لا مذہبی علوم کا تنقیدی مطالعہ ایک تجویز

دور جدید کے " ازم " جو دین کے طالب علم پر پڑھنے لازم ہیں یاد رہے کہ یہ مطالعہ تنقیدی نکتہ نگاہ critical thinking کے طریقے پر ہونا چاہیے۔

1. Secular Liberalism سیکولر لبرلزم

بنیادی سطح پر ایک سیاسی نظریہ جسکے کے اثرات اعتقادات معاشرت عبادات اور ثقافت پر مرتب ہوتے ہیں اور
اسی کے ذیل میں democracy کا مطالعہ کیا جائے۔

2. Marxism and Capitalism اشتراکیت اور سرمایہ داریت۔

دو ایسے نظام کے جو معاشی سطح پر انسانی فلاح کے داعی ہیں لیکن درحقیقت انسان کو جکڑنے والے ہیں، بینکاری اور اسلامی بینکاری نظام کو اسی کے ذیل میں پڑھا جا سکتا ہے۔

3. Imperialism and Orientalism سامراجیت اور استشراق۔

سامراج نے جس درجہ انسانی اور اسلامی دنیا کو نقصان پہنچایا ہے اسکی دوسری مثال نہیں دی جا سکتی خاص کر برطانوی سامراج کا اس میں بڑا حصہ ہے ، تحریک استشراق بھی سامراج کی کوکھ میں پلی اور اسی کی گود میں پروان چڑھی ہے دور جدید میں مذہب کی تشکیلِ نو اور مذہبی بنیادوں پر اعتماد کی دیواروں کو منہدم کرنے میں اسی فکر اور اسی کے وارث اداروں کا بڑا کردار ہے۔

4. Atheism and Agnosticism الحاد و تشکیک۔

الحادی منہج فکر اور اسکی فلسفیانہ بنیادیں در حقیقت مذہب تشکیک سے جنم لیتی ہیں اسی کے ذیل میں rationalism کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔

5. Humanism and Faminism مذہب انسانیت اور فیمینزم۔

ثقافتی سطح پر مذہب انسانیت کو متعارف کروایا گیا تاکہ وحی کے ذریعے حاصل ہونے والی اخلاقی اقدار کو متروک قرار دیا جا سکے اسی طرح عورتیت کی تحریک درحقیقت خاندانی نظام کو توڑنے اور مذہب کے تخلیق کردہ معاشرے کی بنیادیں اکھاڑنے کیلیے تشکیل دیا گیا اسی کے ذیل میں gender fluidity اور sexualism کو بھی پڑھا جا سکتا ہے۔

6. Syncretism and Sufism تقارب ادیان اور
مذہب رہبانیت۔

دور جدید میں جب انسان کو اس بات کا ادراک ہوا کہ مذہب کو مکمل طور پر ختم کرنا تو کجا دبانا بھی مشکل ہے تو اس نے جدید مذاہب تخلیق کرنے یا پچھلے مذاہب کی ایسی کھچڑی بنانے کی کوشش کی کہ جو اسے مطلوب ہوں یہ جدید دین اکبری " وحدتِ ادیان " کی نئی شکل تھی اسی کے ساتھ اسلامی تصوف سے پرے ایک جدید مذہب رہبانیت تخلیق کرنے کی کوشش کی گئی کہ جسکا مقصود رقص و موسیقی اور دیگر رسوم کو رواج دینا تھا۔

7. Modernism and Post Modernism جدیدیت اور مابعد جدیدیت۔

دور جدید کی علمی و ادبی روایات مذہب کی طرف انکا رویہ اور جدید مذہب کی رسومات کہ جو قدیم یونان سے مستعار لی گئی ہوں فلسفے کے مخصوص رجحانات اس عنوان کے تحت پڑھے جا سکتے ہیں۔

نوٹ ؛
یاد رہے یہ ایک بنیادی خاکہ ہے کہ جس کے تحت ایک مذہبی ذہن دور جدید میں اعتقادی، فکری، معاشرتی سطح پر درپیش فتنوں کا صحیح طور پر ادراک کرکے ان کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کر سکتا ہے لیکن اس کیلیے اپنی اصل قرآن و سنت اور اجماع امت سے جڑے رہنا بہت ضروری ہے۔

