باذوق
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم !جب بھی ہم منکرینِ حدیث قسم کے لوگوں سے سوال کرتے ہیں
یہ جو آپ کے ہمارے ہاتھ میں قرآن ہے ، کیسے پتا چلے گا کہ یہ وہی قرآن ہے جو اللہ کا کلام ہے ؟
اس سوال کا خاطر خواہ جواب کوئی نہیں دے پاتا۔
حالانکہ پتا چلنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ممکن ہے۔
کوئی ہم کو بتائے کہ یہ کتاب '' قرآن '' ہے !
اگر آپ کے والدین نے آپ کو بتایا کہ بیٹا ، یہ کتاب '' قرآن '' ہے اور یہ کتاب اُنہی آیات پر مشتمل ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی تھیں ۔۔۔ تو آپ کے والدین کو یہ بات پھر کس نے بتائی؟ جس نے بھی بتائی، اُس کو کس نے بتایا؟ ۔۔۔ اس طرح یہ سلسلہ پیچھے اور پیچھے کی طرف جائے تو معلوم ہوگا کہ آیات خود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی زبان سے سنائی تھیں جن کو '' کاتبینِ وحی '' نے لکھ لیا تھا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے راست (direct) آپ کو تو آیات نہیں سنائی تھیں ، پھر کس بنیاد پر آپ کو یقین ہے کہ جو قرآن آپ کو والدین نے دیا ، اِس میں وہی آیات ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اتری تھیں ؟
اس سوال کا جواب عموماََ درج ذیل آیت کے ذریعے دیا جاتا ہے کہ : یہ وہی آیات ہیں جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئیں ۔
بے شک ہم نے ہی نازل کی ہے یہ کتابِ نصیحت اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔۔۔ ( سورہ الحجر 15 ، آیت : 9)۔
یعنی ، اِس آیت سے ہی آپ کو پتا چلا ؟ ۔۔۔۔ یعنی '' قرآن '' کھول کر دیکھنے کے بعد ؟
تو سوالات یہ ہیں کہ :
یہ قرآن (جس میں سے آپ نے آیت QUOTE کی ) آپ کو کہاں سے ملا ؟
کس نے دیا آپ کو؟
یا آپ نے کہیں سے خریدا ؟
جہاں سے بھی خریدا ، اُس شخص کو کس نے دیا ؟
جس شخص نے بھی یہ قرآن چھاپا اُس نے بھلا کہاں سے کاپی کیا ؟
کیا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے راست اُس چھاپنے والے کو قرآن سنایا تھا ؟ اگر نہیں ، تو پھر اُس نے کہاں سے کاپی کیا ؟ کیا گارنٹی ہے کہ اُس نے بالکل وہی آیات کاپی کیں جو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے '' کاتبینِ وحی '' کو سنائی تھیں؟
اگر آپ پھر وہی بات دہرائیں کہ :
اللہ نے قرآن کو محفوظ رکھنے کی گارنٹی دی ہے ۔۔۔ ( سورہ الحجر 15 ، آیت : 9)۔
تو ہم پھر کہیں گے کہ یہ بات تو آپ کو قرآن کھولنے کے بعد معلوم ہوتی ہے۔
جب کہ ہمارا سوال یہی ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں '' قرآن '' آیا کہاں سے ؟
قرآن ، ایک مکمل کتاب کی شکل میں compiled ہوا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے سنانے پر۔ اور ۔۔۔ اللہ کی آیات کو نہ تو خود اللہ نے اور نہ ہی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے راست آپ کو سنایا اور نہ کسی ناشر (publisher) کو۔
منکرینِ حدیث خود کہتے ہیں کہ :
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا '' قرآن '' اب بھی موجود ہے ، استنبول اور تاشقند میں۔
حالانکہ یہاں ان سے یہ سوالات بھی دریافت طلب ہیں کہ ۔۔۔
یہ بات آپ کو کیسے معلوم ہوئی ؟
کیا آپ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ؟
اگر دیکھا بھی تو کیسے یقین کیا ؟
کس نے کس بنیاد پر آپ کو یقین دلایا ؟
ہم ایسے سوالات کرنے پر اس لیے مجبور ہیں کہ ۔۔۔ احادیث کے متعلق بھی منکرینِ حدیث تقریباََ اسی قسم کے سوالات ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں ۔
بلاشبہ '' قرآن '' کو دنیا میں بھیجنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس بے شمار ذرائع تھے ۔۔۔ مگر جس '' ذریعے '' سے اُس نے بھیجا ، وہ ایک معلوم شدہ حقیقت (a known fact) ہے ، اور وہ یہی کہ :
قرآن کو خود اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لکھوا کر نہیں بھیجا بلکہ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان سے اس کو بندوں تک پہنچایا۔ اللہ نے پورا انحصار اِس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کو سچا مانیں گے ، وہ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے اعتماد پر قرآن کو ہمارا کلام مان لیں گے !!
نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے قران اپنی زبان سے سنایا اور '' کاتبینِ وحی '' نے اُس کو لکھ لیا۔
لیکن یہ بات آپ کو یا ہم کو کیسے معلوم ہوئی ۔۔۔ ؟ یعنی یہ بات کہ ۔۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے زمانے میں کاتبینِ وحی سے نازل شدہ وحی لکھوا لیتے تھے ؟
اور اُن تحریروں سے نقل کر کے حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں قرآن کو '' مصحف '' کی شکل میں لکھا گیا اور بعد میں اسی کی نقلیں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے شائع کیں۔
یہ سب کچھ محض حدیث کی '' روایات '' سے ہی دنیا کو معلوم ہوا ہے ورنہ قرآن میں تو اس کا ذکر نہیں !
