لاہور میں بم دھماکے!!!!

ظفری

لائبریرین
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جس حکمران کے دور میں ہم امن و امان کی بدترین حالت کو پہنچ جائیں۔ کوئی بنیادی سہولت میسر نہ ہو کوئی دن ایسا نا گزرے کے دنیا میں ہماری نیک نامی ہو ، اس کو ہم مزید وقت کیوں دیں۔ ظفری صاحب فرض کریں کے ایک تعلمی ادارے جس کا معیار بہت اچھا نہیں ہے، اور درمیانے درجے کا خیال کیا جاتا ہے، اس کا ایک نیا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے، آتے ہی وہ بہت سی تبدیلیاں کرتا ہے، نصاب میں ، ماحول میں، لوگ خوش ہوتے ۔ مجموعی طور پہ کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے لوگوں کو تو کچھ طبقے کہتےہیں کہ یہ بندہ اس کو اوپر لے کے جائے گا ۔ کچھ کو لگتا ہے کہ ٹھیک نہیں کر رہا۔ خیر کچھ عرصہ ٹھیک گزرتا ہے ، مگر پھر آہستہ آہستہ حالات خراب ہونے لگتے ہیں۔ طلبہ تنظیموں کی لڑائيں ہونے لگتی ہیں۔ ادارے میں فوج یا پولیس مسلسل رہتی ہے۔ پھر بھی لڑائیاں ہوتی ہیں۔ ہوسٹلز سے لڑکیاں اغوہ ہونا، ہڑتالیں ، اساتذہ کی مار پیٹ معمول بن جاتا ہے۔ سربراہ صاحب پولیس کو مزید سختی کا کہتے ہیں ۔ چند سالوں میں حالات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ ادارہ درمیانے درجے سے نچلے درجے پہ پہنچ جاتا ہے۔ تمام اچھے اساتذہ کا نکال دیا جاتا ہے یا وہ خود چھوڑ جاتے ہیں۔ کوئی نظم نہیں ادارے میں۔ والدین بچوں کو بھجتے ڈرتے ہیں، سمجھ لیں کے ادارہ بند ہونے کے قریب ہے۔ اس صورت حال میں آپ سربراہ صاحب کی شروع کی چند کامیابیوں کا ہی حوالہ دیتے رہیں گے یا ان کی مزید خدمات لینے سے معذرت کر لیں گے۔ کیونکہ ادارہ تو پہلے ہی بند ہونے کو ہے۔ مشرف صاحب تو ویسے بھی زبردستی آئے ۔ اور جمہوریت بہترین نہ سہی آمریت سے بہتر ہے۔ اللہ سبحان و تعالی ہمیں اس آمر سے نجات دلائیں اور پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں ۔ (آمین)

