لال مسجد آپریشن۔۔۔ایک تلخ سوال

فرحت کیانی

لائبریرین
لال مسجد قضیہ "مذہبی یا فرقہ وارانہ "لڑائی ہر گز نہیں تھی۔۔یہ مکمل طور پر ایک "سیاسی" جنگ تھی۔۔ ہاں اس آپریشن سے پہلے، دوران اور اس کے بعد جو خون خرابہ ہوا یا ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد اس لئے ہوتی ہے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کو کسی بھی طور یقینی بنانا حکومت کے بنیادی فرائض میں آتا ہے۔ ہر کسی کا اپنا نقطہء نظر ہوتا ہے لیکن ہمیں کسی بھی صورتحال پر تبصرہ اس وقت کرنا چاہیئے جب ہم حالات و واقعات کو غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھ سکتے ہوں۔ جو کچھ ہم یہاں لکھتے ہیں وہ تاریخ کا حصہ بنے گا ۔اگلی نسل تک تاریخ کو as it is پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کالا چشمہ اتار کر دیکھیں۔۔روشنی میں چیزیں زیادہ واضح دکھائی دیتی ہیں۔

ہم لوگ ہر بات پر خود کو اتھارٹی بنائے بیٹھے ہیں۔۔۔۔ایک مسلمان کو تو اس بات سے بھی ڈرایا گیا ہے کہ اگر اس کی زبان، ہاتھ یا کسی عمل سے کسی دوسرے مسلمان کو ذرا سی بھی تکلیف پہنچے تو وہ اچھا مسلمان نہیں ہے۔۔پھر خود کش حملے ہوں یا اپنے ہی لوگوں پر چڑھائی۔۔۔بے گناہ جانیں لینے والوں کو کون "شہید" کہہ سکتا ہے۔
جس دن ہم لوگ اپنی غلطیوں کا الزام"امریکہ، را اور مخالف فرقوں" کو دینا چھوڑ دیں گے ہمیں سب مسئلوں کی وجہ جاننے کے لئے بحث برائے بحث کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔۔
 

ظفری

لائبریرین
ساجد صاحب ۔۔۔ ! آپ کو اس ٹاپک پر بحث سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میں نے آپ کا سوال کیوں نظرانداز کیا تھا اور اس ٹاپک کو دوسرے رخ پر ڈالنے کی کوشش کیوں کی تھی ۔ شاید کسی نے اسی فورم پر کہیں کہا تھا کہ اس وقت قوم صدمے یا سکتے کی حالت میں ہے اس لیئے سمجھ بوجھ سے قاصر ہے ۔شاید یہ بھی ہو کہ لوگ اپنے اپنے نظریات کے تحت اتنے ایموشنل ہیں کہ ان سے سچ اور جھوٹ کی تفریق " منصفانہ " طور سے نہیں‌ ہو پا رہی کہ گفتگو اپنے اصل ماخذ سے تقریباً ہر ٹاپک سے ہٹ جاتی ہے ۔ لہذا اب اس صورتحال میں اگر کچھ پچیدہ سوال اٹھائے جائیں گے تو ان کے جوابات میں سوال کی اصل روح کا کوئی وجود ہی نہیں ہوگا ۔ ( جیسا کہ ہے ) ۔

میں نہیں‌ کہتا کہ آپ کا سوال غلط تھا ۔۔ مگر آپ کا یہ سوال موقع کی مناسبت سے ذرا قبل از وقت تھا ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

ایک دوست نے اچھا مشورہ دیا تھا کہ غازی عبدالرشید کا معاملہ اب خدا پر چھوڑ دیں۔ انہیں ہیرو کا درجہ دینے کی کوشش میں ان کے اصل کارناموں کی تفصیل ہی سامنے آئے گی۔ اور میری اپنے قابل احترام دوستوں سے گزارش ہے کہ سیاسی مباحث میں ذاتی حملوں سے گریز کریں، اس سے صرف ایک دوسرے کا احترام جاتا رہتا ہے۔

مجھے لال مسجد اور جیش وغیرہ کو رگیدنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ لیکن مجھے زبردستی بحث میں گھسیٹا گیا تو اس سے صورتحال صرف ناخوشگوار ہوگی۔

والسلام
 
اور میری اپنے قابل احترام دوستوں سے گزارش ہے کہ سیاسی مباحث میں ذاتی حملوں سے گریز کریں، اس سے صرف ایک دوسرے کا احترام جاتا رہتا ہے۔
جی بالکل۔یہاں میرا اشارا کسی کی طرف نہیں۔ ذاتی حملے کرنا مکمل مبتدی ہونے کی نشانی ہے۔ کسی بھی بحث کے دوران۔ ذاتی حملے۔ Character Assasination اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ حرکت کرنے والا شخص اب مناسب جوابات کھو بیٹھا ہے اور بحث ہار گیا ہے۔ لیکن "انا" ‌اتنی بڑی ہے کہ مخالف کی بات ماننا نہیں چاہتا ہے۔ اس کا دوسرا رخ Hero Worship یعنی شرک ہے کہ جی فلاں استاد نے یہ کہا تھا- مقصد یہ ہوتا ہے کہ،ا گو کہ میں غلط ثابت ہو گیا، لیکن کیا آپ اتنے بڑے استاد کو بھی اب غلط ثابت کریں گے؟ اس کی نشانیاں عام ملتی ہیں۔ بحث شروع کرنے سے پہلے ہمیں اپنے آپ سے یہ کہنا چاہیے کہ: یہ بحث ایک سوالنامہ ہے۔ میں Learn کرنے اور Un Learn کرنے کی Pragmatic اپروچ اور خواہش رکھتا ہوں تاکہ کسی بحث کے مثبت نتائج برآمد ہوں۔

