قلندر کا مفہوم

فاتح

لائبریرین
واہ کیا معانی کے دریا بہہ نکلے ہیں یہاں تو اور دریا بھی ایسے کہ کوئی مشرق کی جانب بہہ رہا ہے تو کوئی مغرب کی جانب اور کسی کا رخ شمال کو ہے اور کسی کا جنوب کو۔ :rollingonthefloor:
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
واہ کیا معانی کے دریا بہہ نکلے ہیں یہاں تو اور دریا بھی ایسے کہ کوئی مشرق کی جانب بہہ رہا ہے تو کوئی مغرب کی جانب اور کسی کا رخ شمال کو ہے اور کسی کا جنوب کو۔ :rollingonthefloor:
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دریا کی مجبوری ہے کہ نشیب کی جانب بہے ۔۔۔۔۔۔۔ مشرق ہو یا کہ مغرب یا جنوب
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
مذاق کی ناکام کوشش کی تھی
میرے بھائی
بہت معذرت آپ کو مذاق محسوس ہوا ۔
میرے خیال اسے دائرہ العارف والوں نے قلندر کی مفصل تشریح کی ہے ۔
باقی یہ دیوانوں کی باتیں ہیں فرزانوں کی نہیں ۔
فرزانہ سیب اٹھا لیتا ہے ۔۔۔۔۔ دیوانہ گرنے کا سبب تلاشتے وقت ضائع کرتا ہے
بہت دعائیں
 

زیک

مسافر
میرے بھائی
بہت معذرت آپ کو مذاق محسوس ہوا ۔
میرے خیال اسے دائرہ العارف والوں نے قلندر کی مفصل تشریح کی ہے ۔
باقی یہ دیوانوں کی باتیں ہیں فرزانوں کی نہیں ۔
فرزانہ سیب اٹھا لیتا ہے ۔۔۔۔۔ دیوانہ گرنے کا سبب تلاشتے وقت ضائع کرتا ہے
بہت دعائیں
دائرہ معارف کے مضمون کو مذاق نہیں کہا بلکہ اپنی پہلی پوسٹ کو ناکام مزاح قرار دیا تھا۔
 
میرے محترم بھائی میں تو خود روشنی کی تلاش میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال میرے ناقص علم میں یہ سب کچھ ایسے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بہت پیچیدہ اور متنازغہ قسم کا موضوع ہے ۔ اس پر گفتگو آسان نہیں ۔ یہ " عبادت ریاضت اور مشاہدے " سے حاصل ہونے والی ایسی کیفیات کا نام ہے ۔ جو صرف ان پر ہی عیاں ہوتی ہیں جوکہ ان اعمال کو کماحقہ ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔ تصوف اک بحر بے کنار کا نام ہے جس میں اترنے والا ہی اس کی حقیقت کو جان سکتا ہے۔
تصوف کیا ہے ۔ اس کی بنیاد کیا ہے ۔ اس کی راہ پر چلنے کے آداب کیا ہیں ۔ اس راہ پر کون کون سی منزلیں " پڑاؤ " کی صورت راہ سلوک کے مسافر جسے " سالک " کہا جاتا ہے کہ سامنے آتی ہیں ۔
راہ سلوک کے مسافر درجہ بدرجہ ان منازل تک پہنچتے ہیں ۔ اور " سالک " ابدال " قطب " غوث " کہلاتے ہیں ۔
تصوف کی آخری منزل جو کہ " امور تکوینی " بجا لانے کی منزل ہے وہ جناب حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کے پاس ہے ۔ اور سورت کہف میں ان کا بیان ہے ۔اور کوئی صوفی کوئی انسان اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا ۔
تصوف کو " راہ سلوک " بھی کہا جاتا ہے ۔ ایسی راہ جس پر چلتے کوئی انسان دوسرے انسانوں کے لیئے آسانیوں کا سبب بنے ۔ اور انسانیت کی فلاح اور سلامتی کا پیغامبر ٹھہرے ۔
سالک وہ ہستی کہلاتی ہے جو " مسلمان " ( انسانیت کے لیئے سلامتی کا پیغامبر )ٹھہرتے قران پاک میں بیان کردہ فرمان الہی کو جان سمجھ کر اپنی ذات اور بیرون ذات بکھرے کائنات کے مظاہر پر غوروفکر کرنے کے حکم کو بجا لانے کا خواہش مند ہوتا ہے ۔
اور جب وہ اس عمل میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے سامنے سے حجابات سمٹنے لگتے ہیں ۔ اور وہ حقیقت سے واقف ہوتے " خلاق العظیم " کے پاک ذکر میں محو ہوجاتا ہے ۔ اور سورہ آل عمران میں کی آخری آیات میں فرمائے گئے ارشاد پاک کا عملی ثبوت بن جاتا ہے ۔
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [٣:١٩١]
یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں:) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے، [طاہر القادری]
جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بو ل اٹھتے ہیں) "پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے [ابوالاعلی مودودی]
جو اللہ کی یاد کرت ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اے رب ہمارے! تو نے یہ بیکار نہ بنایا پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے، [احمد رضا خان] جو اٹھتے، بیٹھتے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے (برابر) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں و زمین کی تخلیق و ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (اور بے ساختہ بول اٹھتے ہیں) اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ فضول و بیکار پیدا نہیں کیا۔ تو (عبث کام کرنے سے) پاک ہے ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ [آیۃ اللہ محمد حسین نجفی]
جو لوگ اٹھتے, بیٹھتے, لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیں... کہ خدایا تو نے یہ سب بے کار نہیں پیدا کیا ہے- تو پاک و بے نیاز ہے ہمیں عذاب جہّنم سے محفوظ فرما [سید ذیشان حیدر جوادی]
وہ جو الله کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں (کہتے ہیں) اے ہمارے رب تو نے یہ بےفائدہ نہیں بنایا توسب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزح کے عذاب سے بچا [احمد علی]
جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائده نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے [محمد جوناگڑھی]
﴿١٩١﴾

