لاہور-2004

عمر سیف

محفلین
تصویر نمبر 1 اور 2 میں قرآنِ پاک ہیں جو گورنر ہاؤس کے سامنے ہے۔خاص بات یہ کہ یہ گولڈ میں ہے۔
تصویر نمبر3 الفلاح بلڈنگ ہے۔ واپڈا ہاؤس کے سامنے۔
تصویر نمبر 4 میں گورنر ہاؤس ہے۔
تصویر نمبر 5 میں واپڈا ہاؤس ہے۔
تصویر نمبر 6، 7، 8 رانی توپ ہے۔ جو مال روڈ پہ ہے۔
تصویر نمبر 9 میں پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس ہے۔
تصویر نمبر 10 عجائب گھر کی ہے۔ یہ بھی مال روڈ پہ ہے۔ این سی اے کے ساتھ، پنجاب یونیورسٹی کے سامنے۔
تصویر نمبر 11، 12، 13 14 خضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کے مزار کی ہے۔ اندر سے بھی دکھایا گیا ہے اس میں۔
تصویر نمبر 16، 17، اور 17۔اے میں داتا صاحب کے ساتھ والی گلی میں بیٹھے ہونے باورچی ہیں۔ کچھ پھول والے ہیں۔ جہاں سے آپ شاپنگ کر سکتے ہیں دربار میں چڑھاوے چڑھانے کی۔
تصویر نمبر 18 میں داتا دربار کا سبر گنبد ہے۔
تصویر نمبر 19، 20، 21، 22، 23 تک شالامار باغ ہے۔ مخلتف جگہ سے لی گئی ہے۔
تصویر نمبر 24 بادشاہی مسجد کا بیرونی دروازہ ہے۔
تصویر نمبر 25 کلیئر نہیں ہے پر بادشاہی مسجد کی ہئ لگ رہی ہے۔
تصویر 26 علامہ اقبال کے مزار اور بیک گراؤنڈ میں بادشاہی مسجد ہے۔
تصویر 27 میں علامہ اقبال کے مزار کے باہر کھڑے پہرےدار کے میڈل ہیں۔
تصویر نمبر 28 میں شاہی قلعہ ہے۔

نوٹ:غلطی بھی ہو سکتی ہے کچھ تصاویر میں کیونکہ زیادہ کلئیر نہیں آئیں۔ باقی اللہ مالک ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ جس جس کا پتا تھا بتا دوں۔
 
ضبط نے اصل لکھا ہے جبکہ فیصل نے اس میں مصالحہ لگا کرپیش کیا ہے

تصویر نمبر 1 اور 2 میں قرآنِ پاک ہیں جو گورنر ہاؤس کے سامنے ہے۔خاص بات یہ کہ یہ گولڈ میں ہے۔

یہ قرآن پاک کا ایک نادر نسخہ ہے خالص سونے سے بنا ہوا یہ نسخہ اسمبلی ہال کے سامنے واپڈا ہاؤس کے پہلو میں اور اسلامک سمٹ مینار کے سائے میں ایسے رکھا ہوا ہے جیسے مقننہ اسلامی نظام کو قائم کرنے میں دل و جان سے کوشاں ہو ۔ سرکاری ادارے عوامی فلاح کا خیال رکھتے ہوئے اپنی نوکریوں کو “نوکری“ نہیں بلکہ قومی خدمت سمجھ کر سرانجام دیتے ہوں اور اسلامی ممالک کی تنظیم کی اس کانفرنس کی یادگار ہے جہاں صرف ایک بار کبھی ایک بار بھی اسلامی ممالک کے باہمی اتحاد کی بات خلوص سے نہیں کہی گئی ۔ جہاں اسلامی ممالک کی اتحاد کی بات صرف غریب ملک کرتے ہیں جبکہ امیر ملک یہ سمجھتے ہیں کہ خانہ کراب کے بچے اتحاد اتحاد کی بات کرتے ہیں سب ہمارا مال سمیٹنے کی باتیں ہیں ۔