Hero worship اور Character Assasination دونوں سے گریز فرمائیے۔ استدعا ہے۔
والسلام
 

سید ابرار

محفلین
ابرار، بہت اچھا لکھا ہے آپ نے۔ یقیناً حیدآباد دکن میں بیٹھ کر آپ پاکستان کے حالات کا زیادہ بہتر مشاہدہ کر سکتے ہوں گے۔ بلکہ لگتا ہے کہ آپ کو پاکستان کے حالات کی ضرورت سے زیادہ فکر کھائے جا رہی ہےکیونکہ آپ نے کبھی بھارت کے حالات کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ آپ کو پاکستان میں نفاذ شریعت کا اتنا غم لاحق ہے، ذرا بتائیں کہ آپ انڈیا میں کیا جہاد کر رہے ہیں؟ یا آپ بھی اپنے پاکستانی بھائیوں کی طرح محض زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں؟
۔
پھلی بات تو یہ ہے کہ میں ملکوں کی بنا پر مسلمانوں کی ”تقسیم “ کا قائل نھیں‌ ہوں‌، پوری امت مسلمہ ایک ”جسد واحد“ کا درجہ رکھتی ہے ، اگر ”جسم “ پر کھیں کوئی ”زخم “ لگتا ہے تو پوری امت کو نہ صرف اس پر ”تڑپنا “ چاہئے ؛بلکہ ”علاج“ کی ”فکر“ بھی کرنی چاہئے ،
اور جھاں‌ تک نفاذ شریعت کے سلسلہ میں پاکستان اور ھندوستان کا تقابل ہے تو میرے خیال میں ہمیں ”تاریخی حقائق“ پر بھی ”نظر“ رکھنی چاہئے ، ھندوستان میں مسلمان ”اقلیت“ میں‌ ہیں‌ اور روز اول ہی سے ہندوستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہے ، اور مسلمانوں کو دستوری اعتبار سے پوری ”آزادی“ پے ، لھذا یھاں ”مسلم اقلیت “کے لئے کسی بھی مسلح جدوجھد کی کوئی ضرورت نھیں‌ ہے ، اس کے بر خلاف پاکستان میں مسلمان ”اکثریت“ میں ہیں ، اور پاکستان ایسا ملک ہے جس کو نفاذ شریعت اور اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر لاکھوں‌ مسلمانوں‌ کی قربانیوں‌ سے بنا یا گیا ہے ، لیکن 60 سال ہوگئے آج تک ”مکمل شریعت“ نافذ نہ ہوسکی ، تو جس مقصد کے لئے اس ملک کو بنایا گیا ہے ، اس عظیم مقصد کے لئے پرامن جدوجھد کرنا یقینا ہر ایک کی ذمہ داری ہے
اور آپ نے جو یہ کھا ہے کہ مجھ کو پاکستان میں‌ ”نفاذ شریعت“ کو اتنا غم لاحق کیوں ہے ؟ تو اس کا جواب اگرچیکہ ”تلخ “ ضرور ہے ؛ مگر ”تاریخ“ اور ”حقیقت“ ہمیشہ تلخ ہی ہوتی ہے ، اگر آپ نے ”قیام پاکستان “ کی ”تاریخ “ پڑھی ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قیام پاکستان کے لئے جن پرکشش نعروں اور دلکش الفاظ کا سھارا لیا گیا ، ان میں بنیادی نعرہ ”اسلامی ریاست“ کا قیام اور ”نفاذ شریعت “ کا ”وعدہ “ تھا ، اور پاکستان بننے کا یھی واحد ”عظیم مقصد “تھا
جس کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی زمینیں ، کاروبار اور گھروں کو چھوڑ کر ، اپنی جانیں ہتھیلیوں‌ پر لے کر ”ہجرت“ کی تھی ،
میں جو بات کھنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح صاحب سے یہ پوچھا گیا کہ آپ کروڑ وں مسلمانوں کے لئے الگ اسلامی ریاست ضرور بنارہے ہیں مگر یہ توبتائیے کہ وہ 15 کروڑ مسلمان جو اس حصہ میں ہیں‌، جو انڈیا میں ہے ‌ ، (ظاھر ہے ان 15 کروڑ کا ھجرت کرنا عقلا ممکن‌ بھی نھیں ہے ) ان کو کیا ہوگا ؟ کیا آپ ان کو ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلے جائیں گے ؟ تو جناح صاحب کا جواب تھا ، ”اسلامی ریاست پاکستان “کے قیام کے لئے ، انڈیا میں‌ رہنے والے مسلمانوں‌ کو بھی ”قربانی “ دینی پڑے گی ،
تو اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ پاکستان میں‌ ”نفاذ شریعت“ سے آخر بھارت کے مسلمانوں کو کیوں دلچسپی ہے ؟ ظاھر ہے جس ”عظیم مقصد “ کے لئے ان کو ”ھندو اکثریت“ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا تھا ، وہ ضرور یہ پوچھنے کا ”حق“ رکھتے ہیں ، اس لئے کہ ”ھندو اکثریت“ کے غلبہ والے معاشرہ میں رھنے کا جتنا ”تلخ تجربہ “ بھارت کے مسلمانوں کو ہوا ہے ،بلکہ لگاتار ہورہا ہے اور اس کے نتیجہ میں‌ جن نفسیاتی ، سماجی ، مذھبی اور معاشرتی مسائل سے انڈیا کے مسلمانوں کو دوچار ہونا پڑا ہے ، نیز فسادات کے نتیجہ میں دیھاتوں‌ میں رھنے والے مسلمان جس ”عدم تحفظ “ کا شکار رہے ہیں ، ان سب سے یقینا آپ نھیں گذرے ہونگے ،
تو محترم قصہ کوتاہ یہ ک 60 سال پھلے بر صغیر میں ایک انوکھی تقسیم عمل میں لائی گئی تھی ، جس کا سب سے زیادہ نقصان انڈیا کے مسلمانوں کو اٹھانا پڑا ، اور بقول جناح صاحب کے ، انڈیا کے مسلمانوں‌ کو یہ قربانی دینی پڑے گی ، تو انڈیا کے مسلمان تو روز اول ہی سے قربانی دے رہے ہیں ، اور ان کو کسی سے کوئی شکوہ اور شکایت نھیں ہے ، لیکن انڈیا کے مسلمان یہ ضرور پوچھنے کا ’حق“ رکھتے ہیں ، کہ جس ”اسلامی ریاست کے قیام “ کا نعرہ لگاکر بر صغیر میں یہ انوکھی تقسیم کی گئی تھی ، آخر وہ ”اسلامی ریاست “ ہے کھاں ؟
 

