڑے گا کہ یہ شخص گنہگار ہے۔

حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے دور میں ایک نوجوان پہلی صف میں نماز پڑھتا تھا۔ ایک صبح فجر کی نماز میں وہ موجود نہیں تھا۔ آپ اس کی خیریت معلوم کرنے اس کے گھر چلے گئے۔ اس کی والدہ نے بتایا کہ وہ ساری رات نفل پڑھتا رہا لیکن فجر کے وقت اس کو نیند آ گئی اس لیے وہ سو رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بہتر تھا کہ وہ ساری رات سویا رہتا لیکن فجر کے فرض ادا کر لیتا۔ یعنی ان نوافل کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔
آپ کو معلوم ہی ہو گا ( یا آپ کسی عالم سے پوچھ لیجیے ) کہ اگر کوئی شخص فرض عبادت ادا نہ کرتا ہو تو اسے نفل کا ثواب بھی نہیں ملتا۔ ( یہ بات کچھ دن پہلے میں نے مفتی اکمل کے پروگرام میں بھی سنی ہے )

اب ان سب باتوں کو ملا کر جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللّٰہ نے ہر ایک کیلیے ایک مدت مقرر کی ہے۔ اسی کے اندر رہ کر زیادہ سے زیادہ اچھے اعمال کرنے ہوں گے اور گناہ والے کاموں سے بچنا ہو گا۔ جب فرائض کا وقت ہو تو فرض تو لازمی ادا کرنا ہو گا اور اگر نفل بھی کچھ ادا ہو جائیں تو سونے پہ سہاگہ۔

اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنا فرض ہے ( حدیث : علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے : دین کے علم کی اہمیت پہلے نمبر پر اور دین کے علم میں قرآن کی اہمیت پہلے نمبر پر )۔ اب اگر کوئی فرض ( تفسیر ) چھوڑ کر نفل ( تلاوت) پہ لگا رہے تو فرض (تفسیر) چھوڑنے کا اتنا گناہ ہو گا کہ نفل (تلاوت) کا ثواب اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔

آپ نے فرمایا کہ میں نے حدیث پر آپ کی گزارشات کو نظرانداز کیا تو محترم میں نے پورا آرٹیکل اسی حدیث کی وضاحت کیلیے ہی لکھا ہے اور میں نے مثالیں دے کر وضاحت کی ہے کہ احادیث کے الفاظ کا مفہوم سمجھنا پڑتا ہے۔ جس طرح قرآن کو سمجھنے کیلیے تفسیر کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی احادیث کو سمجھنے کیلیے تشریح کی ضرورت ہوتی ہے۔
آپ نے مجھے علماء سے رجوع کا مشورہ دیا ہے۔ میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ موجودہ دور کے علما سے استفادہ کیا جائے اور پچھلے ادوار کے علما کی کتابوں سے فیض حاصل کیا جائے۔ میں کوئی دعوا تو نہیں کرتا لیکن میرے آرٹیکل اتنا ضرور بتاتے ہیں کہ یہ باتیں میں نے کہیں سے سیکھی ہیں۔ دلائل، احادیث اور آیات کے حوالے، انداز بیاں میں نے کسی جادو سے تو نہیں سیکھے ہوں گے یقینا۔

آپ نے فرمایا کہ ا ل م پر عمل کیسے ہو گا۔ تو بہت ساری آیات ہیں جن پر عمل نہیں ہو سکتا، جیسا کہ موسی ع اور فرعون کا واقعہ، غلام کو آزاد کرنا۔ اسی طرح کئی آیات ہیں جنہیں سمجھنا ہی مشکل ہو گا جیسا کہ آیات متشابہات، تو ہر کوئی اپنی گنجائش کے مطابق قرآن سیکھے گا اور عمل کرے گا۔ مثلا ایک ان پڑھ دیہاتی جمعہ کے خطبہ ہی سے کچھ سیکھنے کی کوشش کر لے، اس کیلیے یہی کافی ہے۔ ایک ان پڑھ شہری تفسیر کا کوئی پروگرام ٹی وی یا نیٹ پہ دیکھ لیا کرے۔ ایک پڑھا لکھا شخص کوئی تفسیر کی کلاس لے لیا کرے۔ بہرحال کوشش ضروری ہے۔ اگر اپنی سستی کی وجہ سے ذرا بھی کوشش نہیں کرے گا تو گنہگار ٹھہرے گا اور تلاوت کا ثواب بھی جاتا رہے گا۔

