اقتباسات قومیت وصوبائیت اور زبان ورنگ کے تعصب کی اصلاح--مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ الله تعالیٰ

یاسر شاہ

محفلین
عرض مرتب
اس وقت ساری دنیا میں غیر مسلموں کی طرح ’’ قومیت وصوبائیت اور رنگ وزبان ‘‘ کو بنیاد بنا کر مسلمان جس طرح آپس میں اختلافات اور انتشار کا شکار ہیں جو کہ قرآن وحدیث کی تعلیمات کے بالکل منافی ہے ۔ اس فتنہ کی اصلاح کے لیے حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم (رحمہ الله تعالیٰ )کی مختلف کتابوں سے اس فتنہ کے بارے میں ملفوظات کو منتخب کرکے ایک مختصر رسالہ ’’ قومیت وصوبائیت اور رنگ وزبان کے تعصب کی اصلاح ‘‘شایع کیا گیا ہے۔آج کل کے حالات کے پیش نظر اس رسالہ کو زیادہ سے زیادہ شایع کرکے لوگوں تک پہنچائیں تا کہ تعصب اور نفرت دور ہو اور آپس میں محبت پیدا ہو -

؎ ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے​

ہر شخص کو اس رسالہ کو شایع کرنے کی عام اجازت ہے۔
(یکے از خدام حضرت والا دامت برکاتہم)
 

یاسر شاہ

محفلین
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْم
۱۶ شعبان المعظم ۱۴۲۷؁ھ مطابق ۱۰ ستمبر ۲۰۰۶ ؁ء بروز اتوار ، بعد عصر


زبان ورنگ کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے

ارشاد فرمایا کہ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ (سورہٴحجرات )
مسلمان توآپس میں بھائی بھائی ہی ہیں

کوئی افریقہ سے آیا ہے کوئی لندن سے ، کوئی بلوچستان سے کوئی پنجاب سے ، کوئی سندھ سے، کوئی کہیں سے آیا ہے کوئی کہیں سے لیکن میں سب کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَاَلۡوَانِکُمۡ ؕ
ترجمہ: اور اسی کی نشانیوں میں سے آسمان و زمین کا بنانا ہے اور تمہارے لب ولہجہ اور رنگتوں کا الگ الگ ہونا ہے۔

زبان ورنگ کا اختلاف یہ میری نشانیاں ہیں، اگر کوئی اللہ کی نشانی کو حقیر سمجھے تو اس کی بہت بڑی نالائقی ہے، وہ بڑا بے ہودہ آدمی ہے، بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ زبان ورنگ کے اختلاف سے ایک دوسرے کو حقیر سمجھتے ہیں ۔ لوگ گناہ کی حقیقت کو سمجھتے نہیں، اگر کوئی اللہ کی نشانی کو نہیں مانتا، انکار کرتا ہے تو یہ کفر ہے۔ کوئی پنجابی بولتا ہے، کوئی سندھی زبان بولتا ہے تو اردو زبان والے ہنستے ہیں۔ اردو اچھی زبان تو ہے لیکن اس کو تمام زبانوں سے اچھا اور افضل سمجھنا جائز نہیں اور کسی زبان کو حقیرسمجھنا جائز نہیں۔ انگریزی زبان کو بھی حقیر نہ جاننا چاہیے ، اگر کوئی انگریز مسلمان ہوجائے تو کیا بولے گا؟ انگریزی ہی تو بولے گا، پس جتنی زبانیں ہیں سب کو اچھا سمجھو۔ اگر تم لندن میں پیدا ہوتے تو انگریزی بولتے، پنجاب میں پیدا ہوتے تو پنجابی بولتے ، سندھ میں پیدا ہوتے تو سندھی بولتے لہٰذا جو زبان تمہاری ہوتی کیا اس کو حقیر سمجھتے ؟ لہٰذا کسی زبان کو حقیر نہ سمجھو۔
جب ہم بنگلہ دیش گئے تو کبھی کسی بنگلہ دیشی کوحقیرنہیں سمجھا،اسی وجہ سے سب بنگلہ دیشی عاشق ہوگئے کیوں کہ مجھ میں عصبیت نہیں ہے، عصبیت کا نہ ہونا یہ بات بہت کم پاؤ گے ۔ میرے کتنے دوست پنجاب کے ہیں لیکن ان کی پنجابی سے مجھے مزہ آتا ہے۔

