قرآن میں " عذابِ قبر " کا ذکر !!

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قرآن کریم کی درج ذیل آیات سے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ قرآن میں عذابِ قبر کا واضح ذکر ہے۔
1: ( الانعام:6 - آيت:93 )
2: ( التوبة:9 - آيت:101 )
3: ( غافر:40 - آيت:45-46 )
4: (ابراهيم:14 - آيت:27)


امام بخاری رحمة اللہ علیہ صحیح بخاری کی کتاب الجنائز کے باب "ما جاء في عذاب القبر (عذاب قبر کا بیان)" کے تحت لکھتے ہیں :

1 :
[ARABIC]وقوله تعالى ‏{‏اذ الظالمون في غمرات الموت والملائكة باسطو ايديهم اخرجوا انفسكم اليوم تجزون عذاب الهون‏}‏ هو الهوان، والهون الرفق[/ARABIC]
اللہ تعالیٰ نے سورۂ الانعام میں فرمایا :
[ARABIC]وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ[/ARABIC]
کاش تم ان ظالموں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں ، آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی۔
( الانعام:6 - آيت:93 )
یہ آیت درج کرنے کے بعد امام بخاری لکھتے ہیں :
هُونِ کے معنی ھوان یعنی ذلت و رسوائی ہے اور هَون کے معنی نرمی اور ملائمت ہے۔
صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر

مولانا عبدالرحمٰن کیلانی (علیہ الرحمة) مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
امام بخاری نے اس آیت کی جو شرح کی ہے ، اس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔
الف : عذاب ( و ثوابِ) قبر مرنے کے وقت سے ہی شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ آیت میں لفظ "[ARABIC]الْيَوْمَ[/ARABIC]" سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
ب : (قبر کا) یہ عذاب بھی گو ذلت و رسوائی کا ہوگا تاہم اشدّ العذاب یا عذابِ عظیم (عذابِ قیامت) کی نسبت بہت ہلکا اور کمزور ہوگا۔
(بحوالہ : روح ، عذابِ قبر اور سماع موتیٰ ، ص:37)

2 :
[ARABIC]وقوله جل ذكره ‏{‏سنعذبهم مرتين ثم يردون الى عذاب عظيم‏}[/ARABIC]
اللہ تعالیٰ نے سورۂ التوبہ میں فرمایا :
[ARABIC]سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيم[/ARABIC]
ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے (یعنی دنیا میں اور قبر میں) پھر بڑے عذاب میں لوٹائے جائیں گے۔
( التوبة:9 - آيت:101 )
صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر

تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے دو بار کے عذاب سے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ ، قتادہ رضی اللہ اور ابن جریج رحمة اللہ اور محمد بن اسحٰق رحمة اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پہلا عذاب دنیا کا عذاب اور دوسرا قبر کا عذاب ہوگا۔
(بحوالہ : تفسیر ابن کثیر ، آیت : التوبة-101)

3 :
اور سورۂ مومن (غافر) میں فرمایا :
[ARABIC]وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَاب
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَاب[/ARABIC]
فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لئے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
( غافر:40 - آيت:45-46 )
صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر

تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے اس آیت کی تشریح کے ذیل میں "عذابِ قبر" سے متعلق کئی مستند احادیث کا ذکر کرنے سے قبل لکھا ہے :
[ARABIC]وهذه الآية أصل كبير في استدلال أهل السنة على عذاب البرزخ في القبور[/ARABIC]
یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی بہت بڑی دلیل ہے کہ عالم برزخ میں یعنی قبروں میں عذاب ہوتا ہے۔
(بحوالہ : تفسیر ابن کثیر ، آیت : غافر-46)

4 :
[ARABIC]عن البراء بن عازب ۔ رضى الله عنهما ۔ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ اذا اقعد المؤمن في قبره اتي، ثم شهد ان لا اله الا الله، وان محمدا رسول الله، فذلك قوله ‏{‏يثبت الله الذين امنوا بالقول الثابت‏}‏ ‏"‏‏.‏ حدثنا محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبة بهذا وزاد ‏{‏يثبت الله الذين امنوا‏}‏ نزلت في عذاب القبر‏.[/ARABIC]
براء بن عازب نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مومن جب اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں۔ وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ تو یہ اللہ کے اس فرمان کی تعبیر ہے جو سورۂ ابراھیم میں ہے کہ اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں ٹھیک بات یعنی توحید پر مضبوط رکھتا ہے۔
شعبہ نے یہی حدیث بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ آیت
[ARABIC]يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ[/ARABIC] (اللہ مومنوں کو ثابت قدمی بخشتا ہے) [ابراهيم:14 - آيت:27]
عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر , حدیث : 1384
 

