شمشاد
لائبریرین
فواد امریکی کڑچھا ہے!!!!
ان کی باتوں پر دھیان نہ دیں۔ ۔ ۔
محترم عارف خان صاحب آپ کسی کی ذات کے متعلق ایسے الفاظ استعمال نہ کریں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔
فواد امریکی کڑچھا ہے!!!!
ان کی باتوں پر دھیان نہ دیں۔ ۔ ۔
محترم عارف خان صاحب آپ کسی کی ذات کے متعلق ایسے الفاظ استعمال نہ کریں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جس حکمران کے دور میں ہم امن و امان کی بدترین حالت کو پہنچ جائیں۔ کوئی بنیادی سہولت میسر نہ ہو کوئی دن ایسا نا گزرے کے دنیا میں ہماری نیک نامی ہو ، اس کو ہم مزید وقت کیوں دیں۔ ظفری صاحب فرض کریں کے ایک تعلمی ادارے جس کا معیار بہت اچھا نہیں ہے، اور درمیانے درجے کا خیال کیا جاتا ہے، اس کا ایک نیا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے، آتے ہی وہ بہت سی تبدیلیاں کرتا ہے، نصاب میں ، ماحول میں، لوگ خوش ہوتے ۔ مجموعی طور پہ کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے لوگوں کو تو کچھ طبقے کہتےہیں کہ یہ بندہ اس کو اوپر لے کے جائے گا ۔ کچھ کو لگتا ہے کہ ٹھیک نہیں کر رہا۔ خیر کچھ عرصہ ٹھیک گزرتا ہے ، مگر پھر آہستہ آہستہ حالات خراب ہونے لگتے ہیں۔ طلبہ تنظیموں کی لڑائيں ہونے لگتی ہیں۔ ادارے میں فوج یا پولیس مسلسل رہتی ہے۔ پھر بھی لڑائیاں ہوتی ہیں۔ ہوسٹلز سے لڑکیاں اغوہ ہونا، ہڑتالیں ، اساتذہ کی مار پیٹ معمول بن جاتا ہے۔ سربراہ صاحب پولیس کو مزید سختی کا کہتے ہیں ۔ چند سالوں میں حالات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ ادارہ درمیانے درجے سے نچلے درجے پہ پہنچ جاتا ہے۔ تمام اچھے اساتذہ کا نکال دیا جاتا ہے یا وہ خود چھوڑ جاتے ہیں۔ کوئی نظم نہیں ادارے میں۔ والدین بچوں کو بھجتے ڈرتے ہیں، سمجھ لیں کے ادارہ بند ہونے کے قریب ہے۔ اس صورت حال میں آپ سربراہ صاحب کی شروع کی چند کامیابیوں کا ہی حوالہ دیتے رہیں گے یا ان کی مزید خدمات لینے سے معذرت کر لیں گے۔ کیونکہ ادارہ تو پہلے ہی بند ہونے کو ہے۔ مشرف صاحب تو ویسے بھی زبردستی آئے ۔ اور جمہوریت بہترین نہ سہی آمریت سے بہتر ہے۔ اللہ سبحان و تعالی ہمیں اس آمر سے نجات دلائیں اور پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں ۔ (آمین)
ٹی وی ،ریڈیو ،اخبارات سب پر امریکہ کا قبضہ ہے ایک یہ فورم بچے تھے اس پر بھی تم لوگ آدھمکے ۔تمہارے امریکہ کو یہ تک بھی گوارہ نہیں کہ یہاں بھی اس کے اور کے ایجنٹوں کے خلاف کوئی بات کی جائے۔ عجیب غنڈہ گردی ہے۔
فواد میں تم سے صرف یہ کہوں گا کہ اگر تم مسلمان ہو تو اللہ سے ڈرو اور یہ ظاغوت کی ترجمانی کرنا فورًا چھوڑ دو ۔
حکمران کو کوسنے کے بجائے ۔۔۔۔ عوام کو اپنے اعمالوں کی معافی اللہ سے مانگنی چاہیئے ۔ کیونکہ یہ حکمران بھی اسی قوم سے ہے ۔ ایک بیمار قوم سے ایک بیمار حکمران ہی حکومت کا اہل ہوگا ۔ ایک دیندار اور نیک حکمران کی اگر تمنا ہے تو پہلے اپنے اندر دینداری اور نیکی کے خوائص پیدا کیئے جائیں ۔ تاکہ پھر انہی صفوں میں سے کوئی آگے بڑھ کر حکومت کا اہل ثابت ہو سکے ۔جس لیڈر کی قائدانہ صلاحیتوں میں یہ جرثومہ ، پھیل کر ٹیومر بن گیا ہے۔ اس کی قیادت میں اب کینسر اور موت کی ہی صورت نظر آتی ہے۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو۔
