نویں سالگرہ لائبریری ایکٹیوٹی کہانی برائے گوشہ اطفال ۔ ۔ ۔ خط کی چوری

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
mavvhu.jpg


9u44ut.jpg


1oksbn.jpg


2h7mn0n.jpg


33o1hyx.jpg


2uop7gl.jpg


2wrg3nn.jpg


j802zb.jpg
 
پت جھڑ کا موسم تھا۔ زور کی ہوا چل رہی تھی ۔ مین اپنے دوست جلال کے ساتھ اس کی چھوٹی سی لائبریری مین بیٹھا اپنے خیالات مین گم تھا۔ سامنے چائے کی پیالی رکھی تھی۔ اور تھوڑی تھوڑی دیر میں اس کا ایک گھونٹ لے کر اچھی چائے کا لطف اتھا رہا تھا۔ ہم دونون آدھے گھنٹے سے اسی طرح خاموش بیٹھے تھے اور یہ کوئی خاص بات نہیں تھی۔ دو بہت گہرے دوست خاموش بیٹھے بھی ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ میں اپنے کچھ ذاتی معاملات پر غور کر رہا تھا۔ مجھے اپنے مکان کے آس پاس جو نئی عمارتیں بن رہی تھین پسند نہیں تھین۔ اور مین سوچ رہا تھا کہ اگر کسی اور جگہ کوئی ڈھنگ کا مکان مل جائے تو خرید لیا جائے۔ جلال شاید کسی واردات پر غور کر رہا ہو گا۔ وہ ایک مشہعر سراگ رسان تھا اور اپنے کام مین بہت ماہر تھااوع بڑی بری مشکل گتھیان اس نے سلجھائی تھین۔
 
ہم دونون اپنی اپنی سوچ میں گم تھے کہ اچانک دروازہ کھلا اور چیف انسپکٹر سراج اندر داخل ہوئے۔ ہم دونوں نے بڑی گرم جوشی سے اٹھ کر ان کا استقبال کیا۔ وہ جلال کے پرانے دوست تھے اور میرے بھی۔ جلال کی دوستی تو کیر اس وجہ سے تھی کہ دونوں کا کام ایک ہی نوعیت کا تھا اور اکثر انہیں ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہوتی تھی مگر میری دوستی اس لیے تھی کہ ہم دونوں کالج کے دنون میں ایک ہی ہوسٹل میں رہتے تھے۔ پھر ہماری دوستی ختم ہو گئی اور ہمارے راستے بھی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ کئی سال باہر رہنے کے بعد جب میں اپنے وچن واپس آیا تو سراج کو شہر کی پولیس کا سربراہ پایا۔ سراج اور مین تو خیر بچپن ہی سے دوستھتےھ۔ میں اس کے ساتھ ہی رہتا تھا۔
 
اب شام ہو گئی تھی اور کمرے میں اندھیرا سا ہو رہا تھا۔ ھم اپنی اپنی سوچ مین ایسے گم تہے کہ روشنی کرنا ہی بھولگئے۔ سراج نے آتے ہی پہلے تو لیمپ روشن کیا اور پھر جلال کے قریب کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا:

"مین تم سے ایک سرکاری کام کے سلسلسے مین مشورہ کرنے آیا ہوںبلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ تمھاریرائے لینے آیا ہوں۔ یہ مسئلہ کچھ ایسا ہے کہ میری سمجھ مین نہیں آ رہا۔"
"اگر مسئلہ ایسا ہئ کہ تمہاری سمجھ مین نہین آ رہا تو پھرکمرے مین اندھیرا ہی رہنےدیتے۔"
جلال نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"یہ تمہاری عجیب عادت ہے تمہین بات اندھیرے ہی مین سوجھائی دیتی ہے۔"
"ہان تم ٹھیک کہہ رہے ہو خیر بتائو کیا معاملہ ہے۔ کیا کوئی قتلوتل ہو گیا؟" جلال نے پوچھا۔
"نہین، ایسی کوئی بات نہیں، معاملہ سیدھا سادہ ہے۔ مگر مین نے سوچا تم سے مشورہ کرلون۔ کچھ عجیب سی بات ہے۔"
"سراج تم بھی خوب آدمی ہو۔ کہتے ہو کہ معاملہ سیدھا سادہ ہےاور پھر عجیب سا بھی ہے۔" جلال بولا۔
 
"ہان بھئی۔ معاملہ تو سیدھا سادہ ہے لیکن بات سمجھ مین آ نہین رہی ہے۔ اور یہی ساری الجھن ہے۔ ایک سادہ سی بات ہے اور اتنی پریشان کر رہی ہے۔"
"بس مین سمجھ گیا تمہاھری سمجھ مین بات اس لئے نہین آ رہی ہےکہ معاملہ بہت سیدھا سادہ ہے۔" کلال بولا

