نیرنگ خیال
لائبریرین
یہ دوسرا آدمی بھی کمال چیز ہے۔۔۔ جہاں اپنے سے بات ہٹانی ہو۔۔۔ جہاں کسی انجان کی طرف اشارہ کرنا ہو۔۔۔ یا پھر ایویں ہی کسی کا ذکر کرنا ہو۔۔۔ تو دوسرا آدمی کا لفظ لگا دیجیے۔۔۔ زندگی آسان بنائیے۔۔۔ لیکن ہماری اس تحریر میں یہ دوسرا آدمی وہ والا دوسرا آدمی نہیں ہے جس کے بارے میں لوگ کہا کرتے ہیں کہ وہاں اک دوسرا آدمی بھی تھا۔۔۔ یار وہ جو دوسرا تمہارے ساتھ تھا۔۔۔ یا پھر یار یہ دوسرا کون ہے۔۔۔ بلکہ یہ دوسرا آدمی تو وہ آدمی ہے جس کو محفل کا ہر رکن بہت اچھے طریقے سے جانتا ہے۔۔۔۔ لیکن یہ پھر بھی پہلا آدمی بننے پر تیار نہیں۔۔۔ اور دوسرا آدمی کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔۔۔ میں نے جب پوچھا کہ سرکار یہ دوسرا آدمی دوسرا آدمی جب لوگ کہتے ہیں تو آپ کہتے کیوں نہیں کہ میرا نام ۔۔۔۔ ہے۔ تو ہنس کر کہنے لگے کہ میاں تم کیا جانو دوسرا آدمی ہونے میں کیا مزا ہے۔۔۔ پوچھو جو کبھی ہوئے ہو۔۔۔۔ میرے خیال میں اتنی دوسرے دوسرے کی گردان بہت ہے۔۔۔
آتے ہیں اصل قصے کی طرف
جمعہ کے روز دوسرے آدمی کا فون آیا کہ آپ نے آج لاہور آنا تھا۔ میں نے فون پر ہی دست بستہ عرض کی کہ آنا تو تھا۔ لیکن کچھ مصروفیات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکے گا۔۔۔ تو فرمانے لگے میں آرہا ہوں۔۔ میں نے کہا قبلہ جم جم آئیں۔۔۔۔ ہم دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھے ہیں۔۔ رات کو جب یہ دوسرا آدمی تشریف لایا تو ساتھ میں پہلا آدمی بھی تھا۔۔ گپ شپ لگائی گئی ۔ اس کے بعد پہلا آدمی اک نامعلوم منزل کی جانب رواں ہوگیا۔۔ اور ہم سے جاتے ہوئے کہہ گیا۔ کہ اگر میں اتنے دن تک واپس نہ آؤں توخبردار میرے پیچھے آنے کی غلطی نہ کرنا۔ بلکہ اس کے برعکس پوسٹر والے بزرگ کی خدمات حاصل کرنا۔دوسرے آدمی نے اس کی نصیحت پلے سے باندھ لی۔چونکہ میرے پاس پلہ نہ تھا۔۔ تو میں نے یہ نصیحت نیفے میں اڑس لی۔ اس کے بعد دوسرے آدمی کے ساتھ گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوا۔ جو تہجد کے قریب شیطان کی لوری کے ساتھ ختم ہوا۔ دوسرے دن جب سورج نکلا۔۔ تو دوسرا آدمی سویا ہوا تھا۔۔۔ اور ہمارے ساتھ یہ معاملہ تھا کہ
آتے ہیں اصل قصے کی طرف
جمعہ کے روز دوسرے آدمی کا فون آیا کہ آپ نے آج لاہور آنا تھا۔ میں نے فون پر ہی دست بستہ عرض کی کہ آنا تو تھا۔ لیکن کچھ مصروفیات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکے گا۔۔۔ تو فرمانے لگے میں آرہا ہوں۔۔ میں نے کہا قبلہ جم جم آئیں۔۔۔۔ ہم دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھے ہیں۔۔ رات کو جب یہ دوسرا آدمی تشریف لایا تو ساتھ میں پہلا آدمی بھی تھا۔۔ گپ شپ لگائی گئی ۔ اس کے بعد پہلا آدمی اک نامعلوم منزل کی جانب رواں ہوگیا۔۔ اور ہم سے جاتے ہوئے کہہ گیا۔ کہ اگر میں اتنے دن تک واپس نہ آؤں توخبردار میرے پیچھے آنے کی غلطی نہ کرنا۔ بلکہ اس کے برعکس پوسٹر والے بزرگ کی خدمات حاصل کرنا۔دوسرے آدمی نے اس کی نصیحت پلے سے باندھ لی۔چونکہ میرے پاس پلہ نہ تھا۔۔ تو میں نے یہ نصیحت نیفے میں اڑس لی۔ اس کے بعد دوسرے آدمی کے ساتھ گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوا۔ جو تہجد کے قریب شیطان کی لوری کے ساتھ ختم ہوا۔ دوسرے دن جب سورج نکلا۔۔ تو دوسرا آدمی سویا ہوا تھا۔۔۔ اور ہمارے ساتھ یہ معاملہ تھا کہ
