محمداحمد
لائبریرین
ایک دن ہمیں شبہ ہوا کہ دواؤں پر ایکسپائری لکھنے والوں نے اب فونٹ سائز کچھ زیادہ ہی چھوٹا کر دیا ہے اور وہ اس سے نہ جانے کیا چاہتے ہیں؟
پھر یہ شبہ ایک دو اور تحریروں پر بھی ہوا۔ سو ہمیں کسی نے بتایا کہ اتنا گھس کر دیکھنے سے بہتر ہے کہ ایک عینک بنوا لیں۔ یوں ہمیں اندازہ ہوا کہ ہمیں اب پڑھنے کے لئے ایک عدد عینک کی ضرورت درپیش ہے۔
عینک تو خیر جیسے تیسے ہم نے بنوا لی ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ عینک زیادہ تر ہمارے دفتر کی دراز میں ہی رکھی رہتی ہے اور اُس کی یاد تب ہی آتی ہے جب کوئی چنی منی تحریر چھپی / لکھی ہوئی حالت میں ہم تک پہنچتی ہے۔
رہی اسکرین ریڈنگ تو ہم اپنے اسکرین کے فونٹ سائز کے ساتھ شروع سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہے ہیں۔
سوال : اگرہم اسکرین (کمپیوٹر یا موبائل) ریڈنگ کے وقت فونٹ سائز کو نسبتاً بڑا کرکے بغیر عینک کے پڑھ لیں تو کوئی حرج تو نہیں ہے؟ یا ہمیں ہر حال میں عینک لگا نی چاہیے؟
پھر یہ شبہ ایک دو اور تحریروں پر بھی ہوا۔ سو ہمیں کسی نے بتایا کہ اتنا گھس کر دیکھنے سے بہتر ہے کہ ایک عینک بنوا لیں۔ یوں ہمیں اندازہ ہوا کہ ہمیں اب پڑھنے کے لئے ایک عدد عینک کی ضرورت درپیش ہے۔
عینک تو خیر جیسے تیسے ہم نے بنوا لی ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ عینک زیادہ تر ہمارے دفتر کی دراز میں ہی رکھی رہتی ہے اور اُس کی یاد تب ہی آتی ہے جب کوئی چنی منی تحریر چھپی / لکھی ہوئی حالت میں ہم تک پہنچتی ہے۔
رہی اسکرین ریڈنگ تو ہم اپنے اسکرین کے فونٹ سائز کے ساتھ شروع سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہے ہیں۔
سوال : اگرہم اسکرین (کمپیوٹر یا موبائل) ریڈنگ کے وقت فونٹ سائز کو نسبتاً بڑا کرکے بغیر عینک کے پڑھ لیں تو کوئی حرج تو نہیں ہے؟ یا ہمیں ہر حال میں عینک لگا نی چاہیے؟