’’ادب ‘‘ عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے ابواب سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ لفظ’’ ادب ‘‘ باب ’’کَرُمَ‘‘ سے بھی آتا ہے اور ’’ضَرَبَ‘‘ سے بھی، کَرُمَ سے اس کا مصدر ا دَباً (دال پر زبر کے ساتھ) آتا ہے، ’’ادب والا ہونا‘‘ اور اسی سے’’ ادیب‘‘ ہے جس کی جمع ادباء ہے اور باب ’’ضَرَبَ‘‘ سے اس کا مصدر اَد’باً (دال پر جزم کے ساتھ) دعوت کا کھانا تیار کرنے اور دعوت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی سے اسم فاعل ’’آداب‘‘ ہے۔ ’’ادب ‘‘ باب ’’افعال‘‘ سے بھی اسی معنی میں بولا جاتا ہے، باب ’’تفعیل‘‘ سے علم سکھلانے کے معنی میں مستعمل ہے۔ باب ’’استفعال‘‘ اور باب ’’تفعل‘‘ دونوں سے ادب سیکھنے اور ادب والا ہونے کے معنی میں آتا ہے۔
اردو میں سب سے پہلے ۱۶۵۷ء کو[گلشنِ عشق ] میں مستعمل ملتا ہے۔ اردو لغات میں ادب کے معنی :کسی کی عظمت و بزرگی کا پاس و لحاظ، حفظ مراتب، احترام، تعظیم، پسندیدہ طریقہ، ضابطہ یا سلیقہ، قاعدہ، قرینہ، وغیرہ ہیں۔
ادب کا اصطلاحی مفہوم
ادب کی اصطلاحی تعریف میں علماء کی مختلف آرا ملتی ہیں۔ علامہ مرتضیٰ زبیدی کے بقول:
الادب ملکۃ تعصم من قامت بہ عما یشینہ۔ [۱]
’’ادب ایک ایسا ملکہ ہے کہ جس کے ساتھ قائم ہوتا ہے ہر ناشائستہ بات سے اس کو بچاتا ہے۔ ‘‘
ابو زید انصاری نے ادب کی تعریف کچھ یوں کی ہے:
الادب یقع علی کل ریاضہ محمودہ یتخرج بھا الاانسان فی فضیلہ من الفضائل۔ [۲]
’’ادب ایک ایسی اچھی ریاضت ہے جس کی وجہ سے انسان بہتر اوصاف سے متصف ہوتا ہے۔ ‘‘
ابن الاکفانی کے نزدیک:
وھو علم یتعرف منہ التفاھم عما فی الضمائر بادلۃ الالفاظ والکتابۃ۔ وموضوعہ الفظ والخط ومنفعتہ اظھار مافی نفس انسان۔ [۳]
’’(علم ادب )ایسا علم ہے جس کے ذریعےسے الفاظ اور کتابت کے ذریعے اپنا ما فی الضمیر دوسروں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ اور اس کا موضوع لفظ اور خط ہے۔ اس کا فائدہ ما فی الضمیر کا اظہار ہے۔ ‘‘
معروف عربی لغت ’’المنجد‘‘ میں علم ادب کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
ھو علم یحتر زبہ من الخلل فی کلام العرب لفظاً وکتابۃ۔
’’علم ادب وہ علم ہے جس کے ذریعہ انسان کلام عرب میں لفظی اور تحریری غلطی سے بچ سکے۔ ‘‘
یعنی اپنے ما فی الضمیر کو قرینے اور سلیقے سے بیان کرنا۔ کلام خواہ نثر ہو یا نظم، اس کے الفاظ جچے تلے ہوں، مفہوم واضح، اچھوتا اور دلنشین ہو، اسے ادب کہا جاتا ہے۔