رات گئے سویا تھا لیکن
تجھ سے پہلے جاگ اٹھا تھا
سورج گرم ہوگیا۔ لیکن دوسرا آدمی سوتا رہا۔ سورج اور گرم ہوگیا۔۔ لیکن دوسرے آدمی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ اک رینگی تو دوسرے آدمی نے پرانی مزاج شناس ہونے کی رعایت دے کر نظرانداز کر دیا۔ اب سورج تپ گیا۔ اس پر دوسرا آدمی اٹھا بیٹھا۔ اور اٹھتے ہی اِدھر اُدھر کے منصوبے بنانے لگا۔ کہ یہ بھی کر لیں۔ وہ بھی کر لیں۔ اس سے بھی مل لیں۔ اس سے بھی مل لیں۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے چلو چلتے ہیں۔۔ یہ سننا تھا کہ کہنے لگے تھوڑی شام ہوجائے پھر نکلتے ہیں۔ اور فلم لگا کر بیٹھ گئے۔۔۔ میں تھوڑی دیر بیٹھا رہا۔۔۔ پھر لیٹ گیا۔۔ پھر سو گیا۔۔۔ پھر اٹھا تو دیکھا کہ دوسرا آدمی وہیں اسی حالت میں سکرین پر نظریں جمائے فلم پر فلم دیکھے جا رہا ہے۔ جیسے اس کی زندگی کا اس سے بڑا مقصد اور کوئی نہیں ہے۔ اب میں تیار ہوگیا۔ اور عرض کی کہ تیسرے آدمی جن سے شام کو ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ منتظر ہیں۔ لیکن دوسرا آدمی بیٹھا رہا۔۔۔زمین جنبش نہ جنبش۔ گل محمد نہ جنبش۔۔۔ آخر تنگ آکر جب میں نے دھمکی دی کہ اب بھی اگر آپ نے ہلے تو میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا۔ یا پھر پروگرام ختم۔ اب کل جائیں گے۔ تو موصوف کے جسم میں ہلکی سے جنبش ہوئی جس سے پتا چلا کہ ابھی قوت سماعت باقی ہے۔ وہاں سے نکلے تو تیسرے آدمی کے دروازے پر آرکے۔ تیسرا آدمی محفل کی سب سے شفیق ترین ہستیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے ساتھ جب بھی بیٹھو۔ علم کے ساتھ ساتھ محبت اور شفقت سمیٹتے جاؤ۔ اب دوسرا آدمی نے عرض کی کہ سرکار چھت پر بیٹھا جائے گا۔۔۔ تیسرے آدمی کے گھر کی چھت پر سے نظارہ بڑا دلکش آتا ہے۔ سامنے مارگلہ کی پہاڑیاں اور پھر ان کے دامن میں موجود فیصل مسجد کے مینارے بھی نظر آتے ہیں۔ ہم وہاں بڑی دیر تک بیٹھے رہے۔ مختلف موضوعات زیر گفتگو رہے۔ جن میں راقم کی حثیت اک سامع سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ دوسرا اور تیسرا آدمی علم کی بوریاں بھر بھر کر انڈیلتے رہے۔ اور راقم اپنی اوقات کے مطابق جذب کرتا رہا۔ تیسرے آدمی کی پرتکلف مہمان نوازی کے بعد جب وہاں سے نکلے تو دوسرے آدمی نے نیند کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ اور گھر آکر دوبارہ سو گیا۔۔۔ محفلین وہ دوسرا آدمی ابھی تک سورہا ہے۔ راقم کو اجازت دیجئے کہ جا کر کچھ ناشتہ کا بندوبست کر سکے۔ اور اس دوسرے آدمی کو جگانے کی کوشش کر سکے، کامیابی یا ناکامی قسمت کی بات ہے۔۔۔۔۔
مکمل روداد پھر کسی دن سہی۔۔۔۔