ویسے تو ابھی بھی بہت سی باتوں کی وضاحت میں کر سکتا ہوں لیکن میرے خیال میں اتنی بات سے ہی تمام اعتراضات کے جواب ہو گئے ہیں۔

والسلام
 

امن وسیم

محفلین
سورہ بقرہ کی سب سے پہلی آیت ’’الم‘‘ کا کیا مطلب ہے؟؟؟
یہ حروف مقطعات کہلاتے ہیں۔ اور ان پر ان شاءاللہ کسی دن آرٹیکل پوسٹ کروں گا جس میں ساری وضاحت ہو گی

مختصر بتا دیتا ہوں۔ ا ل م سورہ بقرہ کا قرآنی نام ہے۔ ( باقی تفصیل آرٹیکل میں ، انشاءاللہ)
جس طرح سورہ یونس ، ن، سے شروع ہوتی ہے اور ن سے مراد مچھلی بھی ہے عربی میں۔ تو سورہ یونس کو سورہ ن کہ سکتے ہیں یعنی مچھلی والی سورہ۔
 
پیارے بھائی! کسی بھی عمل کے اچھے یا برے، نیک یا بد ہونے کا تو بتا دیا گیا ہے، مگر کس عمل پر کتنا اجر ملے گا، ملے گا یا نہیں ملے گا۔ یہ کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ ہی رکھا ہے۔ کسی بھی باعثِ ثواب عمل پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیونکہ اس کے بعد فلاں عمل نہیں کیا گیا تو اس کا ثواب بھی نہیں ملے گا۔ نیتوں اور عمل کا اخلاص تو اللہ ہی جانتا ہے۔
لہٰذا ہمارا کام نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرتے رہنا ہے۔ اجر کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ :)
 

امن وسیم

محفلین
کسی بھی عمل کے اچھے یا برے، نیک یا بد ہونے کا تو بتا دیا گیا ہے، مگر کس عمل پر کتنا اجر ملے گا، ملے گا یا نہیں ملے گا۔ یہ کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ ہی رکھا ہے۔ کسی بھی باعثِ ثواب عمل پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیونکہ اس کے بعد فلاں عمل نہیں کیا گیا تو اس کا ثواب بھی نہیں ملے گا۔ نیتوں اور عمل کا اخلاص تو اللہ ہی جانتا ہے۔
بالکل بجا فرمایا آپ نے بھائی جان کہ ثواب و گناہ کا تعلق نیتوں سے ہے اور وہ صرف اللّٰہ کو معلوم ہیں ہم نہیں جان سکتے۔
لیکن میں نے جو نتیجہ نکالا ہے اپنے آرٹیکل میں وہ بھی درست ہے۔ ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔

فرض کریں اگر معاشرے میں یہ عمل رائج ہو جائے کہ لوگ وضو تو بڑے خشوع و خضوع سے کریں لیکن مسجدیں ویران ہوں، لوگ نمازیں نہ پڑھتے ہوں۔ تو با شعور لوگ یہ کہ کر گھر بیٹھے نہیں رہ سکتے کہ وضو کا ثواب تو مل رہا ہے نا۔ آج بھی بے نمازیوں کو سمجھانے کیلیے انہیں نمازی بنانے کیلیے لوگ گھروں سے نکلتے ہیں، کئی لوگ اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔

بنی اسرائیل میں ایک قوم پر اس وجہ سے عزاب آیا تھا کہ وہ تبلیغ نہیں کرتے تھے۔

تو تلاوت کا اصل مقصد نصیحت ہے یعنی تلاوت کرتے وقت کسی قوم پر عذاب کے واقعات آئیں تو ان سے عبرت حاصل ہو۔ جنت کے واقعات پر نیک اعمال کرنے کا رجحان اور جہنم کے واقعات سے برے اعمال سے بچنے کا ارادہ۔ ورنہ خالی عربی پڑھنے سے اللّٰہ کیوں ثواب دینے لگا؟ کیا اللّٰہ کو عربی زبان بہت زیادہ پسند ہے؟