حسیب احمد حسیب
 

جاسم محمد

محفلین
دور جدید میں جب انسان کو اس بات کا ادراک ہوا کہ مذہب کو مکمل طور پر ختم کرنا تو کجا دبانا بھی مشکل ہے تو اس نے جدید مذاہب تخلیق کرنے یا پچھلے مذاہب کی ایسی کھچڑی بنانے کی کوشش کی کہ جو اسے مطلوب ہوں یہ جدید دین اکبری " وحدتِ ادیان " کی نئی شکل تھی اسی کے ساتھ اسلامی تصوف سے پرے ایک جدید مذہب رہبانیت تخلیق کرنے کی کوشش کی گئی کہ جسکا مقصود رقص و موسیقی اور دیگر رسوم کو رواج دینا تھا۔
کیا کوئی مغربی تعلیم بغیر سازشی نظریہ کے حاصل کرنا ممکن ہے؟
 
کیا کوئی مغربی تعلیم بغیر سازشی نظریہ کے حاصل کرنا ممکن ہے؟

جب آپ نے کسی عنوان کو مضحکہ خیز نشان زد کردیا تو پھر اس پر گفتگو کی گنجائش بنتی تو نہیں۔

یہاں مغربی تعلیم سے گفتگو نہیں ہے میں خود پچھلے دس سال سے لیولز پڑھا رہا ہوں نہ ہی میں نے اس پوسٹ میں فزکس ، کمیسٹری ، میتھس ، کمپیوٹر سائنس سے گفتگو کی ہے ، یہاں پر مغربی نظریات سے گفتگو ہے۔

اگر آپ کے نزدیک critical analysis سازشی تھیوری ہے تو مجھے اس پر حیرت ہے conspiracy theory وہ ہوتی ہے کہ جس سے متعلق حوالہ جات موجود نہ ہوں اور وہ نامعلوم سے گفتگو کرے میرے مضمون میں تو معروف اصطلاحات اور تعبیرات کا صرف تعارف ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر آپ کے نزدیک critical analysis سازشی تھیوری ہے تو مجھے اس پر حیرت ہے conspiracy theory وہ ہوتی ہے کہ جس سے متعلق حوالہ جات موجود نہ ہوں اور وہ نامعلوم سے گفتگو کرے میرے مضمون میں تو معروف اصطلاحات اور تعبیرات کا صرف تعارف ہے۔
آپ نے لکھا
دو ایسے نظام کے جو معاشی سطح پر انسانی فلاح کے داعی ہیں لیکن درحقیقت انسان کو جکڑنے والے ہیں
سامراج نے جس درجہ انسانی اور اسلامی دنیا کو نقصان پہنچایا ہے اسکی دوسری مثال نہیں دی جا سکتی خاص کر برطانوی سامراج کا اس میں بڑا حصہ ہے ، تحریک استشراق بھی سامراج کی کوکھ میں پلی اور اسی کی گود میں پروان چڑھی ہے دور جدید میں مذہب کی تشکیلِ نو اور مذہبی بنیادوں پر اعتماد کی دیواروں کو منہدم کرنے میں اسی فکر اور اسی کے وارث اداروں کا بڑا کردار ہے۔
ثقافتی سطح پر مذہب انسانیت کو متعارف کروایا گیا تاکہ وحی کے ذریعے حاصل ہونے والی اخلاقی اقدار کو متروک قرار دیا جا سکے اسی طرح عورتیت کی تحریک درحقیقت خاندانی نظام کو توڑنے اور مذہب کے تخلیق کردہ معاشرے کی بنیادیں اکھاڑنے کیلیے تشکیل دیا گیا
دور جدید میں جب انسان کو اس بات کا ادراک ہوا کہ مذہب کو مکمل طور پر ختم کرنا تو کجا دبانا بھی مشکل ہے تو اس نے جدید مذاہب تخلیق کرنے یا پچھلے مذاہب کی ایسی کھچڑی بنانے کی کوشش کی

یعنی آپ کو ہر مغربی علم و نظریہ میں مذہب مخالف سازش کی بو آ رہی ہے۔ اگر مغربی علوم حاصل کرنے کا مقصد اپنے طے شدہ سازشی نظریات کو ہی تقویت دینا ہے تو بہتر ہے آپ ان کا مطالعہ پھر نہ ہی کریں۔ بدنیتی سے حاصل کیا گیا آپ کو کیا فائدہ دے گا؟
 
