لال مسجد آپریشن شروع

اظہرالحق

محفلین
لکھنا تو بہت کچھ ہے ، مگر شاید ہمت نہیں ۔ ۔۔ ۔ جب یہ تھریڈ شروع ہوا تو میں نے جو سُنا دیکھا سمجھا لکھ دیا ۔ ۔ ۔آج اپنی ہی باتیں بری لگ رہیں ہیں کہ میں‌نے کہ کیوں کہا ۔ ۔ ۔ مگر شاید مایوسیوں کے اس اندھیرے میں ۔ ۔ ۔ تاریک الفاظ لکھنے ہی پڑتے ہیں ۔ ۔ ۔

3 جولائی ۔ ۔ ۔ آپریشن کے آغاز کے فوراً بعد میں نے لکھا "صرف ایک اور وزیرستان کی کاپی اسلام آباد میں بن جائے گی ۔ ۔ ۔ جس میں صرف غریب مریں گے اور محلوں والے اجلاس کرتے رہیں گے ۔ ۔ ۔" اور یہ سب کچھ ہو گیا ۔ ۔ ۔

4 جولائی ۔ ۔ ۔ جب مذاکرات کے کھلاڑی کھُل کر سامنے نہیں آئے تھے میں نے لکھا "اور دوسری بات جو میرے علم میں آئی ہے وہ ہے کہ محفوظ راستہ دینے کی بات ۔ ۔ جس پر “مزاق رات“ ہو رہے ہیں ۔ ۔۔ ۔ اسی وجہ سے اکرم درانی کو بھی ۔ ۔ ۔ بلایا گیا ہے ۔۔ ۔ جبکہ عام حالات میں “اٹ کتے “ کا ویر ہے ۔ ۔ ۔" یہ وہ سیاست تھی جو آخری رات تک کھیلی گئی ۔ ۔ جس میں ایم ایم اے اور حکومت نچاتی رہی عوام کو اور عوام ناچتی رہی

مزید لکھا تھا "۔ ہماری محب وطن خفیہ ایجنسیاں اسلام آباد اور وزیرستان ، افغانستان اور وانا کے درمیان ۔ ۔ ۔ ایک رابطے کا بہت بڑا “لنک“ کھو دیں گیں " اور وہ ہی ہوا ۔ ۔ ۔ نہ وہ افغانی غیر ملکی ملے اور نہ یہ پتہ چل سکا کہ اسلحہ آیا کہاں سے تھا اور کیسے تھا ۔ ۔

7 جولائی کو اپنے ہی لکھے لفظوں سے آج خون کی بو آتی ہے ۔ ۔ ۔" ، کہ بھائی دیکھو تم نے جانا تو ہے نہیں ۔ ۔ ۔۔ اس لئے بہتر ہے ۔۔ ۔ ۔ کہ کہتے رہو ۔ ۔ بیانات ۔ ۔۔ ۔۔اور کرفیو کا ٹائیم بڑھاتے رہو

اور حکومت کی بی جماعت ایم ایم اے جو بہت مخلص ہے چوبیس چوبیس گھنٹے نشستن گفتن اور برخاستن کی پلاننگ سے حکومت کی مدد کر رہی ہے ۔ ۔ ۔

اور ہاں میڈیا ۔ ۔ ۔ والوں کی شامت آنے والی ہے ،، ، ، جو لال مسجد کا میچ بال ٹو بال دکھا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

رہی عوام ۔ ۔ ۔ تو بھئی بقول حسن نثار کے ۔ ۔ ۔ ۔ تماشا بننے کے لئے بھی تو کچھ ہو گا نا ۔ ۔ ۔
" کاش میں یہ سب کچھ نہ سمجھتا ۔ ۔ ۔ ۔

اور پھر 8 جولائی کو جو لکھا وہ پتہ نہیں کیوں لکھ دیا ۔ ۔ ۔کھودا بِل ۔ ۔ ۔ نکلا ڈائنو سار ۔ ۔ ۔ ۔

جی ہاں اس ڈائنو سار کو ساری دنیا جانتی ہے ۔ ۔ ۔

پردہ ۔ ۔ ۔ تو وہ ہے جو ۔ ۔۔ جو ۔۔ ۔ بہت ساری آنکھوں پر ڈال دیا گیا ہے ۔ ۔۔ اور برقعے کے اندر ۔ ۔ ۔ ۔ جو مولانا تھے وہ تو صرف اسٹنٹ مین تھے ۔ ۔ ۔ ۔ اصل ہیرو تو کوئی اور ہے ۔ ۔ ۔ ۔

باقی غازی کو غازی ہی رہنے کی بات کی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ شہادت کے عہدے پر شاید بہت سارے ۔ ۔ ۔ فائز کئے جائیں


غازی شہید بن گیا اور اسکے بیٹے کی شکل میں اور غازی آ گیا ۔ ۔ ۔ شہادت کیا ہے مجھے نہیں‌معلوم مگر اتنا ضرور علم ہے کہ جب غازی کو دفن کیا جا رہا تھا تین دن بعد تو اسکا خون بہ رہا تھا ۔ ۔ ۔

اور ہمارے نمائندے ۔ ۔ ۔یہ کٹھ پتلیاں ۔ ۔ ۔ جنکی ڈوریاں ۔۔ ۔ وہاں سے ہلائی جا رہی ہیں جہاں اسلام ،آباد نہیں ۔۔ ۔ مگر کچھ لوگ ۔ ۔ ۔ بے چارے "ڈاکیے " کو خاکی وردی والا فوجی سمجھ رہے ہیں ۔۔ ۔

آج ڈاکٹر شاہد کے کالم میں‌ شاید وہ بچیاں‌بھی خاکی وردی والوں کو نہیں سمجھ پائیں کہ وہ تو ڈاکیے تھے ۔ ۔۔ جو موت کا پیغام لائے تھے ۔ ۔

اور جب موت آ گئی تو میں نے پوچھا کہ شہادت ہے ہلاکت ہے یا پھر ۔ ۔ ۔ جاں بحق ۔ ۔ ۔ مگر شاید ہمارے پاس اسکا کوئی جواب نہ تھا ۔ ۔ ۔ اور شاید کبھی بھی نہ ہو ۔ ۔

ان تمام باتوں کے درمیان دوست ۔ ۔ ۔ ایک دوسرے سے الجھتے رہے ۔ ۔ ۔ مگر بہت کم لوگوں نے اس واقعہ کو انسان کی نظر سے دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔

نہ محبت نہ چاہت نہ درد رکھتا ہوں دل کا
میں تو نادم ہوں آج کے دور کا انساں ہو کے
نہ عبادت نہ فقیری نہ ریاضت نہ سادہ سی قبا
میں تو شرمندہ ہوں آج کا مسلماں ہو کہ


میں نے اپنے ذرائع سو جو ملا بتایا مگر کاش میں یہ سب ہونے سے روک سکتا ۔ ۔ ۔ جس آپریشن کا فیصلہ مہینوں پہلے ہو چکا تھا ۔ ۔ ۔ اسپر عمل صرف ایک گھنٹے میں کیا گیا ۔ ۔ ۔ جی صرف ایک گھنٹے میں ۔ ۔ اور کمانڈوز نے جو حلف لیا وہ بھی ۔۔ ۔ جلد سامنے آئے گا ۔ ۔ ۔

