عادل ـ سہیل
محفلین
[font="]قران کے سایے میں[/font]
اولاد کی تربیت کرنے کا طریقہ
[font="]بسم اللہ و الحمد للہ وحدہُ و الصلاۃ و السلام علی من لا نبی بعدہ[/font][font="] ُ[/font]
آیے ان آیات مبارکہ میں دیے گئے اسباق اور اولاد کو تعلیم و تربیت دینے کے بہترین انداز کو سمجھتے ہیں اِن شاء اللہ تعالیٰ ،
:::::::[font="] ان الفاظ میں سب سے پہلی قابل توجہ بات لُقمان رحمہُ اللہ کا اپنے بیٹے کو بار بار ((((([/font][font="] یا بني[/font][font="]::: اے میرے بیٹے )))))[/font][font="] کہہ کہہ کر بات کرنا ہے ، اس انداز میں ہمیں یہ سبق دیا گیا کہ ہم لوگ جب اپنی اولاد کے ساتھ بات کریں خاص طور پر جب انہیں کوئی نصیحت کریں یا انہیں کسی کام کی تربیت دیں تو اپنے اور اُن کے رشتے کی یاد دہانی کرواتے رہیں تا کہ ہماری اولاد کے ذہن میں یہ واضح تر ہوتا جائے کہ مجھے یہ سب کچھ سمجھانے والے میرے اپنے والدین ہیں کوئی دُشمن نہیں ہیں ، پس جو کچھ یہ مجھے سمجھا رہے ہیں وہ یقینا میرے لیے بہتر والا ہے ،[/font]
[font="]اس کے ساتھ ساتھ اس انداز تخاطب کا ایک مُثبت نفسیاتی اثر اولاد اور والدین کے درمیان محبت میں اضافہ ہے ، [/font]
[font="]:::::::[/font][font="] پہلا سبق ::::::: شرک بہت بڑا ظُلم ہے ::::::: [/font]
[font="]ان آیات مبارکہ میں بیان کردہ سب سے پہلا سبق جو لُقمان رحمہُ اللہ نے اپنے بیٹے کو سیکھایا ، اور سب سے پہلے اُسے جس کام کی تربیت دی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانے کی ہے ، [/font]
[font="]جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ((((([/font][font="]وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [/font]:::[font="]اور جِب لُقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا اے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا ، بے شک شرک بہت ہی بڑا ظلم ہے )))))[/font][font="] آيت [/font][font="]13[/font]
[font="]لقمان رحمہ اللہ کے اس سبق کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے شرک کے بارے میں مزید خبردار فرماتے ہوئے یہ بتایا کہ انسان پر اللہ کی طرف سے سب سے زیادہ نیک سلوک کرنے کا حکم اس کے ماں باپ کے بارے میں ہے لیکن اگر وہ بھی شرک کا حکم دیں تو ان کی تابع فرمانی نہ کی جائے گی ، لہذا ارشاد فرمایا :::((((([/font][font="]وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ[/font]:::[font="] اور ہم نے انسان کو وصیت کی اسکے والدین کے بارے میں (خیال رکھے کہ )اسکی ماں نے اسے دُکھ پر دُکھ پر برداشت کر کے (اپنے پیٹ میں ) اٹھائے رکھا اور اس کو دو سال تک دودھ پلانا ہے ، کہ میرا شکر گذار بنے اور اپنے والدین کا شکر گذار بنے )))))[/font][font="] آیت [/font][font="]14[/font]
[font="]اس مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ انسانوں کے لیے اُس کا حکم ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ[/font]
[font="] بہترین سلوک کریں ، خاص طور پر ماں کے ساتھ کہ اس کی ماں اس انسان کو تکلیف پر تکلیف برداشت کرتے ہوئے اپنے پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے اور پھر دو سال تک اسے دودھ پلاتی ہے ، پس اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ انسان اس کا شکر گذار ہو اور اپنے والدین کا شکر گذار ہو ، [/font]
