سعودیہ کیا کرتا ہے اور ایران کیا کرنا چاہتا ہے
، آپ نے ایک ایسی سوچ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ سوچا اس پر بھی کچھ لکھا جائے۔
کیا ہے کہ بندر کتنا بھی بوڑھا ہوجائے قلابازی لگانا نہیں بھولتا۔ یہی حال ایرانیوں اور عربوں کا ہے
ایران اور عرب ، دونوں وہ بندر ہیں جو صدیوں سے اس علاقے میں گبر سنگھ ( ریجنل ہیگ مونی ) بننے میں مصروف ہیں ۔
ایران سابقہ بابلونیا ، دوسروں پر حکومت کرنے کی خواہش کے مرض میں اتنا ہی مبتلا ہے جنتا سعودی عرب۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں ممالک میں "رزق" زمین سے بہت کم اگتا ہے۔ اس لئے ان کی نظر اطراف کے علاقے کی طرف رہتی ہے۔ اس کے لئے یہ موجودہ معلوم تاریخ کے ہر دور سے دوسروں پر تلواروں سے حملہ کرکے ان کا کھانا، فصلیں ، مویشی ، عورتیں اور دیگر نوادرات چوری اور ڈاکوں سے حاصل کرتے رہے ہیں۔
سچ بات یہ ہے کہ حکومت کرنے کے نت نئے طریقے ایران اور عربوں نے ہی دریافت کئے۔ بیٹحےبٹھائے دوسروں کی دولت ہتھیانے کے جذیہ ، فدیہ جیسے ودھیا طریقے ان لوگوں نے ہی ایجاد کئے۔
ان کی نسبت پاکستانی، ہندی اور بنگالی ان علاقوں میں بستے رہے جہاں پانی کی بہتات تھی ۔ فصلیں بے تحاشا، اور زمینیں زرخیز، کیا وجہ ہے کہ ایرانی اور عربی، پنجاب کے دو آبوں میں ہل لے کر نہیں آئے - اس لئے کہ یہ قومیں محنت کشی پر یقین نہیں رکھتی ہیں بلکہ فطانت سے دوسری قوموں کی دولت پر قبضہ کرنے پر یقین رکھتی رہی ہیں، ، یہ صرف تلواریں لے کر ڈاکے مارنے آئے؟ کیا وجہ ہے کہ پنجاب نے کبھی ایران پر تلوار لے کر حملہ نہیں کیا۔ اس لئے کہ پنجاب کی فصلوں کو چھوڑ کر ایران کے اور سعودی عرب کے بنجر علاقوں میں جانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔
پنجاب، ہند، سندھ ، بنگال کے فطری طور پر رزق سے بھرپور علاقوں کے لوگ ، اسی وجہ سے اس فطانت میں مبتلا نہیں ہوئے جو دوسروں کا مال غصب کرنے والی حکومت قائم کرنے کے لئے چاہئے ہوتی ہے۔ بلکہ یہ تو آج بھی اتنے معصوم ہیں کہ اپنے اوپر ڈاکے مارنے والے ایرانی، افغانی، عرب ان کے اپنے ہیرو ہیں ۔ کیوں ؟؟ جہلم کے پاس کس ایرانی حکمران نے پنجاب میں قتل عام کیا ان کو نہیں یاد۔ لاہور پر افغانستان سے کتنے حملے ہوئے نہیں یاد۔ آج بھی پاکستانی ان افغانی، ایرانی اور عرب قاتلوں کو اپنے ہیرو قرار دیتے ہیں جنہوں نے ان کے مرد مارے اور عورتوں اور مویشیوں کو ہتھیا لیا۔
پھر مزا یہ ہے کہ سعودی عرب اور امارات اپنا نظام پاکسان میں قائم کرنے کے لئے دو سو ملین کا بجٹ بنا کر پاکستان میں جمہوریت تباہ کرنے کی اپنی کوشش اور ایرانی اپنا نظام پاکستان میں قائم کرنے کی اپنی کوشش میں لگے رہے ہیں۔ اب جا کر سعودیوں کو کچھ سمجھ آئی ہے کہ وہ اپنا وقت برباد کررہے ہیں۔
اگر کہیں پاکستانیوں کو سعودی عرب، امارات اور ایران میں جمہوریت قائم کرنے کا خیال آگیا تو پھر کیا ہوگا؟؟؟ یہ شاہی نظام اور یہ فرسودہ ایرانی نظام جو صرف اپنے اپنوں کو ہی آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے کدھر جائے گا؟
میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی بھی کچھ حکومت کرنا سیکھ لیں اور جو تیل خومخواہ دنیا بھر میں ایران اور عرب سے بہہ رہا ہے ۔ اس کے کرتے دھرتوں کا علاج جمہوریت سے کردیں ۔۔ کہ اگر گوادر ایک اچھی بندرگاہ ہے تو بندر عباس تو پہلے ہی سے بنا بنایا ہے ۔۔۔ دبئی ایک اچھا انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہے۔ ان خاندانوں سے زیادہ تو پاکستانی کمپنیوں کے شئر ہولڈر ہوتے ہیں ۔ میرا مشورہ تو یہ ہے کہ ایران ، سعودی عرب، اور امارات میں پاکستان جمہوریت نافذ کرکے، ان ممالک سے ہونے والی ازلی حملوں کا تدارک کرے اور ان خاندانوں کی ناک میں نکیل ڈال کر ان خاندانوں کو ان کے ممالک میں منیجری کا موقع دے ÷÷ ایران ، سعودی عرب اور امارات میں جمہوریت کا قیام ایک اہم اسلامی برادرانہ کاروائی ہوگی۔