قرۃالعین اعوان
لائبریرین
لاکھ ناکام سہی میں تو ہوں نازاں پھر بھی
ہر مسرت پہ ہے بھاری غمِ جاناں پھر بھی
جانتا ہوں کہ نہیں کام یہ آساں پھر بھی
اپنے معیارِ وفا سے ہے پشیماں پھر بھی
میری پلکوں نے کیا جشنِ چراغاں پھر بھی
کر گئی کام مگر فطرتِ انساں پھر بھی !
کھیل ہے اپنی نظر میں غمِ دوراں پھر بھی
لاکھ ناداں ہو اتنا نہیں ناداں پھر بھی
اس پہ چھائی ہی رہی رحمتِ یزداں پھر بھی
ہر مسرت پہ ہے بھاری غمِ جاناں پھر بھی
عمر بھر ڈھونڈتے رہنا ہے ہمیں تو اس کو
اس کے ملنے کا نہ ہو کوئی امکاں پھر بھی
مانتا ہوں کہ مجھے ضبطِ فغاں کرنا ہے جانتا ہوں کہ نہیں کام یہ آساں پھر بھی
جب بہاروں کا نشاں بھی نہ خزاں نے چھوڑا
میری آنکھوں میں رہا رنگِ بہاراں پھر بھی !
عشق پابندِ وفا ساری جفائیں سہ کراپنے معیارِ وفا سے ہے پشیماں پھر بھی
ہم نے الٹے تو بہت کون و مکاں کے پردے
ہاتھ آیا نہ ترا گوشئہ داماں پھر بھی!!
مجھ کو معلوم تھا ظلمت کا فسوں طاری ہے میری پلکوں نے کیا جشنِ چراغاں پھر بھی
عمر بھر ہم نے کہے حسن کے قصے لیکن!
تشنئہ لفظ رہے سینکڑوں عنواں پھر بھی
ہم نے توبہ کے بہت خود پہ بٹھائے پہرے کر گئی کام مگر فطرتِ انساں پھر بھی !
ہمسفر کوئی نہیں راہِ وفا میں۔۔۔۔ لیکن
دل یہ کہتا ہے کہ ہے ساتھ نگہباں پھر بھی
سختیاں جھیل چکے مشقِ ستم بھی دیکھی کھیل ہے اپنی نظر میں غمِ دوراں پھر بھی
ہم کو دیوانہ کہا سارے جہاں نے لیکن!
ہم ہی نکلے غمِ جاناں کے نگہباں پھر بھی!
دل ترے غم کے عوض عشرتِ دنیا چاہے لاکھ ناداں ہو اتنا نہیں ناداں پھر بھی
دل کو مانوس خزاں سے نہ کہیں کر لینا
آخر آئے گی یہاں فصلِ بہاراں پھر بھی !
میں اٹھاتا ہی رہا جرم و خطا کے طوفاں اس پہ چھائی ہی رہی رحمتِ یزداں پھر بھی
راحتیں لاکھ میسر ہوں قفس میں کیفی
دل کو ڈستا ہی رہے گا غمِ زنداں پھر بھی