راہ سلوک کے مسافر ان منازل تصوف کے اثبات میں درج ذیل حدیث مبارکہ بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں ۔
حضرت ابو ھریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے:
من عادی لی ولیا فقد اٰذنتہ بالحرب وما تقرب الی عبدی بشیئ احب الی مما افترضت علیہ، وما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبہ، فاذا احببتہ: کنت سمعہ الذی یسمع بہ، وبصرہ الذی یبصربہ، ویدہ التی یبطش بھا، ورجلہ التی یمشی بھا، وان سالنی لاعطینہ، ولانستعاذنی لاعیذنہ، وما ترددت عن شیئ انا فاعلہ ترددی عن النفس المومن یکرہ الموت وانا اکرہ مساءتہ۔ او کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(بخاری، ابن حبان، بیہقی(

ترجمہ: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ کسی ایسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو،اور میرا بندہ مسلسل میری نفلی عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے کان کی سماعت بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ کا نور بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ کی گرفت بن جاتا ہو جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاءوں کی توانائی بن جاتا جس سے وہ چلتا ہےاگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور بر ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور بر ضرور پناہ دیتا ہوں ۔ میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی متردد نہیں ہوتا جیسے بندہءمومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں ایسے میں کہ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں۔"
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنے کلام میں جہاں " مرد مومن اور قلندر " بارے اپنے قلم کو حرکت دی ہے وہاں انہوں نے " خودی " کے اثبات کو لازم قرار دیا ہے ۔
خودی کے ساز سے ہے عمر جاوداں کا چراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
خودی کیا ہے ؟
درحقیقت خود سے آگاہی ہے کہ اقبال کہ اس پیغام کی اصل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ۔ ۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَه فَقَدْ عَرَفَ رَبَّه.
’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا۔ اس نےاپنے رب کو پہچان لیا‘‘۔
" راہ سلوک کا یہ سفر " خود شناسی سے شروع ہوکر بندے کو خدا شناسی تک لے جاتا ہے اور اس سفر میں بندہ کو بقاء و دوام تب نصیب ہوتا ہے کہ جب بندہ اپنی خودی کی حقیقت کو پہچان کر خود اپنی ہی خودی میں گم ہونے کی بجائے اپنی خودی کو خدا شناسی میں گم کردیتا ہے تب بندہ مقام فنا سے مقام بقا پر فائز ہوجاتا ہے ۔ یعنی انسان کا شعوری سفر اپنے احساس نفس سے اپنی معرفت اور پہچان کی حقیقت کے ساتھ جتنا آگے بڑھے گا اسے اتنا ہی اپنے رب کی معرفت حاصل ہوگی انسان جتنا اپنی ذات پر غور کرتا ہے، اپنی حقیقت کو پہچانتا ہے اتنا ہی اسے اپنے رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور یہ معرفت اس کو رب کی محبت میں فنایت پر مجبور کرتی ہے
" سالک " سچے دل عبادت و ریاضت سے کیف، جذب، مستی، استغراق، سکر (بے ہوشی) اور صحو (ہوش) ،وجد، حال جیسی کیفیات سے گزرتے " ولی ابدال قطب غوث کے درجے پاتے ہیں ۔
کچھ اہل تصوف "فقیر و درویش " کو بھی " سالک " کے حکم میں قرار دیتے ہیں ۔
 
پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ ولایت کے مناصب کون کون سے ہیں، اور کیسے حاصل ہوتے ہیں

جب تمام سات لطائف پر ذکرِ قلبی مضبوط ہوجاتا ہے،، یعنی لطائف منور ہوجاتے ہیں،، تو روح میں ایک قوت پیدا ہوتی ہے جو اسے عالمِ اَمر اور قربِ الہٰی کی جانب سفر میں سپورٹ کرتی ہے
کثرتِ ذکر اور شیخ کی توجہ کے باعث روح میں جیسے جیسے لطافت بڑھتی جاتی ہے، اسکا سفر تیز تر ہوتا جاتا ہے
روح کے اس سفر میں مختلف اولیاء اللہ کواللہ پاک کی طرف سے مختلف مناصب (Designations) بطور گفٹ عطا کئے جاتے ہیں

سب سے پہلا منصب ہے ابدال، اسکے بعد قطب،،قطب وحدت،، قطب ارشاد،، پھر قطب مدار،، غوث،،قیوم،، فرد اور صدیق کے مناصب ہیں
یہ ضروری نہیں کہ کسی صاحبِ منصب کو یہ علم بھی ہو کہ میں اب فلاں منصب پر فائز ہوں،،
دنیا میں اللہ کی مرضی کہ کسی کو بتائے یا نہ بتائے،، ہاں مرنے کے بعداسے پتہ لگ جاتا ہے
تصوف و سلوک میں' قلندر' کوئی منصب نہیں ہے

یہ ایک انجانی اصطلاح ہے جو نامعلوم کس بنا پر لعل شہبازؒ کے ساتھ منسوب کر دی گئی ہے
اسی طرح 'خواجۂ خواجگان' بھی کوئی منصب نہیں ہے
عوام کا حال تو یہ ہے کہ علم ذرا نہیں اور دعویٰ ایسا کہ شرم بھی نہ آئے
کئی بزرگوں کے نام کیساتھ دو منصب لکھ دیتے ہیں، مثلاً پہلے کسی کو قطب لکھیں گے پھر اسےابدال بنا دیں گے، یعنی پہلے ترقی دی پھر تنزلی کرا دی
یا کبھی یوں ہوگا کہ اللہ کے کسی ولی کا منصب صدیق ہوگا تو اسے غوث لکھ دیں گے،،
یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کسی وزیر اعظم کو پٹواری لکھ دیا جائے
دوسری بات عورت کے متعلق،، عورت میں انوارات برداشت کرنے کی صلاحیت مرد سے کم ہوتی ہے
اس لئے عورت کو نبوت نہیں دی گئی،، مگر ولایت مل سکتی ہے عورت کے آدھے قلندر ہونے والی بات من گھڑہے