ہمیں تو اپنوں نے لوٹا ، غیروں میں کہاں‌دم تھا
میری کشتی وہاں تھی ڈوبی ، جہاں پانی کم تھا
 
بقیہ:
جو احباب میری ذاتی زندگی تک رسائی رکھتے ہیں وہ واقف ہیں کہ میں خبروں کے جنگل میں رہتا ہوں!!دن کا بیشتر حصہ اخبارات۔جرائد اور کتابوں کے اوراق میں دفن گُزارتا ہوں!! چنانچہ گزرے تین ماہ کے دوران بھی جہاں چیف جسٹس کا معاملہ پیچیدہ موڑ اختیار کرتا۔۔اُن میں الجھائے رہنے کا سبب بنا!! وہیں یہ مصروفیات بھی اپنی جگہ جاری رہیں۔لیکن اس تمام عرصے، وقفے وقفے سے مجھے ایک گمنام نمبر سے ایس ایم ایس موصول ہوتے رہے!!عموماً قرآن شریف کی کسی آیت کا ترجمہ یا کوئی حدیثِ مبارکہ۔۔۔یا پھر کوئی دُعا۔۔رومن اُردو میں۔۔۔اور آخر میں بھیجنے والے کا نام۔۔۔"آپ کی چھوٹی بہن اسماء" یہ سچ ہے کہ ابتداء میں تومجھے یاد ہی نہیں آیا کہ بھیجنے والی شخصیت کون ہے؟ لیکن پھر ایک روز پیغام میں یہ لکھا آیا کہ"آپ دوبارہ جامعہ کب آئیں گے؟"تو مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی چھوٹی نٹ کھٹ۔۔۔حجاب میں ملبوس بچی ہے۔۔جس سے میں جواب بھیجنے کا وعدہ کر آیا تھا!!میں نے فوراً جواب بھیجا"بہت جلد۔۔!!" جواب آیا"شکریہ بھائی جان!" میں اپنے موبائل فون سے پیغام مٹاتا چلا گیا تھا چنانچہ چند روز قبل جب لال مسجداور جامعہ حفصہ پر فوجی کارروائی کا اعلان ہوا تو میں نے بے تابی سے اپنے فون پر اُس بچی کے بھیجے پیغامات تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بد قسمتی سے میں سب مٹا چُکا تھا! اُمید تھی کہ اسماء بڑی بہن کے ساتھ نکل گئی ہو گی! لیکن پھر بھی بے چینی سی تھی!! کوئی آیت،حدیث،دُعا بھی نہیں آ رہی تھی! اس تصور کے ساتھ خود کو تسلی دی کہ ان حالات میں، جب گھر والے دور گاؤں سے آ کر۔۔دونوں کو لے گئے ہوں گے تو افراتفری میں پیغام بھیجنے کا موقع کہاں؟؟ جب بھی اعلان ہوتا کہ "آج رات کو عسکری کارروائی کا آغاز ہو جائے گا"!!"فائرنگ،گولہ باری کا سلسلہ شروع" "مزید طالبات نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا" "ابھی اندر بہت سی خواتین اور بچے ہیں" "یرغمال بنا لیا گیا ہے" وغیرہ وغیرہ۔۔۔تو میری نظر اپنے موبائل فون پر اس خواہش کے ساتھ ۔۔چلی جاتی کہ کاش!! وہ پیغام صرف ایک بار پھر آ جائے۔۔میں نے جسے کبھی محفوظ نہ کیا!! کون تھیں؟ کہاں چلی گئیں؟ 8جولائی کی شب اچانک ایک مختصر ایس ایم ایس موصول ہوا"بھائی جان! کارڈختم ہو گیا ہے۔۔پلیز فون کریں۔" میں نے اگلے لمحے رابطہ کیا تو میری چھوٹی ۔۔پیاری اسماء زاروقطار رو رہی تھی"بھائی جان، ڈر لگ رہا ہے! گولیاں چل رہی ہیں! میں مر جاؤں گی!" میں نے چلا کر جواب دیا"اپنی بہن سے بات کراؤ۔۔"بہن نے فون سنبھال لیا"آپ دونوں فوراً باہر نکلیں۔۔معاملہ خراب ہو رہا ہے۔۔کہیں تو میں کسی سے بات کرتا ہوں کہ آپ دونوں کو حفاظت سے باہر نکالیں۔۔"دھماکوں کی آوازیں گونج رہی تھیں!! مجھے احساس ہوا کہ بڑی بہن نے اسماء کو آغوش میں چھپا رکھا ہے لیکن چھوٹی پھر بھی بلک رہی ہے۔۔رو رہی ہے۔۔!!"بھائی وہ ہمیں کیوں ماریں گے؟؟ وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں!! وہ بھی کلمہ گو ہیں! ! اور پھر ہمارا جُرم ہی کیا ہے؟ آپ تو جانتے ہیں بھائی! ہم نے تو صرف باجی شمیم کو سمجھا کر چھوڑ دیا تھا۔۔چینی بہنوں کے ساتھ بھی یہی کیا تھا۔۔بھائی!! یہ سب ان کی سیاست ہے۔۔ہمیں ڈرا رہے ہیں" بہن پُر اعتماد لہجے میں بولی۔۔!! " دیکھیں! حالات بُرے ہیں!! میں بتا رہا ہوں۔۔آپ فوراً نکل جائیں ۔۔خدا کیلئے!!" مجھے احساس ہوا کہ میں گویا ۔۔اُنہیں حکم دے رہا ہوں!!"بھائی!! آپ یونہی گھبرا رہے ہیں!! غازی صاحب بتا رہے تھے کہ یہ ہمیں جھکانا چاہ رہے ہیں۔۔باہر کچھ بھائی پہرہ بھی دے رہے ہیں! کچھ بھی نہیں ہو گا، آپ دیکھیے گا۔۔اب فوج آ گئی ہے ۔نا!! یہ بدمعاش پولیس والوں کو یہاں سے بھگا دے گی!! آپ کو پتہ ہے۔۔فوجی تو کٹر مسلمان ہوتے ہیں۔۔وہ ہمیں کیوں ماریں گے۔۔ہم کوئی مجرم ہیں۔۔کوئی ہندوستانی ہیں۔۔کافر ہیں۔۔کیوں ماریں گے وہ ہمیں۔۔!!" بہن کا لہجہ پُر اعتماد تھا۔۔اور وہ کچھ بھی سُننے کو تیار نہ تھی "ڈاکٹر بھائی مجھے تو ہنسی آ رہی ہے کہ آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں!! آپ کو توپتہ ہے کہ یہ سلسلہ" اسی طرح چلتا رہتا ہے! یہ اسماء تو یونہی زیادہ ڈر گئی ہے۔اور ہاں آپ کہیں ہم بہنوں کا نام نہ لیجئے گا۔ایجنسی والے بٹہ گرام میں ہمارے والد،والدہ اور بھائیوں کو پکڑ لیں گے!سب ٹھیک ہو جائے گا بھائی! وہ ہمیں کبھی نہیں ماریں گے!!" میں نے دونوں کو دُعاؤں کے ساتھ فون بند کیا اور نمبر محفوظ کر لیا۔اگلے روز گزرے کئی گھنٹوں سے مذاکرات کی خبریں آ رہی تھیں اور میں حقیقتاً گُزرے ایک ہفتے سے جاری اس قصے کے خاتمے کی توقع کرتا، ٹی وی پر مذاکرات کو حتمی مراحل میں داخل ہوتا دیکھ رہا تھا کہ احساس ہونے لگا کہ کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے چند شخصیات کو اسلام آباد فون کر کے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ معاملہ بگڑنے کو ہے تو جواباً ان خدشات کو بلا جواز قرار دیا گیا لیکن وہ دُرست ثابت ہوئے اور علماء کے وفد کی ناکامی اور چوہدری شجاعت کی پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی وہ عسکری کارروائی شروع ہو گئی جس کی قوت کے بارے میں، موقع پر موجود ایک سرکاری افسرکا بیان تھا "لگتا ہے پوری بھارتی فوج نے چھوٹے ملک بھوٹان پر چڑھائی کر دی ہے" فائرنگ۔۔دھماکے۔۔گولہ باری۔۔شیلنگ۔۔جاسوس طیارے۔۔گن شپ ہیلی کاپٹرز۔۔۔خُدا جانے کیا کچھ!! اور پھر باقاعدہ آپریشن شروع کر دینے کا اعلان۔ اس دوران عبد الرشید غازی سے بھی ایک بار ٹی وی پر گفتگو کا موقع ملا۔۔اور پھر پتہ چلا کہ اُن کی والدہ آخری سانسیں لے رہی ہیں!! اور تبھی صبح صادق فون پر ایس ایم ایس موصول ہوا"پلیز کال" یہ اسماء تھی!! میں نے فوراً رابطہ کیا تو دوسری طرف۔چیخیں۔۔شور شرابہ۔۔لڑکیوں کی آوازیں"ہیلو۔۔اسماء! بیٹی! ہیلو " خُدا جانے وہاں کیا ہو رہا تھا"ہیلو بیٹی آواز سُن رہی ہو" میں پوری قوت سے چیخ رہا تھا۔"بات کرو کیا ہوا ہے" وہ جملہ۔۔آخری سانسوں تک میری سماعتوں میں زندہ رہے گا! ایک بلک بلک کر روتی ہوئی بچی کی رُک رُک کر آتی آواز "باجی مر گئی ہے۔۔مر گئی ہے باجی۔۔" اور فون منقطع ہو گیا!! اسٹوڈیوز سے کال آ رہی تھی کہ میں صورتحال پر تبصرہ کروں لیکن میں بار بار منقطع کال ملانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا!! کچھ کہنے یا سُننے کی ہمت نہ تھی۔کسی کمانڈو جیسی طاقت،اعجازالحق جیسی دیانت اور طارق عظیم جیسی صداقت نہ ہونے کے باعث مجھے ٹی وی پر گونجتے ہر دھماکے میں بہت سی چیخیں۔۔فائرنگ کے پیچھے بہت سی آہیں اور گولہ باری کے شور میں"بھائی جان! یہ ہمیں کیوں ماریں گے؟" کی صدائیں سُنائی دے رہی تھیں۔چھوٹے چھوٹے کمروں میں دھواں بھر گیا ہو گا۔اور باہر فائرنگ ہو رہی ہو گی۔بہت سی بچیاں تھیں۔۔فون نہیں مل رہا تھا۔۔پھر عمارت میں آگ لگ گئی۔ اور میں اسماء کو صرف اُس کی لا تعداد دُعاؤں کے جواب میں صرف ایک الوداعی دُعا دینا چاہتا تھا۔۔ناکام رہا۔ فجر کی اذانیں گونجنے لگیں تو وضو کرتے ہوئے میں نے تصور کیا کہ وہ جو سیاہ لباس میں ملبوس مجھ سے خواہ مخواہ بحث کر رہی تھیں۔۔اب سفید کفن میں مزید خوبصورت لگتی ہوں گی! جیسے پریاں۔ قحبہ خانوں کے سر پرستوں کو نوید ہو کہ اب اسلام آباد پُر سکون تو ہو چکا ہے لیکن شاید اُداس بھی! اور یہ سوال بہت سوں کی طرح ساری عمر میرا بھی پیچھا کرے گا کہ وہ کون تھیں ؟ کہاں چلی گئیں؟ (دونوں مرحوم بچیوں سے وعدے کے مطابق اُن کے فرضی نام تحریر کر رہا ہوں)

