قول فیصل صفحہ 29 تا 34

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 29

طاقت سے ہوتا ہے جو عرصہ سے اس ملک پر قابض و رتصرف ہے۔کوئی انسان یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کے قبضے میں آئی ہوئی چیز واپس چلی جائے۔پس قدرتی طور پر یہ مطالبہ قابض طاقت پر شاق گذرتا ہے اور جہاں تک اس کے بس میں ہوتا ہے وہ اپنے فوائد کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔یہ جدوجہد کتنی ہی خلاف انصاف ہو مگر کسی طرح بھی قابل ملامت نہیں ہے۔کیونکہ ہر وجود اپنی حفاظت کے لئے ضرور ہاتھ پاؤں مارے گا۔ایساہی مقابلہ ہندوستان میں بھی شروع ہوگیا ہے۔پس ضروری ہے کہ جو لوگ موجودہ بیور کریسی کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں،بیوروکریسی بھی ان کی مخالفت میں جدوجہد کرے اور جہاں تک اس کے امکان میں ہے،ان کو سزائیں دے۔چونکہ وہ نہ صرف جدوجہد کرنے والے ہی ہیں، بلکہ اس جدوجہد کی دعوت دینے والے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ انہیں سزا دی جائے، بلکہ زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں گورنمنٹ سے یہ توقع رکھوں کہ وہ اپنے مخالفوں کو پیار کرے گی؟ وہ تو وہی کرے گی جو ہمیشہ طاقت نے آزادی کی جدوجہد کے مقابلے میں کی ہے۔پس یہ ایک ایسا قدرتی معاملہ ہے جس میں دونوں فریق کے لئے شکوہ و شکایت کا کوئی موقع نہیں ہے۔دونوں کو اپنا اپنا کام کئے جانا چاہئے۔"
انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں اس کا بھی اعتراف کیا ہے کہ آزادی و حق طلبی کی جدوجہد کی مقاومت میں دنیا کی جابر گورنمنٹیں جو کچھ کرچکی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے تسلیم کرنا چاہئے کہ ہندوستان میں اس وقت جس قدر جبر و تشدد ہورہا ہے،وہ بہت ہی کم ہے!
کیسی بے لاگ اور خالص صداقت شعاری ہے،جو اس بیان سے ٹپک رہی ہے؟کیا اس سے بڑھ کر راست بازی اور شجاعت و استقامت کی کوئی مثال ہوسکتی ہے؟
لوگوں کو شیوئہ حق گوئی کے اس نئے نمونے پر اگر تعجب ہو تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔کیونکہ ابھی ہم اس مقام سے بہت ہی دور پڑے ہوئے ہیں۔ ابھی تک تو ہمارا یہ خیال ہے کہ پالیٹکس میں ہر طرح کی ہٹ دھرمی اور صریح غلط بیانی تک جائز ہے!
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 30

مولانا کا یہ طرز عمل عام خیالات سے کس قدر مختلف ہے؟ اس کا اندازہ حسب ذیل واقعہ سے ہوگا۔ مولانا نے مندرجہ بالا مطالب لکھتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں"کہا جاسکتا ہے کہ پہلے فریق کی طرح دوسرے فریق کی جدوجہد بھی قابل ملامت نہیں" یعنی قوم کی طرح گورنمنٹ بھی اپنی جدوجہد میں قابل ملامت نہیں۔ چونکہ یہ خیال عام خیال سے بالکل ہی بعید تھا۔لوگوں کی سمجھ میں کسی طرح یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ گورنمنٹ کو بھی اس کی جابرانہ جدوجہد میں ناقابل ملامت مانا جائے۔ اس لئے تمام اخبارات نے اسے کتابت کی غلطی سمجھا اور "کہاجاسکتاہے" کی جگہ "کہاجاتاہے" بنادیا۔گویا گورنمنٹ یا اس کے طرف دار ایسا کہتے ہیں،ورنہ دراصل ایسا نہیں ہے۔ حالانکہ اس کے بعد کی عبارت بالکل اس تبدیلی کے خلاف تھی!
نان کو آپریشن اصول:
یہ جو کچھ ہمیں نظر آیا،مولانا کے مسلک کی عام حیثیت تھی۔اگر "ترک موالات" کا پروگرام نہ ہوتا،جب بھی وہ ایسا ہی کرتے۔لیکن اب اس اعتبار سے بھی دیکھنا چاہئے کہ "ترک موالا" کا اصال ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرزعمل کا کیا حال ہے؟
ترک موالات اور عدالت کے بائکاٹ سے مقصود یہ تھا کہ عدالت میں کسی طرح کا بھی ڈیفینس نہ کیاجائے۔یعنی اپنے کو سزا بچانے کیلئے کوئی کاروائی نہ کی جائے کیونکہ نان کو اپریشن عدالت کے انصاف اور جواز ہی سے منکر ہے۔اس اعتبار سے بھی مولانا نے ہمیں بتادیا ہے کہ ڈیفینس نہ کرنے کے کیا معنی ہے؟
بہت سے لوگوں نے "ڈیفینس نہ کرنے" پر صرف اتنا ہی عمل کیا کہ عدالتی دستور کے مطابق وکلاء اور قانون پیشہ اشخآص کو اپنی طرف سے مقرر نہیں کیا لیکن جہاں تک تعلق اصل ڈیفینس کا ہے اس میں انہوں نے کوئی کمی نہیں کی۔ پوری طرح اپنی بے قصوری اور استغاثہ کے خلاف قانون و انصاف ہونے پر بحثیں کیں اور ہر طرح کے قانونی مواد سے استدلال کیا،بعض حالت میں عدالتوں سے انصاف کی اپیل بھی کی گئی۔یعنی خود اپنی زبان و قلم سے وہ سب کچھ کر
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 31

