وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌۙ-فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘-وَّ اتَّبِ۔عْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّۚ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۱۵)
اور اگر وہ دونوں تجھ سے کوشش کریں کہ میرا شریک ٹھہرائے ایسی چیز کو جس کا تجھے علم نہیں (ف۲۱) تو ان کا کہنا نہ مان (ف۲۲) اور دنیا میں اچھی طرح ان کا ساتھ دے (ف۲۳) اور اس کی راہ چل جو میری طرف رجوع لایا (ف۲۴) پھر میری ہی طرف تمہیں پھر آنا ہے تو میں بتادوں گا جو تم کرتے تھے (ف۲۵)
(ف21)
یعنی علم سے تو کسی کو میرا شریک ٹھہرا ہی نہیں سکتے کیونکہ میرا شریک محال ہے ہو ہی نہیں سکتا ، اب جو کوئی بھی کہے گا تو بے علمی ہی سے کسی چیز کے شریک ٹھہرانے کو کہے گا ، ایسا اگر ماں باپ بھی کہیں ۔
(ف22)
نخعی نے کہا کہ والدین کی طاعت واجب ہے لیکن اگر وہ شرک کا حکم کریں تو ان کی اطاعت نہ کر کیونکہ خالِق کی نافرمانی کرنے میں کسی مخلوق کی طاعت روا نہیں ۔