نبیل، میں معذرت خواہ ہوں کہ اگر میں جذباتیت میں کوئی ایسی بات کر گیا کہ اس سے آپ کی کسی بھی طور پر اہانت ہوئی ہو۔
میں آپ سے پھر معذرت چاہتا ہوں۔
مگر بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف بولنے والوں نے خود ایک دہشت گرد تنظیم کے حق میں ایسی بھونڈی دلیل دی کہ میرا سر چکرا گیا۔ اگر میری پیشہ ورانہ مصرفیات نہ ہوتیں تو میں اسی وقت مطلوبہ پوسٹ کو محفوظ کر لیتا اور مجھے یہ کلمات کہنے کی نوبت نہ آتی۔
اب تو میرا ایمان ان سیکولر ،انصاف کے دعوے داروں سے بھی اُٹھ گیا ہے جو یہاں چیختے چلا رہے ہیں۔ واضح رہے نبیل اور انتظامیہ یہ میں آپ کے بارے میں نہیں کہہ رہا۔
مجھے نہیں علم کہ میں نے سپاہ محمد کا وہ کونسا دفاع کیا ہے جس کی بنیاد پر آپ مسلسل مجھے یہ طعنے دے رہے ہیں۔
اور طالبان اتنے عرصے سے معصوم لوگوں کو ذبح کر رہی ہے اور یہ بہانہ میڈیا میں اور اس فورم میں تکرار کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے طالبان پاک فوج پر حملے کر رہی ہے۔ آپ نے کبھی ان لوگوں پر ایسے طعن نہیں کیا جیسا کہ آج آپ مجھ پر کر رہے ہیں۔
جب اہل تشیع نے اسلام آباد کے گھیراؤ کا اعلان کیا اور اسلام آباد تک غالبا بہنچے بھی تھے تو کیا یہ ایک ریاست کو یرغمال بنانا نہیں تھا؟
حکومت سے بات چیت کر لیتے؟ مگر نہیں ملک گیر تحریک اٹھی اور بقول آپ کے اب اس کا نام غلط فہمی سے بچنے کے لئے بدل دیا گیا ہے۔
یہی کام تو سوات اور مالاکنڈ کے عوام 1994 سے کر رہے تھے۔ وہ بار بار درخواست کر رہے تھے ، اور جب ان کے مسائل کا حل نہیں نکلا تو اب ان کی تحریک نے یہ رخ اختیار کر لیا ہے کہ اب پتہ ہی نہیں چل رہا کہ کون کون ہےاور ہم سب بھگت رہے ہیں۔
نام تو مہاجر قومی موومنٹ کا بھی بدل کر متحدہ رکھا گیا ہے۔ کیا کراچی کے حالات پر اثر پڑا؟ کیا قائد کے غداروں کو اب موت کی سزا ملنی بند ہو گئی ہے؟
اگر آپ میرے بلاگ کا مطالعہ کریں تو مجھ سے زیادہ مخالفت شائد ہی کسی نے طالبان کی کی ہو، مگر بات یہ ہے کہ میں گھٹیا بازاری زبان اور ننگی گالیاں دینے پر یقین نہیں رکھتا۔ اگر ہم بھی گھٹیا حربوں پر اترآئیں تو ہم میں اور ان میں کیا فرق؟
ذرا سوچیں!!
