صفحہ 29
طاقت سے ہوتا ہے جو عرصہ سے اس ملک پر قابض و رتصرف ہے۔کوئی انسان یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کے قبضے میں آئی ہوئی چیز واپس چلی جائے۔پس قدرتی طور پر یہ مطالبہ قابض طاقت پر شاق گذرتا ہے اور جہاں تک اس کے بس میں ہوتا ہے وہ اپنے فوائد کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔یہ جدوجہد کتنی ہی خلاف انصاف ہو مگر کسی طرح بھی قابل ملامت نہیں ہے۔کیونکہ ہر وجود اپنی حفاظت کے لئے ضرور ہاتھ پاؤں مارے گا۔ایساہی مقابلہ ہندوستان میں بھی شروع ہوگیا ہے۔پس ضروری ہے کہ جو لوگ موجودہ بیور کریسی کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں،بیوروکریسی بھی ان کی مخالفت میں جدوجہد کرے اور جہاں تک اس کے امکان میں ہے،ان کو سزائیں دے۔چونکہ وہ نہ صرف جدوجہد کرنے والے ہی ہیں، بلکہ اس جدوجہد کی دعوت دینے والے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ انہیں سزا دی جائے، بلکہ زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں گورنمنٹ سے یہ توقع رکھوں کہ وہ اپنے مخالفوں کو پیار کرے گی؟ وہ تو وہی کرے گی جو ہمیشہ طاقت نے آزادی کی جدوجہد کے مقابلے میں کی ہے۔پس یہ ایک ایسا قدرتی معاملہ ہے جس میں دونوں فریق کے لئے شکوہ و شکایت کا کوئی موقع نہیں ہے۔دونوں کو اپنا اپنا کام کئے جانا چاہئے۔"
انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں اس کا بھی اعتراف کیا ہے کہ آزادی و حق طلبی کی جدوجہد کی مقاومت میں دنیا کی جابر گورنمنٹیں جو کچھ کرچکی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے تسلیم کرنا چاہئے کہ ہندوستان میں اس وقت جس قدر جبر و تشدد ہورہا ہے،وہ بہت ہی کم ہے!
کیسی بے لاگ اور خالص صداقت شعاری ہے،جو اس بیان سے ٹپک رہی ہے؟کیا اس سے بڑھ کر راست بازی اور شجاعت و استقامت کی کوئی مثال ہوسکتی ہے؟
لوگوں کو شیوئہ حق گوئی کے اس نئے نمونے پر اگر تعجب ہو تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔کیونکہ ابھی ہم اس مقام سے بہت ہی دور پڑے ہوئے ہیں۔ ابھی تک تو ہمارا یہ خیال ہے کہ پالیٹکس میں ہر طرح کی ہٹ دھرمی اور صریح غلط بیانی تک جائز ہے!
طاقت سے ہوتا ہے جو عرصہ سے اس ملک پر قابض و رتصرف ہے۔کوئی انسان یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کے قبضے میں آئی ہوئی چیز واپس چلی جائے۔پس قدرتی طور پر یہ مطالبہ قابض طاقت پر شاق گذرتا ہے اور جہاں تک اس کے بس میں ہوتا ہے وہ اپنے فوائد کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔یہ جدوجہد کتنی ہی خلاف انصاف ہو مگر کسی طرح بھی قابل ملامت نہیں ہے۔کیونکہ ہر وجود اپنی حفاظت کے لئے ضرور ہاتھ پاؤں مارے گا۔ایساہی مقابلہ ہندوستان میں بھی شروع ہوگیا ہے۔پس ضروری ہے کہ جو لوگ موجودہ بیور کریسی کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں،بیوروکریسی بھی ان کی مخالفت میں جدوجہد کرے اور جہاں تک اس کے امکان میں ہے،ان کو سزائیں دے۔چونکہ وہ نہ صرف جدوجہد کرنے والے ہی ہیں، بلکہ اس جدوجہد کی دعوت دینے والے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ انہیں سزا دی جائے، بلکہ زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں گورنمنٹ سے یہ توقع رکھوں کہ وہ اپنے مخالفوں کو پیار کرے گی؟ وہ تو وہی کرے گی جو ہمیشہ طاقت نے آزادی کی جدوجہد کے مقابلے میں کی ہے۔پس یہ ایک ایسا قدرتی معاملہ ہے جس میں دونوں فریق کے لئے شکوہ و شکایت کا کوئی موقع نہیں ہے۔دونوں کو اپنا اپنا کام کئے جانا چاہئے۔"
انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں اس کا بھی اعتراف کیا ہے کہ آزادی و حق طلبی کی جدوجہد کی مقاومت میں دنیا کی جابر گورنمنٹیں جو کچھ کرچکی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے تسلیم کرنا چاہئے کہ ہندوستان میں اس وقت جس قدر جبر و تشدد ہورہا ہے،وہ بہت ہی کم ہے!
کیسی بے لاگ اور خالص صداقت شعاری ہے،جو اس بیان سے ٹپک رہی ہے؟کیا اس سے بڑھ کر راست بازی اور شجاعت و استقامت کی کوئی مثال ہوسکتی ہے؟
لوگوں کو شیوئہ حق گوئی کے اس نئے نمونے پر اگر تعجب ہو تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔کیونکہ ابھی ہم اس مقام سے بہت ہی دور پڑے ہوئے ہیں۔ ابھی تک تو ہمارا یہ خیال ہے کہ پالیٹکس میں ہر طرح کی ہٹ دھرمی اور صریح غلط بیانی تک جائز ہے!