سلمان حمید
محفلین
یہ تحریر خود بخود لکھی گئی ہے اور اس کو لکھ چکنے کے بعد میں اس کا تعلق اپنی کچھ عرصہ پہلے لکھی گئی تحریر "قیدی" سے زبردستی جوڑ رہا ہوں۔ اسے آپ "قیدی" کا دوسرا حصہ کہہ لیجئے۔ جہاں تک خوشی سے پڑھی جائے تو پڑھ لیجئے گا۔ باقی برا سا منہ بنا کر پڑھ لیجئے گا۔
"قیدخانہ"
"مجھے لکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔" میں نے ایک عرصے سے میز پر دھرا اور گرد و غبار میں اٹ کر وزنی ہو جانے والا قلم پوری قوت لگا کر اٹھایا اور سفید کاغذ پر یہ فقرہ لکھ کر ایک گہری مگر سکون کی سانس لے کر کرسی سے ٹیک لگا لی جیسے اندر کا سارا غبار نکل گیا ہو۔ قلم انگلیوں سے نکل کر کاغذ پر گرا اور پھرایک جانب لڑھکتا ہوا میز سے نیچے گر گیا۔ قلم کے نیچے زمین پر بچھے گہرے رنگ کے دبیز قالین پر گرنے کی آواز سے تو نہیں لیکن سینے میں کسی کے کھلکھلا کر طنزیہ ہنسنے پر میں چونک گیا۔ بے اختیار ادھر اُدھر دیکھا اور کسی کو نہ پا کر دانت بھینچ لیے۔ یہ کمبخت دل ایسے موقعوں پر طنز کے تیر چلانے سے باز نہیں آتا۔
"کیا تکلیف ہے؟" میرا سوال جتنا تلخ تھا، لہجہ بھی اس سے کہیں زیادہ زہر میں بجھا ہوا تھا۔
"قلم کو واپس اس کی جگہ پر رکھ دو، جتنا لکھ لیا ہے، آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔" دل کا تمسخرانہ لہجہ میرے تن بدن کو آگ لگانے کے لیے کافی تھا۔
"میں نے ابھی لکھنا ختم نہیں کیا۔ " میں نے انتہائی ضبط کر کے خلاف توقع نرم لہجے میں جواب دیا۔ شاید اب تک دل سے کیے گئے تمام مکالمات میں اپنی شکست فاش یاد آگئی تھی تو اس بار پہلے ہی اپنی ہار تسلیم کرلی تھی۔
"اچھا؟ شاید مجھے ہی غلط فہمی ہو گئی تھی۔ چلو قلم اٹھاؤ اور لکھنا شروع کرو جو لکھنے والے تھے۔" دل میرے شکست خوردہ لہجے کو پہچان کر اپنا حوصلہ شکن رویہ بدل کر ہمت بندھانے لگا۔
"کیا لکھوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیسے لکھوں؟ میں نےتو ابھی کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔ اور یہ کمبخت بیچ میں ٹپک گیا" میں گھٹنوں کے بل جھک کر نیچے گرے قلم کو انتہائی بے چینی سے ڈھونڈتے ہوئے بڑبڑایا ہی تھا کہ دل نے دھیمے سے سرگوشی کی۔
"پہلے قلم ڈھونڈ لو پھر مل کر سوچ لیتے ہیں"۔
اور پھر ہم گھنٹوں سوچتے رہے۔
کچھ ایسا لکھا جائے جس سے پڑھنے والے داد دیے بغیر رہ ہی نہ پائیں۔ "میری اس بات پر دل بے اختیار مسکرا دیا۔ شاید میری معصومیت پر پیار آگیا تھا اسے۔
"کم سے کم ایسا تو ہو کہ ہر پڑھنے والا ایک لمحے کے لیے ٹھٹھک ضرور جائے کہ اس تحریر میں کچھ تو ایسا ہے جو بالکل الگ اور اچھوتا ہے۔" دل نے اس بار بھی صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
"کیا میں ایک غزل لکھ دوں؟ میں پچھلے وقتوں میں ایک عدد شاعر بھی رہا ہوں، ایک غزل تو لکھ ہی سکتا ہوں۔" میں نے فرضی کالر جھاڑے تو دل نے متاثر ہوئے بغیر جواب دیا۔
"ہاں، لکھو۔"
پھر ہم دونوں دوبارہ کسی گہری سوچ میں غرق ہو گئے۔ اب کی بار ہم (یا شاید میں اکیلا) شاعری کے سمندر میں غوطہ زن تھے۔ اور پھر میں اس سمندر کی تہہ سے تو نہیں لیکن بس اندر ہی کہیں سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکال لایا اور تیزی سے قلم چلانے لگا۔
دل سینے سے نکل کر باہر جھانکنے اور کاغذ پر لکھے جانے والے الفاظ پڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔
اس بار وہ گیا تو دسترس میں نہ رہا
