شمشاد
لائبریرین
اردو محفل کے محترم رکن سید عاطف علی جو کہ روزگار کے سلسلے میں ریاض سعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے مجھ ناچیز سے متاثر ہو کر ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، کہ میں بھی ریاض میں ہی رہائش پذیر ہوں۔ اللہ جانے انہیں مجھ میں ایسا کیا نظر آیا جو اس خواہش کا اظہار کر بیٹھے۔ ہمیں ان کی خواہش کے اظہار میں بڑی خوشی محسوس ہوئی اور سینہ بھی پھولا کہ ہاں بھئی، ہمارے بھی چاہنے والے ہیں۔ سینہ پھولنے کے باوجود بنیان وہی کام دے گئی کہ پہلے ہی سے کچھ کھلی کھلی لگ رہی تھی۔
تو جناب ان سے ملاقات کی ٹھہری، ان کو اپنے در دولت پر تشریف آوری کا دعوت نامہ دیا کہ جب چاہیں تشریف لائیں اور جو ماحضر حاضر ہو تناول فرمائیں۔ انہوں نے اختتام ہفتہ پر فرصت کو یقینی بناتے ہوئے بروز جمعہ، جو کہ کل گزر گیا ہے، آنے کا کہا کہ ذرا ذہن بھی فری ہوتا ہے کہ اگلے دن بھی دفتر سے چھٹی ہوتی ہے۔
ہمیں یہ فکر کہ اہلیہ کو کیسے راضی کریں کہ دو افراد کے لیے کھانا بنانا ہے، ویسے تو گھر میں کھانا بنتا ہی ہے، دو چار مہمان بھی آ جائیں تو بھی الحمد للہ پوری پڑ جاتی ہے، لیکن کسی خاص موقع پر بنوانے کے لیے کچھ ایکسٹرا کرنا پڑتا ہے تو جناب ایک عدد سوٹ اور ایک عدد پرس دلوانے کے وعدے پر وہ راضی ہوئیں۔(نوٹ : ایسے تین چار وعدے پہلے سے زیر التوا ہیں، ایک اور سہی)، خیر یہ جملہ تومعترضہ ٹھہرا۔
حسب وعدہ عاطف بھائی بروز جمعہ بعد نماز عشاء تشریف لائے۔ یہ ہماری ان کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ ماشاء اللہ جوانِ رعنا ہیں۔ بیوی بچوں کو قریباً ایک سال پہلے پاکستان بھجوا چکے ہیں، کہ بچوں کی مزید تعلیم یہاں میسر نہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ رعنائی اہلیہ کو پاکستان بھجوانے سے آئی ہے یا قدرتی طور پر ایسے ہی ہیں۔ میں نے اس کی تفصیل میں جانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اور نہ ہی انہوں نے خود سے ذکر کیا۔ ہماری یہ ملاقات ڈھائی گھنٹوں سے زیادہ کے عرصے پر محیط رہی۔ جس میں دلچسپی کے امور پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ کچھ اپنی کہی، کچھ ان کی سُنی اور وقت کا پتہ ہی نہ چلا کہ قریباً تین گھنٹے گزر گئے۔ اس دوران کھانا بھی کھایا گیا اور چائے کا دور بھی چلا۔ عاطف بھائی نے کھانے میں خاصا تکلف کیا۔ نہیں کہہ سکتا کہ ویسے ہی کم کھاتے ہیں یا تکلفاً کم کھایا۔ بہرحال پہلی ملاقات خاصی خوشگوار رہی۔ امید ہے آیندہ بھی ملاقات ہوتی رہے گی۔ ہم دونوں کے گھروں میں زیادہ فاصلہ بھی نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ آٹھ سے دس کلومیٹر ہو گا۔ اور یہاں آٹھ دس کلومیٹر تو بالکل بھی محسوس نہیں ہوتے۔ ہاں عاطف بھائی آتے ہوئے ہمارے لیے ایک خوبصورت اور لذیذ کیک لائے تھے، جو ہم نے ان کے جانے کے بعد گھر والوں کے ساتھ مل کر کھایا۔
تو جناب ان سے ملاقات کی ٹھہری، ان کو اپنے در دولت پر تشریف آوری کا دعوت نامہ دیا کہ جب چاہیں تشریف لائیں اور جو ماحضر حاضر ہو تناول فرمائیں۔ انہوں نے اختتام ہفتہ پر فرصت کو یقینی بناتے ہوئے بروز جمعہ، جو کہ کل گزر گیا ہے، آنے کا کہا کہ ذرا ذہن بھی فری ہوتا ہے کہ اگلے دن بھی دفتر سے چھٹی ہوتی ہے۔
ہمیں یہ فکر کہ اہلیہ کو کیسے راضی کریں کہ دو افراد کے لیے کھانا بنانا ہے، ویسے تو گھر میں کھانا بنتا ہی ہے، دو چار مہمان بھی آ جائیں تو بھی الحمد للہ پوری پڑ جاتی ہے، لیکن کسی خاص موقع پر بنوانے کے لیے کچھ ایکسٹرا کرنا پڑتا ہے تو جناب ایک عدد سوٹ اور ایک عدد پرس دلوانے کے وعدے پر وہ راضی ہوئیں۔(نوٹ : ایسے تین چار وعدے پہلے سے زیر التوا ہیں، ایک اور سہی)، خیر یہ جملہ تومعترضہ ٹھہرا۔
حسب وعدہ عاطف بھائی بروز جمعہ بعد نماز عشاء تشریف لائے۔ یہ ہماری ان کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ ماشاء اللہ جوانِ رعنا ہیں۔ بیوی بچوں کو قریباً ایک سال پہلے پاکستان بھجوا چکے ہیں، کہ بچوں کی مزید تعلیم یہاں میسر نہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ رعنائی اہلیہ کو پاکستان بھجوانے سے آئی ہے یا قدرتی طور پر ایسے ہی ہیں۔ میں نے اس کی تفصیل میں جانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اور نہ ہی انہوں نے خود سے ذکر کیا۔ ہماری یہ ملاقات ڈھائی گھنٹوں سے زیادہ کے عرصے پر محیط رہی۔ جس میں دلچسپی کے امور پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ کچھ اپنی کہی، کچھ ان کی سُنی اور وقت کا پتہ ہی نہ چلا کہ قریباً تین گھنٹے گزر گئے۔ اس دوران کھانا بھی کھایا گیا اور چائے کا دور بھی چلا۔ عاطف بھائی نے کھانے میں خاصا تکلف کیا۔ نہیں کہہ سکتا کہ ویسے ہی کم کھاتے ہیں یا تکلفاً کم کھایا۔ بہرحال پہلی ملاقات خاصی خوشگوار رہی۔ امید ہے آیندہ بھی ملاقات ہوتی رہے گی۔ ہم دونوں کے گھروں میں زیادہ فاصلہ بھی نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ آٹھ سے دس کلومیٹر ہو گا۔ اور یہاں آٹھ دس کلومیٹر تو بالکل بھی محسوس نہیں ہوتے۔ ہاں عاطف بھائی آتے ہوئے ہمارے لیے ایک خوبصورت اور لذیذ کیک لائے تھے، جو ہم نے ان کے جانے کے بعد گھر والوں کے ساتھ مل کر کھایا۔