"بھئی مین تم سے مشورہ کرنے آیا ہوں اور تم مذاق کے موڈ مین ہو۔ " انسپکٹر سراج نے مصنوعی خفگی سے کہا۔
"اچھا ناراج نہ ہو، بتاو کیا معاملہ ہے؟" جلال نے مفاہمت کے انداز مین کہا۔
 
صفحہ 34
خیر تو یہ ہے کہ وہ خط ابھی تک وزیر صاحب کے قبضے میں ہے اور اس خط کو وہ دباؤ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اگر وہ خط کو ظاہر کر دیں تو پھر بہ حربہ اْن کے ہاتھ سے نِکل جائے گا"۔ میں نے کہا۔
"بلکل یہی بات ہے، اور میں نے اسی یقین کے ساتھ کاروائی کی ہے۔ سب سے پہلے میں نے وزیر کے گھر کی تلاشی لی ہے۔ اس کام میں دشواری یہ تھی کہ گھر کی تلاشی اس طرح لینی تھی کہ وزیر صاحب کو پتا نہ چلے۔ پھر مجھے یہ بھی خبردار کر دیا گیا تھا کہ اگر وزیر کو پتہ چل گیا لہ میں خط کی تلاش میں ہوں تو نتیجہ خطرناک ہو گا۔"
"لیکن تم تو اس قسم کی کاروائیاں پہلے بھی کر چکے ہو۔ تمھارا محکمہ تو ان کاموں میں بہت ہوشیار ہے۔" جلال نے طنزیہ انداز میں کہا۔
"ہاں،" سراج نے کہا۔ "میں نے بڑی ہوشیاری سے یہ کام کیا وزیر صاحب کی عادتیں ایسی ہیں کہ مجھے ان سے بھی مدد ملی۔ وہ اکثر رات رات بھر گھر سے باہر رہتے ہیں۔ ان کے نوکروں کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے۔ وہ وزیر کے کمرے سے دْور سوتے ہیں اور وہ نشے کے بھی شوقین ہیں۔ تم کو معلوم ہے میرے پاس ایسی چابیاں ہیں کہ میں شہر کے کسی بھی کمرے یا الماری کو کھول سکتا ہوں۔ پچھلے تیں مہینوں میں کوئی رات بھی ایسی نہیں گزری جس کا زیادہ تر حصّہ میں نے وزیرِ جنگ کے گھر کی تلاشی لینے میں نہ گزارہ ہو۔میں نے کونا کونا چھان مارا ہے۔ یہ نہ صرف میری عزّت کا معاملہ ہے بلکہ میں تمہیں یہ راز بھی بتا دوں کہ اس خط کو وزیر کے پاس سے اْڑا دینے پر مجھے بڑا انعام ملے گا۔ میں نے اس وقت تک اپنی تلاش جاری رکھی جب تک مجھے یقین نہ ہو گیا کہ چور مجھ سے زیادہ ہوشیار ہے۔"
"اچھا کیا یہ ممکن نہیں کہ وزیر صاحب نے وہ خط امنے گھر میں نہ رکھا ہو، کہیں اور چھپا دیا ہو۔" میں نے سوال کیا۔
"یہ مشکل ہے کیوں کہ آج کل دربار شاہی کے جو حالات ہیں اور وزیر صاحب جس قسم کی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اْس کو دیکھتے ہوےئ یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اتنے اہم خط کو کہیں اور رکھیں گے۔ یہ خط تو ان لے پاس ہی ہونا چاہیئے تاکہ فوراً پیش کیا جا سکے۔" انسپکٹر سراج نے جواب دیا۔
 
