بچوں کی تعلیم کے لحاظ سے ان لوگوں کی خدمات پر انہیں بین الاقوامی ایوارڈ سے اس لیے نہیں نوازا گیا کیوں کہ یہ بین الاقوامی طاقتوں کے ایجنٹ نہ بن سکے!!!
تھرپارکر میں بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ موروں سے محبت کرنے والا استاد
ساجد بجیر منگل 12 فروری 2019
موروں کی خدمت سے خوشی ملتی ہے لیکن روزانہ 5 کلوگندم کا بندوبست مشکل ہے، پرائمری ٹیچر ۔ فوٹو: ایکسپریس
تھرپارکر میں چھ سال سے قحط ہے کیوں کہ بارشیں نہ ہونے سے انسانوں کے ساتھ مویشی اور پرندے بھی بھوک اور پیاس کا شکار ہیں اور موت کے منہ میں جارہے ہیں جب کہ قحط کے باعث بچوں کی ساتھ تھر کا حسین پرندہ مور بھی بیماری اور بھوک پیاس سے مررہا ہے۔
تھرپارکر میں نادرا کے پاس رجسٹرڈ ہر خاندان کو 50 کلو گندم ملتی ہے۔ محنت کش اس گندم سے بچوں کا اور اپنا پیٹ بھرتے ہیں وہیں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے ساتھ پرندوں کا بھی احساس رکھتے ہیں اور ان کو بھی دانہ پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
مٹھی کے سوٹھر محلہ کا رہائشی پرائمری ٹیچر سونجی سوٹھر بھی ایسا ہی کردار ہے جو موروں کی خدمت کو عبادت سمجھتا ہے۔ 40 سالہ سونجی مٹھی سے 30 کلومیٹر دور گاؤں بٹری بھوپا میں استاد ہے۔ اس کی محنت سے اسکول میں زیرتعلیم طلبا کی تعداد 5 سے بڑھ کر 50 ہوگئی ہے۔ ایک روز سونجی کے اسکول میں خوراک کی تلاش میں ایک مور آنکلا، مہربان استاد نے بھوکے پیاسے مور کو دانہ پانی ڈالا، آہستہ آہستہ اسکول میں آنے والے موروں کی تعداد بگڑھتی چلی گئی۔ اب ان کی تعداد 50 ہوچکی ہے۔
سونجی سوٹھر اب ان تمام موروں کے لیے مفت ملنے والی امدادی گندم کے علاوہ بھی گندم خرید کر اسکول کی الماری میں رکھتا ہے، مور اس کے اتنے دوست بن گئے کہ صبح سویرے سے ہی استاد کا انتظار کرتے ہیں جیسے ہی وہ اسکول کے قریب ٹیلے سے اترنے لگتا ہے تو موروں کا ہجوم امڈ آتا ہے جن کی ہمراہی میں وہ اسکول پہنچتا ہے اور موروں کو دانہ ڈالتا ہے۔ شکم سیری کے بعد مور جھنگل طرف چلے جاتے ہیں۔
موروں سے محبت کرنے والے استاد سونجی سوٹھر نے بتایاکہ 6 ماہ سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ امدادی گندم کے علاوہ جیب سے خرید کر بھی موروں کو کھلاتا ہوں۔ انھیں روزانہ 5 کلوگندم درکار ہوتی ہے، مگر روزانہ اتنی گندم خریدنا میری استطاعت سے باہر ہے۔ پھر بھی مور خوش ہوکر جاتے ہیں۔ سونجی کا کہنا ہے کہ موروں کی خدمت سے خوشی ملتی ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق تھرپارکر کے 14 سو دیہات میں ایک لاکھ کے قریب مور موجود ہیں۔ قحط کی وجہ سے ان میں رانی کھیت کی بیماری پھیلتی رہتی ہے جس کی وجہ سے ہر سال 16 سو سے 2 ہزار تک مور مر جاتے ہیں۔
علاقہ مکین امتیاز علی بتاتے ہیں کہ تھر میں لوگ موروں سے بچوں کی طرح پیار کرتے ہیں۔ موروں کو اپنے پہنچ تک دانے، پانی بھی دیتے ہیں اور ان کو شکاریوں سے بھی بچاتے ہیں۔