سید عمران
محفلین
اور یہ چاہیے کہ قریب کے آفتاب مہتاب بھی صاف نظر آئیں!!!ماشاء اللہ، اور کیا چاہیے
آخری تدوین:
اور یہ چاہیے کہ قریب کے آفتاب مہتاب بھی صاف نظر آئیں!!!ماشاء اللہ، اور کیا چاہیے
اتنی تسلی بخش بھی نہیں ہے۔۔۔
کیوں کہ چاند کی بڑھیا نظر آنے کی کوئی گواہی نہیں دی گئی!!!
اس میں احمد بھائی کی شرارت کیسے ہوگئی؟؟؟پہلے میں محمد احمد بھائی کی شرارت سے قرأتی کو قرآنی پڑھ گیا تھا،
یہاں عدم موجودگی کی گواہی نہیں۔۔۔بڑھیا کی عدم موجودگی کی گواہی تو شمشاد بھائی بھی دے چکے ہیں۔
کوئی مافوق الفطرت نام والے شاعر کا کلام آپ کو تارے بھی دکھائے تو بات بنے۔ویسے ، الحمدللہ دور کی نظر بہت اچھی ہے ۔ سورج اور چاند وغیرہ سب صاف نظر آتے ہیں ۔
یہاں عدم موجودگی کی گواہی نہیں۔۔۔
ضعف بصارت کی دہائی دی گئی ہے!!!
سچی آپ بیتیاں سنانے کی نہیں ہورہی!!!یہ بھی ٹھیک کہا آپ نے ۔
ویسےسچی بات نہیں تو یہ کہ ہمیں کبھی چاند میں بڑھیا نظر نہیں آئی۔ ہم تو بچپن سے چاند کی آغوش میں ایک خرگوش ہی دیکھتے آ رہے ہیں۔
ان ترقی پسند عدسوں کو کثیرالارتکاز عدسات (ملٹی فوکل لینسز) بھی کہا جاتا ہے۔یہ پروگریسیو لینس کیا کام کرتے ہیں؟
ان ترقی پسند عدسوں کو کثیرالارتکاز عدسات (ملٹی فوکل لینسز) بھی کہا جاتا ہے۔
ان عدسات کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ ایک ہی شیشے میں مختلف زاویوں سے دیکھنے پر الگ الگ طول الارتکاز حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ان ترقی پسند عدسوں کو کثیرالارتکاز عدسات (ملٹی فوکل لینسز) بھی کہا جاتا ہے۔
ان عدسات کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ ایک ہی شیشے میں مختلف زاویوں سے دیکھنے پر الگ الگ طول الارتکاز حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یہ زیادہ تر ان لوگوں کو تجویز کیا جاتا ہے جن کی دور اور نزدیک، دونوں طرح کی بصارت کمزور ہو۔ اس طرح ان کو دور دیکھنے، اور لکھنے پڑھنے کے لیے بار بار عینک بدلنے کی جھنجٹ سے چھٹکارا حاصل ہوجاتا ہے۔
ڈیڈی کیا جواب دیتے ہیں؟؟؟ہمیں بھی ایک لطیفہ یاد آیا تھا کہ جس میں ایک سائنسدان کا بیٹا اُس سے پوچھ بیٹھتا ہے کہ ڈیڈی یہ سیب کاٹنے کے بعد اُس کا رنگ کیوں بدل جاتا ہے۔
ڈیڈی کیا جواب دیتے ہیں؟؟؟
سن ۲۰۱۵ میں میری بصارت اتنی قابل رحم حالت میں آچکی تھی کہ چشمے کا نمبر منفی ۱۳ تک پہنچ چکا تھا۔ گویا، چشمہ ٹوٹ جائے تو بندہ روزمرہ کے کام کاج کے قابل بھی نہ رہے۔بہت شکریہ محترم تفصیل سے آگاہ کرنے کا۔
سن ۲۰۱۵ میں میری بصارت اتنی قابل رحم حالت میں آچکی تھی کہ چشمے کا نمبر منفی ۱۳ تک پہنچ چکا تھا۔ گویا، چشمہ ٹوٹ جائے تو بندہ روزمرہ کے کام کاج کے قابل بھی نہ رہے۔