عمار ، اس کالم کے بارے میں مجھے میرے کزن فیصل اقبال نے لاہور سے آج ہی فون پر بتایا تھا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کا کالم ضرور پڑھنا اور پھر بات کریں گے ، وہ بھی کہہ رہا تھا کہ کالم پڑھ کر وہ بھی روتا رہا ، کالم پڑھ کر میری آنکھیں جو اس سانحے کے بعد کئی بار نم ہوئی ہیں ایک بار پھر نم ہو گئیں۔

اب لوگوں کو بہت قانون یاد آ رہے ہیں اور قانون کی خلاف ورزی پر کس سنگدلی سے تبصرے بھی کر رہے ہیں کہ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا اور دہشت گرد ، انتہا پسند کے الفاظ‌ کس آسانی سے استعمال ہو رہے ہیں ، یہ بھول کر کہ اپنے طرز عمل سے یہ لوگ خود کو کس انتہا پر پہنچا چکے ہیں۔ لاقانونیت کو جو راج ملک میں ہے اس کے بعد جب کوئی قانون کی بنیاد پر حکومتی کاروائی کی بات کرتا ہے اور اس طرح کی بات کی تائید کرتا ہے تو دل کٹ جاتا ہے کہ قانون کا مذاق بنانے والے لوگوں کی طرف سے قانون کی بات۔
حقیقت یہ ہے کہ معصوم بچے ، بچیوں ، نو عمر طلبا طالبات جو غربا کے بچے تھے اور دین کی تعلیم حاصل کر رہے تھے ان کا وحشیانہ قتل عام کیا ہے اس حکومت نے اور خونی لکیر کھینچی ہے دین کی تعلیم لینے والوں میں اور روشن خیال طبقہ کے درمیان۔ یہ سوال بہت کھل کر کیا جا رہا ہے کہ یہ کام حکومت نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اپنے مغربی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے اور یہ بتانے کے لیے کیا ہے کہ ملک میں دین کے نام لیوا اور اس پر کٹ‌ مرنے والے ابھی بہت ہیں جنہیں آپ انتہا پسند سمجھتے ہیں ، صرف ہم ہی اس بیدردی اور سفاکی سے ان کا قتل عام کر سکتے ہیں اور تمام مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو طاقت کے زور سے دبا بھی سکتے ہیں۔

قحبہ خانوں اور اخلاقی برائیوں کو پنپنے پر خاموش بیٹھے رہنے کی تاکید اور حمایت دی ہے اس حکومت نے اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ان برائیوں کی پشت پناہی اسمبلی میں بیٹھے لوگ ہی کرتے ہیں جن کی پہنچ اتنی ہوتی ہے کہ پولیس ان پر ہاتھ ڈالنا تو ایک طرف ایسا سوچتے ہوئے بھی ڈرتی ہے۔
 