فرخ

محفلین
جزاک اللہِ خیرا و کثیرا
بہت شکریہ باذوق بھائی ایک مدلل اور علمی تحریر کے لئے۔
اللہ زورِ قلم اور زور دار کرے۔ آمین
 

ظفری

لائبریرین
قرآن میں لفظ " قبر " کہیں استعمال نہیں ہوا ہے ۔ بلکہ اصل میں لفظ برزخ ہے ۔ " من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون " ۔ لفظ " قبر " ایک اصطلاح ہے ۔ جب ہم اپنے معاشرے میں دینِ اسلام کی دعوت کا بیڑا اٹھانے والوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے ہاں یہ لفظ بکثرت ملتا ہے ۔
اس میں کوئی شک ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جس عذاب سے ڈرایا ہے ۔ وہ روزِ قیامت میں اللہ کے فیصلے کے بعد اس عذاب کے مستحقین کے لیئے تیار کیا جانے والا عذاب ، " عذاب النار ہے ۔ اور قرآن مجید جگہ جگہ اس کا تذکرہ کرتا ہے ۔ اور اس سے بچنے کی تلقین کرتا ہے ۔ قرآن کی دعوت کے طریقہ کار میں جو فرق پیدا ہوگیا ہے ۔ اس کی تین وجوہات ہیں ۔
1- قرآن کو عملاَ دین کی دعوت کا ماخذ بنانے کے بجائے حدیث و آثار کو براہ راست ماخذ بنا لیا گیا ہے ۔
2 - روایات وآ ثار میں بھی صحیح وسقیم کی تمییز سے صرف نظر کرلیا گیا ہے۔اگر تحقیق کی جائے تو عذاب قبر کے حوالے سے بیان کی جانے والی روایتوں میں ایک بڑی تعداد کمزور اور من گھڑت احادیث کی بھی ہے ۔ جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ عام طور پر اِس کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا ۔
3- اس سلسلے میں جو روایات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت بھی ہیں۔ اُنہیں بھی قرآن مجید کی روشنی میں بالعموم سمجھا نہیں گیا۔

جہاں تک اصل موضوع کا تعلق ہے کہ عذاب قبر اور اس کی حقیقت کیا ہے تو دیکھیے اِس دنیا میں بھیجا جانے والا اِنسان قرآن کی رو سے در حقیقت آخرت کا مسافر ہے ۔یہاں اُسے محض آزمائش اور امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ جس کے نتیجے میں روز قیامت اُسے جزا یا سزا کا سامنا کرنا ہوگا ۔ اُس دن کے لیے اِنسان جن مراحل سے گزرتا ہے اور جن مقامات پر اُسےٹہرایا جائے گا - اُس کی تفصیلات بھی قرآن میں بیان ہوئی ہیں ۔ انسان چاہے نہ چاہے مگر وہ اُسی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اِس سفر کا پہلا مرحلہ موت ہے ۔ دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد یہ مرحلہ ہر انسان پر لازماً آتا ہے ۔اِس سے کسی کوبھی فرار نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:" 'کل نفس ذائقۃ الموت'، " (ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ) (آل عمران٣:١٨٥) ۔ اس کا اطلاق کہیں بھی ، کسی بھی جگی ، کسی بھی وقت ہوسکتا ہے ۔اِس کی حقیقت قرآن میں یوں بیان ہوئی ہے کہ " اِنسان کی اصل شخصیت کو ،جسے قرآن میں 'نفس' سے تعبیر کیا گیا ہے اور جو اُس کے جسمانی وجود سے الگ ایک مستقل وجود ہے ،اُس کے جسم سے الگ کردیا جاتا ہے۔اِسی کا نام موت ہے۔اِس کے لیے ایک خاص فرشتہ مقرر ہے جس کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے(النساء٤:٩٧۔الانعام ٦:٩٣۔النحل١٦:٢٨)۔ وہ آکر باقاعدہ اِس کو ٹھیک اُسی طرح وصول کرتا ہے،جس طرح ایک سرکاری امین کسی چیز کو اپنے قبضے میں لیتا ہے(السجدہ ٣٢: ١١) ۔ اِس کے بعد سفر آخرت میں جس مرحلے سے اِنسان کا گذر ہوتا ہے، اُسے 'برزخ ' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ فارسی لفظ 'پردہ ' کا متبادل ہے اور اُس حد فاصل کے لیے استعمال ہوا ہے ، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔یہ گویا ایک روکاٹ ہے جو اُنہیں واپس آنے نہیں دیتی ۔ " 'من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون " '( اُنکے آگے ایک پردہ ہے اُس دن تک کے لیے،جب وہ اُٹھائے جائیں گے) (المومنون٢٣: ١٠٠) ۔