سید ابرار

محفلین
اور یہ عبداللہ صاحب کے مفتی کے درجے پر فائز ہونے کا بھی ہمیں آپ سے ہی پتا چلا ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان کی خبریں حیدرآباد دکن پہلے پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن آپ صرف اپنی پسند کی خبریں چن لیتے ہیں یا پھر گھڑ لیتے ہیں۔
۔

جھاں تک مولانا عبد اللہ صاحب کو مفتی کھنے کی بات ہے ، تو میرے ذھن میں یھی تھا کہ ان کو بی بی سی کی رپورٹ میں‌ مفتی کھا گیا ہے ، لیکن آپ کے توجہ دلانے کے بعد دوبارہ میں نے بی بی سی پر سرچ کیا تو پتہ چلا کہ اس میں مجھ سے غلطی ہوگئی ہے ، غلطی کی طرف توجہ دلانے کا شکریہ ، لیکن بہت مناسب ہوتا کہ اس غلطی کی طرف توجہ دلانے کے لئے آپ کوئی دوسرا انداز اختیار کرتے ،
 
اور آپ نے جو یہ کہا ہے کہ مجھ کو پاکستان میں‌ ”نفاذ شریعت“ کو اتنا غم لاحق کیوں ہے ؟ تو اس کا جواب اگرچیکہ ”تلخ “ ضرور ہے ؛ مگر ”تاریخ“ اور ”حقیقت“ ہمیشہ تلخ ہی ہوتی ہے ، اگر آپ نے ”قیام پاکستان “ کی ”تاریخ “ پڑھی ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قیام پاکستان کے لئے جن پرکشش نعروں اور دلکش الفاظ کا سھارا لیا گیا ، ان میں بنیادی نعرہ ”اسلامی ریاست“ کا قیام اور ”نفاذ شریعت “ کا ”وعدہ “ تھا ، اور پاکستان بننے کا یھی واحد ”عظیم مقصد “تھا

محترم، آپ کے ذہن میں اسلامی ریاست کا کیا تصور ہے۔ اور یہ تصور پاکستان کے موجودہ سیاسی ڈھانچے سے کیوں مختلف ہے؟ وہ کونسی ائینی یا قانونی تبدیلی ہے جس کے بعد پاکستان ایک اسلامی ریاست بن جائے گا؟
میں نے اس بارے میں ایک مخلصانہ رائے کا اظہار یہاں کیا ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=7423&page=6

آپکی رائے اس بارے میں جان کر خوشی ہوگی۔

دیکھئے۔ بہت تھوڑے سے اشخاص شریعت کی آڑ میں یہ چاہتے ہیں کی منتخب شدہ نمایندگان کے بجائے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ علماء یعنی ٹیچرز پر مشتمل ہو۔ یہ قران کے پیغام کے خلاف ہے۔ اپنے نمائندہ حکمراں کا انتخاب اور مجلس شوری کا انتخاب، بطریقہ بیعت ثابت ہے۔ تو اگر شریعت سے مراد علماء (یعنی ٹیچرز ) کی حکومت کا قیام ہے، جس میں Clergy makes the King and King makes the clergy ہو تومشکل ہے کہ مسلمان اس کی حمایت کریں۔

ٹیچرز (علما، مولوی۔ ملا۔ عالم) کام ہے پڑھانا نہ کہ حکومت کرنا۔ بہتر ہے۔ وہ یہی نیک فریضہ سر انجام دیتے رہیں اور درست راستہ دکھائیں۔