1_704617_1_34.jpg

والدین ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ہوئے جارہے ہیں اور یہاں دفن کیا جارہا ہے کیوں؟
اور صدر پرویز نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آبادکہا کہ لال مسجد میں 25 سو خواتین کودکش حملہ آور 6 سو جیش محمد کے کارکن اور جامعہ فریدیہ کے 18 سو خود کش حملہ آور موجود ہیں کہاں ہیں ابھی تک نظر تو نہیں آئے کیا انہیں گھر بھیج دیا گیا ہے

باسم یہاں اس لیے دفن کیا جا رہا ہے کہ حکومت نے پچھتر افراد یہاں دفن کیے ہیں ۔

809101524_793111db9d_m.jpg


اتنی لمبی قطار قبروں کی یقینا لوگوں سے بہت سے سوال پوچھ رہی ہے جس کے جواب ہم سے اگلی نسلیں بھی پوچھیں گی کہ ہم سب کہاں سو رہے تھے جب ان قبروں کی تیاری کی جا رہی تھی۔

یہ صرف دو قبرستان ہیں جن میں ایک کو حکومت نے دکھایا ، ایک کو آج ٹی وی نے اور باقی قبرستان اور اجتماعی تدفین تک شاید کسی کی رسائی نہ ہو سکے۔
 

رضوان

محفلین
سچی بات یہ ہے کہ بڑا جِگرا ہے دوستو آپ کا کہ آنسوؤں کے ساتھ ساتھ تجزیے بھی چھاپتے رہے ہاں یہ ضرورہے کہ اس طرح شاید دل کا غبار ہلکا ہوتا رہا لیکن میں اپنے آپ کو اس قابل نہ رکھ پایا اور باوجود سب پڑھنے کے ہمت ہی نہیں ہوئی کہ لاگ ان ہوسکوں اظہار خیال تو بعد کی بات ہے۔ جب آپ متاثرہ لوگوں میں ہوں تو چاہے بات جائز ہی کیوں نہ ہو لیکن ٹوٹے ہوئے بیکس بے بس لوگوں کا دل اپنی بقراطیت سے مزید نا ہی توڑا جائے تو بہتر ہے۔ دور بیٹھ کر تجزیہ بگھارنا اور چیز ہے اور جن لوگوں کے پاس اپنی میتوں کو اپنے گھروں آبائی قبرستانوں تک لے جانے کا خرچہ نا ہو اور ان اخراجات کے لیے انہی لوگوں کی طرف دیکھنا پڑے جنہیں وہ قاتِل سمجھتے ہیں جانے یہ سب کر گزرنے والے لوگوں کے دل گوشت کے یقینًا نہیں ہوتے۔ وقت لگے گا اس سانحے کے اثرات اور جزباتیت سے نکلنے میں اس کے بعد ہی صحیح حقائق سامنے آئیں گے اس وقت کا تاثر یہی ہے "مُلا نکل گیا اور مجاہد ڈٹا رہا" اگر صرف عبدالرشید غازی کی ذات کی حد تک بات ہو تو (گو کہ بات اتنی سادہ نہیں ہوتی ) " نڈر اور بہادر شخص" جس نے منافقوں کا چہرہ طشت ازبام کردیا۔ شاید اسکی رگوں میں ابھی اسکی ذاتی محنت کی کمائی کے اثرات باقی تھے خیراتی روٹی کا خمار غالب نہیں آیا تھا جبکہ مُلا کو ابھی بہت کام کرنا ہے ابھی بہت سے لوگوں کو جنت کی بشارت دینی ہے۔

پاک فوج کی کارکردگی سے رشین کمانڈوز کی چیچن جانبازوں سے اسکول کے یرغمالی بچے رہا کروانے والی کاروائی یاد آگئی۔
 
سچی بات یہ ہے کہ بڑا جِگرا ہے دوستو آپ کا کہ آنسوؤں کے ساتھ ساتھ تجزیے بھی چھاپتے رہے ہاں یہ ضرورہے کہ اس طرح شاید دل کا غبار ہلکا ہوتا رہا لیکن میں اپنے آپ کو اس قابل نہ رکھ پایا اور باوجود سب پڑھنے کے ہمت ہی نہیں ہوئی کہ لاگ ان ہوسکوں اظہار خیال تو بعد کی بات ہے۔ جب آپ متاثرہ لوگوں میں ہوں تو چاہے بات جائز ہی کیوں نہ ہو لیکن ٹوٹے ہوئے بیکس بے بس لوگوں کا دل اپنی بقراطیت سے مزید نا ہی توڑا جائے تو بہتر ہے۔ دور بیٹھ کر تجزیہ بگھارنا اور چیز ہے اور جن لوگوں کے پاس اپنی میتوں کو اپنے گھروں آبائی قبرستانوں تک لے جانے کا خرچہ نا ہو اور ان اخراجات کے لیے انہی لوگوں کی طرف دیکھنا پڑے جنہیں وہ قاتِل سمجھتے ہیں جانے یہ سب کر گزرنے والے لوگوں کے دل گوشت کے یقینًا نہیں ہوتے۔ وقت لگے گا اس سانحے کے اثرات اور جزباتیت سے نکلنے میں اس کے بعد ہی صحیح حقائق سامنے آئیں گے اس وقت کا تاثر یہی ہے "مُلا نکل گیا اور مجاہد ڈٹا رہا" اگر صرف عبدالرشید غازی کی ذات کی حد تک بات ہو تو (گو کہ بات اتنی سادہ نہیں ہوتی ) " نڈر اور بہادر شخص" جس نے منافقوں کا چہرہ طشت ازبام کردیا۔ شاید اسکی رگوں میں ابھی اسکی ذاتی محنت کی کمائی کے اثرات باقی تھے خیراتی روٹی کا خمار غالب نہیں آیا تھا جبکہ مُلا کو ابھی بہت کام کرنا ہے ابھی بہت سے لوگوں کو جنت کی بشارت دینی ہے۔

پاک فوج کی کارکردگی سے رشین کمانڈوز کی چیچن جانبازوں سے اسکول کے یرغمالی بچے رہا کروانے والی کاروائی یاد آگئی۔

