دوسری منزل پر گئے تو گائیڈ انکل نے ہمیں ایک دوسرے گائیڈ کے حوالے کیا اور کہا کہ نیچے ہمیں ایک اور گروپ کو ریسیو کرنا ہے۔ باقی کی معلومات آپ کو یہ دیں گے۔
چھت کے مناظر
اوپر والی منزل پر بھی تین چار کمرے تھے۔ دوسرے والے گائیڈ ہمیں ایک کمرے میں لے کے گئے جہاں کچھ تصاویر آویزاں تھیں۔
گائیڈ نے بتایا کہ اس کمرے میں دو طرح کی تصاویر آویزاں ہیں۔ ایک طرف ہنزہ کے حکمران ہیں اور دوسری طرف پرنس کریم آغا خان کا شجرہ نسب۔
یہ رہا کریم آغا خان صاحب کا شجرہ نسب جو حضرت علی علیہ السلام سے جا کر ملتا ہے۔
بائیں طرف سے شروعات کر کے ان شخصیات کے نام درج ذیل ہیں۔
شاہ حسن علی شاہ، شاہ علی شاہ، شاہ سلطان محمد شاہ اور پرنس کریم آغا خان ( آغا خان ٹائیٹل شاہ حسن علی شاہ کو ان کی خدمات کی بناء پر ملا تھا جو نسل در نسل چلتا ہوا اب کریم آغا خان صاحب کے پاس ہے)
کریم آغا خان کو یہ لوگ اپنا حاضر امام مانتے ہیں۔ یہ حیات ہیں اور فرانس میں رہائش پذیر ہیں۔ کبھی کبھی ہنزہ تشریف لاتے ہیں۔ جب ہم ہنزہ میں داخل ہوئے تھے تو کچھ پہاڑوں پر انگریزی میں بڑا بڑا لکھا تھا
Welcome to our hazir Imam
اس وقت تو سمجھ نہ آئی تھی کہ یہ کیوں لکھا ہے۔ بعد میں معلوم پڑا۔
ہنزہ کے حکمران
ان کے حکمرانوں کو میر کا ٹائیٹل دیا جاتا تھا۔ یہ ٹائیٹل اب دائیں جانب والے ان حضرت کے پاس پڑا ہے۔ (جنہوں نے پر والی ٹوپی پہنی ہے۔ نام بھول گئے ہیں ہم ان کا)
جہاں تک ہمیں یاد ہے یہ شاید ہندوستان میں رہائش پذیر ہیں اور وہاں کی سیاست میں حصہ لے چکے ہیں۔ ان کی بیگم رانی عتیقہ ہیں۔ ان کے بعد میر کا ٹائیٹل ان کے بیٹے کو جائے گا۔
اسی تصویر میں گلگت کا جھنڈا بھی ہے۔