میرا خیال ہے کہ آپ میری بات سمجھے ہی نہیں ۔ میں نے مشرف کی تائید نہیں کی ۔ لیکن اس طرف اشارہ ضرور کیا ہے کہ اگر مشرف ہٹ گیا تو جن مسائل سے ملک دوچار ہے تو وہ کیا یکدم ختم ہوجائیں گے ۔ یہ خودکش حملے ، طالبان ، وزیرستان میں فوج کشی ، ملک کی اقتصادی حالات ، معاشی اور اخلاقی پستی ، امن وامان اور انصاف کے مسائل کیا مشرف کے جانے کے بعد کوئی آسمان سے آکر حل کرے گا ۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ مشرف کے جانے سے یہ مسائل ہو جائیں گے تو آپ سے بڑا کوئی خوش فہم نہیں‌ ہے ۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں ہونگے تو پھر مشرف فوبیا کا کیا جواز رہ جاتا ہے ۔ یہی نا کہ صرف سیاسی اختلاف اور کچھ نہیں ۔ اور موجودہ صورتحال کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیئے استعمال کرنا میں سمجھتا ہوں ملک اور قوم کے ساتھ ایک بڑی زیادتی ہوگی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کیا حقائق ہیں ۔ وہ کیا کاز ہیں ۔ ؟ وہ کیا روٹس ہیں ۔ جن کی بناء پر یہ انتشار اور دہشت کا بازار ملک میں گرم ہے ۔ اگر جڑ ہم پکڑ لیتے ہیں تو کم از کم ان مسائل کی بیج کنی کا سوچا تو جا سکے گا ۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب تمام فریق مل جل کر ہی اس مسئلے کا حل سوچیں گے ۔ کسی ایک فریق کو اس غور و فکر سے باہر رکھ کر آپ اجتماعیت کا نمونہ بن نہیں سکتے ۔ بینظیر اور نواز شریف نے بھی ایک دوسرے کو ایک زمانے میں ملک کا سیکورٹی رسک قرار دیا تھا ۔ مگر وہی بینظیر ، آخری وقت میں نواز شریف کی بہترین سیاسی ساتھی تھی ۔ اور یہی نواز شریف تمام احتیاطِ تحفظ بالائے طاق رکھ کر ہسپتال میں ‌بینظیر کی موت پر پھوٹ پھوٹ رو پڑا تھا ۔ تو بھائی آج کی موجودہ صورتحال کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں ۔ صورتحال اتنی گھمبیر ہے کہ تمام لیڈروں میں یہ احساس اجاگر ہو رہا ہے کہ ملک و قوم کے خلاف کسی بڑی سازش کا آغاز ہوچکا ہے ۔ لہذا تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر یکجہتی کی بات کی جائے ۔ اس سلسلے میں آج کا عمران خان کا تازہ بیان پڑھ لیں ۔ کہ اس بیان میں آدھی بات یہی ہے جو میں‌ یہاں کہنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ فریقوں میں ایسے عناصر ضرور ہیں جو اس صورتحال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ اگر اس وقت انہوں نے پذیرائی حاصل نہیں کی تو ان کا مستقبل تاریک ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ الیکشن ہیں ۔ اگر انہیں کچھ عرصے بعد ہونا ہوتا تو اس وقت جو بیان بازی جاری ہے وہ کبھی دیکھنے میں نہیں آتی اور سب یکجہتی کی ہی بات کرتے ۔ مگر کیا کریں حکمران اور لیڈر بھی تو اسی قوم سے ہیں ۔ ہمیشہ ملکی و قومی ترجیحات پس پشت ڈال کر اپنے اپنے مفادات کا ہی سوچتے ہیں ۔ اور جو بدنظمی اور انتشار کی آپ نے جو مثالیں دی ہیں تو کیا آپ ثابت کر سکتے ہیں کہ کیا وہ پچھلے ادوار میں نہیں ہوتی رہیں ۔ آمریت کے خلاف میں بھی ہوں ۔ مجھے بھی مشرف کی کئی پالیسی سے بہت اختلاف ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایسی صورتحال میں مشرف کے ٹانگیں کھینچنے سے ملک میں اور انتشار اور افراتفری پھیلے گی خصوصاً بیرونی خطرات اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوجائیں گے ۔ سو ٹھنڈے دماغ سے ملک کی صورتحال کو قابو میں کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے بعد کوئی بھی منتخب حکومت آجائے اور مشرف پر تحریک عدمِ اعتماد پیش کر کے اسے حکومت سے خارج کردے ۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

ٹی وی ،ریڈیو ،اخبارات سب پر امریکہ کا قبضہ ہے ایک یہ فورم بچے تھے اس پر بھی تم لوگ آدھمکے ۔تمہارے امریکہ کو یہ تک بھی گوارہ نہیں کہ یہاں بھی اس کے اور کے ایجنٹوں کے خلاف کوئی بات کی جائے۔ عجیب غنڈہ گردی ہے۔
فواد میں تم سے صرف یہ کہوں گا کہ اگر تم مسلمان ہو تو اللہ سے ڈرو اور یہ ظاغوت کی ترجمانی کرنا فورًا چھوڑ دو ۔