پاکستان کا آئین ایک اسلامی آئین ہے۔ اگر اس میں کچھ کمی ہے تو اشارہ فرمائیں۔ پاکستانی قانون بھی اسی روشنی میں‌بنا ہے۔ جو کمی ہے اپنے نمائندہ کو لکھتے رہیئے۔ انشاءاللہ تبدیلی آئے گی۔ رہ گئی قوانین کی پابندی اور Implementaion تو اس میں وقت لگتا ہے اور لگے گا۔ صبر کیجئے۔
والسلام۔
 

الف نظامی

لائبریرین
دیکھئے۔ بہت تھوڑے سے اشخاص شریعت کی آڑ میں یہ چاہتے ہیں کی منتخب شدہ نمایندگان کے بجائے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ علماء یعنی ٹیچرز پر مشتمل ہو۔ یہ قران کے پیغام کے خلاف ہے۔ اپنے نمائندہ حکمراں کا انتخاب اور مجلس شوری کا انتخاب، بطریقہ بیعت ثابت ہے۔ تو اگر شریعت سے مراد علماء (یعنی ٹیچرز ) کی حکومت کا قیام ہے، جس میں Clergy makes the King and King makes the clergy ہو تومشکل ہے کہ مسلمان اس کی حمایت کریں۔
ٹیچرز (علما، مولوی۔ ملا۔ عالم) کام ہے پڑھانا نہ کہ حکومت کرنا۔ بہتر ہے۔ وہ یہی نیک فریضہ سر انجام دیتے رہیں اور درست راستہ دکھائیں۔

اس بارے میں میرے چند سوالات ہیں۔

اسلام کے بارے میں لاعلم لوگ اسلامی ریاست کی قانون سازی کیسے کریں گے؟
اور
اسلامی قانون کو پڑھنا اور پڑھانا علما کی ذمہ داری ہے تو سیاست میں ان پر قدغن کیوں؟

حقیقت تو یہ ہے کہ پارلیمانی نمائندوں کا اسلامی قانون اور قانون سازی کے بارے میں علم بہت ہی محدود ہے۔
 
درست فرمایا آپ نے۔ کسی پر بھی پابندی نہہیں ہوناچاہئیے۔
لیکن 16 کروڑ افراد اپنی مشترکہ رائے دینے کے لئے روز تو نہیں جا سکتے۔ موجودہ اسمبلیوں‌کے طریقے پر تقریبا سب ہی متفق ہیں۔ جہاں علما کرام کا علم اسلام کے بارے میں زیادہ ہے۔ سیاست، معاشیات، شہریات، سوشل سائینسز۔ تجارت۔ ایڈمنسٹریشن، اور اسی طرح کے دوسرے علوم میں اسلامی مدرسے کے طلباء 12 سے 16 سال پیچھے ہوتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ سیاست میں آگے نہیں آپاتے۔ اگر اسلامی تعلیمات کے ساتھ جدید غیر سائینسی اور سائینسی علوم بھی پڑھائے جائیں تو عرصہ 16 سال میں‌ایک گرانقدر تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح عام سکولو:ں کی نصاب میں قرانی تعلیمات (مساوات، انصاف، مذہبی درگزر) سکھانے کی اہم ضرورت ہے۔ تاکہ جو شکائت آپ نے لکھی ہے رفع ہوسکے۔ آپ کی یہ شکایت آج پوری قوم کی شکایت ہے۔ درست جگہ نبض پر ہاتھ رکھا ہے آپ نے۔
والسلام
 

ابوشامل

محفلین
فاروق صاحب! آپ درست فرما رہے ہیں، میرے خیال میں موجودہ حالات میں مدارس کو سب سے زيادہ ضرورت اپنے نصاب میں جدید مضامین کو شامل کرنے کی ہے تاکہ مدارس سے پڑھ کر نکلنے والے افراد ہر شعبہ ہائے زندگی میں شامل ہو کر قومی دھارے میں شامل ہو سکیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کل بیشتر مدارس سے نکلنے والے طالبعلم سوائے مسجد کی امامت کے کوئی کام سر انجام نہیں دے سکتے۔ بہرحال ترقی کے لیے ہمیں دین و دنیا کا توازن رکھنا ہوگا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جہاں علما کرام کا علم اسلام کے بارے میں زیادہ ہے۔ سیاست، معاشیات، شہریات، سوشل سائینسز۔ تجارت۔ ایڈمنسٹریشن، اور اسی طرح کے دوسرے علوم میں اسلامی مدرسے کے طلباء 12 سے 16 سال پیچھے ہوتے ہیں۔
علما کو ان تمام علوم پر دسترس ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کا
تصور سیاسیت
تصور معیشت
تصور شہریت
تصور تجارت
وغیرہ
مغربی تصور سے مختلف
اور اسلامی تعلیمات پر مبنی ہوتے ہیں۔

اس طرح دوسری طرف سائنس یا آرٹس پڑھنے والوں کو بھی علوم قرآن و حدیث و فقہ پڑھانے کی ضرورت ہے۔اور انہیں
اسلامی تصور سیاسیت
تصور معیشت
تصور شہریت
تصور تجارت
سے آگاہ کرنا چاہیے۔
 
