جمہوری نظام میں معاملات کا حل پارلیمنٹ میں بات کر کے تلاش کیا جاتا ہے
جمہوری نظام صرف الیکشن نہیں ہوتا بلکہ جمہوریت میں عوام کو حقوق بھی دینے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ
hybrid regime قائم ہے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی ہے کہ جمہوریت کا معنیٰ و مفہوم بگاڑ دیا گیا ہے اور اسے محض سیاسی اور انتخابی آمریت کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے اس اصطلاح کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جمہوریت کا پورا معنیٰ اور مفہوم اس کی ضرورت و مقاصد مکمل طور پر نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں کہ یہ ہے کیا نظام؟
جمہوریت کی اقسام:-
کامل جمہوریت جس میں جمہوریت اپنے صحیح معنیٰ و مفہوم کے ساتھ اور اپنی روح کے ساتھ اور اپنے مقاصد کے ساتھ موجود ہے اسکو کامل جمہوریت کہتے ہیں
ناقص جمہوریت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان میں کچھ چیزیں ڈیموکریٹک ہیں‘ کچھ چیزیں آمرانہ ہیں گویا اس کے اندر مکسچر ہے کچھ جمہوری اقدار و روایات کا اور کچھ حصہ آمرانہ روایات و اقدار کا ہے۔
ہائبرئیڈ ریجیمز (انتخابی آمریت)یہ ناقص جمہوریت سے بھی نیچے کا درجہ ہے ، اس کو انتخابی آمریت کہتے ہیں۔ جہاں الیکشن تو ہوتے ہیں مگر اس کے نتیجے میں ایک سیاسی آمریت قائم ہو جاتی ہے۔
ہائبرئیڈ ریجیمز یہ بالکل گرا ہوا آخری درجہ ہے ، یہ ان ریاستوں کا ہے جہاں الیکشن ہوتے ہیں مگر الیکشن کے ذریعے جو سیاسی حکومتیں قائم ہوتی ہیں اُن کا طرز عمل آمرانہ ہوتا ہے۔ یعنی جمہوریت جو کچھ عوام کو دینا چاہتی ہے وہ عوام تک نہیں پہنچتا۔ عوام صرف پانچ سال کے بعد پرچی ڈالتے ہیں ووٹ کی اور بس ! اس کے علاوہ کوئی حق عوام کو نہیں پہنچتا جو جمہوریت انہیں دینا چاہتی ہے ۔اس لیے اس Hybrid Regimes کو انتخابی آمریت کہتے ہیں۔ پاکستان درجہ بندی کے حساب سے ہائبرئیڈ ریجیمز میں آتا ہے
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے محقق
اینڈریس شیڈلر کے مطابق انتخابی آمریت ایک فوگی زون( Foggy Zone ) ہے ، دھندلا علاقہ ہے جہاں جمہوریت کا سورج نظر نہیں آتا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم صرف انتخابی عمل کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں اور پوری دنیا اس کو جھوٹ کہتی ہے ، اس کو فراڈ کہتی ہے کہ محض الیکٹورل پراسیس ، چار یا پانچ سال کے بعد الیکشن میں چلے جانا ، محض یہ جمہوریت نہیں ہے۔ جمہوریت ایک پورا نظام ہے۔
اگر جمہوریت کے دس بنیادی حصے کر دیں تو اس میں ایک جزو الیکشن بھی ہے اور الیکشن کیا ہے اِس جمہوریت میں؟ انتقالِ اقتدار کے لیے الیکشن ایک پر امن جمہوری آلہ ہے ،ایک ٹول ہے۔ تو الیکشن ایک جزو ہے۔ انتخابات ساری جمہوریت نہیں ہے ، 9 اجزا اور ہیں وہ سارے پائے جائیں تو اس کو جمہوریت کہتے ہیں۔
Elections have been an instrument of authoritarian control well as a means of Democratic Government
سٹینفورڈ یونیورسٹی امریکہ کےپروفیسر لیری ڈائمنڈ جو پولیٹیکل سائنس پرایک اتھارٹی ہیں، نے اسی چیز کو اپنے آرٹیکل
Elections without Democracy : Thinking About Hybrid Regimes
میں واضح طور پر بیان کیاہے ۔
وہ کہتا ہے:
دنیا میں ایسے ممالک ہیں کہ جہاں الیکشن تو ہوتے ہیں مگر عوام کو جمہوریت نہیں ملتی۔ اکا دکا جمہوری چیزیں وہ کر دیتے ہیں مثلاً پریس کو آزادی دے دینا ، میڈیا کوایک آدھ چیز دے کروہ کریڈٹ لیتے ہیں کہ ہم نے پریس کو آزادی دے رکھی ہے ، مگر عوام کو اس جمہوریت سے کیا ملا ہے؟
- ان کو بنیادی حقوق ملےہیں؟
- ان کو جان کا تحفظ ملا ہے؟ روزگار ملا ہے؟
- ریاستی فیصلوں میں عوام کا دخل ہو گیا ہے؟
- ان کو سوشل سکیورٹی ملی ہے؟
یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو جمہوریتوں میں پائی جاتی ہیں۔جمہوریت میں ایک غریب آدمی بھی عدالت میں چلا جائے مغربی دنیا میں ، جمہوریت میں اور مقابلے میں امیر شخص ہو تو وہاں امیر اور غریب عدالت پہ اثر انداز نہیں ہو سکتے۔تو وہاں قانون کی بالادستی ہے۔
جمہوریت یہ کلچر دیتی ہے ، عوام کو یہ چیزیں ملتی ہیں ، روزگار ملتا ہے ، صحت ، تعلیم کی سہولیات دیتے ہیں. یہ نہ ہو کہ پانی،بجلی ، گیس سے عوام محروم ہوں تو اس کو جمہوریت کوئی نہیں کہتا۔ یہ جو شور ہے کہ جمہوریت ہونی چاہئے تو یہ سمجھنا چاہئے کہ جمہوریت ہے کیا؟
ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک تقریر سے
ماخوذ اقتباس ، تلخیص و تہذیب شدہ۔