سچ کہہ رہے ہو رضوان اور ایک ایک لفظ سچ ہے جو لکھا تم نے۔ کتنے ہی چیزیں لکھنے کی کوشش کی صرف اس لیے کہ جو بیچارے اب بھی بے خبر ہیں اور سرنڈرڈ میڈیا سے جو خبریں ان کو ملتی رہیں ان کو ہی سچ سمجھے بیٹھے ہیں وہ کچھ حقائق بھی جان لیں مگر بار بار ہمت ٹوٹتی رہی یہ دیکھ کر کچھ لوگ اب بھی حکومت کے اقدام کو صحیح سمجھ رہے ہیں اور جن لوگوں نے جان دے کر ان کا ظلم صاف دکھا دیا ان پر اب بھی تنقید جاری ہے ، کتنے الزامات لگتے رہے اور کیا کیا نہ کہا گیا مگر ان بہادروں کا شاید میڈیا ٹرائل ابھی جاری ہے۔ اسلام آباد کے رہنے والوں سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے اور کون سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح لمحہ قتل عام کی طرف بڑھتا دیکھ کر دل لرزتا رہا اور یہی امید رہی آخر تک کہ شاید سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ، ابھی معاملہ طے ہو جائے گا ابھی بہتری کی کوئی صورت نکل آئی گی مگر ١٠ جولائی کو جو ہوا اور جو جو اسلام آباد میں موجود تھا وہ شاید ساری زندگی اس خون کی ہولی کو نہ بھول سکے۔ غریب ، بے سہارا طلبا و طالبات جن کے پاس شاید یہ واحد جگہ تھی جہاں وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ معاشی پریشانیوں سے بھی آزاد تھے اپنی غربت اور دینی تعلیم کے لیے کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی انہیں۔ ان بدقسمتوں کو کیا معلوم تھا کہ جس شہادت کا ذکر وہ بار بار اپنے نصاب میں پڑھ رہے ہیں اور جس کا شوق ان میں پیدا کیا جارہا ہے وہ ان پر کس طرح مسلط کی جائے گی۔ گھیراؤ کے بعد کس نے کس وجہ سے گولیاں چلائیں اور کون مجرم تھا کون نہیں اس کے لیے تو شاید ہمیں روز حشر کا انتظار بھی کرنا پڑے مگر جن لوگوں نے اپنے نظریے پر جان دیدی ان سے بھی اب تک اخلاص کے ثبوت مانگنے پر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہتھیار ڈالنے کی آپشن تو آخری دم تک حکومت نے رکھی تھی جو مخلص نہیں تھا یا جس کے دل میں اخلاص سے زیادہ خوف تھا وہ آخری دن بھی ہتھیار ڈال کر گرفتار ہو گیا باقیوں کے ساتھ جو فوج نے کیا وہ اسلام آباد کے تمام رہائشیوں کے دلوں میں ان لوگوں کی قبریں بنا گیا ہے جو اس معرکے میں کام آگئے۔

نیتیں اعمال سے پہچانی جاتی ہیں الفاظ سے نہیں اور لال مسجد کو لال رنگ کس نے کس کا خون لے کر دیا یہ اگر اب بھی کوئی نہ جانے تو ایک بار انسان سمجھ کر خود سے یہ سوال کر لے کہ انسانی خون ہم نے کس کا کس کے لیے حلال کر دیا۔ مرنے والے کیا انسانیت کے شرف سے محروم ہو گئے تھے اور آخر وقت تک میڈیا کو بلانے اور سب حقائق خود دیکھنے کی بارہا دعوت دی اور جاتے جاتے سیاسی علما کی سیاست بھی بے نقاب کی۔

صرف اپنی ہی نہیں اپنے بیٹے اور والدہ کو بھی اپنی ہی نظروں کے سامنے جاتا دیکھنا جس حوصلے اور جس اخلاص کا تقاضہ کرتے ہیں وہ دور سے بیٹھ کر تبصرہ کر دینے والوں کو شاید کبھی نظر نہ آئے مگر جن لوگوں نے اسے قریب سے ہوتے دیکھا اور آخری دم تک استقامت دیکھی اور زخمی حالت میں بھی استعماریت اور جبر کے خلاف سر نہیں جھکایا وہ مخالفت کے باوجود اس امر کے قائل ہوگئے۔ موت کو اتنا قریب دیکھ کر بڑے بڑے جی داروں کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے کجا کسی مفاد پرست یا خود غرض کا کھڑا رہنا۔

اگر غازی عبدالرشید کو اسلام آباد میں دفن کرنے کی اجازت مل جاتی تو دنیا دیکھ لیتی کہ لوگ کس کے ساتھ تھے اور کسے حق پر سمجھتے تھے۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
پتہ نہیں کہا سے شروع کرو اور کہاں پر روک جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیامیرا اسلام اتنا بے سوچ اور مغرب وائرس سے متاثر ہے ۔ کہ آج وہ یہود اور نصاری کے انگلیوں پر ناچ رہا ہے ایک طرف میرا مجاہد شہید ہو رہا ہے تو دوسرے طرف میرا محافظ ہلاک ہو رہا ہے
ایک طرف افسوس ہو رہا ہے تو دوسری طرف خوشی ہو رہی ہے ایک طرف تو فوج پر حملے ہو رہے ہیں تو اس کی مذمت کرو کہ خوشی مناؤ۔ اگر مذمت کرو تو میرے روحانی درسگاہیں ختم ہو رہی ہیں اگر خوشی مناؤ تو یہود اور نصاری کے لیے ایک تفریح مہیا کر رہا جیسے دو ٹیمیں اپس میں پریکٹس کر رہے ہوں
یا اللہ تو عظیم ہے تو خود اپنے قرآن میں کہتا ہے
"کہ میں بہترین منصوبہ ساز ہوں" تو مشرکین کفار یہود نصاری کے منصوبے ان پر الٹا دے
یا اللہ ہم کمزور ہیں تو بہتر جانتا ہے تو ہمیں شہادت کی موت دین اسلام کی عظمت اور مسلمان بہنوں کی عصمت اور شہید بھائیوں کی ارزو کی خاطر دے
یا اللہ جس طرح اس دنیا میں جدید ٹیکنالوجی یعنی ایک سوفٹ ویر ڈیٹکٹ کرتا ہے کہ یہ وائرس ہے اس طرح ہماری بھی اصلاح کرلیں کہ ہم اپنے وائرس کو پہچان سکے کہ یہ کام تیرے احکامات کے خلاف ہے

اللہ اکبر اللہ اکبر
 

فرضی

محفلین
اٹک ...........…لال مسجد آپریشن کے بعد اخبارات کو جاری کی گئی غیر ملکی باشندوں کی تصاویر میں سے ایک اٹک کے رہائشی شاہد عثمان کی ہے۔ شاہد عثمان کا خاندان گزشتہ طویل عرصے سے شکر درہ میں مقیم ہے ۔شاہد عثمان کو اپنے گاؤں کے ا سکول سے میٹرک کرنے کے بعد دینی تعلیم کے حصول کے لئے لال مسجد میں داخل کرایا گیا۔ لال مسجد آپریشن کے بعد حکومت کی جانب سے شاہد عثمان کی تصویر کو بطور غیر ملکی انتہا پسند شائع کیے جانے پر اس کے والدین اور عزیز و اقارب حیران ہیں۔ شاہد عثمان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ شاہد کا چھوٹا بھائی صفی الدین بھی لال مسجد آپریشن کے بعد پمز اسپتال میں زخمی حالت میں داخل ہے ۔ جس سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں ہے ۔

