::: قران کے سایے میں ::: اولاد کی تربیت کا طریقہ :::

[font=&quot]قران کے سایے میں[/font]

اولاد کی تربیت کرنے کا طریقہ
[font=&quot]بسم اللہ و الحمد للہ وحدہُ و الصلاۃ و السلام علی من لا نبی بعدہ[/font][font=&quot] ُ[/font]​
سورت لُقمان مکی سورت ہے ، اس سورت کی کچھ آیات میں اولاد کی تربیت کا بہترین سبق دیا گیا ہے ، ان آیات میں بڑی محبت اور مہربانی کے ساتھ اولاد کو سمجھانے کا انداز بتایا گیا ہے ، یہ وہ آیات ہیں جن میں لُقمان رحمہُ اللہ کی نصیحت کو اللہ تعالیٰ نے ذِکر فرمایا ہے کہ کس طرح لُقمان رحمہُ اللہ نے محبت اور نرم دلی سے اپنے بیٹے کو تربیت دی ،
آیے ان آیات مبارکہ میں دیے گئے اسباق اور اولاد کو تعلیم و تربیت دینے کے بہترین انداز کو سمجھتے ہیں اِن شاء اللہ تعالیٰ ،
:::::::[font=&quot] ان الفاظ میں سب سے پہلی قابل توجہ بات لُقمان رحمہُ اللہ کا اپنے بیٹے کو بار بار ((((([/font][font=&quot] یا بني[/font][font=&quot]::: اے میرے بیٹے )))))[/font][font=&quot] کہہ کہہ کر بات کرنا ہے ، اس انداز میں ہمیں یہ سبق دیا گیا کہ ہم لوگ جب اپنی اولاد کے ساتھ بات کریں خاص طور پر جب انہیں کوئی نصیحت کریں یا انہیں کسی کام کی تربیت دیں تو اپنے اور اُن کے رشتے کی یاد دہانی کرواتے رہیں تا کہ ہماری اولاد کے ذہن میں یہ واضح تر ہوتا جائے کہ مجھے یہ سب کچھ سمجھانے والے میرے اپنے والدین ہیں کوئی دُشمن نہیں ہیں ، پس جو کچھ یہ مجھے سمجھا رہے ہیں وہ یقینا میرے لیے بہتر والا ہے ،[/font]
[font=&quot]اس کے ساتھ ساتھ اس انداز تخاطب کا ایک مُثبت نفسیاتی اثر اولاد اور والدین کے درمیان محبت میں اضافہ ہے ، [/font]
[font=&quot]:::::::[/font][font=&quot] پہلا سبق ::::::: شرک بہت بڑا ظُلم ہے ::::::: [/font]
[font=&quot]ان آیات مبارکہ میں بیان کردہ سب سے پہلا سبق جو لُقمان رحمہُ اللہ نے اپنے بیٹے کو سیکھایا ، اور سب سے پہلے اُسے جس کام کی تربیت دی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانے کی ہے ، [/font]
[font=&quot]جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ((((([/font][font=&quot]وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [/font]:::[font=&quot]اور جِب لُقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا اے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا ، بے شک شرک بہت ہی بڑا ظلم ہے )))))[/font][font=&quot] آيت [/font][font=&quot]13[/font]
[font=&quot]لقمان رحمہ اللہ کے اس سبق کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے شرک کے بارے میں مزید خبردار فرماتے ہوئے یہ بتایا کہ انسان پر اللہ کی طرف سے سب سے زیادہ نیک سلوک کرنے کا حکم اس کے ماں باپ کے بارے میں ہے لیکن اگر وہ بھی شرک کا حکم دیں تو ان کی تابع فرمانی نہ کی جائے گی ، لہذا ارشاد فرمایا :::((((([/font][font=&quot]وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ[/font]:::[font=&quot] اور ہم نے انسان کو وصیت کی اسکے والدین کے بارے میں (خیال رکھے کہ )اسکی ماں نے اسے دُکھ پر دُکھ پر برداشت کر کے (اپنے پیٹ میں ) اٹھائے رکھا اور اس کو دو سال تک دودھ پلانا ہے ، کہ میرا شکر گذار بنے اور اپنے والدین کا شکر گذار بنے )))))[/font][font=&quot] آیت [/font][font=&quot]14[/font]
[font=&quot]اس مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ انسانوں کے لیے اُس کا حکم ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ[/font]
[font=&quot] بہترین سلوک کریں ، خاص طور پر ماں کے ساتھ کہ اس کی ماں اس انسان کو تکلیف پر تکلیف برداشت کرتے ہوئے اپنے پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے اور پھر دو سال تک اسے دودھ پلاتی ہے ، پس اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ انسان اس کا شکر گذار ہو اور اپنے والدین کا شکر گذار ہو ، [/font]
[font=&quot]اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس کلام پاک میں ہمیں یہ سبق بھی ملا کہ ہمیں اپنی اولاد کو اللہ کے مقرر کردہ فطری عوامل کی تعلیم بھی مناسب وقت پر دیتے رہنا چاہیے نہ کہ بلا محل شرم کی بنا پر انہیں اللہ کے مقرر کدہ فطری عوامل سے جہالت میں رکھنا چاہیے ، کسی حیرت کی بات ہے کہ ہم اپنی اولاد کو اللہ کی نافرمانی میں دیکھ کر تو نہیں شرماتے لیکن انہیں اللہ کی تابع فرمانی سکھاتے ہوئے ، اللہ کے بتائے ہوئے فطری عوامل کی تعلیم دیتے ہوئے ، پاکیزگی اور پلیدگی کے مسائل سمجھاتے ہوئے شرم آتی ہے ، [/font]
[font=&quot]اسی لیے علماء نے شرم و حیاء کو دو اقسام میں تقسیم فرمایا ہے کہ :::[/font]
[font=&quot]([/font][font=&quot]1[/font][font=&quot]) مذموم شرم و حیاء ::::::: وہ شرم جو حق سیکھنے اور سکھانے ، ماننے اور اپنانے میں در آئے اور انسان اس پر عمل پیرا نہ ہو ، [/font]
[font=&quot]([/font][font=&quot]2[/font][font=&quot]) مطلوب شرم و حیاء ::::::: وہ شرم جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی سے روکے ، [/font]
[font=&quot]پس ہمیں اس دوسری شرم و حیاء کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا چاہیے اور اسی کے مطابق اپنی اولاد کو تعلیم و تربیت دینا چاہیے ، [/font]
