قرآن کریم میں کن درختوں کے نام آئے ہیں؟
قرآن مجید میں زقوم کے درخت کا ذکر کئی مرتبہ آیا ہے۔
أَذَٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ ﴿الصافات:
٦٢﴾
کیا یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟
إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ﴿الدخان:
٤٣﴾
بیشک زقوم کا درخت۔
آكِلُونَ مِن شَجَرٍ مِّن زَقُّومٍ ﴿الواقعۃ:
٥٢﴾
تم (تلخ ترین درخت) زقوم سے کھاؤ گے۔
کھجور کے درخت کا ذکر :
وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۗ انظُرُوا إِلَىٰ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿الانعام:
٩٩﴾
وہ وہی تو ہے جس نے آسمان کی (بلندی) سے پانی نازل کیا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کے نباتات اگائے پھر اس سے ہری بھری شاخیں نکالیں کہ ہم اس سے تہہ بہ تہہ (گھتے ہوئے) دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے درختوں سے یعنی ان کے شگوفوں سے گچھے نکالتے ہیں جو زمین کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور ہم نے انگور، زیتون اور انار کے باغات پیدا کئے جو باہم مشابہ بھی ہیں اور غیر مشابہ بھی اور اس کے پھل کو دیکھو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے (پکنے کی کیفیت) کو دیکھو اور بے شک اس میں ایمان لانے والوں کے لئے (اللہ کی توحید و قدرت کی) نشانیاں ہیں۔
وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿الانعام:
١٤١﴾
اور وہ (اللہ) وہی ہے۔ جس نے طرح طرح کے باغات پیدا کیے (ٹیٹوں پر) چڑھائے ہوئے بھی اور بغیر چڑھائے ہوئے بھی اور کھجور کے درخت اور طرح طرح کی کھیتی جس کے مزے مختلف ہیں اور زیتون اور انار جو مشابہ بھی ہیں اور غیر مشابہ بھی اس کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ پھلیں اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو اور اسراف مت کرو کیونکہ وہ (خدا) اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا ﴿الکھف:
٣٢﴾
(اے رسول(ص)!) ان لوگوں کے سامنے ان دو شخصوں کی مثال پیش کریں کہ ہم نے ان میں سے ایک کو انگور کے دو باغ دے رکھے تھے اور انہیں کھجور کے درختوں سے گھیر رکھا تھا۔ اور ان کے درمیان کھیتی اگا دی تھی۔
فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا ﴿
٢٣﴾
اس کے بعد دردِ زہ اسے کھجور کے درخت کے تنا کے پاس لے گیا (اور) کہا کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور بالکل نسیاً منسیاً (بھول بسری) ہوگئی ہوتی۔
وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا ﴿مریم:
٢٥﴾
اور کھجور کے تنا کو پکڑ کر اپنی طرف ہلا۔ وہ تم پر تر و تازہ اور پکی ہوئی کھجوریں گرائے گی۔
قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۖ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ ﴿طہٰ:
٧١﴾
فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں یہی تمہارا وہ بڑا (جادوگر) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے اب میں ضرور تمہارے ہاتھ پاؤن مخالف سمت سے کٹواتا ہوں اور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی دیتا ہوں پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم (دونوں) میں اور موسیٰ میں سے کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے؟
وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيمٌ ﴿الشعراء:
١٤٨﴾
اور ان کھجوروں میں جن کے خوشے نرم اور خوب بھرے ہوئے ہیں۔
وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ ﴿ق:
١٠﴾
اور کھجور کے بلند وبالا درخت جن میں تہہ بہ تہہ خوشے لگتے ہیں۔
تَنزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنقَعِرٍ ﴿القمر:
٢٠﴾
وہ (آندھی) اس طرح آدمیوں کو اکھاڑ پھینکتی تھی کہ گویا وہ جڑ سے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہیں۔
فِيهَا فَاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَكْمَامِ ﴿الرحمٰن:
١١﴾
اس میں (ہر طرح کے) میوے ہیں اور کھجور کے غلافوں والے درخت ہیں۔
سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ﴿الحاقۃ:
٧﴾
اللہ نے اسے مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک ان پر مسلط رکھا تم (اگر وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ اس طرح گرے پڑے ہیں کہ گویا وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔
ایک شجرہ طیبہ کا بھی ذکر ہے :
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ ﴿ابراھیم:
٢٤﴾
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح اچھی مثال بیان کی ہے کہ کلمۂ طیبہ (پاک کلمہ) شجرۂ طیبہ (پاکیزہ) درخت کی مانند ہے۔ جس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے۔
ایک شجرہ خبیثہ کا بھی ذکر ہے :
وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ ﴿ابراھیم:
٢٦﴾
اور کلمۂ خبیثہ (ناپاک کلمہ) کی مثال شجرۂ خبیثہ (ناپاک درخت) کی سی ہے جسے زمین کے اوپر سے اکھاڑ لیا جائے اور اس کے لئے ثبات و قرار نہ ہو۔
زیتون کے درخت کا ذکر :
وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَيْنَاءَ تَنبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآكِلِينَ ﴿المؤمنون:
٢٠﴾
اور (ہم نے) ایک درخت ایسا بھی (پیدا کیا) جو طور سینا سے نکلتا ہے (زیتون کا درخت) جو کھانے والوں کیلئے تیل اور سالن لے کر اگتا ہے۔
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿النور:
٣٥﴾
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال یہ ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو (اور) چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو۔ اور (وہ) قندیل گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے (اور وہ چراغ) زیتون کے بابرکت درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے۔ جو نہ شرقی ہے نہ غربی قریب ہے کہ اس کا تیل خود بخود بھڑک اٹھے اگرچہ آگ نے اسے چھوا بھی نہ ہو۔ یہ نور بالائے نور ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ اور اللہ لوگوں کیلئے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