بشکریہ جنگ
 

اظہرالحق

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
پتہ نہیں کہا سے شروع کرو اور کہاں پر روک جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیامیرا اسلام اتنا بے سوچ اور مغرب وائرس سے متاثر ہے ۔ کہ آج وہ یہود اور نصاری کے انگلیوں پر ناچ رہا ہے ایک طرف میرا مجاہد شہید ہو رہا ہے تو دوسرے طرف میرا محافظ ہلاک ہو رہا ہے
ایک طرف افسوس ہو رہا ہے تو دوسری طرف خوشی ہو رہی ہے ایک طرف تو فوج پر حملے ہو رہے ہیں تو اس کی مذمت کرو کہ خوشی مناؤ۔ اگر مذمت کرو تو میرے روحانی درسگاہیں ختم ہو رہی ہیں اگر خوشی مناؤ تو یہود اور نصاری کے لیے ایک تفریح مہیا کر رہا جیسے دو ٹیمیں اپس میں پریکٹس کر رہے ہوں
یا اللہ تو عظیم ہے تو خود اپنے قرآن میں کہتا ہے
"کہ میں بہترین منصوبہ ساز ہوں" تو مشرکین کفار یہود نصاری کے منصوبے ان پر الٹا دے
یا اللہ ہم کمزور ہیں تو بہتر جانتا ہے تو ہمیں شہادت کی موت دین اسلام کی عظمت اور مسلمان بہنوں کی عصمت اور شہید بھائیوں کی ارزو کی خاطر دے
یا اللہ جس طرح اس دنیا میں جدید ٹیکنالوجی یعنی ایک سوفٹ ویر ڈیٹکٹ کرتا ہے کہ یہ وائرس ہے اس طرح ہماری بھی اصلاح کرلیں کہ ہم اپنے وائرس کو پہچان سکے کہ یہ کام تیرے احکامات کے خلاف ہے

اللہ اکبر اللہ اکبر


ہمار ایک ہی وائرس ہے اور وہ ہے روشن خیالی ۔ ۔ ۔ ہم بھول چکے ہیں

خاص ہے ترکیب میں رسول ہاشمی

اور اس ناسور کا علاج ہے ہم اپنی راحتیں چھوڑیں اور ۔ ۔ ۔ کمر کس کر ہر میدان میں جنگ لڑیں ۔ ۔ ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں ان نام نہاد دانشوروں اور شریعت کے نفاذ کے داعیوں کو بھی اس سانحے کا برابر کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں جو لال مسجد کی خلاف قانون کاروائیوں کی حمایت کرتے رہے اور انہیں ہلاشیری دیتے رہے اور بعد میں یہ لاشیں گرنے کا تماشہ دیکھتے رہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
میں ان نام نہاد دانشوروں اور شریعت کے نفاذ کے داعیوں کو بھی اس سانحے کا برابر کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں جو لال مسجد کی خلاف قانون کاروائیوں کی حمایت کرتے رہے اور انہیں ہلاشیری دیتے رہے اور بعد میں یہ لاشیں گرنے کا تماشہ دیکھتے رہے۔
نبیل بھائی ! بتانا پسند کرینگے یہ کون لوگ ہیں؟ یا وہی نادیدہ قوتوں والی تان؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
نبیل بھائی ! بتانا پسند کرینگے یہ کون لوگ ہیں؟ یا وہی نادیدہ قوتوں والی تان؟

ساجد، میں نے کوئی زیادہ مبہم بات نہیں کی۔ اخبارات کے ادارتی صفحات، ویب پر بلاگز اور خود اسی فورم پر پیغامات میں لال مسجد کے جانب سے اغوا کی کاروائیوں کو اسلامی انقلاب کی نوید قرار دیا گیا تھا۔
 

رضوان

محفلین
نبیل بھائی ! بتانا پسند کرینگے یہ کون لوگ ہیں؟ یا وہی نادیدہ قوتوں والی تان؟

مُلا فضلو، باقیاتِ ضیاع الحق اور دیگر چوہدری
جن کے نام آج خلقِ خدا کا نقارہ گلی گلی دُھنتا جارہا ہے ۔ یہ قعر مذلت کے اس گہرے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں کہ بار بار ان کے کیے ہوئے پیمان دھتکار دیے جاتے ہیں لیکن یہ مجبور ہیں بوٹ چاٹننے پر ورنہ بوٹ چہرے پر پڑیں گے کہ گزشتہ اعمالوں کا نوشتہ صاحبِ بوٹ کے ہاتھ میں ہے اسی لیے استعفٰی تک نہیں دے سکتے۔
 

سید ابرار

محفلین
میں ان نام نہاد دانشوروں اور شریعت کے نفاذ کے داعیوں کو بھی اس سانحے کا برابر کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں جو لال مسجد کی خلاف قانون کاروائیوں کی حمایت کرتے رہے اور انہیں ہلاشیری دیتے رہے اور بعد میں یہ لاشیں گرنے کا تماشہ دیکھتے رہے۔

اخبارات کے ادارتی صفحات، ویب پر بلاگز اور خود اسی فورم پر پیغامات میں لال مسجد کے جانب سے اغوا کی کاروائیوں کو اسلامی انقلاب کی نوید قرار دیا گیا تھا۔
”حیرت“ کی بات ہے ،بلکہ ،،،،،،،،،،،،،،،تھوڑا ”سوچنے “ کی ضرورت ہے ،
کہ جب چیف جسٹس افتخار چودھری کو ”صدر پرویز مشرف “ نے معطل بلکہ شاید ”معزول“ کیا تھا ، تو وکلاء کی طرف سے ایک شاندار ”احتجاج “ شروع کیا گیا تھا ، اور ان کا مطالبہ تھا ، کہ اس ”فیصلہ“ کو واپس لیا جائے ، تو تقریبا “دانشور“ حضرات نے اس مطالبہ کی حمایت کی تھی ، بلکہ ”روشن خیال حضرات“ نے بھی ، اور عنوان تھا کہ ”قانون کی بالا دستی“ کو برقرار رکھا جائے، اس احتجاج میں بھی ”خلاف قانون کاروائیاں“ ہوئی تھیں، ”لاشیں“ تو اس میں بھی گری تھیں،
مگر اس سارے المیہ کا ذمہ دار سب نے بالاتفاق حکومت کو قرار دیا تھا ، اور ”ان خلاف قانون “ کاروائیوں کو مھذب جمھوریت کا ایک نمونہ بتایا گیا تھا ، یہی نھیں بلکہ ”قانون کی بالا دستی “ کے عنوان پر ملک کی تمام عدالتوں کو نہ صرف ”معطل“ کردیا گیا بلکہ شاید ”انصاف فراہم کرنے کے نظام کو بھی ، اور اس احتجاج کی تائید نہ کرنے والے وکلاء کو دنیا سے ”معطل“ کرنےکی دھمکیاں بھی شاید انھی معزز قانون پسند معزز وکلاء نے دی تھیں بلکہ شاید ”زدو کوب“ بھی کیاتھا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، یہ سب ہورہا تھا لیکن کسی نے ملک میں پیدا کی جانے والی اس ”شورش“ کا ذمہ دار ، یا لاشیں گرنے کا ذمہ دار اور اور ”ہڑتالوں“ کے نتیجہ میں معطل ہونے والی ”عوامی سرگرمیاں“ جس کے نتیجہ میں ہونے والی ”عوامی پریشانیاں“ ،،،،،،،،،، ان سب کا ذمہ دارکسی نے وکلاء کو نہیں قرار دیا ،بلکہ ان سب کے ذمہ دار صرف اور صرف جنرل پرویز ”صاحب“ ہی تھے ، ”حیرت “ہے کسی نے اس کونہ ”باغیانہ اقدامات “میں شمار کیا ، اور نہ کسی کو” اس میں“ آنے والے ”قانونی انقلاب“ کی آہٹ سنائی دی ، اور نہ کسی کو اس میں ”پرویز مشرف “ کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش نظر آئی ،
لیکن جب لال مسجد سے شہید مساجد کی دوبارہ تعمیر کا ، قحبہ خانے بند کیے جانے کا ، گناہوں کے سر عام ”مراکز“ کو بند کیے جانے کا ، اور شریعت کے 100 فیصد نفاذ کے مطالبات شروع کئے گئے ،
اور عنوان تھا ”اللہ کے قانون کی بالا دستی “ ،
اب ”عملی احتجاج “ بھی شروع ہوا ، قریب کے محلہ والوں کی شکایت پر ایک قحبہ خانہ سے چند عورتوں کو پکڑ کر لایا گیا اور چند دن اپنے پاس رکھ کر ”انتھائی محبت سے “ان سے توبہ کروائی گئی ،
مگر یہ ”عمل “ پاکستانی قانون کے اعتبار سے ”اغوا“ بن گیا ، ایسا ”انوکھا اغوا “ بھی شاید ہی ”تاریخ “ میں کبھی ہوا ہو کہ ”پوری دنیا “ کو یہ بھی معلوم کہ ان کو ”کھاں“ رکھا گیا ، اور یہ بھی معلوم کہ ان کو ”کس “ نے ”اغوا “ کیا اور یہ بھی معلوم کہ ان ”مغویہ حضرات “کا شمار محلہ والوں کی ”گواہی“ کے مطابق ”زانیوں “ میں ہوتا ہے ، اور یہ بھی معلوم کہ ”چند دنوں کے بعد ”ان “ کو چھوڑ دیا جائے گا ،
مگر ”روشن خیال “ میڈیا نے اس احتجاجی عمل کو ”اغوا “ قرار دیا اور حیرت ہے ہم نے اس کو ”مان “ بھی لیا