:::::::[font=&quot] اس آیت مبارکہ کے بعد اللہ سُبحانہُ و تعالی نے فرمایا ((((([/font][font=&quot] وَ إِن جَاهَدَاكَ عَلى أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفاً وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ[/font]:::[font=&quot] اور اگر وہ تمہارے ساتھ اس بات پر زور زبردستی کریں کہ تُم میرے ساتھ شریک بناؤ جس کا تمہیں عِلم ہی نہیں تو تُم ان کی بات مت ماننا ، اور ( اسکے باوجود) دُنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان کی راہ پر چلو جو میری طرف جھکتے ہیں (اور یاد رکھو کہ) تُم سب نے میری ہی طرف واپس آنا ہے تو پھر میں تُم سب کوتُم لوگوں کے کیے ہوئے کاموں کی (ساری کی ساری ) خبر دوں گا )))))[/font][font=&quot] آیت [/font][font=&quot]15[/font][font=&quot] ، [/font]
[font=&quot]ماں باپ کی عمومی تابع فرمانی کرنے کی وصیت فرمانے کے بعد اللہ تعالی نے یہ واضح فرمایا دیا کہ شرک ایسا عظیم ظلم جس پر عمل پیرا ہونے سے باز رہنے کے لیے والدین کی نافرمانی کرنا پڑے تو وہ نافرمانی ضروری ہے ، [/font]
[font=&quot]اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے اللہ تعالی نے اس بارے میں یہ قانون ہم تک پہنچایا کہ ((((([/font][font=&quot]لَا طَاعَةَ [/font][font=&quot]في مَعْصِيَةِ [/font][font=&quot]اللَّهِ إنما الطَّاعَةُ في الْمَعْرُوفِ [/font]:::[font=&quot] اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی بلکہ اطاعت تو صرف نیک کاموں میں ہو گی ))))) صحیح مُسلم /حدیث [/font][font=&quot]1840[/font][font=&quot]/ کتاب[/font][font=&quot] الامارۃ[/font][font=&quot] /باب[/font][font=&quot]8[/font][font=&quot] ، [/font][font=&quot]نیک کام صرف اور صرف وہی ہے جسے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے نیک ہونے کی سند میسر ہو،کسی کے کہنے سمجھنے پر کوئی کام نیک نہیں خواہ بظاہر کتنا ہی نیک اور اچھا دکھائی دیتا ہو اور خواہ کوئی اسے نیکی ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملاتا رہے ، [/font]
:::::::[font=&quot] اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے شرک کی یہ مذمت بیان فرمانے کے بعد پھر لُقمان رحمہ اللہ کے بات ذکر فرماتا ہے جو ان کے سبق سے متعلق ہے ، یعنی شرک سے بچنے اور اللہ کی توحید کے بارے میں ہے ۔[/font]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
::: گذشتہ سے پیوستہ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
::::::: دوسرا سبق ::::::: توحید فی الصفات کا سبق ، اللہ کی عظیم قدرت ، مکمل عِلم کا سبق اور ، ::::::: تیسرا سبق ::::::: آخرت کی فِکر مندی کا سبق :::::::
(((((يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ ::: اے میرے بیٹے اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور پھر (کسی) پتھر میں (چُھپا ہوا) ہو یا (کہیں) آسمانوں میں ہو یا (کہیں) زمین میں ہو اللہ اسے ضرور لائے گا بے شک اللہ باریک بین اور بہت ہی خبررکھنے والا ہے ))))) آیت 16،
اس آیت میں بھی لُقمان رحمہ اللہ نے اُسی محبت آمیز اور پُر حِکمت انداز میں اپنے بیٹے کو مخاطب کیا اور اللہ کی صفات کی پہچان کرواتے ہوئے ان صفات کی قوت اور سمجھاتے ہوئے موصوف کی عظمت کی تعلیم دی اور اس عظمت کے پیش نظر اپنی زندگی میں کرنے والے ہر ایک کام کے بارے میں یہ تعلیم اور تربیت دی کہ یہ یاد رکھنا کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اللہ تعالیٰ کے عِلم سے خارج نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی قدرت سے لہذا تمہاری ہر نیکی اور ہر برائی کو اللہ آخرت میں تمہارے سامنے لے آئے گا لہذا ہر کام کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اور اللہ کے سامنے مجھے اس کا جواب دینا ہوگا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
::: گذشتہ سے پیوستہ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::::::: چوتھا سبق ::::::: اللہ کی عبادت کرنا ، اور ، ::::::: پانچواں سبق ::::::: صبر کے ذریعے دُنیا کی حقیقت کی معرفت :::::::
(((((( يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ::: اے میرے بیٹے نماز قائم کرو اور نیکی کرنے کا حُکم دو اور برائی سے روکو اور تمہیں جو کچھ تکلیف ہو اس پر صبر کرو کیونکہ ایسا کرنا قوت ارادی کی مضبوطی ہے )))))) آية 17
اس مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں لُقمان رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو اسی خوش اسلوبی اور محبت سے جس کا ذکر ہم نے آغاز میں کیا مخاطب کرتے ہوئے یہ ترتبیت دی کہ اللہ کی عبادت میں سے سب سے پہلی اور اہم عبادت نماز کو ہمشیہ ادا کرتے رہو ، اور اللہ کے احکام کے مطابق نیکیوں کو پہچاننا اور ان کا حکم کرتے رہنا ، اور اللہ کے احکام کے مطابق ہی برائیوں کو پہچاننا اور ان سے روکتے رہنا کہ یہ بھی اللہ کی عبادات میں شمار ہوتا ہے ، اور ایسا کرنے میں اور اسکے علاوہ بھی زندگی میں جو کچھ تکالیف پیش آئیں ان پر اللہ کی رضا کے لیے صبر کرنا کہ دُنیا اور اسکی نعمتوں اور اس کے مصائب کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ وہ سب فانی ہیں لیکن دنیا میں رہتے ہوئے جو عمل کرو گے ان کے نتائج ابدی ہوں گے ، دُنیا میں ملنے والی نعمتوں کو جس طرح استعمال کرو گے ان کے دنیاوی فائدے تو ایک دن یقینا ختم ہو جائیں گے لیکن ان کے نتائج آخرت میں کبھی نہ ختم ہونے والی سزا یا ثواب کا باعث ہوں گے ، دُنیا میں ملنے والی تکالیف اور مصیبتیں تو یقینا ختم ہونا ہی ہیں اگر ان پر صبر نہ کرو گے تو دُنیا میں بھی پریشان رہو گے اور صبر نہ کرنے کی سزا میں آخرت میں بھی دکھ اور نقصان کا شکار ہو جاؤ گے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
::: گذشتہ سے پیوستہ :::