گزرے جو وکیل اور کونسلی ان کی جانب سے ڈیفینس میں کرسکتی ےتھا۔پس فی الحقیقت یہ "ڈیفینس نہ کرنا"نہیں ہوا،بلکہ "براہ راست خود ڈیفینس کرنا"ہوا۔
لیکن مولانا کا طرز عمل کس قدر یک سو اور کامل معنوں میں ڈیفینس سے مبرا ہے؟ انہوں نے اظہار بے جرمی کی جگہ جرم کا صاف صاف اعتراف کیااور بجائے انصاف کی اپیل کرنے کے عدالت کو خود ہی اپنے تمام جرائم کی فہرست سنادی۔ ساتھ ہی اول سے آخر تک کسی طرح کی قانونی بحث نہیں کی۔ ایک حرف بھی اس بارے میں ہم ان کی زبان سے نہیں سنتے۔حتی کہ یہ تک نہیں پوچھتے کہ جو دفعہ ان پر لگائی گئی ہے،واقعی اسکی تقریریں اس میں آتی ہیں یا نہیں؟ اور آتی ہیں تو کیونکر؟وہ تو خؤد ہی اپنی تقریروں کے تمام سخت سخت مقامات نقل کردیتے ہیں اور سی،آئی،ڈی کے رپورٹروں کی ناقابلیت سے جہاں کہیں کوئی کمی رہ گئی ہے،اس کو استغاثہ کے حسب منشا مکمل کردیتے ہیں!فی الحقیقت ترک موالات اور عدالتوں کے مقاطعہ سے اصل مقصود یہ تھا جس کا مکمل نمونہ ہم ان میں دیکھتے ہیں۔ یہ نہیں تھا کہ ڈیفینس اور بریّت کا ایک طریقہ چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرلیا جائے۔
جو لوگ صاحب نظروانصاف ہیں وہ یقیناً اس طرزعمل سے متاثر ہوئے اور متاثر ہوں گے۔مولانا کے بعد ہی لاہور میں لالہ راجپت رائے جی پر دوبارہ مقدمہ چلایاگیا لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کوئی بیان دیں گے؟ تو جواب میں انہوں نے کہا "چونکہ بیان ازروئے قانون اپنی بریّت کا لازمی طور پر لکھنا پڑے گااور یہ نان کو اپریشن کے خلاف ہے۔ اس لئے غور کرنے کے بعد اب میری رائے یہی ہوگی کہ کوئی بیان نہ دینا چہئے" گویا انہوں نے بھی مولانا کے طرز عمل کی تائد کی۔
جب تک ایک حقیقت نظروں سے مستور رہتی ہے،اس کا عام طور پر احساس نہیں ہوتا۔ لیکن جب سامنے آجاتی ہے تو پھر تعجب ہوتا ہے کہ اتنی صاف بات کیوں لوگوں کو محسوس نہیں ہوتی؟یہی حال اس معاملہ کا ہے۔مولانا کا بیان پڑھنے کے بعد فی الواقع تعجب ہوتا ہے کہ
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 32