[font="]اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس کلام پاک میں ہمیں یہ سبق بھی ملا کہ ہمیں اپنی اولاد کو اللہ کے مقرر کردہ فطری عوامل کی تعلیم بھی مناسب وقت پر دیتے رہنا چاہیے نہ کہ بلا محل شرم کی بنا پر انہیں اللہ کے مقرر کدہ فطری عوامل سے جہالت میں رکھنا چاہیے ، کسی حیرت کی بات ہے کہ ہم اپنی اولاد کو اللہ کی نافرمانی میں دیکھ کر تو نہیں شرماتے لیکن انہیں اللہ کی تابع فرمانی سکھاتے ہوئے ، اللہ کے بتائے ہوئے فطری عوامل کی تعلیم دیتے ہوئے ، پاکیزگی اور پلیدگی کے مسائل سمجھاتے ہوئے شرم آتی ہے ، [/font]
[font="]اسی لیے علماء نے شرم و حیاء کو دو اقسام میں تقسیم فرمایا ہے کہ :::[/font]
[font="]([/font][font="]1[/font][font="]) مذموم شرم و حیاء ::::::: وہ شرم جو حق سیکھنے اور سکھانے ، ماننے اور اپنانے میں در آئے اور انسان اس پر عمل پیرا نہ ہو ، [/font]
[font="]([/font][font="]2[/font][font="]) مطلوب شرم و حیاء ::::::: وہ شرم جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی سے روکے ، [/font]
[font="]پس ہمیں اس دوسری شرم و حیاء کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا چاہیے اور اسی کے مطابق اپنی اولاد کو تعلیم و تربیت دینا چاہیے ، [/font]
:::::::[font="] اس آیت مبارکہ کے بعد اللہ سُبحانہُ و تعالی نے فرمایا ((((([/font][font="] وَ إِن جَاهَدَاكَ عَلى أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفاً وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ[/font]:::[font="] اور اگر وہ تمہارے ساتھ اس بات پر زور زبردستی کریں کہ تُم میرے ساتھ شریک بناؤ جس کا تمہیں عِلم ہی نہیں تو تُم ان کی بات مت ماننا ، اور ( اسکے باوجود) دُنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان کی راہ پر چلو جو میری طرف جھکتے ہیں (اور یاد رکھو کہ) تُم سب نے میری ہی طرف واپس آنا ہے تو پھر میں تُم سب کوتُم لوگوں کے کیے ہوئے کاموں کی (ساری کی ساری ) خبر دوں گا )))))[/font][font="] آیت [/font][font="]15[/font][font="] ، [/font]
[font="]ماں باپ کی عمومی تابع فرمانی کرنے کی وصیت فرمانے کے بعد اللہ تعالی نے یہ واضح فرمایا دیا کہ شرک ایسا عظیم ظلم جس پر عمل پیرا ہونے سے باز رہنے کے لیے والدین کی نافرمانی کرنا پڑے تو وہ نافرمانی ضروری ہے ، [/font]
[font="]اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے اللہ تعالی نے اس بارے میں یہ قانون ہم تک پہنچایا کہ ((((([/font][font="]لَا طَاعَةَ [/font][font="]في مَعْصِيَةِ [/font][font="]اللَّهِ إنما الطَّاعَةُ في الْمَعْرُوفِ [/font]:::[font="] اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی بلکہ اطاعت تو صرف نیک کاموں میں ہو گی ))))) صحیح مُسلم /حدیث [/font][font="]1840[/font][font="]/ کتاب[/font][font="] الامارۃ[/font][font="] /باب[/font][font="]8[/font][font="] ، [/font][font="]نیک کام صرف اور صرف وہی ہے جسے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے نیک ہونے کی سند میسر ہو،کسی کے کہنے سمجھنے پر کوئی کام نیک نہیں خواہ بظاہر کتنا ہی نیک اور اچھا دکھائی دیتا ہو اور خواہ کوئی اسے نیکی ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملاتا رہے ، [/font]
:::::::[font="] اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے شرک کی یہ مذمت بیان فرمانے کے بعد پھر لُقمان رحمہ اللہ کے بات ذکر فرماتا ہے جو ان کے سبق سے متعلق ہے ، یعنی شرک سے بچنے اور اللہ کی توحید کے بارے میں ہے ۔[/font]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