لاہور لاہور ہے

جیہ

لائبریرین
زمزمہ نام ہے اس توپ کا۔
(مجھے پتہ ہے آپ بھول گئے تھے نام)
 
میں کیوں بھول گیا تھا نام بھلا
(تاکہ تمہیں موقع مل سکے بتانے کا :lol: )

ویسے لاہور میں کون رہتا ہے ، میں کہ تم :p
 

جیہ

لائبریرین
یہی تو میرا کمال ہے ۔۔۔ لاھور میں رہتے آپ ہیں، اور معلومات مجھے زیادہ ہیں لاہور کے بارے میں۔۔۔

ویسے فیروز پور روڈ والے چوبرجی کے بارے میں آپ نے نہیں بتایا
 
اس میں میرا بھی تو کمال ہے کہ میں کمالِ فن دکھانے کا موقع دیا :)

چوبرجی کا ذکر کرتے کرتے رہ گیا ویسے اچھا یاد کروایا۔

سچ بتاؤ کہیں لاہور میں ہی تو نہیں ٹھکانہ :lol:
 
ایئرپورٹ سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ملتان روڈ ۔ فیروز پور روڈ ۔ پونچھ روڈ ۔ اور دو سڑکوں (لوئر مال اور ساندہ روڈ) کو جو کہ بالترتیب بھاٹی اور ساندہ سے آتی ہیں ملانے والا گول چکر جسے لوگ چوبرجی چوک سے آج جانتے ہیں پہلے ایسا نہیں تھا ۔ پہلے پہل یہ چوبرجی دروازہ جو کہ آج کل چوک کے بیچوں بیچ ہے یہاں اس دروازے کے پیچھے ایک پارک ہوا کرتا تھا ۔ جسے چوبرجی باغ کہا کرتے تھے ۔ انیس سو نواسی میں اس پارک کو گرا کر چوک میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس طرح سے یہ گول چکر بنا جسے آج چوک چوبرجی کہا جاتا ہے ۔ یہاں چوبرجی دروازے کے ساتھ ہی ایک گنے کے رس کی دوکان ہوا کرتی تھی اور بھاٹی جانے والی بسیں ایک لمبا اسٹاپ لیا کرتی تھیں جبکہ جہاں آج ثریا عظیم اسپتال کی عالیشان بلڈنگ ہے وہاں پر ایک مارکیٹ تھی جو کہ جماعت اسلامی کے ٹرسٹ کی ملکیت تھی ۔ ثریا عظیم اسپتال کے بالکل سامنے ٹائروں والی دکان ہوا کرتی تھی جس کے ساتھ ہی ایک گلاب کے پھول ۔ اور قبروں پر رکھنے والی چادریں بیچنے والا تھڑا ہوا کرتا تھا ۔

یہ جو پیلی سی عمارت آپ دیکھتے ہیں ۔ اب سے پہلے بھی یہاں پنجاب ریونیو بورڈ کا دفتر ہوا کرتا تھا۔

پونچھ روڈ وہی سڑک ہے جو کہ چوبرجی چوک سے سمن آباد کے پہلے گول چکر کی طرف جاتی ہے ملتان روڈ کے متوازی اسی پر ایک پرائیویٹ اسپتال ہوا کرتا تھا ۔ اور کچھ آگے جانے پر چوبرجی اسکول کے پچھواڑے ایک بوڑھا آدمی چیکر چھولے اور نان بیچا کرتا تھا ۔

اس دکان کے بالکل سامنے ایک بک سنٹر ہوا کرتا تھا ۔ جبکہ اس کونے سے ایک سڑک میانی صاحب قبرستان سے گزرتی ہوئی بالکل فیروز پور روڈ کو جا ملتی تھی ۔
 

جیہ

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
اس میں میرا بھی تو کمال ہے کہ میں کمالِ فن دکھانے کا موقع دیا :)

چوبرجی کا ذکر کرتے کرتے رہ گیا ویسے اچھا یاد کروایا۔

سچ بتاؤ کہیں لاہور میں ہی تو نہیں ٹھکانہ :lol:

ارے نہیں بھئی۔ بس لہور لہور ہے نا۔۔۔

ویسے آپ شاہی محلے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

غالب کا مصرعہ یاد آگیا

مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیئے :haha:
 

شمشاد

لائبریرین
مغلیہ دور میں اس علاقے میں شاہی بیگمات ہیرے جواہرات اور زرق برق کپڑوں کی خریداری کیا کرتی تھیں۔ اب تو یہ بدنام علاقہ ہے۔ اور ہے بھی بادشاہی مسجد کے زیر سایہ۔
 

جیہ

لائبریرین
شکریہ شمشاد بھائی ۔ آپ نے وضاحت کردی۔

ویسے نور جہاں کے مزار کے کتبے پر لکھے شعر کو پڑھ کر مجھے سچ مچ رونا آگیا تھا۔۔۔۔۔