کیوں اس قدر صاف اور سچی بات سے بڑے بڑے لیڈروں کو گریز رہا؟ یہ واقعہ ہے کہ ہم موجودہ گورنمنٹ اور بیورو کریٹک حکام کے جبر و ظلم کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں اور صاف صاف کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد ان کے قبضہ سے اپنا حق واپس لینا ہے۔پس یہ بالکل قطعی اور یقینی بات ہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں،وہ ہمارے دلائل و عقائد کی رو سے کتنا ہی صحیح ہو،لیکن موجودہ گورنمنٹ کے قانون اور پوزیشن کی رو سے تو ضرور جرم اور بلا کسی نزاع کے 124۔ الف ہے۔ تو ہم اس کام کے لائق ہی نہیں ہوسکتے۔ اگر جان بوجھ کر ایسا کررہے ہیں تو پھر ہم کو مان لینا چاہئے کہ گورنمنٹ اور گورنمنٹ کے نافذ کردہ قانون کی رو سے ہم ضرور مجرم ہیں اور وہ سزا دلانے میں حق بجانب ہے۔ اس میں بچاؤ اور بریّت کے لئے چناں چنیں کیوں کی جائے؟ اور شکوہ شکایت کیوں ہو؟ کیا لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ وہ گورنمنٹ کے خلاف جدوجہد بھی کریں گے، اسے جنگجو حریفوں کی طرح چیلنج بھی دیں گے اور پھر وہ انہیں گرفتار بھی نہ کرے گی اور محض معمولی معمولی سزائیں بھی نہ دے؟ مولانا کے لفظوں میں کہنا چہئے کہ "گورنمنٹ مسیح نہیں ہے!" یا پھر تسلیم کرلینا چاہئے کہ جو کچھ زبان سے کہا جاتا ہے،وہ دل میں نہیں ہے۔زبان چیلنج دیتی ہے مگر دل میں یہی ہوتا ہے کہ ہم آخر تک بچتے رہیں گے اور یہ محض زبانی شیخی کررہے ہیں ورنہ سچ مچ کو پکڑے نہیں جائیں گے۔
سی،آئی،ڈی کے رپورٹر:
اسی سلسلہ میں مولانا کے طرز عمل کی ایک اور صداقت ہمارے سامنے آئی ہے۔ انہیں نے کیسی صفائی اور راست بازی کے ساتھ تسلیم کرلیا ہے کہ سی،آئی،ڈی کے رپورٹروں نے ان کے خلاف جو کچھ کہا وہ صحیح ہے۔ اس میں کوئی بات شرارت کی نہیں۔
ہماری پولیٹیکل جدوجہد کی تاریخ سب سے پہلی مثال ہے کہ اس فراخ دلی کے ساتھ خود ملزم نے ان لوگوں کی شہادت کی تصدیق کی ہے جو ملزم کے بر خلاف اس کی کوشش کر
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 33

رہے ہیں کہ عمر بھر قید کی سزا دلا دی جائے!
انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ فریقانہ تعصب سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتا۔صداقت کے لئے سب سے زیادہ مشکل آزمائش اسی وقت ہوتی ہے جب دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ میں کھڑی ہوجاتے ہیں ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے بڑے بڑے لیڈر بھی اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتےکہ مخالف فریق کو بوقت ضرورت غلط الزامات دے دئے جائیں،یا کم ازکم ان کی موافقت میں کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ مصالح جنگ ہیں غلط بیانی اور جھوٹ نہیں لیکن فی الحقیقت یہ یورپ کا پولیٹیکل اخلاق ہے جس پر یورپ سے بیزار ہوکر بھی ہم شوق سے عمل کررہے ہیں۔
ابھی اسی سال کی بات ہے کہ علی گڑھ میں پولیس کے اشتعال سے فساد ہوا تھا۔ جیسا کہ قاعدہ ہے پولیس کے اشتعال اور تشدد سے پبلک بھی مشتعل ہوئی اور پھر مشتعل ہونے کے بعد اس نے بھی وہ سب کچھ کیا جو ایک پر جوش مجمع کی فطرت کیا کرتی ہے۔ لیکن "اخبار انڈیپینڈنٹ" کے نامہ نگار اور بعض دیگر مقامی لیڈروں نے اس سے صاف صاف انکار کردیا وہ آخر تک یہی کہتے رہے کہ مجمع نے کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی۔نہ تو کوتوالی حملہ کیا گیا۔نہ پریس پر پتھر پھینکے گئے۔ نہ کوتوالی کاسامان جلایا گیا یہ سب جھوٹ ہے۔حالانکہ یہ سب سچ تھا اور سچ کو سچ ماننے ہی میں ہماری طاقت اور فتح مندی ہے۔ آخر جب مہاتما گاندھی نے سختی کے ساتھ مضامین لکھے،تب جاکر کہیں جاکر لوگ خاموش ہوئے۔ اس طرح کی ہٹ دھرمیوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حریف کی نظروں میں جو یقیناً اصلیت سے بے خبر نہیں ہے۔ ہمارے کریکٹر کی کمزوری خود کھل جاتی ہے اور ہماری بات بالکل ہلکی اور بے وزن ہو کر رہ جاتی ہے۔ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ آج تک کبھی کسی نے یہ تسلیم کیا ہو کہ اس کے خلاف پولیس کا بیان صحیصح ہے۔بلاشبہ یہ سچ ہے کہ پولیس کی کذب بیانوں کی بھی کوئی حد نہیں۔ لیکن انہیں جھوٹ گھڑنے کی ضرورت وہیں پڑتی ہے جہاں اصل میں کچھ نہ ہو۔جہاں فی الواقع گورنمنٹ کے خٌاف کاروائی کی گئ ہے ،وہاں تو وہ بھی اس سے زیادہ نہیں کریں گے کہ مخالف کو مخالف ہی دکھلائیں۔یا کچھ مبالغہ کردیں۔پھر کیوں واقعات کو صریح جھٹلایا جائے؟
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 34