یھی نھیں بلکہ سرکاری لائبریری پر طالبات کے ہونے والے احتجاجی قبضہ کو خود ”سرکار“ کے خلاف ”حملہ“ مان لیا گیا ،
بھر حال دوستو ،ان کی طرف سے ہونے والے ”اقدامات “ کو بجائے ایک احتجاج قرار دیکر ، ان کے تمام مطالبات جو بالکل جائز تھے یا کم از کم کچھ مطالبات مان کر معاملہ کو ختم کرنے کی بجائے اس سارے معاملہ کو میڈیا کی طاقت کی بنیاد پر پروپیگنڈہ کے ذریعہ ایک ایسا رخ دیا گیا کہ ہر ”مھذب فرد “ کو اس میں ”بغاوت“ کی بو آنے لگی اور اس کو ایک ”فتنہ “ شمار کیا جانے لگا ، اور یہی نہیں ”میڈیا “ نے ایسا نقشہ کھینچا کہ ہر ایک کو جامعہ حفصہ کے اندر اسلحہ کے ڈھیر ، بموں کے انبار بلکہ ”دنیا بھر کے مھلک ہتھیار“ نظر آنے لگے ،
برقعہ پوش طالبات کو بھی ”نقاب پوش “ دہشت گرد سمجھ لیا گیا ، مدرسہ کے اندر طلبہ کی بجائے ہر ایک کو ”ایسا“ لگنے لگا کہ ملا عمر نے پاکستان ”فتح “ کرنے کے لئے ، طالبان کا ایک فوجی دستہ جامعہ حفصہ کے ”قلعہ“ میں بھیج دیا ہے ، اور ملا عمر کی ”کرامتیں “ تو مشھور ہی ہیں ، لہذا یہ” فوجی دستہ “ ہواؤں میں اڑکر اسلام آباد پھونچ گیا ،
بھر حال دنیا کو باور کرایا گیا کہ یہ ”اسلامی انقلاب “ لانا چاہتے ہین ،مذاکرات کے ”ڈھونگ “ رچائے گئے ، اور یہ بتایا گیا کہ اگر ان ”افراد “ کو نہیں کچلا گیا تو یہ ایک ”ایٹمی طاقت “ پاکستان کے لاکھوں فوجیوں کو ”شکست فاش “ دیکر پاکستان کے تخت پر ”قبضہ “ کرلیں گے ، اور پھر سب کی شخصی آزادی سلب کرکے مردوں کو ”داڑھیاں“رکھوائیں گے اور عورتوں کو ”برقعہ “پہنادیں گے ،غرض یہ ہے کہ سب ڈر گئے ، مرد بھی ،عورتیں بھی ، سب نے چلانا شروع کیا کہ ان کو ”ختم کرو “ اور ملک کی سالمیت کو چیلنج کرنے والوں کا فوری آپریشن کرو ،تاکہ دوبارہ کبھی پاکستان میں نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے کی کوئی ”ہمت “ کیا کوئی اس بارے میں سوچ بھی نہ سکے ،
اور لگانے کے لئے ”الزامات“ تو ڈھیر سارے” وقت ضرورت “نکل ہی آتے ہیں ، آخر پرویز مشرف کی حکومت کی ”رٹ“ کو چیلنج کیا گیا تھا ،ظاپر ہے اللہ کے قانون کی ”رٹ “ کا درجہ تو کم ہے پرویزی قانون کی رٹ کے سامنے ، بھر حال سب کی خواہش پوری کرنے کے لئے ایٹمی طاقت پاکستان نے جامیہ حفصہ پر چڑھائی کردی ،
مگر سب ہکا بکا رہ گئے ، نہ تو طالبان کا فوجہ دستہ ملا ، نہ جراثیمی ہتھیار اور نہ ہتھیاروں کے ڈھیر ، اور برقعوں کے اندر بھی بجائے دہشت گردوں کے ”پاکستانی دوشیزائیں “ ہی بر آمد ہوئیں ، جو آخری وقت تک پاک آرمی کو اپنی مدد کے لئے آنے والے بھائی ہی سمجھتی رہیں ، جو انھیں ”پولیس “ سے بچانے کے لئے آئی تھی مگر انھیں کیا معلوم تھا کہ یہ موت کے فرشتے تھے جو ان کی روح نکالنے کے لئے ”یزید وقت پرویز مشرف“ کی جانب سے بھیجے گئے تھے ،
اور سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ ہم جو اپنے آپ کو ”تعلیم یافتہ“ اور ”مھذب “پسمجھتے تھے ، بجائے ”غیر جانبداری “ سے ”حالات“ کا جائزہ لینے کے ، ہم نے حکومت کی ہر بات پر بلا سوچے سمجھے ”یقین“ کرلیا ، اور ٹی وی کے رپورٹرز کو ”فرشتے “ سمجھ لیا ۔ اور ان کی ہر بات کو ”وحی “ کا درجہ دے بیٹھے ، کون نہ مرجائے اس سادگی پر ائے خدا، اور واقعتا اس کو ”انقلاب “ سمجھ بیٹھے ،اور اس سانحہ کا ذمہ دار فی الجملہ غازی برادران کو اور ان کے حمایتیوں کو قرار دے دیا
اور ہر ایک یہ کہ کر اپنے آپ کو تسلی دینے لگا کہ یہ کاروائی حکومت کے لئے ”ضروری “تھی ، اس لئے کہ اس نے ہر ایک کو ”یھی“ کھتے ہوے سنا ہے ، اب اتنی ”شدید کاروائی کیوں “ضروری تھی یہ کسی کو ”پوچھنے“کی ضرورت نہیں ، اس لئے کہ کوئی بتانے کو تیار نھیں ، ظاھر ہے ”بتانے “کےلئے کچھ ہے بھی نہیں ، نہ اندر سے ”یرغمالی“ نکلے ، نہ غیر ملکیوں کا فوجی دستہ ،اور نہ ”جراثیمی ہتھیار“