تصویر نمبر3 الفلاح بلڈنگ ہے۔ واپڈا ہاؤس کے سامنے۔

واپڈا ہاؤس کے سامنے یہ الفلاح بلڈنگ اصل میں اپنی پہلی منزل پر اسٹیٹ لائف کا زونل ٹریننگ سنٹر لیئے ہوئے ہے ۔ جہاں پر انشورنس بیچنے والوں کو اس کام کے گر سکھا کر روانہ کیا جاتا ہے اور ملک کی آبادی کو ان منصوبوں کے بنانے کی ترغیب دینے کو بھیجا جاتا ہے جنکا بنانا جنہیں لازم ہے وہ بنا سکتے نہیں اور جنہیں لازم نہیں وہ دھڑا دھڑ بناتے ہیں ۔ اور عوام میں انہیں فراڈئیے اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہا جاتا ہے ۔ اسی الفلاح بلڈنگ کے نیچے وہ انکل گاڑی والے ہوا کرتے تھے جو بریانی کی دیگ پکا کر لایا کرتے تھے اور بیچ کر ہی جایا کرتے تھے ۔


تصویر نمبر 4 میں گورنر ہاؤس ہے۔
XXXXXXXXXXکے زمانے میں یہ گورنر ہاؤس عوام کی عزتوں کا محافظ ہوا کرتا تھا ۔ جب کوئی بھی خاتون جنہیں خوبصورتی کا دعویٰ ہو یہاں پہنچا دی جاتی تھیں اور - عزت چھوڑ کر روانہ کر دی جاتی تھیں

تصویر نمبر 5 میں واپڈا ہاؤس ہے۔

پاکستانی عوام کی کھالوں کو اتارنے اور ان پر کشیدہ کاری کے کام میں ماہر ادارے کا دفتر جو کسی تعریف کا محتاج نہیں ۔ اسکے بارے میں کچھ بھی کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے


تصویر نمبر 6، 7، 8 رانی توپ ہے۔ جو مال روڈ پہ ہے۔

مال روڈ کی اس توپ کو بھنگی کی توپ بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ توپ اصل میں علم و ادب -(پنجاب یونیورسٹی) - تاریخ (عجائب گھر) - تمدن (ٹاؤن ہال) - فیشن (انارکلی) - فن (نیشنل کالج آف آرٹس) - روابط (آفس آف دی پوسٹ ماسٹر جنرل) - ادب (پاک ٹی ہاؤس) - عوام (فوڈ اسٹریٹ)، کے براہ راست گھیرے میں ہے ۔ اور سامنے کھڑے گورے کے کالے مجسمے سے اس دور کی باتیں کرتی ہے کہ جب ان سب چیزوں کے بغیر لاہور میں کتنا سکون اور خاموشی ہوا کرتی تھی


تصویر نمبر 9 میں پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس ہے۔

یہ اولڈ کیمپس اصل میں ایک وقت میں پنجاب میں ہونے والی طلباء کی سیاسی سرگرمیوں کا منبع ہوا کرتا تھا ۔ ایک طرف گورنمنٹ کالج - تو دوسری طرف کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ۔ سامنے بھنگی کی توپ تو پہلو میں ٹریفک پولیس کی چھوٹی سی چوکی ۔ جو کونہ بچ جائے وہاں ناصر باغ اور اس میں سونے والے سینکڑوں بے گھر افراد داتا صاحب (مزار حضرت ّلی ہجویری) کے حضور بٹنے والی خوراک کھا کر اپنا گزارا کر رہے ہوتے ہیں ۔

تصویر نمبر 10 عجائب گھر کی ہے۔ یہ بھی مال روڈ پہ ہے۔ این سی اے کے ساتھ، پنجاب یونیورسٹی کے سامنے۔