یہ سب باتیں میں نے خود سے نہیں بنائیں بلکہ اہل سنت کے ایک عالم اور مفتی اکمل صاحب کے تفسیر کے پروگرام میں ، میں نے سنی ہیں۔ اگر آپ پرسنل میں رابطہ کریں تو میں آپ کو واٹس ایپ بھیں کر سکتا ہوں۔ ویسے اختلاف کرنا آپ کا حق بنتا ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
ثواب کی نیت کر کے کوئی عمل کرنے سے ثواب ملے گا بھی ، یہ ضروری نہیں ہوتا ، عمل کی نوعیت بھی دیکھنی پڑتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی زانی کو ثواب کی نیت سے قتل کر دے کہ اس طرح کئی خواتین کی عصمتیں بچ جائیں تو اس نے کوئی نیک کام نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کیلیے جہنم کا حقدار ہے۔ اور یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآن میں بیان ہوا ہے۔ (سورہ : نساء، آیت : ۹۳ )

آج پورے معاشرے ( برصغیر ) میں رائج ہی یہی ہے کہ قرآن کی تلاوت ثواب کیلیے کی جاتی ہے بس۔ آپ کسی تلاوت کرتے ہوئے شخص سے پوچھیں کہ اس نے آج ایک پارہ کیوں پڑھا تو اس کا جواب یہی ہو گا کہ ثواب حاصل کرنے کیلیے۔ ماہ رمضان میں قرآن کے کئی کئی ختم کرتے ہیں۔ ان سے پوچھیے کہ کیوں آپ نے اتنی بار قرآن کو دوہرایا تو یہی جواب ملے گا ، ثواب کیلیے۔

تو ضروری نہیں کہ ایک عمل ثواب کیلیے کیا جائے تو اس کا ثواب بھی ملے۔ کچھ لوگ ثواب کی نیت سے عید میلاد النبی صلی ٱللَّه علیہ وسلم مناتے ہیں لیکن دوسرے لوگ اسے بدعت اور گناہ قرار دیتے ہیں۔ اب دونوں طرف کے دلائل دیکھنے کے بعد ہر کوئی خود یہ فیصلہ کرے گا کہ یہ گناہ کا کام ہے یا ثواب کا۔ جو اسے ثواب سمجھتا ہے وہ منائے گا، جو گناہ سمجھتا ہے وہ اجتناب کرے گا۔

تو ایسے ہی میں نے اپنے دلائل رکھ دیے ہیں۔ ہر کسی کو چاہیے کہ دونوں طرف کے دلائل کو دیکھ کر فیصلہ کرے کہ اسے صرف تلاوت ہی کرتے رہنا ہے ساری زندگی ( جو کہ ایک نفل عبادت کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ تلاوت پر ثواب کا ذکر قرآن میں نہیں ہے ) یا اس کی تلاوت پر لگنے والے وقت کو تفسیر سمجھنے پر لگا دے ( جو ایک فرض عبادت کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ قرآن پر غور و فکر کرنے کا حکم اللّٰہ نے قرآن میں دے دیا ہے )
 
لیکن میں نے جو نتیجہ نکالا ہے اپنے آرٹیکل میں وہ بھی درست ہے۔ ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔
پیارے بھائی یہ نتیجہ نکالنا ہمارا کام ہی نہیں ہے کہ کس عمل کا کتنا ثواب ہو گا اور کیسے ہو گا۔ یہ اللہ کا کام ہے۔
نیکی کی ترغیب کرتے ہوئے کسی دوسری نیکی کو کمتر دکھانا یا بتانا بھی درست نہیں۔

آپ کی وضو والی مثال محض مفروضہ پر قائم ہے۔ ورنہ حقیقت میں یہ صورتحال آج تک نہیں دیکھی کہ کوئی نماز کے لیے وضو کرے اور نماز نہ پڑھے۔