اصل میں عالم برزخ کی اصطلاح اِسی سے وجود میں آئی ہے ۔روایتوں میں 'قبر' کا لفظ مجازاً اِسی عالم کے لیے بولا گیا ہے ۔اِس میں انسان زندہ ہوگا ۔ لیکن یہ زندگی جسم کے بغیر ہوگی اور روح کے شعور،احساس اور مشاہدات وتجربات کی کیفیت اِس زندگی میں کم وبیش وہی ہوگی جو خواب کی حالت میں ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ قیامت کے صور سے یہ خواب ٹوٹ جائے گا اور مجرمین اپنے آپ کو یکایک میدان حشر میں جسم و روح کے ساتھ زندہ پاکر کہیں گے: 'یویلنا من بعثنا من مرقدنا ۔ '(ہائے ہماری بد بختی ،یہ ہماری خواب گاہوں سے ہمیں کون اُٹھالایا ہے) (یس٣٦: ٥٢)۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اِس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ جنہوں نے اپنے پروردگار کے لیے درجہ کمال میں وفاداری کا حق ادا کیا ہے اور کرنے والے ہیں ۔ اُن کے لیے ایک نوعیت کا ثواب اِسی عالم میں شروع ہوجائے گا ۔قرآن کے مطابق اِس کی مثال وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اپنے پروردگار کے حکم پر اُس کے دشمنوں سے جنگ کی اور پھر شہید ہوگئے۔قرآن کا ارشاد ہے کہ وہ زندہ ہیں،اور اپنے پروردگا کی عنایتوں سے بہرہ یاب ہورہے ہیں(آل عمران٣: ١٦٩-١٧١) ۔

اسی پہلو سے قرآن سے یہ بات بھی واضع ہوتی ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اِس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ وہ سرکشی اور تکبر سے جھٹلانے والے اور اپنے پروردگار کے کھلے نافرمان تھے یا ہونگے ۔ اُن کے لیے ایک نوعیت کا عذاب بھی اِسی عالم برزخ میں شروع ہوجائے گا۔ قرآن کی روشنی میں اِس کی مثال فرعون اور اُس کے پیروکار ہیں جو موسی علیہ السلام کی طرف سے اِتمام حجت کے بعد بھی حق کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔چنانچہ اپنی اِس جرم کی پاداش میں دنیا میں بھی عذاب سے دوچار ہوئے اور عالم برزخ میں بھی صبح وشام اُنہیں دوزخ کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے(المومن٤٠: ٤٥-٤٦)۔اِس طرح کے دونوں گروہوں کے ساتھ عالم برزخ میں اِس معاملہ کی وجہ یہ ہے کہ اُن سے حساب پوچھنے اور اُن کے خیر وشر کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہ ہوگی ۔ کیونکہ اصولاً ان کا حساب اس دنیا میں ہوچکا ہوتا ہے ۔ لہذا ان کے اعمالوں کو کسی قسم کے ترازؤں میں تولنے کی ضرورت نہیں ۔

احادیث مبارکہ میں قبر کے حوالے سے جس عذاب وثواب کا ذکر ہوا ہے ،وہ در حقیقت یہی ہے (بخاری ، رقم١٣٧٩۔مسلم، رقم٧٢١١)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید بتایا ہے کہ آپ کی بعثت جن لوگوں میں ہوئی ، اُن کے لیے اِس کی ابتدا اِس سوال سے ہوگی کہ وہ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں (بخاری ، رقم١٣٧٤۔مسلم ، رقم٧٢١٦)۔ اِس کی وجہ بھی بالکل صاف اور واضع ہے ۔ کیونکہ اپنی بعثت کے بعد رسول ہی اپنی قوم کے لیے حق و باطل میں امتیاز کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔اِس لیے، اُس پر ایمان کے بعد پھر کسی سے اور کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ اتمام ِ حجت کی تمام حدیں وہاں ختم ہوجاتیں ہیں ۔

