۲۶ جمادی الثانی ۱۴۱۹ ھ مطابق ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۸ ء بروز جمعرات بعد مغرب
زبان ورنگ سے بالا ترایک بے مثل قوم
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ......(سورہٴ مائدہ )
ترجمہ :اے لوگوجوایمان لائے ہو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھرجائے گاتواﷲ تعالیٰ جلد ہی ایسے لوگوں کولے آئے گاجن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے،
لہٰذا جو دین سے بے وفا ہو کر اور اللہ اور رسول کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور دوبارہ یہودی اور عیسائی ہوگئے تو کوئی فکر مت کرو
فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ؎ ہم عنقریب عاشقوں کی ایک قوم پیدا کریں گے جن سے ہم محبت کریں گے اور جو ہم سے محبت کرے گی۔ اور قوم نازل فرمایا اقوام نازل نہیں فرمایا، جس سے معلوم ہوا کہ ساری کائنات میں جتنے لوگ اللہ سے محبت کرنے والے ہیں وہ سب ایک قوم ہیں، چاہے وہ ملاوی کا ہو یا پاکستان کا ہو، امریکہ کا ہو یا افریقہ کا ہو، کالا ہو یا گورا ہو ،سارے عالم کے اللہ کے عاشق اور اللہ سے محبت کرنے والے سب ایک قوم ہیں، اگر اللہ کے عاشقوں میں بہت قومیں ہوتیں اور کالے گوروں کا فرق ہوتا تو اللہ لفظ قوم نازل نہ فرماتا، اقوام نازل کرتا کہ ہم اپنے عاشقوں کی اقوام نازل کریں گے لیکن
فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ فرمایا کہ پوری دنیا میں جتنے میرے عاشق ہوں گے وہ سب کے سب ایک قوم ہیں، عاشقوں کی قوم الگ تھلگ نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ کے عاشق سب ایک قوم ہیں البتہ محبت کے لیے ان کی زبانوں میں اور رنگ میں اختلاف ہے۔ یہ دلیل اختلافِ قومیت کی نہیں ہے،یہ اختلافِ تعبیرات ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مختلف زبانوں میں ہمارا نام لیا جائے اور مختلف رنگ کے لوگ ہمیں یاد کریں، یہ ہمارا انتظام ہے، اختلاف السنۃ اور اختلاف الوان یعنی زبان ورنگ کے اختلاف میں ہم نے اپنی نشانی اور اپنی قدرت کا تماشہ دکھایا ہے کہ کوئی بنگالی بول رہا ہے کوئی انگریزی بول رہا ہے اور کوئی گجراتی بول رہا ہے:
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَاَلۡوَانِکُمۡ
تمہارے رنگ اور کلر اور تمہاری زبانیں جو الگ الگ ہیں یہ میری نشانیاں ہیں لہٰذا اس سے یہ مت سمجھنا کہ ہمارے عاشقوں کی کئی قومیں ہیں، رنگ اورزبان کے اختلاف سے قوم کا مختلف ہونا لازم نہیں آتا ۔ جو ہم سے محبت کرتا ہے چاہے وہ کسی رنگ اور کسی زبان کا ہو ایک قوم ہے، ساری دنیا بھر کے عاشق ایک قوم ہیں لہٰذا آپ کو ملاوی مل جائے، افریقی مل جائے، ایشیا کامل جائے،انڈین مل جائے گجراتی مل جائے لیکن وہ اللہ و رسول سے پیارکرتا ہوتو اس سے معانقہ کرو،محبت کرو کہ واہ رے میرے پیارے ہم تم ایک برادری ہیں، یہاں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں، سارے عالم کے عاشق خدا ایک قوم ہیں، دلیل میں قرآن پاک کی آیت پیش کررہا ہوں ملاوی کے علماء یہاں موجود ہیں جنوبی افریقہ کے علماء موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں
فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ میں ایک قوم پیدا کروں گا، جس کی کیا شان ہوگی؟
یُّحِبُّہُمۡ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کریں گے اور
وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے ، تو اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کی قوم کی پہلی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرمائیں گے اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے اور
بِقَوۡمٍ میں جو با داخل ہے یہ: اتی- یأتی: جو لازم تھا اس کومتعدی کررہا ہے ، کیا مطلب ہوا؟ کہ ہمارے دیوانے خود سے نہیں بنتے ، دیوانے بنائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ با یہ معنی پیدا کررہا ہے کہ ہم لائیں گے اپنے عاشقوں کی ایک جماعت اور قوم جس کو ہم اپنا دیوانہ بنائیں گے۔
؎محبت دونوں عالم میں یہی جاکر پکار آئی
جسے خود یار نے چاہا اسی کو یاد یار آئی
اللہ جس کی قسمت میں اپنا عشق اور اپنی محبت رکھتا ہے وہی اللہ کا دیوانہ ہوتا ہے ، جس کو اللہ پیار کرتا ہے وہی اللہ کو پیار کرتا ہے، یہ بہت خوش نصیب لوگ ہیں،یہ بڑی قسمت والے ہیں بادشاہوں کو یہ قسمت نصیب نہیں ہے، اگر اللہ کو بھولے ہوئے ہیں تو بادشاہ زندگی بھر اپنی بادشاہت میں پریشان ہیں۔ تاج شاہی سر پر ہے اور سر میں درد ہے ۔
؎شاہوں کےسروں میں تاج گراں سے درد سا اکثر رہتا ہے
اور اہل صفا کے سینوں میں اک نور کا دریا بہتا ہے
اللہ والوں کے سینوں میں نور کا دریا بہہ رہا ہے اور شاہوں کے سروں میں اپوزیشن کے ڈنڈے سے درد سر ہورہا ہے۔ تاج شاہی سر پر اور خود سلطنت کی کرسی پر اور کرسی کے نیچے سے اپوزیشن کے ڈنڈے کا فکر ہر وقت پریشانی میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
( ماخوذ از : اللہ کے باوفا بندے)