کسی منصب کا کیا معنی ہے،، یہ ایسا ہے کہ آپ کسی سے پوچھیں کہ میجر، کرنل اور برگیڈئیر کا کیا معنی ہے
یہ ولایت کےاسٹیٹس ہیں جو ہر امت میں انکے انبیاء علیھم السلام کے متبعین میں سے صالحین کو من جانب اللہ عطا ہوتے ہیں
مثلاً حضرت خضر ؒ قطب مدار تھے
اسی طرح امت محمدیؐہ میں بے شمار ہستیاں ان مناصب کی حامل رہی ہیں
مثلا بہاؤالدین زکریاؒ 'غوث' تھے،، مولانا احمد علی لاہوریؒ 'قطب ارشاد' تھے،، اور مولانا اللہ یار خانؒ 'صدیق' تھے وغیرہ
جو شخص جس قدر بلند منصب ہو گا،اس میں عوام کی باطنی اصلاح کرنے اور برکاتِ نبوت ٹرانسفر کرنے کی صلاحیت اسی قدر قوّی ہو گی
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ لوگ دوسروں کو کیسے یقین دلائیں گے کہ ہم فلاں منصب پر فائز ہیں؟

یاد رکھیں،، صرف نبی/رسول کو دوسروں کو یقین دلانے کی ضرورت ہوتی ہے
کہ میں پیغمبر ہوں
ولی کا کردار اور اسکے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کی تربیت، افکار، مجاہدات اور کریکٹر اس بات کے ظاہری گواہ ہوتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے یا سچا

کسی ولی کو اپنی زندگی میں اپنے منصب کا علم ہونا لازم نہیں،، ہو بھی سکتا ہے
یہ اللہ کریم کی مرضی ہے کہ بتائے یا نہ بتائے،،البتہ بعداز موت اسے علم ضرور ہو جاتا ہے
اگر اللہ پاک کسی کو باطنی/قلبی نگاہ نصیب فرمائیں تو کسی ولی کا منصب دیکھا بھی جا سکتا ہے -

انسانی جسم کے دو حصے ہیں
1)بدن
2)روح

روح کا تعلق عالمِ امر سے ہے اور جس دل/قلب کی ہم یہاں بات کر رہے ہیں اسکا تعلق بھی روح کے پارٹس سے ہے

بدن کی تخلیق چار چیزوں سے ہوئی ہے
ہوا، پانی، مٹی، آگ
ان چاروں کے ملنے سے انسانی نفس بنتا ہے
یہ نفس چونکہ مادی اور فانی اشیاء سے مل کر بنا ہے،، اسلئے اسکی خواہشات اور ضروریات بھی مادی ہیں، یہ اُن دنیاوی آسائشوں کی طرف رغبت کرتا ہے جس سےمادی بدن کو تسکین ملے

1)دل مردہ ہو جائے تو انسانی نفس مضبوط ہو جاتا ہے،، اور پہلوان بن جاتا ہے
اسے نفس امّارہ کہتے ہیں
سورہ یوسف میں اسکا ذکر ہے
(وما أبرئ نفسي إن النفس لأمارة بالسوء إلا ما رحم ربي) یہ ہمیشہ بدی کی دعوت دیتا ہے

2)دل کی اصلاح شروع ہو جائے تو یہ نفس کمزور ہو کر امارہ سے لوّامہ ہو جاتا ہے
یہ نیکی پر ابھارتا ہے اور برائی پر ملامت کرتا ہے
سورۃ القیامہ میں اس کا ذکر ہے
(ولا اقسم بالنفس اللوامہ)

3)دل کو مزید غذا (ذکرِ الہٰی) وافر مقدار میں فراہم کی جاتی رہے تو نفس مزید کمزور ہو کر لوامہ سے نفس مطمئنہ بن جاتا ہے اس مقام پر بندہ اللہ کی رضا سے ہمہ وقت راضی رہتا ہے اور نیکی کو چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے
گناہ سے نفرت ہو جاتی ہے
سورۃ الفجر میں اسکا ذکر ہے
(یا ایتھا النفس المطمئنۃ۔ ارجعی الی ربکِ راضیۃ مّرضیہ)
 

ظہیر انور

محفلین
اقبال علیہ رحمت نے فرمایا تھا
بیا بہ مجلس اقبال و یک دو ساغر کش
اگرچہ سر نہ تراشد قلندری دارد
اقبال کی مجلس میں آ کر ایک دو جام پی اگرچہ اس نے سر نہیں منڈوایا لیکن قلندری سے متصف ہے
ولی،ابدال، غوث، قطب اور قلندر وغیرہ اہل تصوف کی اصطلاحات ہیں جن کی قرآن اور سنت سے براہ راست سند نہیں ہے- یار لوگ کھینچ کر انہیں شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں علامہ اقبال نے اپنے آپ کو اصطلاحی نہیں لغوی معنی میں قلندر کہا ہے
 