موضوع میں جس سزا و جزا کا جو نکتہِ نظر قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے دیا گیا ہے ۔ وہ دراصل انہی دو قسم کے لوگوں کے بارے میں ہے ۔ ایک وہ جنہوں نے اتمامِ حجت کو تسلیم کیا اور جزا اور جنت کے حق دار ہوئے ۔ اور دوئم وہ جنہوں نے تکبر اور انانیت میں اتمام ِ حجت کو جھٹلا دیا ۔ وہ سزا کی گرفت میں آئے اور دوزخ میں ڈال دیئے گئے ۔ تیسرے گروہ کو عالمِ برزخ میں رکھ کر اللہ تعالی قیامت کے دن ان کے اعمال اور ایمان کی بنیاد پر ان کا فیصلہ کریں گے ۔
 
وما انت بمسمع من فی القبور
جناب یہ قرآن کی آیت ہے جس میں لفظ قبر کی جمع قبور استعمال کی گئی ہے۔ حوالہ دینے کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی کہ ماشاءاللہ آپ تو اہل قرآن میں سے ہیں اتنا تو جانتے ہی ہوں گے۔
 

باذوق

محفلین
قرآن میں لفظ " قبر " کہیں استعمال نہیں ہوا ہے ۔ بلکہ اصل میں لفظ برزخ ہے ۔ " من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون " ۔ لفظ " قبر " ایک اصطلاح ہے ۔ جب ہم اپنے معاشرے میں دینِ اسلام کی دعوت کا بیڑا اٹھانے والوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے ہاں یہ لفظ بکثرت ملتا ہے ۔
اس میں کوئی شک ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جس عذاب سے ڈرایا ہے ۔ وہ روزِ قیامت میں اللہ کے فیصلے کے بعد اس عذاب کے مستحقین کے لیئے تیار کیا جانے والا عذاب ، " عذاب النار ہے ۔ اور قرآن مجید جگہ جگہ اس کا تذکرہ کرتا ہے ۔ اور اس سے بچنے کی تلقین کرتا ہے ۔ قرآن کی دعوت کے طریقہ کار میں جو فرق پیدا ہوگیا ہے ۔ اس کی تین وجوہات ہیں ۔
1- قرآن کو عملاَ دین کی دعوت کا ماخذ بنانے کے بجائے حدیث و آثار کو براہ راست ماخذ بنا لیا گیا ہے ۔
2 - روایات وآ ثار میں بھی صحیح وسقیم کی تمییز سے صرف نظر کرلیا گیا ہے۔اگر تحقیق کی جائے تو عذاب قبر کے حوالے سے بیان کی جانے والی روایتوں میں ایک بڑی تعداد کمزور اور من گھڑت احادیث کی بھی ہے ۔ جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ عام طور پر اِس کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا ۔
3- اس سلسلے میں جو روایات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت بھی ہیں۔ اُنہیں بھی قرآن مجید کی روشنی میں بالعموم سمجھا نہیں گیا۔