نظامی صاحب، ترقی کرنے کے لئے سب سے پہلے یہ ماننا ضروری ہے کہ کمزوری کی شناخت کی جائے۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کے مدرسے سے نکلنے والے انجینئرز کتنے ہیں، ڈاکٹرز کتنے ہیں۔ سوشل سائنٹست کتنے ہیں۔ اقوام متحدہ میں نمائندے کتنے ہیں۔ بھائی جذباتی باتوں سے تبدیلی کیسے آئے گی۔ آپ نے فرمایا۔ اسلامی شہریات کا تصور الگ ہے۔ مغربی شہریات سے۔ دل تو ہم خوش کرسکتے ہیں ایسی باتوں سے لیکن شہریات (Civics) میں بننے والے اسکول، سڑکیں۔ پانی کے نالے، ڈرینیج، سیوریج۔ پیدائشی شماریات، ترقیاتی شماریات۔ کی آپ اسلامی مثال اور مغربی مثال کا فرق کیسے بتائیں گے۔ کہاں سے لائیں گے۔ اس طرح کم علمی کو اسلام کے مقدس نام کے پیچھے چھپانے سے ہم کس کو دھوکہ دے لیں گے؟ اپنے آپ کو؟ اگر آپ مجھ سے بحث میں جیت کر خوش ہونا چاہتے ہیں تو چلئے میں ہارا۔ آپ جیتے۔ لیکن حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے۔ وہ یہ کہ تعلیم کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ تعالی نے کسی وجہ ہی سے لفظ اقرا سے وحی کی ابتدا کی تھی۔ بھائی علم بس علم ہے نہ مغربی نہ مشرقی۔ علم تو اللہ کا تخلیق کردہ ہے۔جو اس نے حضرت انسان کو سکھایا۔ دیکھئے:
[AYAH]2:31[/AYAH]
اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو
[AYAH]2:33[/AYAH]
اللہ نے فرمایا: اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدم (علیہ السلام) نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اللہ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو

پھر اللہ تعالی نے آدم کی تمام اولادوں کو عزت کا درجہ دیا؟
[AYAH]17:70[/AYAH]
اور فرمایا کہ حق و عدل کی بات کہو، چاہے کسی قوم سے دشمنی کیوں نہ ہو۔
[AYAH] 5:8[/AYAH]
اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے

جناب حق کی بات یہ ہے کہ ہم کو جدید علوم سیکھنے میں ایسی بے معنی باتیں رکاوٹ نہ بنیں۔ جدید علوم کے ساتھ ہم کو علم قران و سنت کی بھی بہت ضرورت ہے اور ہم جدید علوم کو اپنے Prejudice سے مغربی کہہ کر جہالت کے پردوں میں نہیں رہ سکتے ہیں۔ یہ اعلی ترین پیغام تمام انسانیت کے لئے آیا ہے۔ ہم دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے۔

آگر آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ نمائندوں کا انتخاب نہ ہو بلکہ صرف اسکول یا یونیورسٹی کے ٹیچر کو اس کے علم کی بنیاد پر حکومت کرنے یا بادشاہ چننے کا حق ہو تو بھائی یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ دیکھئے
[AYAH]3:104[/AYAH]
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں

اور اسکی تشکیل کا طریقہ - امانتیں یعنی Vote of Trust
[AYAH]4:58[/AYAH]
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے

اچھی تعلیم حاصل کیجئے [AYAH]20:114[/AYAH] بہتر انسان بنئے [AYAH]46:19[/AYAH]، باھمی مشورہ سے قرآن کے اصولوں کے تحت کہ، سنت رسول کے مطابق، قانون سازی کیجئے [AYAH]42:38[/AYAH]
آپ اپنا فرض پورا کیجئے۔ اللہ تعالی کا وعدہ ہے - دیکھئے : [AYAH]24:55[/AYAH] اور [AYAH]3:139[/AYAH] اور [AYAH]21:105[/AYAH]
والسلام
 

الف نظامی

لائبریرین
آپ بخوبی جانتے ہیں کے مدرسے سے نکلنے والے انجینئرز کتنے ہیں، ڈاکٹرز کتنے ہیں۔ سوشل سائنٹست کتنے ہیں۔ اقوام متحدہ میں نمائندے کتنے ہیں۔ بھائی جذباتی باتوں سے تبدیلی کیسے آئے گی۔
یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہا جائے کہ میڈیکل کالج سے کتنے انجینئرز نکلتے ہیں۔

