احمد ندیم قاسمی لب پہ جب اس کے پلٹنے کی دعا آتی ہے

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
لب پہ جب اس کے پلٹنے کی دعا آتی ہے
اک دیا دل کے دریچے میں جلا آتی ہے

جب اترتی ہیں میرے دل میں پرانی یادیں
کتنی بچھڑی ہوئی کونجوں کی صدا آتی ہے

سوچتا ہوں کہ کہیں قیس نہ ہو گریہ کناں
بھیگی بھیگی سی جو صحرا سے ہوا آتی ہے

میرے باطن میں کوئی قافلہ ہے محوِ سفر
سانس لیتا ہوں تو آوازِ درا آتی ہے

اس حوالے سے کہ شہپارۂ تخلیق ہے وہ
مجھ کو انسان سے خوشبوئے خدا آتی ہے

نوعِ انساں کے تقدس کی سوگند ہے ندیم
اپنے دشمن سے بھی اب مجھ کو حیا آتی ہے




 

مقدس

لائبریرین
کاکیو میرے لیے پریشان نہیں ہوا کرو۔۔ میں اچھی ہوں اور سب کو مس بھی کرتی ہوں پر وہ میں نے کہا تھا ناں کہ میرے طبعیت کا چڑچڑاپن مجھے یہاں آنے نہیں دیتا لولزز
 
Top