جہاں تک قرآن پڑھنے کا تعلق ہے تو قرآن فہمی کی ترغیب ضرور دی جائے۔ مگر اس ترغیب کے لیے تلاوتِ قرآن کو کمتر دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا اپنا درجہ ہے۔ اور قرآن فہمی اپنی جگہ ضروری ہے۔
وضو کر کے نماز نہ پڑھنا اور سمجھے بغیر محض تلاوتِ قرآن ایک جیسے اعمال نہیں ہیں۔ اول الذکر آج تک کسی کو کرتے بھی نہیں دیکھا۔ اور ثانی الذکر میں تلاوتِ قرآن کی فضیلت اپنی جگہ مسلم ہے۔
قرآن فہمی بہت ضروری ہے۔ مگر اس کے لیے تلاوتِ قرآن کی فضیلت سے انکار درست نہیں۔
قرآن سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ یہ سمجھنا بھی غلط ہے کہ جو محض تلاوتِ قرآن کر رہا ہے وہ قرآن فہمی کو ضروری نہیں سمجھتا۔
جزاک اللہ خیر۔
 

م حمزہ

محفلین
مختصر بتا دیتا ہوں۔ ا ل م سورہ بقرہ کا قرآنی نام ہے۔ ( باقی تفصیل آرٹیکل میں ، انشاءاللہ)

جس طرح سورہ یونس ، ن، سے شروع ہوتی ہے اور ن سے مراد مچھلی بھی ہے عربی میں۔ تو سورہ یونس کو سورہ ن کہ سکتے ہیں یعنی مچھلی والی سورہ۔
آپ کو مغالطہ ہوا ہے۔ سورہ یونس 'ن' سے نہیں الر سے شروع ہوتی ہے۔ البتہ سورۃ القلم 'ن' سے شروع ہوتی ہے۔ اور اس کے آخر میں حضرتِ یونس علیہ السلام کا ذکر ہے۔

سورۃ اٰل عمران بھی ال م سے شروع ہوتی ہے۔ کیا اس کو بھی قراٰنی نام کہیں گے اٰل عمران کا؟
اسی طرح اور بھی کچھ سورتیں حروف مقطعات سے ہی شروع ہوتی ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟

نوٹ: میں صرف حصولِ تعلیم کی غرض سے پوچھ رہا ہوں ۔
 

امن وسیم

محفلین
آپ کو مغالطہ ہوا ہے۔ سورہ یونس 'ن' سے نہیں الر سے شروع ہوتی ہے۔ البتہ سورۃ القلم 'ن' سے شروع ہوتی ہے۔ اور اس کے آخر میں حضرتِ یونس علیہ السلام کا ذکر ہے۔
معزرت ، واقعی ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی مجھ سے۔ اصلاح کیلیے شکریہ قبول کیجیے۔
دراصل حضرت یونس علیہ سلام کے ذکر کی وجہ سے میں نے سورہ کا نام بھی یونس ہی لکھ دیا

ڈیجیٹل دنیا میں میں ابھی نیا ہوں۔ یہ میرا پہلا آرٹیکل ہے۔

حروف مقطعات پر ایک آرٹیکل بھیجنے کا ارادہ ہے ۔ انشاءاللہ کچھ دن تک پوسٹ کروں گا۔ حروف مقطعات کے نام سے اسی زمرے میں۔

فی الحال وضاحت نہیں کر رہا کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے پہلے کی طرح۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ڈیجیٹل دنیا میں میں ابھی نیا ہوں۔ یہ میرا پہلا آرٹیکل ہے۔

بھائی ڈیجیٹل دنیا میں بڑی چکاچوند ہے -آنکھیں چندیا جاتی ہیں -آدمی کہیں گم ہو جاتا ہے -ہمارے دو ڈاڑھی ٹوپی والے حضرات یہیں کہیں گم ہو چکے ہیں -ایک صاحب فلمی تبصرے کرتے پائے جاتے ہیں ایک صاحب نصرت کی قوالیوں کے دلدادہ ہیں -لہٰذا خوب سنبھل کر قدم رکھیے گا -بقول اقبال


میں نے چاقو تجھ سے چھینا ہے توچلاتا ہے تو
مہرباں ہوں میں مجھے نامہرباں سمجھا ہے تو

