لطائف غالب

رانا

محفلین
یزید و بایزید

ایک روز دوپہر کا کھانا آیا۔ دسترخوان بچھا مگر کھانے والے بہت تھے اور کھانا قلیل تھا۔ مرزا نے مسکرا کر کہا ۔۔۔۔۔ برتنوں کی کثرت سے میرا دسترخوان یزید کا دسترخوان معلوم ہوتا ہے لیکن کھانے کی مقدار کی اعتبار سے بایزید کا۔

چودہ طبق روشن

میرزا غالب کے ایک شاگرد ایک دن امیر خسرو کی قبر پر گئے۔ مزار پر کھرنی کا ایک درخت تھا واپس آئے تو میرزا سے کہنے لگے کہ میں نے جی بھر کر کھرنیاں کھائیں۔ اتنی کہ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ میرزا چہک کر بولے ۔۔۔ اماں تین کوس کاہے کو گئے، میرے پچھواڑے کے پیپل کی پیلیاں کیوں نہ کھالیں۔ چودہ طبق روشن ہوجاتے۔

کہیں میرا جوتا

ایک روز سید سردار میرزا کے ہاں تشریف لائے جب تھوڑی دیر کے بعد جانے لگے تو مرزا شمع دان لے کر لب فرش تک آئے تاکہ وہ روشنی میں جوتا دیکھ کر پہن لیں۔ انہوں نے کہا "۔۔۔ قبلہ و کعبہ آپ نے اس قدر زحمت فرمائی میں اپنا جوتا پہن لیتا" مرزا ہنس کر بولے ۔۔۔ بھئی میں آپ کا جوتا دکھانے کو شمع دان نہیں لایا بلکہ اس احتیاط سے لایا ہوں کہیں آپ میرا جوتا نہ پہن جائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
شیطان

مراز غالب رمضان کے مہینے میں دہلی کے محلے قاسم جان کی ایک کوٹھری میں بیٹھے پچسی کھیل رہے تھے میرٹھ سے ان کے شاگرد مفتی شیفتہ دہلی آئے، تو مرزا صاحب سے ملنے گلی قاسم جان آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ رمضان کے متبرک مہینے میں مرزا پچسی کھیل رہے تھے۔ انہوں نے اعتراض کیا : “مرزا صاحب ہم نے سنا ہے کہ رمضان میں شیطان بند کر دیا جاتا ہے۔“ مرزا غالب نے جواب دیا “مفتی صاحب آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ شیطان جہاں قید کیا جاتا ہے، وہ کوٹھری یہی ہے۔“
 

شمشاد

لائبریرین
قید

مرزا غالب قید فرنگ میں کئی سال گزار کر سلامت سے واپس ائے، تو ان کا قیام کالے میاں صاحب کے گھر ہوا۔ یہ بہادر شاہ ظفر کے مرشد زادے اور شیخ فخر الدین چشتی کے فرزند زادے تھے۔ کسی نے مرزا غالب کو رہائی کی مبارک دی تو کہنے لگے “کون قید سے رہا ہوا ہے؟ پہلے گورے کی قید میں تھا، اب کالے کی قید میں ہوں۔“
 

شمشاد

لائبریرین
گدھے

مرزا غالب شطرنج کے بڑے شوقین تھے۔ مولانا فیض الحسن سہارنپوری دلی میں نئے نئے آئے تھے۔ غالب کو پتا چلا کہ وہ بھی شطرنج کے اچھے کھلاڑی ہیں تو انہیں دعوت دی اور کھانے کے بعد شطرنج کی بساط بچھا دی۔ ادھر سے کچھ کوڑا کرکٹ ڈھونے والے گدھے گزرے تو مولانا نہ کہا “دلی میں گدھے بہت ہیں!“ مرزا غالب نے سر اٹھا کر دیکھا اور بولے “ہاں بھائی، باہر سے آ جاتے ہیں۔“
 

شمشاد

لائبریرین
حساب برابر

مرزا اسد اللہ غالب نے ایک دفعہ کسی دوست سے کہا “میرے پاؤں میں درد ہو رہا ہے۔ “

دوست نے کہا “دبا دیتا ہوں۔“
غالب نے کہا “کیوں شرمندہ کرتے ہو؟“
دوست نے کہا “کوئی بات نہیں، اجرت دے دیجیے گا۔“

پاؤں دبا کر دوست نے مذاقاً کہا “لایئے اجرت کے پیسے دیجیے۔“

غالب نے جواب دیا “میاں کیسی اجرت، تم نے ہمارے پاؤں دبائے، ہم نے تمہارے پیسے دبائے۔ حساب برابر ہو گیا۔“
 

جٹ صاحب

محفلین
گدھے

مرزا غالب شطرنج کے بڑے شوقین تھے۔ مولانا فیض الحسن سہارنپوری دلی میں نئے نئے آئے تھے۔ غالب کو پتا چلا کہ وہ بھی شطرنج کے اچھے کھلاڑی ہیں تو انہیں دعوت دی اور کھانے کے بعد شطرنج کی بساط بچھا دی۔ ادھر سے کچھ کوڑا کرکٹ ڈھونے والے گدھے گزرے تو مولانا نہ کہا “دلی میں گدھے بہت ہیں!“ مرزا غالب نے سر اٹھا کر دیکھا اور بولے “ہاں بھائی، باہر سے آ جاتے ہیں۔“

زبردست پیٹ میں :bomb: پھٹ گیا:best:
 
آدھا مسلمان

غدر کے بعد مرزا غالب بھی قید ہو گئے۔ ان کو جب وہاں کے کمانڈنگ آفیسر کرنل براؤن کے سامنے پیش کیا گیا تو کرنل نے مرزا کی وضع قطع دیکھ کر پوچھا۔

ویل، ٹم مسلمان ہے۔

مرزا نے کہا، جناب، آدھا مسلمان ہوں۔

کرنل بولا۔ کیا مطلب؟

مرزا نے کہا، جناب شراب پیتا ہوں، سؤر نہیں کھاتا۔
 
Top