پھر یوں ہوا کہ دل بھی مضطرب نہیں ہوا
کہنے کو بہت دیر گفتگو رہی مگر
جب اٹھ کے چل دیا تو مجھے جانتا نہ تھا
"وزن میں نہیں لگ رہے اشعار۔ اور ویسے بھی بہت بچگانہ سے ہیں"۔ میں نے دل کے ٹوکنے سے پہلے ہی اپنی غلطی مان لی۔ اپنی کمزوری مان جانے کا ہنر میں نے بہت مشکل سے سیکھا تھا۔
"تم غزل مکمل کرو، پھر ہم کانٹ چھانٹ کر لیں گے"۔ دل آج خلاف معمول پوری طرح ساتھ دینے پر رضامند تھا۔
اور پھر ہم دونوں گھنٹوں سوچتے رہے۔ اندر کسی قسم کا شور برپا نہیں تھا۔ وہ جگہ جہاں کبھی خیالات قید ہوا کرتے تھے اور سر پٹخ پٹخ کر باہر نکلنے کی کوشش کیا کرتے تھے، وہاں مکمل خاموشی تھی۔
"نہیں۔ مزید اشعار نہیں بن رہے اور مجھے احساس ہو رہا ہے کہ یہ اشعار بھی محفوظ کیے جانے کے قابل نہیں ہیں۔" بار بار انہی دو اشعار کو پڑھنے کے بعد میں نے مصمم فیصلہ کر لیا تھا اور ان پر لکیر پھیر کر ان کو ایک لمحے میں پرایا کر دیا۔ "اور میں کوئی تحریر بھی نہیں لکھ سکتا۔" یہ میرا اگلا فیصلہ تھا۔
میں نے صفحے کو تروڑ مروڑ کر نیچے پھینکا، قلم کو اپنی جگہ پر واپس رکھا اور اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا۔ غنودگی کے ساتھ ساتھ رائیگانی کا بھی احساس تھا لیکن سو جانے سے پہلے ادھ کھلی آنکھوں سے میں صرف اتنا دیکھ پایا کہ دل کمبخت اس چڑ مڑ کاغذ کو سیدھا کر کے میز پر سجا رہا تھا۔ اس نے مڑ کر میری آنکھوں میں دیکھا تو اس کو زیر لب مسکراتے ہوئے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ اس کمبخت نے ابھی تک ہار نہیں مانی تھی۔ اور پھر میرے اندر ایک سکون سا اترنے لگا۔ اگلے ہی لمحے میں نیند کی گہری وادیوں میں پہنچ چکا تھا۔
نوٹ۔ میں ہر قسم کی تنقید اور ٹماٹروں کے لیے بالکل تیار ہوں لیکن خدارا ایک ایک کر کیے آئیے گا۔ مظلوم کی آہ لگی تو آپ سب بھی لکھنا بھول جاؤ گے۔
"قیدخانہ"
"مجھے لکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔" میں نے ایک عرصے سے میز پر دھرا اور گرد و غبار میں اٹ کر وزنی ہو جانے والا قلم پوری قوت لگا کر اٹھایا اور سفید کاغذ پر یہ فقرہ لکھ کر ایک گہری مگر سکون کی سانس لے کر کرسی سے ٹیک لگا لی جیسے اندر کا سارا غبار نکل گیا ہو۔ قلم انگلیوں سے نکل کر کاغذ پر گرا اور پھرایک جانب لڑھکتا ہوا میز سے نیچے گر گیا۔ قلم کے نیچے زمین پر بچھے گہرے رنگ کے دبیز قالین پر گرنے کی آواز سے تو نہیں لیکن سینے میں کسی کے کھلکھلا کر طنزیہ ہنسنے پر میں چونک گیا۔ بے اختیار ادھر اُدھر دیکھا اور کسی کو نہ پا کر دانت بھینچ لیے۔ یہ کمبخت دل ایسے موقعوں پر طنز کے تیر چلانے سے باز نہیں آتا۔
"کیا تکلیف ہے؟" میرا سوال جتنا تلخ تھا، لہجہ بھی اس سے کہیں زیادہ زہر میں بجھا ہوا تھا۔
"قلم کو واپس اس کی جگہ پر رکھ دو، جتنا لکھ لیا ہے، آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔" دل کا تمسخرانہ لہجہ میرے تن بدن کو آگ لگانے کے لیے کافی تھا۔
"میں نے ابھی لکھنا ختم نہیں کیا۔ " میں نے انتہائی ضبط کر کے خلاف توقع نرم لہجے میں جواب دیا۔ شاید اب تک دل سے کیے گئے تمام مکالمات میں اپنی شکست فاش یاد آگئی تھی تو اس بار پہلے ہی اپنی ہار تسلیم کرلی تھی۔
"اچھا؟ شاید مجھے ہی غلط فہمی ہو گئی تھی۔ چلو قلم اٹھاؤ اور لکھنا شروع کرو جو لکھنے والے تھے۔" دل میرے شکست خوردہ لہجے کو پہچان کر اپنا حوصلہ شکن رویہ بدل کر ہمت بندھانے لگا۔
