میرے محترم بھائی میں تو خود روشنی کی تلاش میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال میرے ناقص علم میں یہ سب کچھ ایسے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بہت پیچیدہ اور متنازغہ قسم کا موضوع ہے ۔ اس پر گفتگو آسان نہیں ۔ یہ " عبادت ریاضت اور مشاہدے " سے حاصل ہونے والی ایسی کیفیات کا نام ہے ۔ جو صرف ان پر ہی عیاں ہوتی ہیں جوکہ ان اعمال کو کماحقہ ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔ تصوف اک بحر بے کنار کا نام ہے جس میں اترنے والا ہی اس کی حقیقت کو جان سکتا ہے۔
تصوف کیا ہے ۔ اس کی بنیاد کیا ہے ۔ اس کی راہ پر چلنے کے آداب کیا ہیں ۔ اس راہ پر کون کون سی منزلیں " پڑاؤ " کی صورت راہ سلوک کے مسافر جسے " سالک " کہا جاتا ہے کہ سامنے آتی ہیں ۔
راہ سلوک کے مسافر درجہ بدرجہ ان منازل تک پہنچتے ہیں ۔ اور " سالک " ابدال " قطب " غوث " کہلاتے ہیں ۔
تصوف کی آخری منزل جو کہ " امور تکوینی " بجا لانے کی منزل ہے وہ جناب حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کے پاس ہے ۔ اور سورت کہف میں ان کا بیان ہے ۔اور کوئی صوفی کوئی انسان اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا ۔
تصوف کو " راہ سلوک " بھی کہا جاتا ہے ۔ ایسی راہ جس پر چلتے کوئی انسان دوسرے انسانوں کے لیئے آسانیوں کا سبب بنے ۔ اور انسانیت کی فلاح اور سلامتی کا پیغامبر ٹھہرے ۔
سالک وہ ہستی کہلاتی ہے جو " مسلمان " ( انسانیت کے لیئے سلامتی کا پیغامبر )ٹھہرتے قران پاک میں بیان کردہ فرمان الہی کو جان سمجھ کر اپنی ذات اور بیرون ذات بکھرے کائنات کے مظاہر پر غوروفکر کرنے کے حکم کو بجا لانے کا خواہش مند ہوتا ہے ۔
اور جب وہ اس عمل میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے سامنے سے حجابات سمٹنے لگتے ہیں ۔ اور وہ حقیقت سے واقف ہوتے " خلاق العظیم " کے پاک ذکر میں محو ہوجاتا ہے ۔ اور سورہ آل عمران میں کی آخری آیات میں فرمائے گئے ارشاد پاک کا عملی ثبوت بن جاتا ہے ۔
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [٣:١٩١]
یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں
اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے، [طاہر القادری]
جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بو ل اٹھتے ہیں) "پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے [ابوالاعلی مودودی]
جو اللہ کی یاد کرت ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اے رب ہمارے! تو نے یہ بیکار نہ بنایا پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے، [احمد رضا خان] جو اٹھتے، بیٹھتے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے (برابر) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں و زمین کی تخلیق و ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (اور بے ساختہ بول اٹھتے ہیں) اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ فضول و بیکار پیدا نہیں کیا۔ تو (عبث کام کرنے سے) پاک ہے ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ [آیۃ اللہ محمد حسین نجفی]
جو لوگ اٹھتے, بیٹھتے, لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیں... کہ خدایا تو نے یہ سب بے کار نہیں پیدا کیا ہے- تو پاک و بے نیاز ہے ہمیں عذاب جہّنم سے محفوظ فرما [سید ذیشان حیدر جوادی]
وہ جو الله کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں (کہتے ہیں) اے ہمارے رب تو نے یہ بےفائدہ نہیں بنایا توسب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزح کے عذاب سے بچا [احمد علی]
جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائده نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے [محمد جوناگڑھی]
﴿١٩١﴾
راہ سلوک کے مسافر ان منازل تصوف کے اثبات میں درج ذیل حدیث مبارکہ بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں ۔
حضرت ابو ھریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے:
من عادی لی ولیا فقد اٰذنتہ بالحرب وما تقرب الی عبدی بشیئ احب الی مما افترضت علیہ، وما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبہ، فاذا احببتہ: کنت سمعہ الذی یسمع بہ، وبصرہ الذی یبصربہ، ویدہ التی یبطش بھا، ورجلہ التی یمشی بھا، وان سالنی لاعطینہ، ولانستعاذنی لاعیذنہ، وما ترددت عن شیئ انا فاعلہ ترددی عن النفس المومن یکرہ الموت وانا اکرہ مساءتہ۔ او کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(بخاری، ابن حبان، بیہقی(
ترجمہ: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ کسی ایسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو،اور میرا بندہ مسلسل میری نفلی عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے کان کی سماعت بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ کا نور بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ کی گرفت بن جاتا ہو جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاءوں کی توانائی بن جاتا جس سے وہ چلتا ہےاگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور بر ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور بر ضرور پناہ دیتا ہوں ۔ میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی متردد نہیں ہوتا جیسے بندہءمومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں ایسے میں کہ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں۔"
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنے کلام میں جہاں " مرد مومن اور قلندر " بارے اپنے قلم کو حرکت دی ہے وہاں انہوں نے " خودی " کے اثبات کو لازم قرار دیا ہے ۔
خودی کے ساز سے ہے عمر جاوداں کا چراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
خودی کیا ہے ؟
درحقیقت خود سے آگاہی ہے کہ اقبال کہ اس پیغام کی اصل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ۔ ۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَه فَقَدْ عَرَفَ رَبَّه.
’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا۔ اس نےاپنے رب کو پہچان لیا‘‘۔
" راہ سلوک کا یہ سفر " خود شناسی سے شروع ہوکر بندے کو خدا شناسی تک لے جاتا ہے اور اس سفر میں بندہ کو بقاء و دوام تب نصیب ہوتا ہے کہ جب بندہ اپنی خودی کی حقیقت کو پہچان کر خود اپنی ہی خودی میں گم ہونے کی بجائے اپنی خودی کو خدا شناسی میں گم کردیتا ہے تب بندہ مقام فنا سے مقام بقا پر فائز ہوجاتا ہے ۔ یعنی انسان کا شعوری سفر اپنے احساس نفس سے اپنی معرفت اور پہچان کی حقیقت کے ساتھ جتنا آگے بڑھے گا اسے اتنا ہی اپنے رب کی معرفت حاصل ہوگی انسان جتنا اپنی ذات پر غور کرتا ہے، اپنی حقیقت کو پہچانتا ہے اتنا ہی اسے اپنے رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور یہ معرفت اس کو رب کی محبت میں فنایت پر مجبور کرتی ہے
" سالک " سچے دل عبادت و ریاضت سے کیف، جذب، مستی، استغراق، سکر (بے ہوشی) اور صحو (ہوش) ،وجد، حال جیسی کیفیات سے گزرتے " ولی ابدال قطب غوث کے درجے پاتے ہیں ۔
کچھ اہل تصوف "فقیر و درویش " کو بھی " سالک " کے حکم میں قرار دیتے ہیں ۔