اور آپ کی پرسنل لا اور سٹیٹ لا کےبارے میں ساری بحث جذباتیت پر مبنی ہے۔ کس کو دھوکہ دے رہی ہیں آپ؟
پہلے تو یہ بات بتائیں کہ شریعت ایک پرسنل لا ہے یا سٹیٹ لا؟
صوفی محمد تو ایک جاہل ملا ہے، آپ کے ساتھ ساتھ میں بھی اس کی مخالفت کرتا ہوں، مگر کیا صوفی محمد کی مثال لے کر ہم اچھے علماء کو بھی ذلیل کرنا شروع کردیں؟
صوفی محمد کی بات لے کر آپ مالاکنڈ اور سوات کے ان عوام کے جائز مطالبے کو بھی رد کردیں گے جو پاکستان میں ریاست سوات کے انضمام تک اپنے مسائل قضاۃ سے حل کرواتے تھے؟
کیا آپ کو علم ہے کہ یہ سسٹم 1994 تک جاری تھا اور جب یہ سسٹم ختم ہوا تو عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گیاِ؟
آپ کو تو بس طالبان اور شریعت نام کی اگر ایک بکری بھی مل جائے تو آپ اس کے بخئے ادھیڑ دیں۔
بخدا آپ کے اس مایوپک طریقہ کار سے میں بہت مایوس ہوا ہوں۔
بس مختصر بیان کروں گی کہ شریعت میں سٹیٹ اور پرسنل لا موجود ہیں۔ رسول ص کے زمانے میں مسلمانوں کے فقہ نہیں تھے، مگر جو غیر مسلم موجود تھے انکے شادی بیاہ وغیرہ کے ذاتی فیصلے انکے پرسنل لا کے مطابق کرنے کا حکم رسول ص نے دیا تھا جس پر بعد میں آنے والے خلفا نے عمل کیا
اور جب مسلمانوں کے باقاعدہ فقہ بنے تو اختلاف رائے سے نپٹنے کے لیے اجتہاد کیا گیا جس کے مطابق بقیہ فقہوں کا احترام کرتے ہوئے پرسنل لا ان فقہوں کے ماننے والوں کے لیے بھی عمل میں آئے۔
اگر ایک مثال دوں کہ ایران میں سٹیٹ لا فقہ جعفریہ ہے جس کے مطابق ایک نشست میں تین دفعہ طلاق کہہ دینے سے طلاق نہیں ہوتی، بلکہ حالت حیض میں تو طلاق دی ہی نہیں جا سکتی، اور پھر حیض سے پاک ہونے پر پہلی طلاق دی جا سکتی ہے۔ پھر دوسری طلاق دوسرے حیض سے پاک ہونے پر ہے اور تیسری طلاق تیسرے حیض سے پاک ہونے پر ہے۔
اس طرح طلاق کا یہ پورا پروسیس تین ماہ سے ساڑھے تین ماہ تک کا ہے۔
مگر ایران میں اہلسنت کو پرسنل لا کے تحت اختیار ہے کہ وہ اپنے طریقے سے طلاق دیں، کیونکہ اگر ان پر سٹیٹ لا لاگو کر دیا جائے تو طلاق نہ ہو گی اور شوہر اور بیوی کو ایک چھت کے نیچے رہنے پر مجبور کیا جائے گا، جو کہ اہلسنت فقہ کے مطابق زنا ہو گا کیونکہ انکے نزدیک طلاق ہو چکی ہے۔ [نوٹ: قرانی حکم کے مطابق طلاق کے پورے پراسس کے دوران عورت کو حکم ہے کہ وہ شوہر کے گھر میں رہے، نہ وہ خود باہر نکلے اور نہ شوہر اسے گھر سے نکال سکتا ہے]
امید ہے کہ آپ کو پرسنل لا کا مسئلہ کلئیر ہو گیا ہو گا۔
بقیہ پاکستان کی اکثریت کو اس پر اعتراض نہیں کہ سوات میں نظام عدل نافذ ہو، مگر انہیں اس نظام کے ان خراب حالات میں یوں نفاذ کرنے پر اختلاف تھا کہ جس کے بعد نظام عدل کے نام پر پوری سوات وادی پر طالبان اقلیت گروہ اپنے پورے فتنے کے ساتھ قابض ہو جائے گا۔
اسکے باوجود یہ نظام نافذ کیا گیا اور اسکے تمام تر نتائج ہم نے دیکھ لیے کہ صوفی محمد اس نظام کو اپنے تابع رکھنا چاہتا ہے اور شرائط پر شرائط لگا رہے، اور اسکے اثر کے تحت طالبان پورے سوات پر قابض ہو کر اپنی لڑائی اور فساد کو دوسرے علاقوں میں پھیلا رہے ہیں اور ویسے ہیں انہوں نے دہشت اور اسلحے کے زور پر یرغمال بنا رکھا ہے۔
اس غلط وقت پر اس نظام کے نفاذ کے جو خطرناک نتائج کے بارے میں خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے وہ سو فیصدی سچ نکلے اور آج جو پندرہ لاکھ لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اس سے کہیں کم خسارہ ہوتا اگر یہ آسان سی بات سمجھ لی جاتی کہ طالبان کی فطرت کیا ہے۔
باقی آپ آزاد ہیں کہ اس بنیاد پر مجھے یا پھر خرم برادر کو اور بقیہ اس پوری قوم کو جو طالبان کے اس قتل و عام کو دیکھ کر آپریشن کے حق میں صدا اٹھا رہی ہے انہیں اپنے اندر چھپے ہوئے دشمن قرار دیں۔
مگر یہ ہمارا حق ہے کہ ہم بھی آپ کے متعلق یہ رائے رکھیں کہ ناداں دوست سے عقلمند دشمن بہتر، کہ اگر رائیٹ ونگ میڈیا پہلے دن سے ہی طالبانی مظالم پر یونہی لبرل فاشسٹ اور اندر چھپے دشمن کے نام لے لے کر پردے نہ ڈالتا تو آج قوم کو یہ خسارے کا دن نہ دیکھنا پڑتا۔