اپنا ہی ایک
مراسلہ نظر آگیا ۔ اُ سے تو یہاں ہونا چاہیے تھا۔۔۔
خیر حالات ویسے ہی ہیں ’’ ناٹو ‘‘ کا ’’ نپولین‘‘ اپنا کام کر چکا اور ہم شہیدوں کو دفنا بھی چکے ۔۔
کسی نے طاعون کے بعد شہر دیکھا ہو تو سمجھ سکتا ہے ۔گلی کے نکڑ سے گھر تک شاید پیر دھرنےکی جگہ ملے زہرخوردہ کتوں کی طرح انسان (بروزنِ حیوان) پڑے ہونگے ۔ بے گور و کفن لاشے ۔۔ جنہیں انسان نامی درندے نے ادھیڑ رکھا ہو ۔۔ کسی کے سر میں سوراخ سے گندا (تعصب سےبھرا ) خون رسے گا کسی کے دھڑ سے ۔۔ کسی کی آنکھیں ابل رہی ہونگی ۔۔ کسی کان کٹے ہونگے آراہ کتوں کو رزق ملے گا ، لاشیں اٹھانے والوں کو رزق ملے گا ۔۔ کفن بیچنے والوں کو دال روٹی ملے گی۔۔ قبریں کھودنے والوں کے ہاں گوشت پکے گا۔۔ قصابوں کی چاندی ہوگی ۔ قناتیں لگیں گی ۔۔ دیگیں پکیں گی۔ اور امت ِ محمدی ۔۔۔۔۔۔۔ بڑے شان سے دانتوں میں خلال فرماتے ہوئے کہے گی ۔۔ بریانی اچھی تھی ۔۔مگر مصالحہ کم تھا۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا کہے گا۔۔۔۔۔ یار فلاں کے ہاں کیا بریانی تھی قسم سے مزا آگیا۔ پھر ہم ایک بار اور محمد احمد کی نظم ’’ بے حسی ‘‘ پڑھیں گے اور ۔۔۔۔۔ اناللہ و انا الیہ راجعون ۔۔ کاپی پیسٹ کرتے رہیں گے۔۔۔ زیادہ ہوا تو ‘‘ احتجاج’’ کریں گے۔۔ اور ۔۔۔ اگلے واقعے کا انتظار۔۔۔ سچ ہے جو بویا تھا وہ کاٹ رہے ہیں ہم ۔۔۔ بوڑھی ہڈیوں والے قائد اعظم کو جو قوم ایمبولینس میں آکسیجن نہ دے سکے ایندھن نہ دے سکے ۔۔ اس کے ساتھ یہی ہونا چاہیے ۔۔۔
رحم کے قابل نہیں تھا آدمی
آسماں نے جو کیا اچھّا کیا !!!!
(انور شعور)
ہمارا المیہ ہی یہی ہے کہ کسی نجات دہندہ کی تلاش میںہوتے ہیں ۔ جیے بھٹو۔ کبھی جیے الطاف، جیے ولی ، جیے نواز اور جیے فلاں کے نعرے لگاتے ہوئے ووٹ دینے ہم ہی جاتے ہیں۔۔ اور پھر یہ ناسور ۔۔ سؤر بن کر ہمارے خون سے منھ دھوتے ہیں۔ ہمیں جاہل رکھ کر دال روٹی میںالجھا دیا گیا ۔۔۔حیف ہم جانوروں سے بھی بد تر ہیں۔ کوئی عذاب ہی ہمیں سنبھال سکتا ہے ۔ دنیا میں دو طرح کی قومیں ہیں ۔۔۔ زوال یافتہ اور زوال پزیر۔ ہم تیسری نسل ہیں ۔۔ جو ’’ زوال آمادہ ‘‘ ہیں۔۔ مذہب کو بھی ہم منھ کا چٹخارہ بنارکھا ہے ۔۔لاکھوں کعبے میں جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ مووی بناتے ہیں اور واپس آکر ۔۔ انسانوں کا خون چوستے ہیں۔ عبادات دکھلاوے کی ۔۔ بس پیسہ اور اقتدار ۔۔۔۔ کی بدمستی ہی ہمارا مذہب ہے ۔ لعنت ہم پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (یہاں کسی کو ’’ ہم ‘“ پر اعتراض ہو تو ’’ہم ‘‘ سے مراد میری لی جائے )
کیا کہتے ہیں ؟؟؟ ہے نا لعنت مجھ پر۔۔۔۔لعنت مجھ پر کہ میں اس قوم کا فرد ہوں جو اپنے دیئے ہوئے ٹیکس سے لاشیں خریدتی اور بیچتی ہے اور ’’شہادت‘‘ کے تمغے تقسیم کرتی ہے۔۔لعنت مجھ پر۔