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: چھٹا سبق :::::::ادب اور خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنا ، اور ،::::::: ساتواں سبق :::::::تکبر سے دُور رہنا :::::::
(((((وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ::: اور لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ مت پھیرو اور نہ ہی زمین پر اکڑ کر چلو (یاد رکھو کہ ) بے شک اللہ کسی بھی شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں کرتا ))))) آیت 18،
صعر ایک بیماری کا نام جو اونٹ کے سر یا گردن میں ہوتی ہے تو اس کی گردن مڑ جاتی ہے اور چہرہ پِھر جاتا ہے اس بیماری کی کیفیت کو مثال بناتے ہوئے یہاں اس آیت میں لقُمان رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو لوگوں کے ساتھ ادب اور خوش اخلقی سے پیش آنے کی تربیت دی اور سمجھایا کہ ایسا مت کرنا کہ لوگ تمہارے ساتھ بات کریں تو تم گردن اکڑا کر ان کی طرف سے منہ پھیر لو یا بات کو جواب تو دو لیکن ان کی طرف توجہ دیے بغیر ، اس کے بعد تکبر کی ایک اور عادت ، ایک اور کیفیت ، اکڑ اکڑ کر ، اِترا اِترا کر چلنے کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو یہ تعلیم دی کہ ایسا بھی مت کرنا ، کیونکہ ایسا کرنے والے اپنی حقیقت بھول کر خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں اور اللہ نے انہیں جو کچھ دوسروں سے زیادہ دیا ہوتا ہے اسے اللہ کی نعمت سمجھنے کی بجائے اپنی کسی کوشش کا نتیجہ سمجھتے ہوئے ، یا اپنے بڑوں کی کسی کوشش کا نتیجہ سمجھتے ہوئے اس پر شیخی ظاہر کرتے ہیں ، اوراللہ تعالیٰ شیخی خوروں کو پسند نہیں کرتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بہت ہی شکریہ ، یہ واضح کرنے کا کہ اپنی اولاد کی پیار سے بہتر تربیت، انبیاء کی سنت ہے ۔۔۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے۔
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔

آپ کے نیک کام کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔

ان مراسلات میں بھی یہ واضح ہے کہ حضرت لقمان کی زبانی بھی اللہ تعالی نے دو اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

1۔ صلوٰۃ کا قیام ، (‌نماز کا قیام)
2۔ اعلی ترین قانون سازی اور اس کا نفاذ (‌برے کاموں سے روکنے اور نیک کاموں‌کی ہدایت) یہ دونوں‌ بہت ہی ہمت کے کام ہیں ۔

والسلام
 
بہت ہی شکریہ ، یہ واضح کرنے کا کہ اپنی اولاد کی پیار سے بہتر تربیت، انبیاء کی سنت ہے ۔۔۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے۔
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔

آپ کے نیک کام کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔

ان مراسلات میں بھی یہ واضح ہے کہ حضرت لقمان کی زبانی بھی اللہ تعالی نے دو اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

1۔ صلوٰۃ کا قیام ، (‌نماز کا قیام)
2۔ اعلی ترین قانون سازی اور اس کا نفاذ (‌برے کاموں سے روکنے اور نیک کاموں‌کی ہدایت) یہ دونوں‌ بہت ہی ہمت کے کام ہیں ۔

والسلام
شکریہ ادا کرنے پر شکریہ ،
جناب فاروق سرور صاحب ، لقمان رحمہ اللہ کی بات میں جو اللہ تبارک و تعالی نے اپنے الفاظ میں بیان فرمائی ، نماز قائم کرنے کا حکم ہے ، نماز کی کسی کیفیت کا نہیں ، نماز سے متعلق کسی عمل کا نہیں ،
اور جناب ، نیک کاموں کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا یعنی امر بالعروف اور نہی عن المنکر کا معنی یا مفہوم کسی طور کسی قسم کی قانون سازی نہیں ، جو احکام اور قوانین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں بنا دیے انہیں کے مطابق ان کی حدود میں رہتے ہوئے یہ کام کرنا ہے نہ کہ خود سے قانون سازی کرنا ہے ،
اس موضوع پر آپ سے پہلے کافی گفتگو ہو چکی ہے ، براہ مہربانی اس کا اعادہ فرمانے کی کوشش مت فرمایے ، اور اگر ایسا کرنا ضروری ہی سمجھتے ہیں تو وہیں تشریف لے آیے جہاں یہ گفتگو ہوئی تھی ، یا ایک نیا دھاگہ کھول لیجیے ، اس دھاگے کے موضوع کو اپنے جگہ سالم رہنے دیجیے ، پیشگی شکریہ قبول فرما لیجیے ۔
 