جہاں تک اصل موضوع کا تعلق ہے کہ عذاب قبر اور اس کی حقیقت کیا ہے تو دیکھیے اِس دنیا میں بھیجا جانے والا اِنسان قرآن کی رو سے در حقیقت آخرت کا مسافر ہے ۔یہاں اُسے محض آزمائش اور امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ جس کے نتیجے میں روز قیامت اُسے جزا یا سزا کا سامنا کرنا ہوگا ۔ اُس دن کے لیے اِنسان جن مراحل سے گزرتا ہے اور جن مقامات پر اُسےٹہرایا جائے گا - اُس کی تفصیلات بھی قرآن میں بیان ہوئی ہیں ۔ انسان چاہے نہ چاہے مگر وہ اُسی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اِس سفر کا پہلا مرحلہ موت ہے ۔ دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد یہ مرحلہ ہر انسان پر لازماً آتا ہے ۔اِس سے کسی کوبھی فرار نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:" 'کل نفس ذائقۃ الموت'، " (ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ) (آل عمران٣:١٨٥) ۔ اس کا اطلاق کہیں بھی ، کسی بھی جگی ، کسی بھی وقت ہوسکتا ہے ۔اِس کی حقیقت قرآن میں یوں بیان ہوئی ہے کہ " اِنسان کی اصل شخصیت کو ،جسے قرآن میں 'نفس' سے تعبیر کیا گیا ہے اور جو اُس کے جسمانی وجود سے الگ ایک مستقل وجود ہے ،اُس کے جسم سے الگ کردیا جاتا ہے۔اِسی کا نام موت ہے۔اِس کے لیے ایک خاص فرشتہ مقرر ہے جس کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے(النساء٤:٩٧۔الانعام ٦:٩٣۔النحل١٦:٢٨)۔ وہ آکر باقاعدہ اِس کو ٹھیک اُسی طرح وصول کرتا ہے،جس طرح ایک سرکاری امین کسی چیز کو اپنے قبضے میں لیتا ہے(السجدہ ٣٢: ١١) ۔ اِس کے بعد سفر آخرت میں جس مرحلے سے اِنسان کا گذر ہوتا ہے، اُسے 'برزخ ' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ فارسی لفظ 'پردہ ' کا متبادل ہے اور اُس حد فاصل کے لیے استعمال ہوا ہے ، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔یہ گویا ایک روکاٹ ہے جو اُنہیں واپس آنے نہیں دیتی ۔ " 'من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون " '( اُنکے آگے ایک پردہ ہے اُس دن تک کے لیے،جب وہ اُٹھائے جائیں گے) (المومنون٢٣: ١٠٠) ۔

اصل میں عالم برزخ کی اصطلاح اِسی سے وجود میں آئی ہے ۔روایتوں میں 'قبر' کا لفظ مجازاً اِسی عالم کے لیے بولا گیا ہے ۔اِس میں انسان زندہ ہوگا ۔ لیکن یہ زندگی جسم کے بغیر ہوگی اور روح کے شعور،احساس اور مشاہدات وتجربات کی کیفیت اِس زندگی میں کم وبیش وہی ہوگی جو خواب کی حالت میں ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ قیامت کے صور سے یہ خواب ٹوٹ جائے گا اور مجرمین اپنے آپ کو یکایک میدان حشر میں جسم و روح کے ساتھ زندہ پاکر کہیں گے: 'یویلنا من بعثنا من مرقدنا ۔ '(ہائے ہماری بد بختی ،یہ ہماری خواب گاہوں سے ہمیں کون اُٹھالایا ہے) (یس٣٦: ٥٢)۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اِس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ جنہوں نے اپنے پروردگار کے لیے درجہ کمال میں وفاداری کا حق ادا کیا ہے اور کرنے والے ہیں ۔ اُن کے لیے ایک نوعیت کا ثواب اِسی عالم میں شروع ہوجائے گا ۔قرآن کے مطابق اِس کی مثال وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اپنے پروردگار کے حکم پر اُس کے دشمنوں سے جنگ کی اور پھر شہید ہوگئے۔قرآن کا ارشاد ہے کہ وہ زندہ ہیں،اور اپنے پروردگا کی عنایتوں سے بہرہ یاب ہورہے ہیں(آل عمران٣: ١٦٩-١٧١) ۔

اسی پہلو سے قرآن سے یہ بات بھی واضع ہوتی ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اِس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ وہ سرکشی اور تکبر سے جھٹلانے والے اور اپنے پروردگار کے کھلے نافرمان تھے یا ہونگے ۔ اُن کے لیے ایک نوعیت کا عذاب بھی اِسی عالم برزخ میں شروع ہوجائے گا۔ قرآن کی روشنی میں اِس کی مثال فرعون اور اُس کے پیروکار ہیں جو موسی علیہ السلام کی طرف سے اِتمام حجت کے بعد بھی حق کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔چنانچہ اپنی اِس جرم کی پاداش میں دنیا میں بھی عذاب سے دوچار ہوئے اور عالم برزخ میں بھی صبح وشام اُنہیں دوزخ کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے(المومن٤٠: ٤٥-٤٦)۔اِس طرح کے دونوں گروہوں کے ساتھ عالم برزخ میں اِس معاملہ کی وجہ یہ ہے کہ اُن سے حساب پوچھنے اور اُن کے خیر وشر کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہ ہوگی ۔ کیونکہ اصولاً ان کا حساب اس دنیا میں ہوچکا ہوتا ہے ۔ لہذا ان کے اعمالوں کو کسی قسم کے ترازؤں میں تولنے کی ضرورت نہیں ۔

