شکریہ باسم۔ میں آپ کے ترجمے اور طرز استدلال سے بہت حد متفق ہوں، جو فرق ہے وہ لکھ دیا ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جن کا تذکرہ ان آیات مبارکہ میں ہوا ہے اور ان آیات کی شان نزول یہ ہے کہ اگر --- ان میں سے کسی کی بھی توہین کی گئی ، تو ---- یہ وجہ ہے تکلیف کی اللہ کے لئے اور رسول کے لئے۔ اس مد میں آپ کی تمامتر بات درست ہے۔ اس نکتہ تک یہ درست ہے جہاں رسول اللہ کو اٹھا کر کھڑ ا کرنے کا تذکرہ ہے۔ اس حصہ پر غور فرمائیے۔
[arabic]لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ[/arabic]
یہ آیت بہت خوبی سے اس وقت کے آفیسر انچیف کو " نک " یعنی تم (مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کو دو بار خطاب کرتی ہے۔ اور اس اٹھا کھڑا کرنے کی وجہ کیا بتائی گئی ہے
1۔ اگر نہ باز آئے [arabic]لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ [/arabic]
2۔ منافقوں کا گروہ [arabic]الْمُنَافِقُونَ [/arabic]
3۔ اور وہ ان لوگوں کا گروہ جن کے دلوں میں روگ ہے [arabic] وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ [/arabic]
4۔ اور ان لوگوں کا گروہ جو ہیجان انگیز افواہیں پھیلاتے ہیں [arabic]وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ[/arabic]
آپ دیکھتے ہیں المنافقون، الذین فی قلوبھم مرض اور المرجفون یہ تین گروہوں کی بات ہورہی ہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اگر وہ باز نا آئے تو پھر کیا ہوگا؟ رسول اللہ کو ان تین گروہوں کے خلاف اللہ اٹھا کھڑا کر دے گا۔ یقیناً رسول اللہ اکیلے ان تین گروہوں سے نہیں جہاد فرمائیں گے۔ بلکہ جس وقت رسول اکرم کو حکم ہوگا تو اس وقت موجود تمام مسلمان ان کا ساتھ جہاد کی تمام شقیں پوری کریں ۔ گویا ہر محمود و ایاز کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ ان تین تکلیف پہنچانے والے گروہوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو بلکہ اتھارٹی جس کو سونپی گئی ہے وہ فیصلہ کرے گا اور باقی مسلمان اس فیصلہ پر لبیک کہیں ۔ یہ مقصد ہے، اس مخصوص زبان کا۔ ورنہ جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا جہاں اٹھا کر کھڑا کرنے کی بات کی گئی ہے۔
ورنہ بہت ہی آسان تھا اللہ تعالی کے لئے کہ اس حکم کے لئے یا ایھا الذین امنو اقتلو ۔۔۔۔۔ کہہ کر شروع کرتے اور یہ قانون بنادیتے کہ ہر شاتم رسول کو فوری کیفر کردار تک پہنچا دو۔ لیکن ایسی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔ کیوں؟
لہذا میرا قیاس یہ ہے کہ ایسے گروہوں کو جو ان تین کیٹیگری میں پورے اتریں اور باز نا آئیں تو اس وقت کی اتھارٹی یا حکومت (جیسا کہ رسول اکرم اپنے وقت کی فوجی اتھارٹی تھے) یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ ان کے خلاف قتال یعنی جنگ کی جائے۔ لیکن ایک عام آدمی کو صرف اس بات پر کہ میری سمجھ میں اس شخص کی بات نہیں آئی تو اسے منکر الحدیث کا فتوی لگا کر یا شاتم رسول کا فتوی لگا کر بنا ثبوت ، بنا ثابت کئے فوری قتل کردیا جائے۔ یہ بے معنی ہے۔ میری معلومات کے مطابق،اس مخصوص واقعہ کو -- جس کی شان نزول یہ آیات ہیں --- وجہ بنا کر رسول اکرم نے کبھی جہاد نہیں شروع کیا۔
