قرۃالعین اعوان
لائبریرین
لب پہ جب اس کے پلٹنے کی دعا آتی ہے
اک دیا دل کے دریچے میں جلا آتی ہے
جب اترتی ہیں میرے دل میں پرانی یادیں
کتنی بچھڑی ہوئی کونجوں کی صدا آتی ہے
سوچتا ہوں کہ کہیں قیس نہ ہو گریہ کناں
بھیگی بھیگی سی جو صحرا سے ہوا آتی ہے
میرے باطن میں کوئی قافلہ ہے محوِ سفر
سانس لیتا ہوں تو آوازِ درا آتی ہے
اس حوالے سے کہ شہپارۂ تخلیق ہے وہ
مجھ کو انسان سے خوشبوئے خدا آتی ہے
نوعِ انساں کے تقدس کی سوگند ہے ندیم
اپنے دشمن سے بھی اب مجھ کو حیا آتی ہے
اک دیا دل کے دریچے میں جلا آتی ہے
جب اترتی ہیں میرے دل میں پرانی یادیں
کتنی بچھڑی ہوئی کونجوں کی صدا آتی ہے
سوچتا ہوں کہ کہیں قیس نہ ہو گریہ کناں
بھیگی بھیگی سی جو صحرا سے ہوا آتی ہے
میرے باطن میں کوئی قافلہ ہے محوِ سفر
سانس لیتا ہوں تو آوازِ درا آتی ہے
اس حوالے سے کہ شہپارۂ تخلیق ہے وہ
مجھ کو انسان سے خوشبوئے خدا آتی ہے
نوعِ انساں کے تقدس کی سوگند ہے ندیم
اپنے دشمن سے بھی اب مجھ کو حیا آتی ہے