آپ نے فرمایا۔ اسلامی شہریات کا تصور الگ ہے۔ مغربی شہریات سے۔ دل تو ہم خوش کرسکتے ہیں ایسی باتوں سے لیکن شہریات (Civics) میں بننے والے اسکول، سڑکیں۔ پانی کے نالے، ڈرینیج، سیوریج۔ پیدائشی شماریات، ترقیاتی شماریات۔ کی آپ اسلامی مثال اور مغربی مثال کا فرق کیسے بتائیں گے۔ کہاں سے لائیں گے۔
مثال تب ملے گی جب اسلامی معاشرہ قائم ہوگا(جس میں اسلامی تصور سیاست و معیشت و معاشرت کو نظریہ کے بجائے عملی شکل میں دیکھا جاسکے گا) جو پاکستان کے قیام کا بنیادی مقصد ہے۔
اگر آپ مجھ سے بحث میں جیت کر خوش ہونا چاہتے ہیں تو چلئے میں ہارا۔ آپ جیتے۔ لیکن حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے۔ وہ یہ کہ تعلیم کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ تعالی نے کسی وجہ ہی سے لفظ اقرا سے وحی کی ابتدا کی تھی۔ بھائی علم بس علم ہے نہ مغربی نہ مشرقی۔
فاروق سرور خان صاحب تعلیم سے کوئی انکار نہیں کررہا، سائنسی ترقی کرنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے آپ کو مدارس نہیں انجینرنگ یونیورسٹیوں کی تعلیمی صورتحال بہتر کرنا ہوگی۔ پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہوگی جنہوں نے ریسچ پیپر چھاپے مار کر نا لکھے ہوں۔

یہاں بات مختلف نظریہ ہائے حیات کی ہو رہی ہے۔ اسلامی معاشرے پر مغربی نظریات نہیں مسلط کیے جاسکتے۔
 

باسم

محفلین
سیاست، معاشیات، شہریات، سوشل سائینسز۔ تجارت۔ ایڈمنسٹریشن، اور اسی طرح کے دوسرے علوم کی مہارت رکھنا علماء کیلیے ضروری ہے تاکہ وہ ان علوم والوں کو بتاسکیں کہ اسلام اس حوالے سے کیا کہتا ہے
لیکن ان علوم کے متعلق اسلام کی راہنمائی حاصل کرنا اور اسکے مطابق اپنے شعبے میں کام کرنا ان علوم والوں کیلیے ضروری ہے
 
مثال تب ملے گی جب اسلامی معاشرہ قائم ہوگا(جس میں اسلامی تصور سیاست و معیشت و معاشرت کو نظریہ کے بجائے عملی شکل میں دیکھا جاسکے گا) جو پاکستان کے قیام کا بنیادی مقصد ہے۔

آپ کی تنقید کا بھی شکریہ اور باسم صاحب کی تائید کا بھی شکریہ۔

تائید و تنقید سے ہی بہتری حاصل ہوتی ہے۔ لہذا آپ کی تنقید سر آنکھوں‌پہ :)

بھائی، اس عملی معاشرے کی ابتدا 14 اگست 1947 سے ہوچکی ہے۔ موجودہ آئین دیکھئے۔ اس پر پاکستان کے علماء اور منتخب نمائندوں نے اتفاق کیا اور اسی سے قوانین بن رہے ہیں۔ اگر ان اصولوں میں کوئی کمی ہے تو اس کے بارے میں لکھئے۔ وہ کیا کمی ہے جس کی اس اسلامی ڈھانچے میں کمی ہے۔ میں‌چونکہ عالم نہیں ہوں، صرف طالب علم ہوں اس لئے کچھ نہہں کہہ سکتا، آپ تجویز کیجئے۔ وہ کونسی خوش آئند تبدیلی ہے جو ہم کو مزید اسلامی نظام کی طرف لے جائیگی۔ اور اگر پاکستان کے مسلمانوں کا بنایا ہوا، موجودہ ریاستی ڈھانچہ، اسلامی نہیں ہے تو بھائی، ایک تو آپ ہم کو غیر اسلامی ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں اور پھر آپ یقینا کچھ ایسا جانتے ہیں۔ جو باقی سب نہیں جانتے۔ ہم کو بھی بتائیے۔ ایسا کیجئے کہ وہ پہلی تین تبدیلیاں یہاں لکھئے، جن کے لانے سے ہمارا معاشرہ اسلامی نظام کی طرف پیشرفت کرسکتا ہے؟ یا پھر یہ بتائیے کہ اگر پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ، اسلامی سیاسی نظام نہیں ہے تو وہ پہلی تین تبدیلیاں یہاں تجویز کیجئے، جن کے لانے سے ہمارا نظام "اسلامی نظام" کی طرف چل نکلے گا۔ ہم کو ایسی تجاویز کا مطالبہ ہر "اسلامی نظام" کا نعرہ لگانے والے سے کرنا ضروری ہے۔

آپ بھی اس بات سے متفق ہیں کہ قانون سازی۔ صرف منتخب نمائندوں کا حق ہے۔ ٹیچر یا عالم کو علم کے زور پر ۔ ہم یہ دلیل دے کر کہ - "صرف علماء ہی جانتے ہیں اسلئے یہی لوگ اسمبلی میں جا سکتے ہیں اور قانون بناسکتے ہیں" - درست نہیں ہے۔ انکا منتخب ہونا ضروری ہے۔ بنا منتخب ہوئے، قانون بنانا، ہم سب کی مشترکہ بے عزتی کرنے کے مترادف ہے۔

Legisilative Body یعنی اسمبلی (مجلس شوری) کا انتخاب شروری ہے، اگر علما کو لوگ منتخب نہیں کرتے تو علما کو وہ لیڈرشپ کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے، کہ لوگ اس کا انتخاب کریں۔ اسی انتخاب سے ہم Administrative Body یعنی صدر و وزیراعظم منتخب کرتے ہیں۔ اور پھر یہی لوگ کابینہ کی تشکیل کرتے ہیں۔ اور عدلیہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ طریقہ اسلامی نہیں تو اس پر لکھئے۔ پورے پاکستان کو اس کے بارے میں بتائیے۔ اور تبدیلی اس طرح لائیے کہ جو بنایا ہے وہ نہ بگڑ جائے، کہ جو آج آپ کی شناخت و پہچان ہے، اللہ عزوجل کی نعمت ہے۔
والسلام
 