محترم،

پہلی بات تو يہ ھے کہ ميں" امريکہ کا ايجينٹ" نہيں ہوں۔ اگر ايسا ہوتا تو ميں اپنا تعارف کروا کر فورم پر اپنی رائے کا اظہار نہ کرتا۔ دوسری بات يہ ہے کہ ميں امريکی پاليسی کا دفاع نہيں کر رہا۔ ميں ايک مثبت اور صحت مند بحث پر یقين رکھتا ہوں۔ ميں آپ کی اس بات سے اتفاق نہيں کرتا کہ ايک سچا مسلمان ہونے کے ليے يہ ضروری ہے کہ ميں پاکستان ميں ہر مسلئے کا ذمہ دار امريکہ کو ٹھہراؤں۔

.۔مشہور کاميڈين معين اختر نے ايک بار کہا تھا کہ پاکستان ميں اگر کسی بچے کے پيٹ ميں بھی درد ہو تو ہم اس کا الزام فوری طور پر امريکہ پر لگا ديتے ہيں۔ بدقسمتی سے ملکی سطح پر ہم آج بھی اسی پاليسی پر کاربند ہيں جس کا آغاز 70 کے عشرہ ميں ہوا تھا۔ "بيرونی ہاتھ" اور "امريکی سازش" جيسے لفظ سياسی نعرے بن چکے ہيں۔ آخر ہم کب ۃک ہر مسلئے پر امريکہ کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنا دامن بچاتے رہيں گے۔

لاہور ميں پيش آنے والا واقعہ يقينی طور پر ايک قومی سانحہ ہے جس ميں بے شمار قيمتی جانيں ضائع ہوئيں ليکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس مسلئے کو ان شواۂد کی روشنی ميں سمجھيں جو سب کے سامنے ہيں۔ جو شخص خود کش حملے ميں اپنی جان ديتا ہے وہ کسی سياسی يا دنياوی مفاد کے ليے ايسا نہيں کرتا۔ ہم سب جانتے ہيں کہ مذہب کی غلط تشريح اور انتہا پسند سوچ کے ذريعےان کی برين واشنگ کی جاتی ہے۔ جب تک ہم اس سوچ کو پروان چڑھانے والوں کو اپنے معاشرے سے عليحدہ نہيں کريں گے، يہ زہر ايک کينسر کی طرح ہمارے معاشرے ميں پيھلتا رہے گآ۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

ظفری

لائبریرین
جس لیڈر کی قائدانہ صلاحیتوں میں یہ جرثومہ ، پھیل کر ٹیومر بن گیا ہے۔ اس کی قیادت میں اب کینسر اور موت کی ہی صورت نظر آتی ہے۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو۔
حکمران کو کوسنے کے بجائے ۔۔۔۔ عوام کو اپنے اعمالوں کی معافی اللہ سے مانگنی چاہیئے ۔ کیونکہ یہ حکمران بھی اسی قوم سے ہے ۔ ایک بیمار قوم سے ایک بیمار حکمران ہی حکومت کا اہل ہوگا ۔ ایک دیندار اور نیک حکمران کی اگر تمنا ہے تو پہلے اپنے اندر دینداری اور نیکی کے خوائص پیدا کیئے جائیں ۔ تاکہ پھر انہی صفوں میں سے کوئی آگے بڑھ کر حکومت کا اہل ثابت ہو سکے ۔
 

arifkarim

معطل
حکمران کو کوسنے کے بجائے ۔۔۔۔ عوام کو اپنے اعمالوں کی معافی اللہ سے مانگنی چاہیئے ۔ کیونکہ یہ حکمران بھی اسی قوم سے ہے ۔ ایک بیمار قوم سے ایک بیمار حکمران ہی حکومت کا اہل ہوگا ۔ ایک دیندار اور نیک حکمران کی اگر تمنا ہے تو پہلے اپنے اندر دینداری اور نیکی کے خوائص پیدا کیئے جائیں ۔ تاکہ پھر انہی صفوں میں سے کوئی آگے بڑھ کر حکومت کا اہل ثابت ہو سکے ۔

درست فرمایا: ایک خلیفہ اپنی ہی قوم کا عکس ہوتا ہے۔ جیسی عوام ہو گی ویسا ہی اسکا خلیفہ ہوگا!!!
 