احادیث مبارکہ میں قبر کے حوالے سے جس عذاب وثواب کا ذکر ہوا ہے ،وہ در حقیقت یہی ہے (بخاری ، رقم١٣٧٩۔مسلم، رقم٧٢١١)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید بتایا ہے کہ آپ کی بعثت جن لوگوں میں ہوئی ، اُن کے لیے اِس کی ابتدا اِس سوال سے ہوگی کہ وہ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں (بخاری ، رقم١٣٧٤۔مسلم ، رقم٧٢١٦)۔ اِس کی وجہ بھی بالکل صاف اور واضع ہے ۔ کیونکہ اپنی بعثت کے بعد رسول ہی اپنی قوم کے لیے حق و باطل میں امتیاز کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔اِس لیے، اُس پر ایمان کے بعد پھر کسی سے اور کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ اتمام ِ حجت کی تمام حدیں وہاں ختم ہوجاتیں ہیں ۔

موضوع میں جس سزا و جزا کا جو نکتہِ نظر قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے دیا گیا ہے ۔ وہ دراصل انہی دو قسم کے لوگوں کے بارے میں ہے ۔ ایک وہ جنہوں نے اتمامِ حجت کو تسلیم کیا اور جزا اور جنت کے حق دار ہوئے ۔ اور دوئم وہ جنہوں نے تکبر اور انانیت میں اتمام ِ حجت کو جھٹلا دیا ۔ وہ سزا کی گرفت میں آئے اور دوزخ میں ڈال دیئے گئے ۔ تیسرے گروہ کو عالمِ برزخ میں رکھ کر اللہ تعالی قیامت کے دن ان کے اعمال اور ایمان کی بنیاد پر ان کا فیصلہ کریں گے ۔
ظفری بھائی آپ نے لکھا ہے :
قرآن میں لفظ " قبر " کہیں استعمال نہیں ہوا ہے ۔
ممکن ہے آپ سے تسامح ہو گیا ہو۔ ورنہ تو قرآن میں 7 مختلف جگہوں پر "قبر" کا استعمال ہوا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ۔۔۔۔۔۔۔

1:
[arabic]وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلاَ تَقُمْ عَلَىَ قَبْرِهِ[/arabic]
اور آپ کبھی بھی ان (منافقوں) میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں
( التوبة:9 - آيت:84 )

2:
[arabic]ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَه[/arabic]
پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں (دفن) کر دیا گیا
( عبس:80 - آيت:21 )

3:
[arabic]وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَن فِي الْقُبُور[/arabic]
اور یقیناً اﷲ ان لوگوں کو زندہ کر کے اٹھا دے گا جو قبروں میں ہوں گے
( الحج:22 - آيت:7 )

4:
[arabic]وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُور[/arabic]
اور آپ کے ذمّہ ان کو سنانا نہیں جو قبروں میں (مدفون) ہیں
( فاطر:35 - آيت:22 )

5:
[arabic]قَدْ يَئِسُوا مِنَ الآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُور[/arabic]
وہ آخرت سے (اس طرح) مایوس ہو چکے ہیں جیسے کفار اہلِ قبور سے مایوس ہیں
( الممتحنة:60 - آيت:13 )

6:
[arabic]وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَت[/arabic]
اور جب قبریں زیر و زبر کر دی جائیں گی
( الانفطار:82 - آيت:4 )

7:
[arabic]أَفَلاَ يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُور[/arabic]
تو کیا اسے معلوم نہیں جب وہ (مُردے) اٹھائے جائیں گے جو قبروں میں ہیں
( العاديات:100 - آيت:9 )

آیاتِ بالا پر جب غور کیا جائے تو آپ کا یہ فقرہ بھی تشریح طلب ہو جاتا ہے :
لفظ " قبر " ایک اصطلاح ہے ۔

