یہ انتشار ایک ایسی آگ بن چکا ہے جس کا دھواں اتنا کثیف ہے کہ آنکھوں کے سامنے کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔ اس وقت انتخابات سے زیادہ پاکستان کی سلامتی کی فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ قومی و سیاسی معاملات میں کئی امور پر مختلف رائے اس لحاظ سے اچھی چیز ہے کہ اس سے مختلف زاویہ ہائے نظر آجاتے ہیں ۔ اور مسائل سے نمٹنے کے لیئے کئی راہیں نکل آتیں ہیں ۔ مگر اسے تدبر و تعقل کی حدود میں رہنا چاہیئے ۔ جب سوچ یا نقطہِ نظر کا یہ فرق ان حدود سے آگے بڑھ کر دوسروں کی کردار کشی اور ہر قیمت پر اپنا نقطہ نظر منوانے کی شکل اختیار کر لے تو حقیقت کے کئی ایسے پہلو نظر سے اوجھل ہوجاتے ہیں جن کو سامنے رکھ کر ہم حقائق کی تہہ پہنچ سکتے ہیں ۔ اس وقت بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں عمومی رویوں کی جو صورتحال نظر آرہی ہے ، اسے کسی بھی طرح سے قابلِ رشک قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ایک دوسرے کی کردار کشی ، سخت الفاظوں کا استعمال دیکھ کر کسی ذاتی دشمنی کا تاثر ابھرتا ہے ۔ یہ کیفیت کسی بھی قوم کے لیئے تباہ کن ہوتی ہے ۔ ہم سب کو مل کر یہ سوچنا چاہیئے کہ موجودہ انتشار وطنِ عزیز کے خلاف کسی گھناؤنی سازش کا محور تو نہیں ہے ۔ ؟ اور ہم محاذ آرائی کے اس عمل میں کسی کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ہیں ۔ ؟ ۔
اپنے ہی ملک پر تنقید کرنا ہمارا اولین فیشن بن چکا ہے ، اور اس طرح ہم دنیا کو موقع دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور ہمارے رویے کو دیکھ کر ہمارا اور ہمارے ملک کا تشخص بگاڑیں ۔ یہ ملک ہماری پناہ گاہ ہے جہاں ہم اسی صورت میں محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ جب ہم ایک دوسرے کو تحفظ دیں گے ۔ لڑائی جھگڑوں کی آخر کوئی حد ہونی چاہیئے ۔ یہ نہیں کہ مخالف و مخاصمت میں ہم ہر چیز سے غافل ہوجائیں ۔ سیاسی مخالفت نے بھی ہر قسم کی اخلاقی حدوں کا پار کیا ہوا ہے ۔ بینظیر نے اپنی موت سے قبل اپنے کئی مخالف پر الزام لگایا کہ وہ انہیں مارنے کے درپے ہیں ۔ لہذا اب ان کی موت کے بعد وہ لوگ اس سانحے کے ذمہ دار سمجھیں جاتے ہیں ۔ اب اسی طرح آصف زرداری نے بھی مسلم لیگ ( ق ) کو قاتل لیگ کہہ کر پکارا ہے ۔ لہذا اب چوہدری شجاعت وغیرہ کو کچھ ہوجاتا ہے تو سب کی نظریں آصف زرداری کی طرف اٹھیں گی ۔ لہذا ایک ہوش مند پاکستانی کی حیثیت سے اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ اس ملک میں جہاں کہیں بھی آگ لگے اس کی تپش اس کے گھر تک بھی ضرور پہنچے گی ۔ اگر کوئی مسندِ اقتدار پر موجود ہے اور اسے موجودہ صورتحال کا سامنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ اس ملک کی سالمیت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے ۔ آخر ان کے بھی باپ دادا کی ہڈیاں اسی مٹی میں دفن ہیں ۔ ان کی اولادوں کا بھی مستقبل یہیں سے وابستہ ہے ۔ وہ ملک میں اس قسم کے اقدامات کر کے کس طرح اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار سکتے ہیں ۔ یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ سوچ ہے کہ ہم ملک میں ہر قسم کے انتشار اور انارکی کا انہی کو قصوروار ٹہرائیں ۔ سیاسی مخالفت ایک الگ چیز ہے اور ملک دشمنی ایک الگ چیز ۔ لہذا ہم کو اپنی توجہ اس بات پر مرتکز کرنا چاہیئے کہ ان تمام واقعات کا سدباب کیسے ممکن ہے ۔ ہم اپنے ان دشمنوں سے کیسے نمٹ سکتے ہیں۔ جو ہمیں ہمارے ہی ملک میں ایک دوسرے سے لڑاوا کر اپنے مقاصد پورے کر رہے ہیں ۔ مگر ان ترجیحات پر عمل اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب ہم تمام چوہدریوں ، تمام بھٹوؤں کیساتھ تمام سیاسی و مذہبی اختلافات کو بھلا کر صرف ایک قوم کی حیثیت سے سوچیں گے ۔ تو کیا ہم ایک ذمہ دار قوم کی حیثیت سے یہ فرض نبھانے کے تیار ہیں ۔ ؟
اپنے ہی ملک پر تنقید کرنا ہمارا اولین فیشن بن چکا ہے ، اور اس طرح ہم دنیا کو موقع دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور ہمارے رویے کو دیکھ کر ہمارا اور ہمارے ملک کا تشخص بگاڑیں ۔ یہ ملک ہماری پناہ گاہ ہے جہاں ہم اسی صورت میں محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ جب ہم ایک دوسرے کو تحفظ دیں گے ۔ لڑائی جھگڑوں کی آخر کوئی حد ہونی چاہیئے ۔ یہ نہیں کہ مخالف و مخاصمت میں ہم ہر چیز سے غافل ہوجائیں ۔ سیاسی مخالفت نے بھی ہر قسم کی اخلاقی حدوں کا پار کیا ہوا ہے ۔ بینظیر نے اپنی موت سے قبل اپنے کئی مخالف پر الزام لگایا کہ وہ انہیں مارنے کے درپے ہیں ۔ لہذا اب ان کی موت کے بعد وہ لوگ اس سانحے کے ذمہ دار سمجھیں جاتے ہیں ۔ اب اسی طرح آصف زرداری نے بھی مسلم لیگ ( ق ) کو قاتل لیگ کہہ کر پکارا ہے ۔ لہذا اب چوہدری شجاعت وغیرہ کو کچھ ہوجاتا ہے تو سب کی نظریں آصف زرداری کی طرف اٹھیں گی ۔ لہذا ایک ہوش مند پاکستانی کی حیثیت سے اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ اس ملک میں جہاں کہیں بھی آگ لگے اس کی تپش اس کے گھر تک بھی ضرور پہنچے گی ۔ اگر کوئی مسندِ اقتدار پر موجود ہے اور اسے موجودہ صورتحال کا سامنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ اس ملک کی سالمیت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے ۔ آخر ان کے بھی باپ دادا کی ہڈیاں اسی مٹی میں دفن ہیں ۔ ان کی اولادوں کا بھی مستقبل یہیں سے وابستہ ہے ۔ وہ ملک میں اس قسم کے اقدامات کر کے کس طرح اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار سکتے ہیں ۔ یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ سوچ ہے کہ ہم ملک میں ہر قسم کے انتشار اور انارکی کا انہی کو قصوروار ٹہرائیں ۔ سیاسی مخالفت ایک الگ چیز ہے اور ملک دشمنی ایک الگ چیز ۔ لہذا ہم کو اپنی توجہ اس بات پر مرتکز کرنا چاہیئے کہ ان تمام واقعات کا سدباب کیسے ممکن ہے ۔ ہم اپنے ان دشمنوں سے کیسے نمٹ سکتے ہیں۔ جو ہمیں ہمارے ہی ملک میں ایک دوسرے سے لڑاوا کر اپنے مقاصد پورے کر رہے ہیں ۔ مگر ان ترجیحات پر عمل اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب ہم تمام چوہدریوں ، تمام بھٹوؤں کیساتھ تمام سیاسی و مذہبی اختلافات کو بھلا کر صرف ایک قوم کی حیثیت سے سوچیں گے ۔ تو کیا ہم ایک ذمہ دار قوم کی حیثیت سے یہ فرض نبھانے کے تیار ہیں ۔ ؟