سید عمران

محفلین
محمد بلال اعظم
اب تک کے مراسلوں میں بہت مشکل الفاظ و اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔۔۔
اور سب کا سب کتابی علم ہے۔۔۔
حقیقت سے کوئی بھی روشناس نہیں۔۔۔
آسان الفاظ میں مختصر بیان کردوں کہ یہ محض کتابی علم نہیں۔۔۔۔
تصوف نام ہے احکامِ شریعت کو محبت سے ادا کرنے کا۔۔۔
نہ کہ دین محمد کے مقابل کسی نے دین یا ازم کا۔۔۔
اور شریعت پر عمل کرنا یہ ہے کہ فرض، واجبات، سنن، متحبات پر عمل کیا جائے، برے اخلاق سے نجات پالی جائے، اچھے اخلاق پر عمل پیرا ہو۔۔۔
اور تقویٰ سے رہے۔۔۔
اور تقویٰ نام ہے صغیرہ کبیرہ ہر گنا ہ سے بچنے کا۔۔۔
بس جو شریعت پر جتنا زیادہ عمل کرتا ہے اللہ کا قرب بڑھتا جاتا ہے۔۔۔
جتنا قرب بڑھتا ہے شریعت کے اسرار کھلتے جاتے ہیں۔۔۔
جس طرح شریعت کے احکام چھپانا حرام ہے اسی طرح شریعت کے اسرار بتانا حرام ہے۔۔۔
کیونکہ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ شریعت پر عمل کرنے کے الگ الگ ثمرات سے نوازتے ہیں۔۔۔
اسی لیے انہیں دوسروں کو بتانا لاحاصل ہے ۔۔۔
ان حاملین ِ اسرار کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔۔۔
ان کو محض پہچان کے لیے مختلف نام دئیے گئے ہیں۔۔۔۔ مثلا سالک، ولی، ابدال، قطب ، غوث وغیرہ۔۔۔
سلوک راستے کو کہتے ہیں اور سالک اسے کہتے ہیں جو اللہ کا راستہ طے کرے۔۔۔
ولی ہر وہ متبع سنت و شریعت اور متقی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا قرب خاص حاصل کرچکا ہو۔۔۔
ان کا چہرہ ہی دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ کوئی خاص ہے۔۔۔
اسی لیے حدیث پاک ہے کہ اللہ والوں کو دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے۔۔۔
باقی ابدال، قطب، غوث تکوینی مراتب ہیں۔۔۔
سلوک طے کرنے کا مقصد صاحبِ تکون بننا نہیں ہوتا۔۔۔
بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔۔۔
البتہ اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو اسے تکوینی مرتبہ دے دیں۔۔۔
لیکن تکوینی مرتبہ حاصل کرنا مقصود نہیں ہے۔۔۔
ہر مسلمان کا مقصود صرف اللہ کو راضی کرنا اور آخرت کی تیاری کرنا ہے۔۔۔
آج تک کوئی ڈاڑھی منڈا، شرابی ، جواری، سٹہ کا نمبر بتانے والا اور اسی طرح دیگر گناہوں میں مبتلا نبی تو کیا ولی بھی نہیں ہوا۔۔۔
اور تکوینیات کیا ہے؟؟؟
یہ بالکل الگ تفصیل طلب مضمون ہے۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
یعنی حضرت آدھے قلندر ولی نہیں قرار پائیں گے؟
مجھے نہیں پتا آپ کا اشارہ کس طرف ہے۔۔۔
لیکن چند کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا ہے۔۔۔
جن میں مبتلا ہونے والا اللہ تعالیٰ کا قرب نہیں پاسکتا۔۔۔
کیوں کہ یہ ہماری آپ کی ، کسی انسان کی بنائی ہوئی باتیں نہیں ہیں۔۔۔
دین اسلام کے احکامات ہیں۔۔۔
کوئی مانے یا نہ مانے۔۔۔
یہ اس کا اپنا انفرادی معاملہ ہے!!!
 
Top