یہ تصویر منٹو پارک میں کھڑے ہو کر بنائی گئی ہے ۔ جب آپ مینار یادگار قرارداد پاکستان کے سامنے والے دروازے سے داخل ہوں تو بادامی باغ کی طرف منٹو پارک میں چلتے ہوئے تیسرے کراسنگ پر کھڑے ہوکر بنائی گئی یہ تصویرجو کہ عملی طور پر مینار پاکستان کی بنیاد ہی بن جاتی ہے ۔ بادشاہی مسجد کے ایک روح پرور منظر کو اپنے اندر سمو لیتی ہے ۔
یہ جو ڈنڈے سے نظر آرہے ہیں یہ وہی جگہ ہے جہاں ہمیشہ جلسوں کا اسٹیج لگایا جاتا ہے اور عوام کو وعدوں کا لالی پاپ چوسنے کو دیا جاتا ہے ۔ اور تو اور مینار پاکستان کی بنیاد جن وعدوں پر بنی ہے آج تک ارباب اختیار کا منہ تک رہے ہیں ۔ کسی نے بالکل درست کہا تھا ۔ 1940 میں ایک باپ نے قوم کی رہنمائی کی اسے انگلیوں سے پکڑ کر چلنا سکھایا ۔ اسے بکھرے ہوئے لوگوں سے ایک قوم بنایا اور سات برس مین اس قوم نے ایک ملک حاصل کر بھی لیا ۔ لیکن اس ملک کے بنتے ہی ایک برس بعد جب وہ باپ اللہ کو پیارا ہوا تو یہ قوم یتیم ہو گئی ۔ اور ایسی یتیم ہوئی کہ بظاہر ہر کسی نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے اپنے حرم میں سجا لیا ۔ کبھی فوج نے اس پر اپنی باری لی تو کبھی سیاست دانوں نے اپنے تھکے ہوئے جسموں کو راحت پہنچائی ۔ اور یہ ڈھیٹ کی ڈھیٹ ہر روز ایک نیا دربار۔ نئے وعدے ۔ نئی قسمیں ۔ نئے لوگ مگر آخر میں کیا ہوتا ہے ۔ یاتو اپنی باری لینے والا خود تھک کر اتر جاتا ہے (جسکی ابھی تک کوئی صحت مند مثال نہیں ملی) یا پھر اسے کسی “مسیحا“ نے اس کے چنگل سے نکالا اور پرانے چنگل سے نکلتے ہی صیاد نئے دام کے ساتھ پھر میدان میں آگیا ۔ اور اپنی باری کا انتطام کرنے لگا ۔
اگر کوئی بات تلخ لگی ہو تو معذرت