قسمتِ یار بھی ہے میرے مقدر کی طرح ۔۔۔ برائے اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس غزل کے نقائص بتانے اور دور کرنے میں مدد کی درخواست ہے۔۔

قسمتِ یار بھی ہے میرے مقدر کی طرح
اس کے دل میں بھی اندھیرا ہے مرے گھر کی طرح
عزم وہمت کی روایت ہے فقط خواب و خیال
لوگ ٹھوکر سے بھی اڑ جاتے ہیں پتھر کی طرح
ایسے حالات سے محفوظ رہیں گے کیسے
راہزن ساتھ رہیں جب کسی رہبر کی طرح
کس قدر تنگ ہے یارو ہمیں حاصل یہ جہاں
وسعت ِ شہرِ تمنا ہے سمندر کی طرح
ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے سرِ بزمِ حیات
پیش آتے رہے احباب ستمگر کی طرح
کبھی وحشت بھی ہوئی اپنے ہی کمرے سے ہمیں
کبھی ویرانہ بھی محسوس ہوا گھر کی طرح
ہاتھ پھیلائیں تو پھیلائیں کہاں تیرے سوا
کون سا در نظر آتا ہے ترے در کی طرح
اس کی چوکھٹ پہ تو اب تک ہیں سوالی شاہد
ہم نے سمجھا تھا قلندر کو سکندر کی طرح
برائے توجہ:
محترم الف عین صاحب
اور
محترم محمد یعقوب آسی صاحب۔۔۔
 
سارے شعر اچھے ہیں شاہد شاہنواز صاحب!
اس میں ایک لطف کی بات ۔۔ مطلع کا دوسرا مصرع اور اگلا شعر (دونوں مصرعے) ذوبحرین ہیں۔ :rose:

اس کے دل میں بھی اندھیرا ہے مرے گھر کی طرح
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

عزم وہمت کی روایت ہے فقط خواب و خیال
لوگ ٹھوکر سے بھی اڑ جاتے ہیں پتھر کی طرح
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات#فاعلن

اور یہ مصرع بھی:
ہاتھ پھیلائیں تو پھیلائیں کہاں تیرے سوا
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

بہت خوب! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ! :thumbsup:
 
ذوبحرین کی ایک اور مثال ابھی کل پرسوں دیکھی تھی۔ مہدی نقوی حجاز کی یہ غزل

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/غزل-جیسے-جیسے-ہوا-ہے-اندھیرا-مہدی-نقوی-حجازؔ.72014/#post-1495478
جواب نمبر 1 (یعنی اولین اندراج)

جیسے جیسے ہوا ہے اندھیرا
میں نے کم کر دیا ہے اندھیرا

رات جیسے وعید ہے دن کی
نور کی بد دعا ہے اندھیرا

دور رہتا ہے، میرے اندر کی
آگ سے آشنا ہے اندھیرا

بجھ رہا ہے ہماری پھونکوں سے
جیسے کوئی دیا ہے اندھیرا

پھر اندھیری سحر نمایاں ہے
رات کو کھا چکا ہے اندھیرا

دیکھتا ہے مجھے اندھیرے میں
کیا کوئی بھیڑیا ہے اندھیرا؟

کچھ منافق کھڑے ہیں آگ لیے
ان کے اندر چھپا ہے اندھیرا

اس کے اندر بھی روشنی ہے کہیں
کوئی بہروپیا ہے اندھیرا

ایک دن ٹک گیا تھا دن میں بھی
یوں امر ہو گیا ہے اندھیرا

کچھ دکانوں میں ہیں دیے روشن
اور وہاں بک رہا ہے اندھیرا

صبح گاہے حجازؔ سے ملنے
شام سے جاگتا ہے اندھیرا

اس غزل کا مطلع اور ہر شعر کا مصرعِ ثانی ’’فاعلن فاعلن فاعلاتن‘‘ پر بھی پورے اتر رہے ہیں۔ :rose:
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
آپ کی قیمتی رائے جان کر بہت خوشی ہوئی ۔۔۔
۔
اس کی چوکھٹ پہ تو اب تک ہیں سوالی شاہد
ہم نے سمجھا تھا قلندر کو سکندر کی طرح

یہاں اگر قلندر اور سکندر کی جگہ تبدیل کردی جائے
تو شعر خراب نہیں ہوجائے گا؟
 
آپ کی قیمتی رائے جان کر بہت خوشی ہوئی ۔۔۔
۔
اس کی چوکھٹ پہ تو اب تک ہیں سوالی شاہد
ہم نے سمجھا تھا قلندر کو سکندر کی طرح

یہاں اگر قلندر اور سکندر کی جگہ تبدیل کردی جائے
تو شعر خراب نہیں ہوجائے گا؟

اس کا مضمون بدلئے! مثلاً یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے سکندر کو شاہِ جہان جانا یا قلندر (بے نیاز) سمجھے مگر وہ تو اس در (درِ رحمت) پر سوالی بن کر کھڑا ہے۔
اس کی چوکھٹ پہ کھڑا ہے وہ سوالی بن کر
ہم نے سمجھا تھا سکندر کو قلندر جیسا
مگر میں ہی وہ بات شاید پوری طرح بیان نہیں کر پا رہا۔

آپ کے شعر میں ایک تشنہ سوال اٹھتا ہے کہ سوالی کون ہے؟ شاہد (شاعر)؟ یا سکندر؟ یا قلندر؟ پہلا مصرع آپ کے مضمون کو واضح سمت دے تو دوسرے مصرعے کو بھی دیکھ لیں۔ اس کو بعد پر اٹھا رکھئے، کسی وقت اچانک کوئی شان دار مضمون سوجھے گا، دیکھنا! ۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس کی چوکھٹ پہ تو اب تک ہیں سوالی شاہد
ہم نے سمجھا تھا قلندر کو سکندر کی طرح
میرا یہ کہنے کا مطلب تھا کہ :
ہم نے قلندر کو سکندر کی طرح دنیاوی بادشاہ سمجھ لیا تھا، سکندر کو لوگ چھوڑ کر چلے گئے، قلندر کے مزار کو بھی نہیں چھوڑا جاتا۔۔ وہ اس دنیا دار بادشاہ سے کہیں آگے ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جیسے ۔۔۔ ہم فقیروں سے دوستی کر لو۔۔ گر سکھا دیں گے بادشاہی کا۔۔۔
ویسے مجھے شعر کے مضمون کے حوالے سے کوئی اعتراض نہیں کہ اسے بدلا جائے یا حذف کردیاجائے کیونکہ اشعار تو اور بھی کہے جاسکتے ہیں، لیکن کسی کی دل آزاری ہو رہی ہو تو اسے ترک کردینا ہی بہتر ہے۔
کیونکہ اس پر فیس بک سے ایک تاثر یہ ملا تھا کہ :
’’اگر قلندر کی جگہ سکندر اور سکندر کی جگہ قلندر ہوتا تو ہماری روایتوں کا بھرم رہ جاتا۔ ‘‘
میں سمجھا نہیں کہ اس شعر سے کون سی روایات پامال ہوئیں؟
 
Top