پھر پڑا روئے گا اے نووارد اقلیم غم
چبھ نہ جائے دیکھنا باریک ہے نوک قلم

پھر ایک دو شعر بعد اپنے بچے سے کہتے ہیں :

"کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے یہ بے آزار ہے "

میں ان اشعار میں بین السطور کچھ اور مفہوم پاتا ہوں-یعنی فی الحال لکھنا موقوف کرو- جب تک روحانی بالغ نہ ہوجاؤ 'مطالعہ کرو -

"کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے یہ بے آزار ہے "
 

فلسفی

محفلین
ہمارے دو ڈاڑھی ٹوپی والے حضرات یہیں کہیں گم ہو چکے ہیں -ایک صاحب فلمی تبصرے کرتے پائے جاتے ہیں ایک صاحب نصرت کی قوالیوں کے دلدادہ ہیں
بہت خوب کہا حضرت۔ لیکن شکر کیجیے صرف دو ہی گمشدہ ہیں۔ ورنہ لوگ تو جوق در جوق گم ہو جاتے ہیں۔ ویسے تو داڑھی اور ٹوپی سلامت ہے لیکن کسی حد تک ہم خود کو بھی گمشدہ ہی پاتے ہیں۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
 

نور وجدان

لائبریرین
جب اصل مقصد ہی پورا نہ ہو تو ثواب کیسا؟

رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم کو مشروط کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ، ان کیلیے تلاوت کا مطلب ہی سمجھ کر پڑھنا ہوتا تھا، جیسا کہ میں کوئی ناول پڑھوں ( تلاوت کروں ) تو میں اس کو سمجھ بھی رہا ہوں۔ اس لیے یہاں سمجھ کر پڑھنے کا حکم دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن ہم عربی نہیں جانتے اس لیے ترجمہ ، تفسیر سمجھنا ہمارے لیے فرض ہے یا پھر عربی سمجھنا تاکہ قرآن کو سمجھا جا سکے۔

یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ میں کسی مقصد کو پانے کیلیے جو دس اقدام کرنے ہیں ان میں سے صرف پہلا کروں اور مجھے انعام مل جائے

مثال کے طور پر میں نے میٹرک کرنی ہے تو اس کیلیے مجھے ایڈمیشن لینا ہو گا، مضامین کو سمجھنے کیلیے ٹیوشن لینا ہو گا۔ اسباق کو یاد کرنا ہو گا۔ سنٹر میں جا کر پیپر دینے ہوں گے۔ تب جا کر انعام ( سند ) ملے گا۔ اب اگر میں اسباق تو سارے یاد کرلوں لیکن پیپر دینے نہ جاؤں تو کیا میں انعام کی توقع کر سکتا ہوں۔

اسی طرح نماز کے ہر رکن پر ثواب ہے۔ تکبیر، قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ۔ لیکن اگر میں ایک آدھا رکن چھوڑ دیا کروں تو کیا مجھے باقی ( ادا کردہ ) اراکین پر ثواب ملے گا۔ ہو ہی نہیں سکتا۔
آپ کی بات اچھی ہے مگر قران پاک ایک زندہ کتاب ہے اس کے حروف روح رکھتے ہیں اب روحِ انسانی نیک کلام کی روح پالیتی ہے گوکہ سمجھنا دماغ کا کام ہے ... اس لیے لفظوں کا نور، روح میں داخل ہوتا رہتا ہے ...اس لیے ثواب تو مل جاتا ہے مگر مقصد فوت ہوجاتا ہے
 

امن وسیم

محفلین
-یعنی فی الحال لکھنا موقوف کرو- جب تک روحانی بالغ نہ ہوجاؤ 'مطالعہ کرو -
سیکھنے کا عمل ایسے ہی چلتا ہے۔ غلطیوں سے ہی بندہ سیکھتا ہے۔ اگر غلطی تسلیم کرنے کا ظرف ہو تو باقی لکھنا بھی چلتا رہتا ہے۔ مطالعہ بھی چلتا رہتا ہے۔ مطالعہ کوئی ڈگری تو ہے نہیں کہ پوری کریں گے تو ہی لکھنے کی اجازت ہو گی ورنہ نہیں۔
 
Top