زونی

محفلین
حکمران کو کوسنے کے بجائے ۔۔۔۔ عوام کو اپنے اعمالوں کی معافی اللہ سے مانگنی چاہیئے ۔ کیونکہ یہ حکمران بھی اسی قوم سے ہے ۔ ایک بیمار قوم سے ایک بیمار حکمران ہی حکومت کا اہل ہوگا ۔ ایک دیندار اور نیک حکمران کی اگر تمنا ہے تو پہلے اپنے اندر دینداری اور نیکی کے خوائص پیدا کیئے جائیں ۔ تاکہ پھر انہی صفوں میں سے کوئی آگے بڑھ کر حکومت کا اہل ثابت ہو سکے ۔

ظفری آپ کی یہ بات بالکل صحیح ھے کہ بیمار قوم میں سے بیمار حکمران ہی جنم لیتے ہیں،یہ قوم اب واقعی تقریباً کلی طور پر بیمار ہو چکی ھے لیکن اس کی زمہ داری کیا ایڈمنسٹریشن پر نہیں آتی جب آپ ہر شعبے میں بے ایمانی اور کرپشن کی کھلی چھٹی دیدیں گے بلکہ عوام پر کرپٹ وزیروں اور حکمرانوں کو مسلًط کر دیں گے جنہیں انہوں نے خود بھی نہیں چنا ،جب قانون صرف آیئن میں ہی رہ جائے گا اور عوام کی کسی بھی عدالت میں سنوائی نہیں ہو گی تو کیا ایک بیمار قوم جنم نہیں لے گی،اب اس قوم نے نفسیاتی طور پر اور معاشرتی مجبوریوں سے تنگ آکر لا شعوری طور پر ظالم حکمرانوں کا روپ دھار لیا ھے جسکی ذمہ دار سیاسی جماعتیں اور نااہل حکمران خود ہیں،
 

فرخ منظور

لائبریرین

ظفری آپ کی یہ بات بالکل صحیح ھے کہ بیمار قوم میں سے بیمار حکمران ہی جنم لیتے ہیں،یہ قوم اب واقعی تقریباً کلی طور پر بیمار ہو چکی ھے لیکن اس کی زمہ داری کیا ایڈمنسٹریشن پر نہیں آتی جب آپ ہر شعبے میں بے ایمانی اور کرپشن کی کھلی چھٹی دیدیں گے بلکہ عوام پر کرپٹ وزیروں اور حکمرانوں کو مسلًط کر دیں گے جنہیں انہوں نے خود بھی نہیں چنا ،جب قانون صرف آیئن میں ہی رہ جائے گا اور عوام کی کسی بھی عدالت میں سنوائی نہیں ہو گی تو کیا ایک بیمار قوم جنم نہیں لے گی،اب اس قوم نے نفسیاتی طور پر اور معاشرتی مجبوریوں سے تنگ آکر لا شعوری طور پر ظالم حکمرانوں کا روپ دھار لیا ھے جسکی ذمہ دار سیاسی جماعتیں اور نااہل حکمران خود ہیں،