مثال کے طور پر اگر اس طرح زبانی الزام لگا کر کون کرنا جائز ہوتا جیسے کہ خاور بلال صاحب کے اپنی سمجھ کے مطابق الزامات مجھ پر ہیں، شکر خدا کا یہ ہے کہ میرے اور دوسرے افراد کے تمام مباحثہ لکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر یہی باتیں زبانی ہوئی ہوتیں تو پھر میرے پاس کیا ثبوت ہوتا ان الزامات کا۔ کوئی نہیں ۔ بلکہ جذباتی طور پر ابھرا ہوا مجمع تو میری کوئی بات بھی نا سنتا۔ اب آپ اس جگہ اپنے آپ کو رکھ کر دیکھئے، کیا آپ کسی مجمع کو ایسا حق دینے کے لئے تیار ہیں کہ ایک شخص یا دو اشخاص آپ پر شاتم رسول کا الزام لگائیں اور مارنا پیٹنا شروع کردیں۔ اور بناء کسی عدالت میں پیش کئے آپ کو سزائے موت دے دیں۔
اب آئیے الزامات کی بات کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ یہاں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ رسول اللہ ہیں ۔ میں تو اپنے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن جب بھی ان کی کسی بھی بات سے اختلاف کیا جائے یا ممکنہ ہونے والے جرائم جو کتب روایات کے ساتھ ہوتے رہے ہیں ، ان کا تذکرہ کیا جائے تو یہ فوراًرسول اللہ بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے ذاتی اختلاف رسول اللہ سے اختلاف ہے۔ میں منکر رسول و منکر حدیث ہوں کہ ان سے اختلاف کیا۔
تو صاحب میں اس کے لئے ایک بہت ہی سادہ حل تجویز کرتا ہوں۔ آپ میں سے کوئی سے دو اشخاص اللہ کی قسم کھا کر کہہ دیں کہ کوئی روایت درست ہے یا حدیث درست ہے ، اس لئے کہ اس کے یا تو آپ خود عینی شاہد ہیں (جو ممکن نہیں، یا رسول اللہ ہیں اور فرما رہے ہیں، جو کہ ممکن نہیں ) یا پھر یہ حدیث رسول (قول یا عمل ) کسی عینی گواہ یا عینی شاہد کے ذریعے سینہ بہ سینہ آپ تک پہنچی ہے۔ اور اگر کہنے والا جھوٹا ہے تو تمامتر گناہ خود اس کے سر۔ میں ایسی کسی بھی روایت کو ماننے کے لئے تیار ہوں، شرط یہ ہوگی کہ وہ مسئلہ قرآن میں بیان ہوا ہو اور قرآن کے مخالف نہ ہو۔ کہ رسول اکرم قرآن کے مخالف نہیں جاسکتے۔ اور اگر وہ مسئلہ اتنا ہی اہم تھا تو اللہ تعالی اس سے غافل نہیں رہ سکتے۔
میں کسی بھی روایت کو قران کی رو سے دیکھتا ہوں اگر پوری اترتی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر یہ مضمون قرآن میں نہیں یا قرآن کے مخالف نظریات کا داعی ہے تو جناب اس کو ایک طرف رکھ دیتا ہوں اور اس کو کبھی پیش نہیں کرتا۔