اپنےاندر ہزاروں سال کی تاریخ رکھنے کا دعوے دار یہ عجائب گھر انجان افراد کو بہت اچھی معلومات فراہم کرتا ہے جبکہ جاننے والے افراد اچھی طرح جانتے ہیں کہ اصل نوادرات کہاں چلے گئے ۔ کیا انہیں سرے کے محلات میں پہنچا دیا گیا یا پھر دوبئی کے کسی شیخ کی ذاتی کولیکشن میں شامل کردیا گیا یا پھر طالبان کا لیبل لگا کر کسی امریکی سیکیورٹی ایڈوائزر کو بیچ دیا گیا بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے کتنے ہی بے گناہ شہریوں کو چند ہزار ڈالر کے عوض بیچا گیا ۔ جب ہم حال کو بیچنے سے باز نہیں آتے تو ماضی کی کیا وقعت ۔

تصویر نمبر 11، 12، 13 14 خضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کے مزار کی ہے۔ اندر سے بھی دکھایا گیا ہے اس میں۔

مرجع خلائق۔ لاہور شہر پر سب سے بڑا کرم جناب علی ہجویری کا یہاں تشریف فرما ہونا ہے ۔ لیکن انکے مزار کے تقدس کو سمجھنے والے لوگ بہت کم ہیں اس سے زیادہ کچھ بولوں کا تو الحاد ۔ وہابیت ۔ لادینیت اور نہ جانے کیا کیا فتوے لگا دیئے جائیں گے لہذا یہں خاموش ہوتا ہوں ۔

تصویر نمبر 16، 17، اور 17۔اے میں داتا صاحب کے ساتھ والی گلی میں بیٹھے ہونے باورچی ہیں۔ کچھ پھول والے ہیں۔ جہاں سے آپ شاپنگ کر سکتے ہیں دربار میں چڑھاوے چڑھانے کی۔

(بالکل صحیح کہا آپ نے)
تصویر نمبر 18 میں داتا دربار کا سبر گنبد ہے۔

شاباش

تصویر نمبر 19، 20، 21، 22، 23 تک شالامار باغ ہے۔ مخلتف جگہ سے لی گئی ہے۔

بالکل درست کہا آپ نے


تصویر نمبر 24 بادشاہی مسجد کا بیرونی دروازہ ہے۔
تصویر نمبر 25 کلیئر نہیں ہے پر بادشاہی مسجد کی ہئ لگ رہی ہے۔
تصویر اپنے محل وقوع کے لحاظ سے بادشاہی مسجد کی ہی لگ سکتی ہے خصوصا اگر کسی مینار پر چڑھتے ہوئے بنائی جائے تو لیکن اسی طرح کا ایک منظر شاہی قلعے کے اندر جانے پر جنرل xxx صاحب کے دور کے عقوبت خانوں کی طرف جاتے ہوئے بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ باقی تصویر اتارنے والا جانے اور اسکا کیمرہ

تصویر 26 علامہ اقبال کے مزار اور بیک گراؤنڈ میں بادشاہی مسجد ہے۔
تصویر 27 میں علامہ اقبال کے مزار کے باہر کھڑے پہرےدار کے میڈل ہیں۔
تصویر نمبر 28 میں شاہی قلعہ ہے۔

یہ وہی قلعہ ہے جہاں ایک وقت میں سیاسی نافرمانوں کا علاج کیا جاتا تھا اور پھر ایک وقت آیا کہ سرکاری سرپرستی میں ثقافت کے نام پر کیا کیا بے حیائی ان دیواروں نے دیکھی ۔ پچاس کے نوٹ کے پیچھے لگنے والی اسکی تصویر اس مقہور قلعے کے ساتھ ہونے والی کم از کم پچاس زیادتیوں کی گواہ ہے ۔
 

F@rzana

محفلین
بہت شکریہ ‘‘ضبط‘‘
آپ نے نمبروار تمام مقامات کی اچھی پہچان کروائی ہے
----
‘‘فیصل‘‘ بہت خوب
کیا تجزیہ شامل کیا ہے، لگتا ہے یہ نئی تواریخ سے لیا گیا ہے، بہت خوب :p