بر مزارِ غریباںِ ما نے چراغے نہ گلے
(شاید اس طرح کا مصرعہ تھا، اگر میں بھولی نہیں)
 
جویریہ مسعود نے کہا:
محب علوی نے کہا:
اس میں میرا بھی تو کمال ہے کہ میں کمالِ فن دکھانے کا موقع دیا :)

چوبرجی کا ذکر کرتے کرتے رہ گیا ویسے اچھا یاد کروایا۔

سچ بتاؤ کہیں لاہور میں ہی تو نہیں ٹھکانہ :lol:

ارے نہیں بھئی۔ بس لہور لہور ہے نا۔۔۔

ویسے آپ شاہی محلے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

غالب کا مصرعہ یاد آگیا

مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیئے :haha:

ویسے جویریہ کبھی کبھی تو مجھے شک سا ہونے لگتا ہے آپ کہیں لڑکا تو نہیں مگر پھر بھی شاہی محلے کی تاریخ ۔ ماضی اور حال سے کچھ آگاہی کروا ہی دیتا ہوں

شاہی محلہ دراصل شاہی قلعے کے پچھواڑے سے شروع ہوتا ہے اور شاہی مسجد کے قریب تک کا علاقہ ہے ۔ پہلے زمانوں میں شاہی رقاصائیں یہاں رہا کرتی تھیں جبکہ شاہانہ دور کے خاتمے کے بعد کچھ عرصہ فنون لطیفہ کے لیئے نرسری کی حیثیت رکھنے والے اس علاقے کے متعلق یہ غلط فہمی ہر دور میں رہی ہے کہ یہاں عصمت فروشی کا کاروبار کھلے عام ہوتا ہے ۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ ہاں جیسے ہر معاشرے میں انسانیت کا کاروبار کرنے والے مجبوریوں کو سستے داموں اپنی ہوس کی قربان گاہ میں قربان کرتے ہیں بالکل ویسے ہی یہاں بھی کچھ مفاد پرسوں نے مجبوریوں کو بازار میں لا کھڑا کیا ۔ جب ضیا دور میں اس کاروبار پر پابندی لگی اور شدت سے پکڑ دھکڑ ہوئی تو حسن والوں نے دکان اٹھا لی اور پھر شہر میں نئی بننے والی آبادیوں میں عوامی تعاون سے یہ کاروبار ہونے لگا ۔ یہاں پر پھجے کے پائے بہت مشہور ہیں جبکہ حضوری باغ میں قائم پرانا ایئرپورٹ بھی پوری آب و تاب سے قائم ہے ۔ ہاں شاہی محلے کو کبھی ہیرا منڈی بھی کہا جاتا تھا ۔ اور ٹکسالی دروازہ کے سامنے والی آبادی جو گورا قبرستان کے قریب سے شروع ہو کر بلال گنج کے قریب تک جاتی ہے اور اس میں کچھ تھرڈ کلاس ہوٹلز بھی قائم ہیں اس کام میں بہت عرصہ تک اپنا مقام بنائے رکھنے میں کامیاب رہی ۔ آجکل شاہی محلے کا کام سبزہ زار ۔ اقبال ٹاؤن ۔ کھاڑک ۔ گرین ٹاؤن ۔ اور کچھ نئی سکیموں میں چھپ چھپا کر جاری ہے جسے ہر حکومت کے دور میں نئی بساطیں بچھا کر قائم رکھا گیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
آجکل لاہور کی نہر کی رونق دیکھنے والی ہو گی۔ لاہوریوں کی ساری میل اس نہر میں گھل جاتی ہے۔

اور پانی کا رنگ پھر آپ خود اندازہ لگا لیں کیا ہوتا ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
آجکل لاہور نہر کی رونق دیکھنے والی ہو گی، بھلا بتائیں تو نہر کا پانی صاف کیوں نہیں ہوتا؟
 

شمشاد

لائبریرین
اور چڑیا گھر کی سیر بھی تو کروا دیں لگے ہاتھوں، وہاں سے فارغ ہو کر فاطمہ جناح باغ میں بیٹھ کر گپ لگائیں گے۔
 
چڑیا گھر گئے تو مدت ہوگئی مگر سنا تھا کہ دو شیر مر گئے کسی وجہ سے :)

فاطمہ جناح‌ کی بجائے جناح باغ کی سیر نہ کریں ، اس میں ہی قائداعظم لائبریری بھی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
اور نہر کو تو رنگ برنگی بتیاں لگا کر کافی سجایا گیا تھا، کیا اب بھی ویسا ہی ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
اب اندرون لاہور کا ایک چکر لگ جائے، اس کے آٹھ کہ بارہ دروازے، نیلا گنبد، گہما گہمی، لوگوں کا رش، وہ چڑی ماروں کے بھرے ہوئے پنجرے، وغیرہ وغیرہ
 
Top