ڈاکٹر سے مشورہ کرنے پر معلوم ہوا کہ چشمے کا نمبر اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب لیسک سرجری کے ذریعے بھی بصارت کی درستی ممکن نہیں، کہ قرنیہ کی ضخامت ہی اتنی نہیں کہ اس پر لیزر چلا کر کتر و بیونت کا عمل سرانجام دیا جا سکے۔ چار و ناچار قدرتی لینسز کو مصنوعی لینسز سے بدلوانے کا فیصلہ کرنا پڑا (جیسے موتیے کے آپریشن میں تبدیل کیے جاتے ہیں)۔
اللہ اکبر ۔۔۔ میرے رب کی صناعی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ گو میں نے اپنے طور پر بہترین دستیاب لینسز کا انتخاب کیا، مگر آج ۵ سال بعد بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان مصنوعی لینسز میں وہ بات ہی نہیں جو میرے رب کی تخلیق میں تھی۔ قدرتی لینسز دور اور قریب کی فوکس ایڈجسٹمنٹ اتنی سرعت سے کرتا ہے کہ محسوس ہی نہیں ہوتا، جبکہ ملٹی فوکل لینس کتنا ہی اعلیٰ معیار کا کیوں نہ ہو، اس تیزی سے تسویہ کر ہی نہیں پاتا۔ خاص کر اگر کوئی باریک بینی والا کام کرنا ہو تو ڈھائی نمبر کی عینک لگانا پڑتی ہے، ورنہ تھوڑی دھندلاھٹ رہتی ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو ان نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
محمداحمد بھائی ، قرأتی عینک سے تو بہت ہی معتبر اور مقدس قسم کا تصور ذہن میں آتا ہے ۔ جب سے یہ لفظ پڑھا ہے تو عینک کو بہت احتیاط اور احترام سے دائیں ہاتھ سے اتارتا لگاتا ہوں اورپٹخنے کے بجائے بہت ادب سے میز پر رکھتا ہوں ۔ہمیں تو خود نہیں پتہ تھا کہ ریڈنگ گلاسز کو اردو میں کیا کہتے ہیں۔
یہ تو میں نے بطور مزاح لکھ دیا تھا کیونکہ راحل بھائی دقیانوسی وژن کی شکایت کررہے تھے اور جاپانی جدت اور اختراع میں بہت آگے ہیں ۔ فی زمانہ جدت اور ترقی کا تقاضا تو یہ کہتا ہے کہ مجنوں اور لیلیٰ میں امتیاز کو ختم کردیا جائے ۔آخر جاپانی یہ 'صنف بدل عدسے' کیونکر بنا رہے ہیں؟
ایک عمر کے بعد پڑھنے کا چشمہ اکثر لوگوں کو لگانا پڑجاتا ہے ۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آنکھ کے عدسے میں کچھ تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس کی نرمی اور لچک آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہے ۔ اسے طبی اصطلاح میں پریس بیوپیا presbyopia کہتے ہیں ۔ اس کی تصحیح کے لئے ہی پڑھنے کا چشمہ لگایا جاتا ہے ۔میرے پاس کوئی ریڈنگ عینک نہیں ہے اور نہ اس کی ضرورت ۔۔۔ پہلے تو دور کا چشمہ لگانے سے قریب کی نظر پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ البتہ چند سالوں سے ہوا یہ کہ اب قریب کے لیے دور کا چشمہ اتارنا پڑتا ہے ۔ اس کے بغیر قریب کی باریک چیزیں صاف دکھائی نہیں دیتیں ۔ میرے خیال سے یہ ایک عام بات ہے۔
آج کل تو واقعی چاند پر بڑھیا نظر نہیں آتی ۔اتنی تسلی بخش بھی نہیں ہے۔۔۔
کیوں کہ چاند کی بڑھیا نظر آنے کی کوئی گوائی نہیں دی گئی!!!
یہ تارے تو آئے دن نظر آتے رہتے ہیں ۔ اور میں "تُت ترو تارا تارا" گنگناتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہوں ۔کوئی مافوق الفطرت نام والے شاعر کا کلام آپ کو تارے بھی دکھائے تو بات بنے۔