اور نہ ہی حدیث کی اِن ہی '' روایات '' کے سوا اِس کی کوئی دوسری '' شہادت '' دنیا میں موجود ہے ۔
اب اگر حدیث کی '' روایات '' ہی سرے سے قابلِ اعتماد نہیں ہیں تو پھر کس دلیل سے دنیا کو یقین دلایا جائے گا کہ فی الواقع قرآن ، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں لکھا گیا تھا ؟
> نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہم نے دیکھا نہیں ، مگر '' لوگوں '' نے کہا کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا میں آئے تھے۔ ہم نے لوگوں کی بات پر اعتماد کیا اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات کو قبول کیا۔
> قرآن نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُترا ، ہم نے نہیں دیکھا کہ کیسے اُترا ؟ اور نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے کس طرح سنایا اور کس کو کس طرح لکھوایا؟ مگر '' لوگوں'' نے کہا کہ قرآن نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُترا تھا اور اُنہوں(صلی اللہ علیہ وسلم) نے جیسا کا تیسا (AS IT IS) لکھوایا اور وہی قرآن آج ہمارے پاس ہے۔ ہم نے لوگوں کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے قرآن کھولا ، پڑھا اور اس کے ایک ایک حرف پر ایمان لے آئے۔
> اور جب یہی '' لوگ '' کہتے ہیں کہ ۔۔۔ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اِس طرح نماز ادا کی ، اِس طرح زکوٰۃ دی ، اس طرح تنبیہ کی ، اِس طرح حرام / حلال قرار دیا ۔۔۔ تو یہاں ہم '' لوگوں'' کی بات پر اعتماد نہیں کرتے ؟؟ کیوں ؟؟
صرف اسی لیے کہ جو '' آزادی '' ہمارا نفس چاہتا ہے ، جو آزادی ہمیں اپنی خودساختہ شریعت لاگو کرنے کے لیے درکار ہے ۔۔۔ اُس آزادی کی راہ میں '' نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے احکامات (احادیث) '' بہت بڑی رکاوٹ ہیں !!
دورِ حاضر کے محدثِ جلیل علامہ البانی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
شریعت کی تعبیر میں حدیث و سنّت دوسرے درجے کا مآخذ نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت وحی اور شریعت ہونے کی بناء پر یکساں حجت ہیں۔ دونوں کو ملا کر شریعت حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ کلامِ اللہ ہونے کے اعتبار سے ایک کو 'قرآن' کہا جاتا ہے تو مرادِ اِلٰہی ہونے کے اعتبار سے دوسرے کو حدیث و سنّت !
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ، آپ کے اقوال و افعال سے محبت ، اُن کی اتباع پر منتج ہونی چاہئے۔ احادیثِ نبوی کو دین فہمی میں اہمیت نہ دینا گویا شانِ نبوت اور حبّ ِ نبوی کا انکار ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ، شریعت کے شارح کی حیثیت کو ، کسی امّتی نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں واضح کیا ہے۔ (مسئلہ تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے صحیح طور پر ثابت ہو جانے کا ہے۔)
یہاں اس مسئلہ پر بھی غور کیا جانا چاہئے کہ : شریعت دورِ نبوی میں اور آج تک بالکل ایک رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی ایک امر صحابہ رضی اللہ عنہ کے لئے تو شریعت ہو اور ہمارے لئے نہ ہو۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ کا دین صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ہمارے لئے یکساں نہیں ۔
ایک بات جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمائیں تو وہ اس کو ماننے کے مکلّف ہوں ، لیکن ہم مرورِ زمانہ کے بعد اس کے پابند نہ رہ جائیں، کیوں کر ایسے ہو سکتا ہے ؟؟!!
آخری اہم بات یہ کہ قرآن تفاصیل سے بحث نہیں کرتا اور یہ صرف حدیث و سنت ہے جو دین اور معاشرے کی تفصیلی صورت گری کرتی ہے۔
قرآن ، اللہ کی کتاب ہے ، وہ کلامِ باری تعالیٰ ہے ، اس کی حکومت بحر و بر پر چھائی ہوئی ہے ، وہ اللہ کی برہان اور مینارہٴ نور ہے ۔۔۔۔۔۔ غرض قرآن کی عظمت بیان کرتے ہوئے جتنا بھی مبالغہ کر لیا جائے وہ صحیح اور برحق ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کی قیمت یہ نہیں ہونی چاہئے کہ :
جس پر قرآن نازل ہوا تھا ، قرآن کے نام پر اس کی سنّت کو پیچھے پھینک دیا جائے اور اُمت چودہ سو (1400) سال سے جن احادیث کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر ان پر عمل پیرا اور ان کے تقدس کی قائل ہے ، قرآن فہمی اور "مولویت" کے نام پر ان کو بے وقعت کر دیا جائے ۔ ظاہر ہے یہ موقف اسلام دشمنوں کو تقویت دینے والا ہے !!