گارڈ کی پہچان مجھے لگتا تھا مشکل ہوگی لیکن وہ بھی پہچان لیئے گئے،
اب ان کی پوری تصویر بھی کسی روز لگانی پڑے گی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میری پوسٹ کردہ یہ تمام تصاویر 2006 کی ہیں، ابھی اسی ہفتے کھینچ کر مجھے دوست (جو اپنے والد کے نیچرل بائی پاس کے سلسلے میں لاہور ہیں) نے بھیجی تھیں، تو میں نے شیئر کر لیں
 

F@rzana

محفلین
اوہ، واؤ
بہت عمدہ تصاویر ہیں،
اچھا اضافہ کیا ہے، امید ہے کہ باقی ممبران بھی لاہور کی تصاویر میں اسی طرح اپنا حصہ ڈالتے رہیںگے البتہ یہ ہے کہ اپنی پوسٹ کے ‘‘موضوع ‘‘ میں نمبر ضرور لکھیں۔
اس طرح ریفرنس کے لیئے بھی ان تصاویر کا استعمال ہو سکے گا۔
شکریہ :idea:
 

قیصرانی

لائبریرین
فوٹو بکٹ کا استعمال۔۔۔ بالکل درست یاد دلایا۔ ابھی تو میں‌یہ تصاویر آپ کو ای میل کر دیتا ہوں۔ آئیندہ سے فوٹوبکٹ کا ہی استعمال کروں گا۔ اگر یہ مفت ہوا تو
 
pa170320wo5.jpg


یہ تصویر منٹو پارک میں کھڑے ہو کر بنائی گئی ہے ۔ جب آپ مینار یادگار قرارداد پاکستان کے سامنے والے دروازے سے داخل ہوں تو بادامی باغ کی طرف منٹو پارک میں چلتے ہوئے تیسرے کراسنگ پر کھڑے ہوکر بنائی گئی یہ تصویرجو کہ عملی طور پر مینار پاکستان کی بنیاد ہی بن جاتی ہے ۔ بادشاہی مسجد کے ایک روح پرور منظر کو اپنے اندر سمو لیتی ہے ۔

یہ جو ڈنڈے سے نظر آرہے ہیں یہ وہی جگہ ہے جہاں ہمیشہ جلسوں کا اسٹیج لگایا جاتا ہے اور عوام کو وعدوں کا لالی پاپ چوسنے کو دیا جاتا ہے ۔ اور تو اور مینار پاکستان کی بنیاد جن وعدوں پر بنی ہے آج تک ارباب اختیار کا منہ تک رہے ہیں ۔ کسی نے بالکل درست کہا تھا ۔ 1940 میں ایک باپ نے قوم کی رہنمائی کی اسے انگلیوں سے پکڑ کر چلنا سکھایا ۔ اسے بکھرے ہوئے لوگوں سے ایک قوم بنایا اور سات برس مین اس قوم نے ایک ملک حاصل کر بھی لیا ۔ لیکن اس ملک کے بنتے ہی ایک برس بعد جب وہ باپ اللہ کو پیارا ہوا تو یہ قوم یتیم ہو گئی ۔ اور ایسی یتیم ہوئی کہ بظاہر ہر کسی نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے اپنے حرم میں سجا لیا ۔ کبھی فوج نے اس پر اپنی باری لی تو کبھی سیاست دانوں نے اپنے تھکے ہوئے جسموں کو راحت پہنچائی ۔ اور یہ ڈھیٹ کی ڈھیٹ ہر روز ایک نیا دربار۔ نئے وعدے ۔ نئی قسمیں ۔ نئے لوگ مگر آخر میں کیا ہوتا ہے ۔ یاتو اپنی باری لینے والا خود تھک کر اتر جاتا ہے (جسکی ابھی تک کوئی صحت مند مثال نہیں ملی) یا پھر اسے کسی “مسیحا“ نے اس کے چنگل سے نکالا اور پرانے چنگل سے نکلتے ہی صیاد نئے دام کے ساتھ پھر میدان میں آگیا ۔ اور اپنی باری کا انتطام کرنے لگا ۔

اگر کوئی بات تلخ لگی ہو تو معذرت
 
Top