"کیا لکھوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیسے لکھوں؟ میں نےتو ابھی کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔ اور یہ کمبخت بیچ میں ٹپک گیا" میں گھٹنوں کے بل جھک کر نیچے گرے قلم کو انتہائی بے چینی سے ڈھونڈتے ہوئے بڑبڑایا ہی تھا کہ دل نے دھیمے سے سرگوشی کی۔
"پہلے قلم ڈھونڈ لو پھر مل کر سوچ لیتے ہیں"۔
اور پھر ہم گھنٹوں سوچتے رہے۔
کچھ ایسا لکھا جائے جس سے پڑھنے والے داد دیے بغیر رہ ہی نہ پائیں۔ "میری اس بات پر دل بے اختیار مسکرا دیا۔ شاید میری معصومیت پر پیار آگیا تھا اسے۔
"کم سے کم ایسا تو ہو کہ ہر پڑھنے والا ایک لمحے کے لیے ٹھٹھک ضرور جائے کہ اس تحریر میں کچھ تو ایسا ہے جو بالکل الگ اور اچھوتا ہے۔" دل نے اس بار بھی صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
"کیا میں ایک غزل لکھ دوں؟ میں پچھلے وقتوں میں ایک عدد شاعر بھی رہا ہوں، ایک غزل تو لکھ ہی سکتا ہوں۔" میں نے فرضی کالر جھاڑے تو دل نے متاثر ہوئے بغیر جواب دیا۔
"ہاں، لکھو۔"
پھر ہم دونوں دوبارہ کسی گہری سوچ میں غرق ہو گئے۔ اب کی بار ہم (یا شاید میں اکیلا) شاعری کے سمندر میں غوطہ زن تھے۔ اور پھر میں اس سمندر کی تہہ سے تو نہیں لیکن بس اندر ہی کہیں سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکال لایا اور تیزی سے قلم چلانے لگا۔
دل سینے سے نکل کر باہر جھانکنے اور کاغذ پر لکھے جانے والے الفاظ پڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔
اس بار وہ گیا تو دسترس میں نہ رہا
پھر یوں ہوا کہ دل بھی مضطرب نہیں ہوا
کہنے کو بہت دیر گفتگو رہی مگر
جب اٹھ کے چل دیا تو مجھے جانتا نہ تھا
"وزن میں نہیں لگ رہے اشعار۔ اور ویسے بھی بہت بچگانہ سے ہیں"۔ میں نے دل کے ٹوکنے سے پہلے ہی اپنی غلطی مان لی۔ اپنی کمزوری مان جانے کا ہنر میں نے بہت مشکل سے سیکھا تھا۔
"تم غزل مکمل کرو، پھر ہم کانٹ چھانٹ کر لیں گے"۔ دل آج خلاف معمول پوری طرح ساتھ دینے پر رضامند تھا۔
اور پھر ہم دونوں گھنٹوں سوچتے رہے۔ اندر کسی قسم کا شور برپا نہیں تھا۔ وہ جگہ جہاں کبھی خیالات قید ہوا کرتے تھے اور سر پٹخ پٹخ کر باہر نکلنے کی کوشش کیا کرتے تھے، وہاں مکمل خاموشی تھی۔
"نہیں۔ مزید اشعار نہیں بن رہے اور مجھے احساس ہو رہا ہے کہ یہ اشعار بھی محفوظ کیے جانے کے قابل نہیں ہیں۔" بار بار انہی دو اشعار کو پڑھنے کے بعد میں نے مصمم فیصلہ کر لیا تھا اور ان پر لکیر پھیر کر ان کو ایک لمحے میں پرایا کر دیا۔ "اور میں کوئی تحریر بھی نہیں لکھ سکتا۔" یہ میرا اگلا فیصلہ تھا۔
میں نے صفحے کو تروڑ مروڑ کر نیچے پھینکا، قلم کو اپنی جگہ پر واپس رکھا اور اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا۔ غنودگی کے ساتھ ساتھ رائیگانی کا بھی احساس تھا لیکن سو جانے سے پہلے ادھ کھلی آنکھوں سے میں صرف اتنا دیکھ پایا کہ دل کمبخت اس چڑ مڑ کاغذ کو سیدھا کر کے میز پر سجا رہا تھا۔ اس نے مڑ کر میری آنکھوں میں دیکھا تو اس کو زیر لب مسکراتے ہوئے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ اس کمبخت نے ابھی تک ہار نہیں مانی تھی۔ اور پھر میرے اندر ایک سکون سا اترنے لگا۔ اگلے ہی لمحے میں نیند کی گہری وادیوں میں پہنچ چکا تھا۔
نوٹ۔ میں ہر قسم کی تنقید اور ٹماٹروں کے لیے بالکل تیار ہوں لیکن خدارا ایک ایک کر کیے آئیے گا۔ مظلوم کی آہ لگی تو آپ سب بھی لکھنا بھول جاؤ گے۔