ظفری نے بہت اچھی بات کہی - اتنی ااچھی کہ میں‌ بھی رائے دینے پر مجبور ہو گیا - میرا خیال ہے زونی ؃صاحبہ کہ یہ سب ادارے عوام یعنی ہم سے ہی بنے ہیں - کوئی بھوت پریت تو ہیں نہیں - ہم انفرادی طور پر بالکل ویسے ہی ہیں‌جیسے ہم اجتماعی طور پر یا ہمارے اربابِ سیاست جیسے ہیں‌- شائد اگر مجھے موقع ملے تو میں بھی وہی کروں‌جس پر کڑی تنقید کرتا ہوں - کیونکہ ہم سب انفرادی طور پر وہی کر رہے ہیں‌ جو ہمارے اربابِ سیاست - (یاد رہے کہ ہم سے مراد پاکستانی عوام ہے جس میں ہم سب شامل ہیں(‌- میں روزمرّہ میں‌لوگوں کو دیکھتا ہوں‌تو وہ عام سے دفتر میں‌بھی وہی کر رہے ہوتے ہیں جو اجتماعی طور پر ہمارے سیاستدان - میں کبھی کبھی کسی سے کہہ بھی دیتا ہوں جس سے وہ ناراض بھی ہو جاتے ہیں - میں ان لوگوں کو جو اکثر سیاسی بحث کرتے ہیں‌ انہیں‌کبھی کبھی کہتا ہوں‌کہ تم لوگ اپنے رہنماؤں پر کڑی تنقید کرتے ہو - لیکن یہ دیکھو کہ تم بھی وہی کر رہے ہو جو ہمارے لیڈر- یعنی وہ بھی اتنے ہی بد دیانت ہیں جتنے ہم یا تم - وہ تو ایک بڑے مفاد کے لیے بددیانت ہیں‌لیکن غور کرو کہ تم اسی قسم کی بددیانتی چھوٹے چھوٹے مفاد حاصل کرنے کے لیے کرتے ہو-
لہٰذا جب تک ہم اپنے آپ کو درست نہیں‌کرتے ہمارے اربابِ‌ سیاست بھی ہماری طرح ہی ہوں گے -
حالی نے کہا تھا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 

زونی

محفلین
ظفری نے بہت اچھی بات کہی - اتنی ااچھی کہ میں‌ بھی رائے دینے پر مجبور ہو گیا - میرا خیال ہے زونی ؃صاحبہ کہ یہ سب ادارے عوام یعنی ہم سے ہی بنے ہیں - کوئی بھوت پریت تو ہیں نہیں - ہم انفرادی طور پر بالکل ویسے ہی ہیں‌جیسے ہم اجتماعی طور پر یا ہمارے اربابِ سیاست جیسے ہیں‌- شائد اگر مجھے موقع ملے تو میں بھی وہی کروں‌جس پر کڑی تنقید کرتا ہوں - کیونکہ ہم سب انفرادی طور پر وہی کر رہے ہیں‌ جو ہمارے اربابِ سیاست - (یاد رہے کہ ہم سے مراد پاکستانی عوام ہے جس میں ہم سب شامل ہیں(‌- میں روزمرّہ میں‌لوگوں کو دیکھتا ہوں‌تو وہ عام سے دفتر میں‌بھی وہی کر رہے ہوتے ہیں جو اجتماعی طور پر ہمارے سیاستدان - میں کبھی کبھی کسی سے کہہ بھی دیتا ہوں جس سے وہ ناراض بھی ہو جاتے ہیں - میں ان لوگوں کو جو اکثر سیاسی بحث کرتے ہیں‌ انہیں‌کبھی کبھی کہتا ہوں‌کہ تم لوگ اپنے رہنماؤں پر کڑی تنقید کرتے ہو - لیکن یہ دیکھو کہ تم بھی وہی کر رہے ہو جو ہمارے لیڈر- یعنی وہ بھی اتنے ہی بد دیانت ہیں جتنے ہم یا تم - وہ تو ایک بڑے مفاد کے لیے بددیانت ہیں‌لیکن غور کرو کہ تم اسی قسم کی بددیانتی چھوٹے چھوٹے مفاد حاصل کرنے کے لیے کرتے ہو-
لہٰذا جب تک ہم اپنے آپ کو درست نہیں‌کرتے ہمارے اربابِ‌ سیاست بھی ہماری طرح ہی ہوں گے -
حالی نے کہا تھا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا


سخنور بھائی میں نے اس بات سے کب انکار کیا کہ قوم بھی بد دیانتی میں برابر کی شریک ھے لیکن یہ بات بھی حقیقت ھے کہ یہ حالت پہلے اسقدر ناقابل علاج نہ تھی ،اس قوم کو تو کبھی صحیح لیڈر شپ ہی نہیں ملی،یہ تو وہی بات ہوئی جیسے کسی مسترد شدہ بچے کی خود غرضی اور چڑ چڑے پن کا اسے ہی ذمہ دار ٹھہرایا جائے جب کہ اس کی شخصیت کی توڑ پھوڑ کے صحیح ذمہ دار اس کے سربراہ اور گارڈینز ہوتے ہیں، اسی طرح ہماری مسترد شدہ قوم کی حالت زار کے ذمہ دار ہمارے ہی حکمران اور لیڈرز ہیں جنہوں نے عوام کو کبھی اس لئے صحیح سمت نہیں دکھائی کہ ان کے مفادات پیچھے نہ رہ جایئں اور نتیجے کے طور پر ہم مجموعی بے سمتی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔

ِِِِ
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں یہی گزارش کر رہا ہوں‌کہ کسی مسیحا کی آمد کا انتظار کرنے کی بجائے ہمیں خود اپنی مسیحائی کرنی ہوگی -
 

ظفری

لائبریرین
اگر یہ ممکن ہوتا، تو دنیا میں خدا کو انبیاء اور اپنے نیک اور کامل بندے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟؟؟

جنابِ محترم ۔۔۔۔۔ انبیاء علیہ السلام اور اللہ کے نیک بندے آپ کی اصلاح کر سکتے ہیں ۔ سیدھا راستہ دکھا سکتے ہیں ۔ نیکی کی تلقین کر سکتے ہیں ۔ مگر اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا اس پر آپ کا کلی اختیار ہوتا ہے ۔ لہذا ھدایت کی روشنی میں اپنا خود محاسبہ کرنا اور نیکی کی طرف راغب ہونا یہ انسان کا اپنا ذاتی فعل ہوتا ہے ۔ سخنور صاحب کی بات اس نقطہِ نگاہ سے بلکل درست ہے کہ کسی انبیاء اور اللہ کے برگذیدہ بندوں نے کسی کو زبردستی راہِ حق کی طرف راغب نہیں کیا ۔ بلکہ ایک سچے راستے کی نشان دہی کی اور بھلائی کی تلقین کی ۔ اور جس جس کو اس راہِ حق کی حقیقت معلوم ہوگئی وہ اس طرف ضرور راغب ہوا ۔ یعنی اپنا علاج ان ہدایت کی روشنی میں خود کیا ۔ خود کو قائل کیا کہ صحیح راستہ کیا ہے ۔ ؟ اور انسان میں اگر اپنی مسیحائی گری کا مادہ نہیں ہوتا تو اللہ انبیاء کو ہی کیوں بھیجتا ۔ خود ہی سب انسانوں کی اصلاح فرما دیتا ۔ لہذا ہر انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیمار ہے لہذا وہ اس کے علاج کی تدبیر بھی اختیار کرتا ہے ۔ اسی طرح ہمارا معاشرہ بھی بیمار ہے اور سب کو معلوم ہے کہ ہمیں کیا بیماری ہے ۔ لہذا اس کی مسیحاگری کا خود ہی سوچنا پڑے گا کوئی اب آسمان سے آکر اس کا علاج تو کرنے سے رہا ۔
 

زینب

محفلین
اللہ شہیدوں کے گھر والوں کو صبر عطا کرے۔۔۔۔ملعونون نے اور کتنے گھر اجاڑ دیے ۔۔۔ویسے میں سوچ رہی تھی کی حکومت پاکستان کو چاہیے۔۔۔۔کہ
یہ جو خودکش حملہ آوروں کے سر بچ جاتے ہیں ان کے لیے ایک میوزیم بنوایئں اور ان کافروں کے سروں کو فعون کی لاش کی طرح نمک مرچ لگا کے اس میوزیم میں رکھیں تاکہ رہتی دنیا تک انے والی پاکستانی نسلیں بھی ان پے تھوکیں۔مجھ سمیت۔۔۔۔۔۔۔
 
Top