الف نظامی

لائبریرین
بھائی، اس عملی معاشرے کی ابتدا 14 اگست 1947 سے ہوچکی ہے۔ موجودہ آئین دیکھئے۔ اس پر پاکستان کے علماء اور منتخب نمائندوں نے اتفاق کیا اور اسی سے قوانین بن رہے ہیں۔ اگر ان اصولوں میں کوئی کمی ہے تو اس کے بارے میں لکھئے۔ وہ کیا کمی ہے جس کی اس اسلامی ڈھانچے میں کمی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر کبھی عمل نہیں ہوا۔ کیوں نہیں ہوا ، اس کی وجہ تلاش کرنی ہے۔

آپ بھی اس بات سے متفق ہیں کہ قانون سازی۔ صرف منتخب نمائندوں کا حق ہے۔ ٹیچر یا عالم کو علم کے زور پر ۔ ہم یہ دلیل دے کر کہ - "صرف علماء ہی جانتے ہیں اسلئے یہی لوگ اسمبلی میں جا سکتے ہیں اور قانون بناسکتے ہیں" - درست نہیں ہے۔ انکا منتخب ہونا ضروری ہے۔ بنا منتخب ہوئے، قانون بنانا، ہم سب کی مشترکہ بے عزتی کرنے کے مترادف ہے۔
کم از کم میں نے تو یہ قدغن نہیں لگائی کہ صرف علما ہی کو قانون سازی کا حق حاصل ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمانی نمائندوں کو اسلامی قانون سازی کا خاطرخواہ علم ہونا ضروری ہے۔
عمومی لحاظ سے میرے خیال میں قانون بنانے والوں کو کم از کم کسی مضمون میں درجہ اول میں ایم اے ہونا ضروری ہے۔
 
درست کہ آپ نے ایسا نہیں کہا۔ لیکن اگر آپ بغور دیکھیں تو آپ کو مولوی صاحبان کی اپروچ میں درج ذیل باتیں واضح نظر آئیں گی اور میرا خیال ہے کہ آپ بھی ان باتوں سے متفق نہیں ہیں۔

مولوی حضرات کا "سیاسی نظام" عرف عام شریعت۔ عرف عام اسلامی نظام، جس کے لئے وہ کوشاں‌ہے، درج ذیل کے علاوہ کیا ہے؟

قانون سازی یا لیجیسیلیٹو مکمل کنٹرول:
1۔ ایک ایسی لیجیسیلیٹو باڈی یعنی اسمبلی، سینیٹ، پارلیمنٹ یا مجلس شوری کی تشکیل، جس میں منتخب شدہ (اور آپ کے تجویز کردہ تعلیم یافتہ) نمائندوں کے بجائے، صرف اور صرف درسگاہوں کے تعلیم یافتہ "طالبان" ہی قانون سازی کریں۔ قانون کا معیار، وہ قانون ہوں جو قرونِ وسطی سے کر 18 ویں صدی تک ایران، بخارا، عراق، اور چند ترک ممالک میں لکھے گئے۔ کسی کو آپ ہٹا نہ سکیں کہ ایک بار مولوی تمام عمر مولوی۔ انتخابات صرف اور صرف کٹھ پتلی قسم کی حکومت تک محدود ہوں۔ جیسا کہ ایران اور سعودی عرب میں آج کل ہے۔ اس کا ثبوت وہ بیانات ہیں جو وقتا فوقتا علماء کے ایک محدود گروپ کی طرف سے جاری ہوتے رہتے ہیں۔ باقی لوگ صرف اسلام کے نام پر ساتھ ہو لیتے ہیں۔ فتوی کیا ہے؟ پرانی کتابوں کے قوانیں کی صدائے باز گشت۔ قانون سازی، ایمان کے نام پر۔ بیشتر صورتوں مین ان قوانین کا قرآن سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے قرآن و سنت اور قرآن و حدیث کی ہونے والی بحثیں، مختلف فرقوں میں عام ہیں۔ اور کسی ببی قسم کے اتفاق رائے کا ہونا ناممکن ہے، کیونکہ ان قوانین کی بنیاد ہی مادہ پرستی پر ہے۔