یہ صرف تجویز کے درجے میں ہے اسی لیے کتب اور مقالہ جات ریفر نہیں کیے قاری خود سرچ کرکے مطالعہ کر سکتا ہے اور اپنی رائے خود قائم کر سکتا ہے۔
 
یعنی آپ کو ہر مغربی علم و نظریہ میں مذہب مخالف سازش کی بو آ رہی ہے۔ اگر مغربی علوم حاصل کرنے کا مقصد اپنے طے شدہ سازشی نظریات کو ہی تقویت دینا ہے تو بہتر ہے آپ ان کا مطالعہ پھر نہ ہی کریں۔ بدنیتی سے حاصل کیا گیا آپ کو کیا فائدہ دے گا؟[/QUOTE]

میرے خیال میں پہلے علم اور نظریے کا فرق سمجھیے۔
علم اپنی اصل میں نہ تو موافق ہوتا ہے نہ مخالف علم صرف علم ہے جیسے فزکس ایک علم ہے یہ کسی نظریے کے نہ تو مخالف ہے اور نہ موافق۔

اب نظریات کو دیکھیے کوئی بھی نظریہ کسی دوسرے نظریے کو رد کرتا ہے یا اسکی اصلاح کرتا ہے جیسے مارکسزم یا سوشلزم مخالفت کرتا ہے کیپیٹلزم کی چونکہ ہر دو نظریات بنیادی سطح پر معاشیات سے منسلک ہیں اسلیے ایک دوسرے کو رد کرتے ہیں۔

اسی طرح اگر کولونیل ازم یعنی سامراجیت و استعمار کو دیکھیے تو یہ جمہوریت کے مخالف ہے۔

اسی طرح استشراقیت کو دیکھیں تو اسکا زیادہ تر مواد اسلام پر تنقید پر مبنی ہے۔

پھر جب آپ ان تمام نظریات سے گفتگو کرتے ہیں کہ جو وحی یا کسی آسمانی ہدایت کی نفی کرتے ہیں تو لازمی امر ہے کہ انکی ہیت ترکیبی مذہب کی ہیت ترکیبی کی مخالف ہوگی۔
 
آخری تدوین:
استعمار کے منفی ہونے پر تو مشرق و مغرب ہر دو خطوں کے مفکرین کا اتفاق ہے۔

سوشلزم اور سرمایہ داریت میں سے کوئی ایک نظام ہی درست ہو سکتا، سوشلزم تو دنیا میں محدود سطح پر باقی ہے لیکن سرمایہ داری نظام اس وقت ایک غالب نظام ہے اور اسکی خرابی پر بھی مشرق و مغرب کے تمام مفکرین متفق ہیں۔

مذہب کی تشکیل نو یا وحدت ادیان کسی بھی مذہب سے منسلک شخص کو کیسے منظور ہو سکتی ہے اس کا سازش سے کوئی تعلق نہیں یہ تو براہ راست نظریاتی تصادم ہے۔
 