آپ پوچھیں گے کہ میں ان لکھنے والوں کا یقین کیوںنہیں کرتا۔ اس لئے کہ میرے پاس جدید احادیث کی کتب کے علاوہ، 1929ع کی اور 1600 کی چھپی ہوئی دو عدد کتب روایات موجود ہیں اور اس دورانیہ کی متعدد کتب میرے دوستوں کے پاس موجود ہیں جو انہوں نے اپنے معصومانہ یقین کے باعث خریدی تھیں۔ ان کتب کے مندرجات، ترتیب اور تعداد کا واضح فرق یہ بتاتا ہے کہ ان کتب روایات کا کوئی معیار نہیں، لہذا جانچنا ضروری ہے اور کسوٹی قرآن ہے۔ یہ ایک ایسی پرکھ ہے جس سے کوئی مسلمان کیونکر انکار کرسکتا ہے؟ اگر یہ کتب کسی کام کی ہوتیں تو یقیناًَ ان کی حفاظت بہت ہی بڑے پیمانے پر کی جاتی۔ میں ایسے لوگون کو جانتا ہو جو ذاتی طور پر صحیحبخاری ازبر کرکے بیٹھے ہیں اور مساوی طور پر جدید و قدیم کتب کو پڑھ کر کنفیوژ ہوتے ہیں کہ یا اللہ کیا مانوں اور کیا نا مانوں ۔ کہ یہ حدیث 1600 والی کتاب میں کیوں نہیں ؟ نہ صرف یہ، میں نے کچھ اقتباسات 1920 میں لاہور سے چھپی ہوئی ایک حدیث کی کتاب سے یہاں دئے۔ لیکن صاحب وہ کسی نے بھی قبول نہیں کئے۔ چھاپنے والے صاحب مفتی کا درجہ رکھتے تھے اور پنجاب کے اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر جنرل تھے۔ یہ ہم سب کی پیدائش سے پہلے کی کتاب ہے۔ ذہن میں رکھئے کہ میرا تمام تر اعتراض روایات کی کتب کی ترتیب، طباعت، تدوین، تعداد اور متن کی بے تحاشا تبدیلیوں پر ہے کہ ان کتب کی معیاری کوالٹی کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ کسی قول و فعل رسول کا بناء ضوع القرآن کے حتمی فیصلہ کیا جاسکے کہ یہ روایت "مظبوط" ہے ۔
یہ صرف میرا انداز فکر ہے جو کہ میری تحاریر میں نمایاں ہے۔ آپ کو اس سے متفق ہونے کی میں دعوت نہیں دیتا۔ میں صرف اور صرف قرآن پڑھنے اور شئیر کرنے کی دعوت دیتا ہوں ۔ الحمد للہ اب تک 16 سے زائد غیر مسلم (عیسائی اور یہودی اور واشنوا ہندو ) ، میری دعوت پر قرآن مکمل طور پر پڑھ چکے ہیں اور ان کے اور میرے مابین ہونے والے ڈسکشنز سے واضح ہے کہ وہ قرآن کے بنیادی نظریات کو گولڈن رولز کہہ کر تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ حیران ہیں کہ ان کی نظر میں اسلام کا ایک مختلف تصور کیوں تھا۔ اس مقصد کے لئے جو اصحاب مزید تکلیف کرنا چاہتے ہیں وہ اس ویب سائٹ پر دئے گئے قرآن کے اصول اور امریکی آئین کے اصولوں کا موازنہ انگریزی میں پڑھ سکتے ہیں۔
http://www.openburhan.net/usconst
مجھے اب تک اس کے بارے میں ایک بھی اعتراض کسی بھی امریکی سے موصول نہیں ہوا۔ اگر آپ کوئی اعتراضتلاش کرسکیں تو بہت عنایت ہوگی اور میں اس درستگی کے لئے کوشش کرو نگا۔
ایک بار پھر باسم کا شکریہ کہ اس نے یہ آیات ہم سب سے شئیر کیں ۔
باسم ۔ "قرآن ایک رکوع روزانہ" کا دھاگہ ، آپ کی راہ دیکھ رہا ہے۔
میں ندیم نائیک صاحب کے ساتھ ہر دوسرے اتوار شام 6:00 سے 7:00 سینٹرل امریکن وقت کے مطابق موجود ہوتا ہوں۔ اس کی ویب سائٹ ہے
http://www.kchn1050.com/
پروگرام کا نام ہے قرآن کیا کہتا ہے۔ زیادہ تر پروگرام انگریزی میں ہوتا ہے ، ماڈریٹر ندیم نائیک صاحب ہیں ۔آپ اس کو انٹرنیٹپر بھی سن سکتے ہیں۔