میرے بھولے بھائیو، اب تو ہوش میں آجاؤ، اور اپنی ”عقل و دانش “ کو استعمال کرکے اپنے ”بد ترین دشمن “کو پہچانو ، جس نے ایک بار پھر ملک میں ”خانہ جنگی “ بر پا کروانے ، اور اس کو ”دبانے “کے نام پر
اپنے ”اقتدار“ کو ”فروغ“ دینے کے لئے اپنے کارڈ انتھائی ”ہوشیاری “ سے کھیلے ہیں کہ دوست تو دوست ، دشمن بھی ”دھوکہ “ کھاگئے ،اور ہم تو پھلے ہی سے ”دھوکہ“ میں تھے ،
اب شاید اسلام پسند، لال مسجد کے شہیدوں کے لھو کا بدلہ ،پوری پاک آرمی کو قاتل قرار دے کر ، لینا شروع کریں گے ،اور فوج بھی روزانہ ایک آپریشن کرکے اپنی ”طاقت“ کا لوہا منوائے گی ، اور ہم بیٹھ کر یہ میچ بڑی ”دلچسپی “ سے دیکھیں گے ، آخر ”ذمہ دار “ کا فیصلہ“ بھی تو کرنا ہے ، اور اردو محفل میں اس کو ”ثابت “ بھی کرنا ہے ،
امریکی بھی بیٹھ کر ہنس رہے ہونگے اور اس ”میچ “ سے ”لطف اندوز“ ہورہے ہونگے ، عراق میں شیعہ ، سنی لڑرہے ہیں ، فلسطین میں حماس اور فتح لڑرہے ہیں ، اور اب شاید پاکستان میں مسلم فوج اور ” اسلام پسند“،،،،،،،،،،،،،،، خدا نہ کرے
پتہ نہیں کیوں میرا ہاتھ کانپ رہا ہے اور کیوں آنکھوں سے کچھ بہ رہا ہے،،،،، میں تو اپنے آپ کو بڑے مضبوط اعصاب کا مالک سمجھتا تھا
شاید جب کوئی اپنی نگاہوں کے سامنے ، اپنے گھر کی دیواروں کو گرتا ہوا اور اپنے سرمایہ کو لٹتا ہوا دیکھتا ہوگا تو یہی حالت ہوتی ہوگی ، مگر ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،شاید ”متاع کارواں“ کے لٹنے سے زیادہ ”غم“ ، ”کارواں “ کے دلوں سے ”احساس زیاں “جانے کا ہے ،
 

ابوشامل

محفلین
بہت کچھ کہا گیا، بہت کچھ لکھا گیا، سب کچھ پڑھنے کے باوجود کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہا، نہ اتنے دنوں میں یہ ہمت ہوئی، حالانکہ اتنے دن گذر گئے، بے چین دل کو کچھ قرار تو آ گیا ہے(کاروبار دنیا چیز ہی ایسی ہے، بڑے سے بڑا غم بھلا دیتی ہے) ہاں البتہ زندگی بھر دل میں کسک ضرور رہے گی۔ ان دنوں میں میرا دل یہی کہتا رہا بقول ساجد اقبال کہ ہم گفتار کے غازی ہیں۔ اے شہدائے لال مسجد و جامعہ حفصہ! تم پر اللہ کی رحمتیں ہوں، تم نے جان کے عوض آبرو بیچنے کا سودا نہ کیا، اپنی جانیں دے کر تم نے جس پودے کی آبیاری کی ہے انشاء اللہ بہت جلد وہ ایک تناور درخت بنے گا۔ انشاء اللہ۔
جب بھی کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو نجانے کیوں مجھے وہ بچی اسماء (فرضی نام) یاد آ جاتی ہے جس کا ذکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے کالم میں کیا، مجھے امامہ اور فاطمہ نامی وہ دو لڑکیاں یاد آ جاتی ہیں جن کی سسکیاں اور آہیں "کیپٹل ٹاک" نامی پروگرام کے ذریعے دنیا بھر میں سنی گئیں، مجھے جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی آگ سے سیاہ اور گولیوں سے چھلنی دیواریں یاد آ جاتی ہيں، اور ان معصوم جانوں کی یاد جو شریعت کا مطالبہ کرنے پر اس جگہ پہنچا دی گئیں جہاں انہیں جانے کا بہت شوق تھا، اپنے رب سے ملنے کا۔ لال مسجد کا وہ شہید مینار، آپریشن کے خاتمے کے چار دن بعد جامعہ حفصہ سے اٹھتا دھواں، لال مسجد میں جوتوں سمیت "فاتح" فوجی اہلکار اور جامعہ کی دیواروں پر دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں اشعار!! اللہ اللہ!!! دل تڑپ سا جاتا ہے یہ سوچ کر اور دیکھ کر اور پھر کچھ کہنے کی ہمت باقی نہیں رہتی۔

ان پاکیزہ روحوں کو میرا سلام، اللہ کی لاکھوں رحمتیں ان پر نازل ہوں، اور ان کی شجاعت کو سلام جنہوں نے سینے پر گولیاں کھانا تو گوارا کیا لیکن پیٹھ دکھانا نہیں، جنہوں نے ثابت کر دیا کہ جہاں فرعون ہوگا وہاں موسی بھی ہوگا، جہاں یزیدیت پروان چڑھے گی وہاں حسین (رضی اللہ عنہ) مقابلے پر ضرور آئے گا۔

ان دنوں بس ایک ہی نظم میرے ذہن میں گونجتی رہی، اس وقت میرے پاس اس کا آڈیو ورژن تو موجود نہیں، ورنہ وہ بھی پیش کر دیتا لیکن کئی سال قبل سنی گئی اس نظم نے زخموں کو ایک مرتبہ پھر تازہ کر دیا ہے:

ہر جابر وقت سمجھتا ہے محکم ہے مری تدبیر بہت
پھر وقت اسے بتلاتا ہے تھی کند تری شمشیر بہت

دشمن سے کہو اپنا ترکش چاہے تو دوبارہ بھر لائے
اس سمت ہزاروں سینے ہیں اس سمت اگر ہیں تیر بہت

خون شہدا کی تابانی ہر لمحہ فزوں تر ہوتی ہے
جو رنگ وفا سے بنتی ہے ہوتی ہے حسیں تصویر بہت

نکلے جو مجاہد کے لب سے وہ چیز ہی دیگر ہوتی ہے
کہنے کو تو ہم بھی کہتے ہیں ہر مسجد میں تکبیر بہت

تم تیغ و تفنگ پہ نازاں ہو مظلوم کی آہ کو کیا جانو؟
یہ برق کی صورت گرتی ہے اس آہ میں ہے تاثیر بہت

اے راہروانِ راہ وفا! ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں
تم جان پہ اپنی کھیل گئے اور ہم سے ہوئی تاخیر بہت
 
Top