::::::: آٹھواں سبق ::::::: میانہ روی کا سبق ، اور ،
::::::: نواں سبق ::::::: کسی طرف چلنے سے پہلے کوئی ہدف مقرر کرنے ، یعنی منصوبہ بندی ( پلاننگ) کا سبق ، اور ، ::::::: دسواں سبق ::::::: گدھوں کی طرح چیخ چیخ کر بات نہ کرنے کا سبق ،
((((( وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ ::: اور اپنی چلنے کا کوئی ہدف مقرر کرکے اپنی چال میانہ روی والی رکھو اور اپنی آواز کو نیچا رکھو کہ بے شک اللہ کے ہاں سب سے زیادہ نا پسندیدہ آوزوں میں یقیناً گدھوں کی آواز ہے ))))) آية 19،
::::::: خلاصہ کلام ::::::: اس سورت مُبارکہ میں لُقمان رحمہ اللہ کی یہ نصیحت والدین اور بالخصوص والد کے لیے اولاد کو تعلیم و تربیت دینے کا اسلوب مقرر کرنے والی ہے ، کہ ،
::::::: والد اپنی اولاد کو محبت اور نرمی کے ساتھ اللہ کے احکام کے مطابق اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے اور رکھتے ہوئے اللہ کی توحید کا سبق دے ،
::::::: شرک کی غلاظت اور نقصانات ظاہر کرے اور اس سے بچنے کی تربیت دے ،
::::::: خود بھی یاد رکھے اور اپنی اولاد کو بھی تعلیم و تربیت دے کہ اپنے والدین کی اندھی اطاعت کی اجازت نہیں ، اگر وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کا حکم دیں ، یا اللہ کی کسی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی ،
::::::: اللہ کی صفات میں اس کی توحید سکھائے ،
::::::: اللہ کے مکمل بے نقص عِلم کی پہچان کروائے ،
::::::: اللہ کی مکمل طاقتور ترین قدرت کی پہچان کروائے ،
::::::: صبر کی تعلیم دے ،
::::::: دُنیا کی حقیقت سمجھائے ،
::::::: آخرت کی فِکر اجاگر کرے ،
::::::: تکبر سے باز رہنے کی تربیت دے ،
::::::: خوش اخلاقی کی تعلیم دے ،
::::::: زندگی میں اپنی چال و رفتار کو با مقصد اور میانہ رو بنانے کی تربیت دے ،
::::::: جانوروں جیسی عادات اور خصلتوں سے دور رہنے کی تربیت دے ،
ان سب امور کی تاکید فرماتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورت کا اختتام اپنے ان اِرشادت مبارکہ پر فرمایا ((((( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ ::: اے لوگو اپنے رب (کی نافرمانی ، ناراضگی اور عذاب ) سے بچو اور اس دِن سے ڈرو جس دِن باپ اپنی اولاد کے بدلے کام نہ آسکے گا اور نہ ہی اولاد اپنے باپ سے کوئی (تکلیف یا عذاب وغیرہ) دور کر سکے گی بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے لہذا تُم لوگوں کو دُنیا کی زندگی کسی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ تُم لوگوں کو اللہ کے بارے میں کوئی دھوکہ ہونے پائے O إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ::: بے شک (صرف ) اللہ ہی کے پاس قیامت (واقع ہونےکے وقت اور اس میں ہونے والے فیصلوں اور مکمل احوال ) کا عِلم ہے اور (بے شک صِرف) اللہ ہی بارش نازل فرماتا ہے ، اور ( بے شک صِرف ) اللہ ہی جانتا ہے کہ بچہ دانی میں کیا ہے ، اور کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ کل وہ کیا کمائے گی اور کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ وہ کونسی جگہ مرے گی ، بے شک اللہ بہت ہی عِلم رکھنے والا اور بہت ہی خبر رکھنے والا ہے ))))) آیات 33-34 ۔
یہ وہ اہم اور بنیادی عقائد اور کام ہیں جن کی تعلیم اور تربیت دینا والدین اور بالخصوص والد پر واجب ہے ، لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی تربیت کرنے میں اس قرانی اسلوب کو مقدم رکھیں اور اپنی اولاد کی شخصیت کی بنیاد اللہ کی ذات اور صفات کی توحید کی پہچان اس پر ایمان اور اللہ کی تابع فرمانی پر قائم کریں ، اللہ تبارک و تعالیٰ ہر مسلمان کو ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی نسخہ """ یہاں """ سے اتارا جا سکتا ہے ۔
 
Top