عصبیت.....سوء خاتمہ کا پیش خیمہ

اپنے قلب کا جائزہ لیتے رہو کہ عصبیت کا کوئی ذرّہ دل میں تو نہیں ہے۔ اگر عصبیت کا ایک ذرّہ بھی دل میں ہوا تو سوء خاتمہ کا اندیشہ ہے۔ ایک غزوہ میں ایک شخص بہت بہادری سے لڑرہا تھا، ایک صحابی نے اس کی تعریف کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جہنمی ہے۔ وہ صحابی اس کے پیچھے لگ گئے ۔ آخر میں دیکھا کہ وہ زخمی ہوگیا اور زخموں کی تاب نہ لا کر اپنی تلوار سے اس نے خودکشی کرلی۔صحابی نے آکر یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سےعرض کیااورپوچھا کہ یا رسول اللہ !یہ کیا ماجرا ہے؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا کہ یہ شخص اسلام کے لیے نہیں عصبیت کے لیے لڑرہا تھا کہ میرے قبیلہ کا نام ہوگا۔ پس خوب سمجھ لو کہ عصبیت جہنم میں لے جانے والی ہے، زبان اور رنگ کو حقیر سمجھنا جہنم میں جانے کا سامان کرنا ہے۔
اس مضمون کو پھیلاؤ، اس کا بہت فائدہ ہوگا، آج کل اس کی ہر جگہ اشاعت کی ضرورت ہے ہر مسلمان اس مضمون کو آگے پھیلائے۔ کسی زبان کو حقیر نہ سمجھو، زبان اور رنگ کی وجہ سے کسی کوحقیرسمجھنا دلیل ہے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی نشانی کا انکار کررہا ہے۔ وَاخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَ اَلۡوَانِکُمۡ آدمی اپنے باپ کی نشانی کی عزت کرتا ہے، اس کو دیکھ کر باپ کو یاد کرکے روتا ہے کہ یہ میرے ابّا کی نشانی ہے۔ وہ بندہ کتنا نالائق ہے جو اللہ تعالیٰ کی نشانی کو جھگڑے کا ذریعہ بناتا ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں چاہے لندن کے ہوں، چاہے یوگنڈا کے ہوں۔ کالے گورے اللہ تعالیٰ بناتے ہیں ، خود نہیں بنتے ، اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والے ہیں، رنگ وزبان کا اختلاف الله تعالیٰ کی نشانی ہے ، جو قرآن پاک کی کسی آیت پر ایمان نہ لائے وہ قرآن پاک کا انکار کرنے والا ہے ۔

ماخوذ از : ماہنامہ الابرار ۲۰۰۶؁ء
 

یاسر شاہ

محفلین
۱۶ صفر المظفر ۱۴۲۳ ؁ھ مطابق ۲۷ اپریل ۲۰۰۲؁ء بروز ہفتہ ، بعد مغرب​
زبانوں اور رنگوں کا اختلاف ذریعہ معرفت الہٰیہ ہے
اب ایک نئی بات سنو! جو شاید مجھ ہی سے سنو گے۔ ملاوی میں ایک رات دو بجے میری آنکھ کھل گئی تو کتا بھونک رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ کیا بات ہے کہ یہاں کا کتا بھی اسی زبان میں بھونکتا ہے جس زبان میں کرا چی کا کتا بھونکتا ہے۔ کتے بلی اور تمام جانور ہر ملک کے ایک ہی طرح بولتے ہیں۔ انگلینڈ کا کتا یہ نہیں کہا کہ I am a dogاور انگلینڈ کی بلّی یہ نہیں کہتی کہ am a cat بلکہ ہر ملک کی بلی میاؤں ہی کہے گی۔ بنگلہ دیش کے ایک عالم نے مزاحاً کہا کہ بلّی جو میاؤں کہتی ہے تو دراصل کہتی ہے کہ میں آؤں ؟ یعنی دسترخوان پر کیا اکیلے اکیلے ٹھونس رہے ہو یا میں آؤں ؟ لیکن انسانوں کی زبانیں ہر ملک اور ہر علاقہ کی مختلف ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ دل میں یہ آیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا ہے اس لیے ان کی زبانوں میں اختلاف کردیا تا کہ اس اختلاف سے وہ مجھے پہچانیں کہ واہ رے میرے اللہ آپ کی کیا قدرت ہے کہ آپ نے کتنی زبانیں پیدا فرمادیں، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَاَلۡوَانِکُمۡ
تمہارے اختلاف زبان اور اختلاف رنگ میں میری نشانیاں ہیں اور نشانیاں جانوروں کو نہیں دی جاتیں کیوں کہ ان کے اندر معرفت الہٰیہ کی صلاحیت ہی نہیں ہےورنہ انگلینڈ کی بلی انگریزی بولتی اور پاکستان کی بلی اردو بولتی اور بنگلہ دیش کا کتا بنگلہ بولتا لیکن ساری دنیا کے جانور ایک ہی طرح بولتے ہیں، پاکستان کا گدھا اسی طرح بولے گا جس طرح انگلینڈ کا گدھا بولتا ہے اور انسانوں کو کیوں کہ اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا اس لیے ان کی زبان اور رنگ میں اختلاف کردیا لیکن یہ ہماری نادانی ہے کہ ہم اس کو وجہ فضیلت بنالیں کہ ہم گورے ہیں تم کالے ہو۔ معلوم ہوا کہ زبان اور رنگ کا اختلاف لڑنے کے لیے نہیں اللہ کی معرفت ومحبت کے لیے ہے۔ اگر ابّا اپنی کوئی نشانی دے تو بچے اس کو دیکھ کر ابّا کو یاد کرتے ہیں یا آپس میں لڑتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو اختلاف السنۃ واختلاف الوان کو اپنی نشانی بتارہے ہیں اور ہم بجائے اپنے مالک کو یاد کرنے کے اس پر لڑرہے ہیں اور اس کو اپنی اپنی فضیلت کا سبب بنارہے ہیں۔ اس لیے دوسری جگہ فرمادیا:
اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللہِ اَتۡقٰکُمۡ
بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے

تمہاری فضیلت اور کرامت زبانوں اور رنگوں پر نہیں ہے تقویٰ پر ہے جو جتنا زیادہ متقی ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا ہی مکرم ہے۔
( ماخوذ از ارشادات درد دل)
 

یاسر شاہ

محفلین
۲۶ جمادی الثانی ۱۴۱۹ ؁ھ مطابق ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۸ ؁ء بروز جمعرات بعد مغرب
زبان ورنگ سے بالا ترایک بے مثل قوم
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ......(سورہٴ مائدہ )
ترجمہ :اے لوگوجوایمان لائے ہو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھرجائے گاتواﷲ تعالیٰ جلد ہی ایسے لوگوں کولے آئے گاجن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے،

لہٰذا جو دین سے بے وفا ہو کر اور اللہ اور رسول کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور دوبارہ یہودی اور عیسائی ہوگئے تو کوئی فکر مت کرو فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ؎ ہم عنقریب عاشقوں کی ایک قوم پیدا کریں گے جن سے ہم محبت کریں گے اور جو ہم سے محبت کرے گی۔ اور قوم نازل فرمایا اقوام نازل نہیں فرمایا، جس سے معلوم ہوا کہ ساری کائنات میں جتنے لوگ اللہ سے محبت کرنے والے ہیں وہ سب ایک قوم ہیں، چاہے وہ ملاوی کا ہو یا پاکستان کا ہو، امریکہ کا ہو یا افریقہ کا ہو، کالا ہو یا گورا ہو ،سارے عالم کے اللہ کے عاشق اور اللہ سے محبت کرنے والے سب ایک قوم ہیں، اگر اللہ کے عاشقوں میں بہت قومیں ہوتیں اور کالے گوروں کا فرق ہوتا تو اللہ لفظ قوم نازل نہ فرماتا، اقوام نازل کرتا کہ ہم اپنے عاشقوں کی اقوام نازل کریں گے لیکن فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ فرمایا کہ پوری دنیا میں جتنے میرے عاشق ہوں گے وہ سب کے سب ایک قوم ہیں، عاشقوں کی قوم الگ تھلگ نہیں ہوتی۔

اللہ تعالیٰ کے عاشق سب ایک قوم ہیں البتہ محبت کے لیے ان کی زبانوں میں اور رنگ میں اختلاف ہے۔ یہ دلیل اختلافِ قومیت کی نہیں ہے،یہ اختلافِ تعبیرات ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مختلف زبانوں میں ہمارا نام لیا جائے اور مختلف رنگ کے لوگ ہمیں یاد کریں، یہ ہمارا انتظام ہے، اختلاف السنۃ اور اختلاف الوان یعنی زبان ورنگ کے اختلاف میں ہم نے اپنی نشانی اور اپنی قدرت کا تماشہ دکھایا ہے کہ کوئی بنگالی بول رہا ہے کوئی انگریزی بول رہا ہے اور کوئی گجراتی بول رہا ہے:
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَاَلۡوَانِکُمۡ
تمہارے رنگ اور کلر اور تمہاری زبانیں جو الگ الگ ہیں یہ میری نشانیاں ہیں لہٰذا اس سے یہ مت سمجھنا کہ ہمارے عاشقوں کی کئی قومیں ہیں، رنگ اورزبان کے اختلاف سے قوم کا مختلف ہونا لازم نہیں آتا ۔ جو ہم سے محبت کرتا ہے چاہے وہ کسی رنگ اور کسی زبان کا ہو ایک قوم ہے، ساری دنیا بھر کے عاشق ایک قوم ہیں لہٰذا آپ کو ملاوی مل جائے، افریقی مل جائے، ایشیا کامل جائے،انڈین مل جائے گجراتی مل جائے لیکن وہ اللہ و رسول سے پیارکرتا ہوتو اس سے معانقہ کرو،محبت کرو کہ واہ رے میرے پیارے ہم تم ایک برادری ہیں، یہاں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں، سارے عالم کے عاشق خدا ایک قوم ہیں، دلیل میں قرآن پاک کی آیت پیش کررہا ہوں ملاوی کے علماء یہاں موجود ہیں جنوبی افریقہ کے علماء موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ میں ایک قوم پیدا کروں گا، جس کی کیا شان ہوگی؟ یُّحِبُّہُمۡ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کریں گے اور وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے ، تو اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کی قوم کی پہلی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرمائیں گے اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے اور بِقَوۡمٍ میں جو با داخل ہے یہ: اتی- یأتی: جو لازم تھا اس کومتعدی کررہا ہے ، کیا مطلب ہوا؟ کہ ہمارے دیوانے خود سے نہیں بنتے ، دیوانے بنائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ با یہ معنی پیدا کررہا ہے کہ ہم لائیں گے اپنے عاشقوں کی ایک جماعت اور قوم جس کو ہم اپنا دیوانہ بنائیں گے۔
؎محبت دونوں عالم میں یہی جاکر پکار آئی
جسے خود یار نے چاہا اسی کو یاد یار آئی​