صفحہ 35
ٹھیک ہے۔ پھر تو یہ خط یقیناً اْسی عمارت میں ہو گا۔ وہ اسے اپنے پاس تو رکھتے نہیں ہوں گے؟" میں نے کہا۔
"نہیں۔ میں نے ان کی تلاشی بھی لے کر دیکھ لی ہے۔ میرے آدمی دو مرتبہ اْن پر جھپٹ چکے ہیں۔ وہ خط نہیں ملا۔" انسپکٹر سراج نے کہا۔
"تم کو اتنی زحمت کی ضرورت نہ تھی۔ وہ اتنا احمق نہیں ہے کہ وہ یہ نہ جانتا ہو کہ خط حاصل کرنے کے لئے یہ حرکت کو جائے گی۔" جلال نے کہا۔
"نہیں احمق تو نہیں ہے مگر طبیعت اْس کی شاعرانہ ہے۔"
خیر تم مجھے اپنی تلاشی کی تفصیل تو بتاؤ"۔"
"سنو۔ میں نے ساری رات عمارت کے ایک ایک کمرے کو تلاشی کی۔ پہلے ہم نے ہر کمرے کا فرنیچر دیکھا۔ اس کے بعد ایک ایک دراز کھولی اور یہ تو تم جانتےہی ہو کہ پولیس کے آدمی سے کوئی خفیہ دراز چھپی نہیں رہ سکتی۔ ہم نے یہ کام بڑی احتیاط اور ہوشیاری سے کیا۔ الماریوں اور صندوقوں کے بعد ہم نے کرسیوں کو لیا۔ گدوں اور تکیوں کو پتلی اور لمبی سْوئیوں سے گود کر دیکھا میزوں کے اوپر کے تختے اْتار کر دیکھ ڈالے۔"
"یہ کیوں؟"
"بعض دفعہ لوگ چیز کو چھپانے کے لئے میز کا اوپر کا تختہ الگ کر دیتے ہیں اور پھر پائے کو کھوکھلا کر کے اس کے اندر وہ چیز رکھ دیتے ہیں اور اوپر سے تختہ جڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح مسہری کے سرہانے اور پائے استعمال کیے جاتے ہیں۔"
"کیا ٹھونک بجا کر معلوم نہیں کیا جا سکتا اندر خلا ہے یا نہیں۔"
"ہاں، لیکن کبھی موٹی روئی وغیرہ رکھ دی جاتی ہے۔ پھر ہم اپنا کام خاموشی سے کرنا چاہتے تھے۔"
"لیکن تم ہر فرنیچر کو تو اس طرح نہیں دیکھ سکتے تھے۔ کیا تم نے کرسیوں کے پائے اور ہتھے بھی الگ کر کے دیکھے؟" میں نے پوچھا۔
 
صفحہ 36
"نہیں۔ لیکن ہم نے اس سے بڑھ کر کام کیا ۔ ہم نے ایک طاقتور خرد بین لے کر کرسیوں کے جوڑ جوڑ کو دیکھا کہ کہیں حا ل ہی میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ہے۔"
"لکڑی کے تختوں اور شیشوں کے درمیان جگہ اور مسہری، بستر، پردے اور قالین بھی دیکھ لئے ہوئے ہوں گے؟" میں نے پوچھا۔
"ہا ں بھئی۔ ان سب چیزوں کی اچھی طرح تلاشی لی گئی پھر پورے گھر کی دیواروں اور فرش کا معائنہ کیا گیا۔ نہائیت سائنٹفِک طریقے پر پورے گھر کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور پھر ایک ایک حصے کو تلاشی لی گئی۔ ہم نے احتیاط کے طور پر اِدھر اْدھرکے مکانوں کی بھی تلاشی لے ڈالی۔"
"اس میں تو تمہیں بڑی دشواری پیش آئی ہو گی۔" جلال نے کہا۔
"ہاں، مگر یہ بھی تو دیکھو انعام کتنا بڑا ہے۔"
"کیا تم نے آس پاس کی زمین بھی دیکھ لی؟"
"ہاں، فرش اینٹوں کا ہے۔ اس لئے دشواری نہیں ہوئی۔"
"تم نے وزیر کے کاغذات بھی دیکھ کئے اور ان کی لائبریری میں کتابیں بھی؟"
"ہاں بھئی کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ کتابوں کا ایک ایک صفحہ کھول کر دیکھ لیا۔ اْن کی جلدوں تک کا اچھی طرح معائنہ کر لیا۔"
"قالینوں کے نیچے فرش کا بھی معائنہ کیا اور دیواروں پر لگا ہوا کاغذ بھی دیکھ لیا؟"
"ہاں، ایک ایک قالین اٹھا کر فرش کا معائنہ کیا۔"
"تہ خانے بھی دیکھے؟"
"ہاں دیکھے۔"
"پھر تو تمہارا اندازہ غلط ہے۔ خط اس عمارت میں نہیں ہے۔" میں نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
"ہاں شاید تمہارا خیال صحیح ہے۔"
جلال اس تمام گفت گو کو دل چسپی سے سن رہا تھا اور اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ انسپکٹر سراج اب اسکی طرف متوجہ ہوا۔
 
آخری تدوین:
صفحہ 37
"بھئی جلال، اب بتاؤ میں کیا کروں؟"
"ایسا کرو پوری عمارت کو ایک مرتبہ اور چھان ڈالو۔" وہ بولا۔
"نہیں اسکی قطعی ضرورت نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ خط اس عمارت میں نہیں ہے۔" سراج نے کہا۔
"پھر تو میں تمہیں کوئی مشورہ نہیں دے سکتا۔ البتہ مجھے یہ بتاؤ کہ وہ خط کس قسم کا ہے، یعنی اسکا سائز کیا ہے اور کاغذ وغیرہ کیسا ہے؟"
سراج نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور خط کی تفصیلات بتانے لگا۔ پھر کچھ مایوس سا ہو کر چلا گیا۔
 
Top