2۔ Executive برانچ پر مکمل کنترول۔
پرائم منسٹر پارلیمنٹ منتخب کرتی ہے۔ مولوی حضرات اس سسٹم کو اس طرح بنانا چاہتے ہیں کے تمام قوت ان کے اپنے ہاتھ میں ہو، اس کے لئے یہ مذہب کا سہارا لیتے ہیں۔ اس طرح یہ "طالبان" طرز پر ایک پولیس سسٹم کی تشکیل، جیسا کی MMA نے سرحد میں اور اس سے قبل "طالبان" نے افغانستان میں کیا۔ اس طریقے سے پولیس کے کمانڈ اور کنٹرول کو ختم کر کے "طلبا" جو کہ مدرسے کے گریجویٹ ہوں اور مکمل طور پر برین واشڈ ہوں، کہ قانون وہ ہے، جو پرانی کتابوں میں لکھا ہے۔ عموما کمیونیکیشن کی کمی کے باعث، اس میں پر تشدد سزائیں شامل ہوتی ہیں۔ لیکن کیا جرائم پر ان پر تشدد سزاوں سے قابو پانے میں کامیابی ہوئی ہے؟ سعودی اور ایرانی عرصی 50 سال سے گردنیں کاٹ رہے ہیں اور سنگسار کررہے ہیں۔ معاشرے میں ہونے والے ان جرائم کا خاتمہ کرنے میں کتنے کامیاب ہوئے ہیں۔ لوہے کے دروازے اور کھڑکیاں عام گھروں میں اس کی گواہی دیتے ہیں۔

3۔ عدالتی نظام پر مکمل کنٹرول:
مولوی حضرات کی کوشش ہے کہ، ایک متوازی قانونی نظام قائم کیا جائے۔ جس میں زندگی کے ہر شعبے میں۔ شادی سے لے کر میراث تک صرف اور صرف ان فرسودہ کتب اور قانون سے استفادہ کیا جائے جس کا تعلق دور دور تک قرآن اور سنت سے نہیں، اور ہر فرقہ اس سلسلے میں اپنی اپنی رائے رکھتا ہے۔

پاکستان ایک عظیم ملک ہے، ہم سب اس سے پیار کرتے ہیں۔ صرف 60 سالوں میں ہونے والی ترقی بہت سے ممالک میں ہونے والی 200 سالہ ترقی سے زیادہ ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے۔ اس ملک کو تباہ کرنے کے لئے بہترین ترین سازش ہے کہ اس ملک میں شدت پسند لوگوں کی ایک جماعت پیدا کی جائے، تاکہ ملک میں خوب فساد ہو، جو کہ یہ گروپس کررہے ہیں۔ اور ایک ایسے سازگار فضا پیدا کی جائے کہ، جب بھی اسلام آباد میں یہ خطرہ لاحق ہو کہ شدت پسند ایٹمی ہتھیار پر کنٹرول کر لیں گے تو کابل سے اڑ کر اسلام آباد کو چھاپ لیا جائے۔

1947 میں ہمارے پاس گنتی کی کاریں تھی، اور اج ہم 6 قسم کی کاریں بناتے ہیں۔ ہمارے پا کوئی انڈسٹری نہیں تھی، ہم تقریبا ہر قسم کی مشینری بناتے ہیں۔ چند ہزار اسکول تھے، آج ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ترقی کسی ایسی چڑیا کا نام نہیں جو کہیں سے اڑ کر ہمارے پاس آ بیٹھے گی۔ ہمیں اپنا محاسبہ اور اپنے آپ پر تنقید جاری رکھنی پڑے گی۔ اپنے ملک میں ہونے والی برائیوں کا خاتمہ بھی خود کرنا پڑے گا۔ ہمیشہ اپنے آپ پر اپنی اور دوسرں کی تنقید کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔

بقول قائداعظم صاحب:
ہم ایک قوم ہیں جس کی تہذیب اور ثقافت کی قدریں جداگانہ ہیں۔ اپنی زبان اور ادب، اپنے فنون اور طرز تعمیر، اپنے نام اور نام دینے کے انداز، اپنی قدروں کا احساس اور تناسب۔ قوانین اور انداز شرافت، طور طریقہ اور کیلنڈر، تاریخ اور تعریف، اپنی خواہشیں اور کمندیں، قصہ مختصر، ہمارا تو اپنا جداگانہ انداز ہے، زندگی کا اور زندہ رہینے کا، بین الاقوامی قانون کی ہر شق کی رو سے، ہم ایک قوم ہیں،

We are a nation with our own distinctive culture and civilization, language and literature, art and architecture, names and nomenclature, sense of values and proportion, legal laws and moral code, customs and calandar, history and tradition, aptitudes and ambitions; in short, we have our own distinctive outlook on life and of life. By all canons of international law, we are a nation".​
 

زینب

محفلین
abb tak LAL MASJID k hawaly sy mein ny jitny bhi messgs parhy
hein sary to nahi parh saki kuch hee.......un mein mein ny dkeha ki app bahi logon ki aksriyat ny GOVT k khiylaaf baat ki magr ek baat app sab bhol geye ki in do bahriyon ki larayi mein assli nuksaan kiss ka hua.....humari waisy hee addt ssi ho geyi hae tsaveer ka ek roukh dekhny ki agar hum tasveer k dono rukh dkhein to na to GHAZI bardraan ka koi nuksan hua na hee GOVT ka jo bhi nuksan pahuncha masjid aur islaam ko pahunch....bahr haal jo bhi tha ghazi bardraan islam ki jang nahi lar rahy thy goli chye to masjid k andr sy chli ho ya bahir sy nbehurmati to masjid ki hui na dono parties appni appni ANNA ki jang lar rahy thy.........islam k bary mein hum ny koi acha peghaam nahi diya duniya ko iss sab sy aur mera kheyal ahe yeaahi muslim dushman anaasr ki chaal thi jiss mein woh kamyaab huy...............aur un ki kamyabi ki wajha bani humari GOVT aur GHAZI BRADRAANS.........
 
Top