عدنان عمر

محفلین
جناب حسیب احمد حسیب! ایک نہایت اہم اور قابلِ توجہ موضوع پر لڑی شروع کرنے پر آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
بلاشبہ عصرِ حاضر میں عقلیت پرستی، تشکیک اور دیگر باطل نظریات کو اتنا فروغ دیا جا رہا ہے کہ درست اسلامی فکر کا تعین بہت سوں کے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے۔
یہ بھی اچھا ہے کہ ان لامذہبی نظریات کا محاسبہ بھی اسی تنقیدی سوچ یا critical thinking کے ذریعے کیا جائے جو مغرب کی ودیعت کردہ ہے۔
امید ہے کہ آپ ان موضوعات پر مزید اظہارِ خیال کریں گے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حسیب بھائی ،آپ نے اپنے مراسلوں میں تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ کے بارے میں اچھے نکات اٹھائے ہیں ۔ یہ میرا بھی پسندیدہ موضوع ہےاور ایک عرصے سےاس طرح کے ایک مضمون کا خاکہ میرے ذہن میں ہے کہ "کتابیں کیوں نہیں پڑھنی چاہئیں " ۔ شایدکبھی لکھ سکوں ۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ جیسے دنیا کی ہرچیز ہر آدمی کے لئے نہیں ہے اسی طرح ہرکتاب اور ہر علم بھی ہر آدمی کے لئے نہیں ہے ۔ درست انتخاب اور چنائو ضروری ہے ۔ ہر علم نافع نہیں ۔( اس دنیا کو سب سے زیادہ نقصان پڑھے لکھے لوگوں ہی نے پہنچایا ہے !)
اسی بات کو ایک شعر میں بھی کہنے کی کوشش کی تھی ۔
دیکھنا کیا ہے ، کہاں صرف نظر کرنا ہے
معرکہ یہ بھی مری آنکھ کو سر کرنا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
حسیب بھائی ،آپ نے اپنے مراسلوں میں تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ کے بارے میں اچھے نکات اٹھائے ہیں ۔ یہ میرا بھی پسندیدہ موضوع ہےاور ایک عرصے سےاس طرح کے ایک مضمون کا خاکہ میرے ذہن میں ہے کہ "کتابیں کیوں نہیں پڑھنی چاہئیں " ۔ شایدکبھی لکھ سکوں ۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ جیسے دنیا کی ہرچیز ہر آدمی کے لئے نہیں ہے اسی طرح ہرکتاب اور ہر علم بھی ہر آدمی کے لئے نہیں ہے ۔ درست انتخاب اور چنائو ضروری ہے ۔ ہر علم نافع نہیں ۔( اس دنیا کو سب سے زیادہ نقصان پڑھے لکھے لوگوں ہی نے پہنچایا ہے !)
اسی بات کو ایک شعر میں بھی کہنے کی کوشش کی تھی ۔
دیکھنا کیا ہے ، کہاں صرف نظر کرنا ہے
معرکہ یہ بھی مری آنکھ کو سر کرنا ہے
مختلف اقسام کی کتابیں پڑھنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ہر علم کا فائدہ مند یا نقصان دہ استعمال بھی انسا ن کی مرضی کے ہی مطابق ہے۔
 
مختلف اقسام کی کتابیں پڑھنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ہر علم کا فائدہ مند یا نقصان دہ استعمال بھی انسا ن کی مرضی کے ہی مطابق ہے۔


اگر مختلف فنون کی کتابیں ایک ساتھ پڑھی جائیں تو انسان کنفیوژن کا شکار ہو سکتا ہے اسی لیے آپ یونیورسٹیوں میں الگ الگ کلیات دیکھتے ہیں اور اس سے نچلی سطح پربھی مضامین کی تقسیم دکھائی دیتی ہے۔
 

عدنان عمر

محفلین
‏فلسفے کو جاننا بہتر ہے، فلسفے کی ماننا خطرناک ہے۔ فلسفے کو جاننے سے ذہنی سطحیت دور ہوتی ہے۔ فلسفے کو ماننے سے ایمانی ذہن کمزور پڑتا ہے۔
(احمد جاوید صاحب)
 
فلسفہ بنیادی سطح پر انسانی عقل پر مدار کرتا ہے اور دین کی بنیاد وحی ہے یہ علوم کے دو مختلف شعبے ہیں، بعض اوقات فلسفی بھی اس بات کا مدعی ہوتا ہے کہ اسے جو علم نصیب ہوا ہے وہ فکری بھی ہے اور الہامی بھی ہے جیسے سقراط یا بودھ کوئی اسے وجدان کا نام دیتا ہے ہمارے یہاں صوفی مکتبہ فکر میں اسے کشف و الہام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
شریعت میں وجدان ہو تفکر ہو تدبر ہو کشف ہو الہام ہو اگر وحی کے مطابق ہے تو درست ہے وگرنہ نہیں ہے۔
 
اس بات کا ادراک کیسے ہو گا کہ وحی سچی ہے یا جھوٹی؟

یہ ایک بنیادی سطح کا سوال ہے لیکن اس سے پہلے اس بات کا ماننا ضروری ہے کہ کیا وحی کا امکان موجود ہے یا نہیں یا اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ کوئی ایسی طاقت موجود ہے کہ جو وحی کرتی ہے۔
 
Top