حکمران کو کوسنے کے بجائے ۔۔۔۔ عوام کو اپنے اعمالوں کی معافی اللہ سے مانگنی چاہیئے ۔ کیونکہ یہ حکمران بھی اسی قوم سے ہے ۔ ایک بیمار قوم سے ایک بیمار حکمران ہی حکومت کا اہل ہوگا ۔ ایک دیندار اور نیک حکمران کی اگر تمنا ہے تو پہلے اپنے اندر دینداری اور نیکی کے خوائص پیدا کیئے جائیں ۔ تاکہ پھر انہی صفوں میں سے کوئی آگے بڑھ کر حکومت کا اہل ثابت ہو سکے ۔
حکمران کو کوسنے کے بجائے ۔۔۔۔ عوام کو اپنے اعمالوں کی معافی اللہ سے مانگنی چاہیئے ۔ کیونکہ یہ حکمران بھی اسی قوم سے ہے ۔ ایک بیمار قوم سے ایک بیمار حکمران ہی حکومت کا اہل ہوگا ۔ ایک دیندار اور نیک حکمران کی اگر تمنا ہے تو پہلے اپنے اندر دینداری اور نیکی کے خوائص پیدا کیئے جائیں ۔ تاکہ پھر انہی صفوں میں سے کوئی آگے بڑھ کر حکومت کا اہل ثابت ہو سکے ۔
ظفری آپ کی یہ بات بالکل صحیح ھے کہ بیمار قوم میں سے بیمار حکمران ہی جنم لیتے ہیں،یہ قوم اب واقعی تقریباً کلی طور پر بیمار ہو چکی ھے لیکن اس کی زمہ داری کیا ایڈمنسٹریشن پر نہیں آتی جب آپ ہر شعبے میں بے ایمانی اور کرپشن کی کھلی چھٹی دیدیں گے بلکہ عوام پر کرپٹ وزیروں اور حکمرانوں کو مسلًط کر دیں گے جنہیں انہوں نے خود بھی نہیں چنا ،جب قانون صرف آیئن میں ہی رہ جائے گا اور عوام کی کسی بھی عدالت میں سنوائی نہیں ہو گی تو کیا ایک بیمار قوم جنم نہیں لے گی،اب اس قوم نے نفسیاتی طور پر اور معاشرتی مجبوریوں سے تنگ آکر لا شعوری طور پر ظالم حکمرانوں کا روپ دھار لیا ھے جسکی ذمہ دار سیاسی جماعتیں اور نااہل حکمران خود ہیں،
ظفری نے بہت اچھی بات کہی - اتنی ااچھی کہ میں بھی رائے دینے پر مجبور ہو گیا - میرا خیال ہے زونی صاحبہ کہ یہ سب ادارے عوام یعنی ہم سے ہی بنے ہیں - کوئی بھوت پریت تو ہیں نہیں - ہم انفرادی طور پر بالکل ویسے ہی ہیںجیسے ہم اجتماعی طور پر یا ہمارے اربابِ سیاست جیسے ہیں- شائد اگر مجھے موقع ملے تو میں بھی وہی کروںجس پر کڑی تنقید کرتا ہوں - کیونکہ ہم سب انفرادی طور پر وہی کر رہے ہیں جو ہمارے اربابِ سیاست - (یاد رہے کہ ہم سے مراد پاکستانی عوام ہے جس میں ہم سب شامل ہیں(- میں روزمرّہ میںلوگوں کو دیکھتا ہوںتو وہ عام سے دفتر میںبھی وہی کر رہے ہوتے ہیں جو اجتماعی طور پر ہمارے سیاستدان - میں کبھی کبھی کسی سے کہہ بھی دیتا ہوں جس سے وہ ناراض بھی ہو جاتے ہیں - میں ان لوگوں کو جو اکثر سیاسی بحث کرتے ہیں انہیںکبھی کبھی کہتا ہوںکہ تم لوگ اپنے رہنماؤں پر کڑی تنقید کرتے ہو - لیکن یہ دیکھو کہ تم بھی وہی کر رہے ہو جو ہمارے لیڈر- یعنی وہ بھی اتنے ہی بد دیانت ہیں جتنے ہم یا تم - وہ تو ایک بڑے مفاد کے لیے بددیانت ہیںلیکن غور کرو کہ تم اسی قسم کی بددیانتی چھوٹے چھوٹے مفاد حاصل کرنے کے لیے کرتے ہو-
لہٰذا جب تک ہم اپنے آپ کو درست نہیںکرتے ہمارے اربابِ سیاست بھی ہماری طرح ہی ہوں گے -
حالی نے کہا تھا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
میں یہی گزارش کر رہا ہوںکہ کسی مسیحا کی آمد کا انتظار کرنے کی بجائے ہمیں خود اپنی مسیحائی کرنی ہوگی -
اگر یہ ممکن ہوتا، تو دنیا میں خدا کو انبیاء اور اپنے نیک اور کامل بندے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟؟؟