ان عفو و تحمل اور روش کی متانت:
ایک بڑی سبق آموز حقیقت ان کے روش کی کمال درجہ سنجیدگی و متانت اور نہایت مؤثر و درگزر بھی ہے۔ یہ وصف بھی ایسا ہے کہ جس پر غور کرنے کی ہماری قومی لیڈروں اور کارکنوں کو بڑی ضرورت ہے۔
یہ قدرتی کمزوری ہم تمام انسانوں میں ہیں کہ مخالف کے مقابلے میں غصہ اور غیظ و غضب سے بھرجاتے ہیں۔ علی الخصوص اس حالت میں جبکہ مخالف صاحب اختیار طاقتور بھی ہو۔ لیکن ایک لیڈر اور بڑے آدمی کو عام انسان سے زیادہ جذبات پر قابو رکھنا چاہئے۔ کسی انسان کی بڑائی کے لئے یہ کم سے کم بات ہے کہ وہ وقت پر اپنے غصے کو ضبط کرسکے۔ بہت سے لوگ یہ غلطی بھی کرجاتے ہیں کہ شجاعت و ہمت اور طیش و غضب میں فرق نہیں کرتے۔ بہت زیادہ غصہ میں آجانے کو ہمت اور بہادری کی بات سمجھتے ہیں۔ حالانکہ سچّا بہادر وہی ہے جو تکلیف جھیلنے میں اس قدر مضبوط ہو کہ تکلیف دیکھ کر اسے غصہ ہی نہ آئے۔ علاوہ بریں غصہ اور طیش کے ہیجان میں واقعات اور حقیقت کی تاثر بھی نمایاں نہیں ہوسکتی۔
مولانا کے طرز عمل کی ایک بڑی نمایاں بات انکی بےحد متانت اور سنجیدگی ہے۔ عدالت کی تمام کاروائوں کی اثناء میں کہیں بھی یہ نظر نہیں آتا کہ وہ غصہ میں بھرے ہوئے ہیں یا دشمن کے قابو میں اپنے آپ کو پاکر پیچ و تاب کھارہے ہیں۔ برخلاف اس کے ان کے "بیان"کی ہر سطر سے کامل متانت اور ضبط ٹپکتا اور جس حصہ کو دیکھا جائے ،جذبات کے جوش کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ انہوں نے سخت سے سخت جوش انگیز پولیکٹیکل معاملات پر اس طرح بحث کی ہے، گویا ایک شخص نہایت سادگی کے ساتھ محض واقعات و حقائق پر لیکچر دے رہا ہے۔ وہ گویا گرفتار ہونے کے بعد غضبی جذبات سے بالکل خالی ہوگئے تھے!
اس سے بھی زیادہ مؤثر مقام بیان کا خاتمہ ہے جہاں انہوں نے ان تمام لوگوں کا ذکر کیا ہے،جو ان کے خلاف مقدمہ میں کام کررہے ہیں۔اپنے مخالف گواہوں،سرکاری وکیل اور مجسٹریٹ کی نسبت پوری خوش دلی کے ساتھ دیا ہے کہ انہیں کوئی شکایت یا رنج ان سے نہیں
 
Top