اللہ جس کی قسمت میں اپنا عشق اور اپنی محبت رکھتا ہے وہی اللہ کا دیوانہ ہوتا ہے ، جس کو اللہ پیار کرتا ہے وہی اللہ کو پیار کرتا ہے، یہ بہت خوش نصیب لوگ ہیں،یہ بڑی قسمت والے ہیں بادشاہوں کو یہ قسمت نصیب نہیں ہے، اگر اللہ کو بھولے ہوئے ہیں تو بادشاہ زندگی بھر اپنی بادشاہت میں پریشان ہیں۔ تاج شاہی سر پر ہے اور سر میں درد ہے ۔

؎شاہوں کےسروں میں تاج گراں سے درد سا اکثر رہتا ہے
اور اہل صفا کے سینوں میں اک نور کا دریا بہتا ہے​

اللہ والوں کے سینوں میں نور کا دریا بہہ رہا ہے اور شاہوں کے سروں میں اپوزیشن کے ڈنڈے سے درد سر ہورہا ہے۔ تاج شاہی سر پر اور خود سلطنت کی کرسی پر اور کرسی کے نیچے سے اپوزیشن کے ڈنڈے کا فکر ہر وقت پریشانی میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔

( ماخوذ از : اللہ کے باوفا بندے)
 

یاسر شاہ

محفلین
۳ ربیع الاول ۱۴۱۴؁ھ ۲۲ اگست ۱۹۹۳؁ء بروز اتوار صبح ۱۱ بجے
خاندان وقبائل کا مقصد تعارف ہے نہ کہ تفاضل وتفاخر

آج حضرت والانے مجلس کے دوران یہ آیت پڑھی:
اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَجَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًاوَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا -اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(13سورہٴ حجرات )
ترجمہ :اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔
حق سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا یعنی بابا آدم علیہ السلام اور مائی حوا علیہا السلام سے وَجَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًاوَّ قَبَآئِلَ اور ہم نے تم کو مختلف خاندانوں میں تقسیم کردیا لیکن یہ تقسیم تفاخر کے لیے نہیں بلکہ اس کا مقصد ہے لِتَعَارَفُوۡا تاکہ تم کو ایک دوسرے کا تعارف حاصل ہوسکے ۔ لیکن ہم لوگوں نے بجائے تعارف کے تفاضل اور تفاخرشروع کردیا۔ جو پٹیل ہے وہ کہتا ہے کہ ہمارے مقابلے میں سب گھٹیل ہیں یعنی گھٹیا ہیں کوئی لمبات ہے کوئی گنگات ہے۔ اس آیت سے یہ مسئلہ نکلا کہ اپنے خاندان پر ، اپنی برادری پر، اپنے القاب پر فخر کرنا نادانی ہے جو مقصدِ تعارف کے خلاف ہے۔اس وقت مجھے بس یہ تھوڑی سی نصیحت کرنی ہے کہ لِتَعَارَفُوۡا کا خیال رکھیے۔ تفاخروتفاضل جائز نہیں کیوں کہ تفریق شعوب وقبائل سے اللہ تعالیٰ کا مقصدیہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے تعارف ہوجائے کہ فلاں خاندان سے ہے، وہ فلاں قبیلہ سے ہے۔ خاندان وقبائل سبب عزت وشرف نہیں ہیں ۔ پھر عزت وشرف کس چیز میں ہے ؟ آگے ارشاد فرماتے ہیں:
اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللہِ اَتۡقٰکُمۡ
اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ اختیار کرتا ہے ۔ جو جتنا زیادہ متقی ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا ہی زیادہ معزز ہے۔

( ماخوذ از : معارف ربانی )
 
Top