مزید ۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر بقول آپ کے ۔۔۔۔۔
لفظ " قبر " ایک اصطلاح ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفر آخرت میں جس مرحلے سے اِنسان کا گذر ہوتا ہے، اُسے 'برزخ ' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ فارسی لفظ 'پردہ ' کا متبادل ہے اور اُس حد فاصل کے لیے استعمال ہوا ہے ، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔یہ گویا ایک روکاٹ ہے جو اُنہیں واپس آنے نہیں دیتی ۔
اصل میں عالم برزخ کی اصطلاح اِسی سے وجود میں آئی ہے ۔روایتوں میں 'قبر' کا لفظ مجازاً اِسی عالم کے لیے بولا گیا ہے ۔
تو پھر سورہ التوبہ کی آیت:84 میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کہاں کھڑے ہونے سے منع کیا جا رہا ہے؟؟

اور اگر "قبر" زمینی گڑھا نہیں بلکہ "ایک اصطلاح" یا برزخی مستقر ہے تو پھر ۔۔۔۔
1:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدر کے کنویں پر جا کر مردہ کفار کو مخاطب کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی جگہ پر بیٹھے یا کھڑے ہی خطاب فرما دیتے۔
2:
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بقیع میں جا کر کیوں دعائے مغفرت فرماتے تھے ؟
3:
اور آخر ہم مسلمان قبرستان میں جا کر ہی کیوں "السلام علیکم یا اہل القبور" کہتے ہیں؟
 

دوست

محفلین
شاید ہمارا علم اتنا نہیں ہے کہ ہم قبر اور برزخ کے تعلق ہونے یا نا ہونے کی تصدیق کرسکیں‌ اور نہ ہی ایسا کوئی ذریعہ موجود ہے۔ کچھ اہل روحانیت کی تحاریر سے مجھے یوں لگا کہ قبر برزخ کی طرف ایک کھڑکی ہے شاید اسی لیے قبر کا ذکر بار بار کیا گیا ہے۔ خیر قبر ہو یا برزخ ہمیں کیا، کرنے والی ذات رب کریم کی ہے اور اگر وہ قھار ہے تو برزخ میں بھی ہے اور قبر میں بھی۔ اور زندہ کرنے والا ہے تو قبر میں بھی اور برزخ میں بھی۔
 

لبابہ

محفلین
باذوق بھائی آپ کی بات بلکل درست ہے قرآن مجید نے کئی مقامات پر عذابِ قبر کا تذکرہ کیا ہے۔

ترجمہ:اور فرعون والوں پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا (٤٥)آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح وشام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت ہوگی فرمان ہو گا ال فرعون کوسخت ترین عذاب میں ڈالو(٤٦)(سورۂ المومن آیت۴۵۔۴۶)

ترجمہ:اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو گاجو (اللہ)پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی وحی نہیں آئی اور جو شخص یوں کہے کہ جیٰسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اس طرح کا میں بھی لاتا ہوں اور اگرآپ ﷺ اس وقت دیکھیں کہ جب یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو آج تم کو ذلت کی سزا دی جائی گی۔(سورۂ الانعام آیت 93)

ترجمہ:اورجو اللہ کے ساتھ کسی اورمعبود کو نہیں پکارتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیاہے اُس کا خون نہیں کرتے ہاں مگر حق پر اور زنا نہیں کرتے اورجو شخص ایٰسے کام کرے گا تو اس کو سزا ملی گی (٦٨)قیامت کے دن ان کے عذاب کو دوگناہ کردیاجائے گا اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ ذلیل ہوکر رہے گا(٦٩)(سورۂ الفرقا ن آیت 68-69 )

ترجمہ:جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل اُلٹے پھر گئے اس کے بعدکہ ان پر ہدایت واضح ہو چکی یقیناان کے لئے مزین کردیا ہے اور انھیں ڈھیل دے رکھی ہے یہ اس لئے کہ انھوں نے ان لوگوں سے جنھوں نے اللہ کی نازل کردہ وحی کو برا سمجھا یہ کہا کہ ہم بھی عنقریب بعض کاموں میں تمہارا کہا مانیں گے اور اللہ ان کی پوشیدہ باتیں خوب جانتا ہے سو کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی جان قبض کرتے ہوں گے اور ان کے منہ اور ان کی پیٹھوں پر مارتے جاتے ہوں گے (سورۂ محمّد ﷺ آیت 24-27)
 

دوست

محفلین
یہ موت کی سختیوں کے حوالے سے زیادہ مناسب لگ رہی ہیں۔ اس میں عذابِ قبر کا کہاں ذکر ہے؟
 
Top