مہوش علی
لائبریرین
وہ کمیونٹی جو 1947 کے بعد انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئی، وہ پاکستان میں "مہاجر" کمیونٹی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ کراچی و حیدر آباد وغیرہ کی آبادی کی اکثریت اسی مہاجر کمیونٹی پر مشتمل ہے۔ جب ایم کیو ایم کا قیام عمل میں آیا اور اس نے اہل کراچی کے حقوق کے لیے آواز بلند کی تو یہ وہ وقت ہے جب اس کمیونٹی پر اعتراض کیا جانے لگا کہ یہ خود کو "مہاجر" کیوں کہلواتی ہے۔ پھر یہ اعتراض بڑھتے بڑھتے انکا ناقابل معافی جرم کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حالات کس نہج پر چلے اور ان پر یہ اعتراض و الزام کسقدر غیر ضروری اور لغو ہے۔
حال ہی میں ایک انگلش فورم پر "مسٹر مرشد" نامی ایک صاحب سے اسی مسئلے پر گفتگو ہوئی۔ مسٹر مرشد اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
پہلا سوال: "مہاجر" نامی نان ایشو پر اتنا زور کیوں؟ اور اصل ایشو اہل کراچی کو انصاف کی فراہمی پر خاموشی کیوں؟
بینظیر اور نواز شریف کے پچھلے چار جمہوری ادوار میں مستقل طور پر کراچی میں آگ لگی رہی اور خون بہتا رہا۔ مگر پھر پرویز مشرف صاحب آتے ہیں اور کراچی میں ایک گولی چلائے بغیر وہ کراچی میں امن و امان قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کراچی میں وہ ترقی ہوتی ہے کہ پچھلے 60 سال کے ریکارڈ ٹوٹ جاتے ہیں۔
سوال ہے یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ مشرف صاحب کے پاس کیا جادو کی چھڑی تھی کہ جسے ہلاتے ہیں جمہوریت کے ان 2 چیمپیئنز کے دور میں جاری خاک و خون کا یہ رقص تھم گیا اور امن کے ساتھ ترقی کی راہیں کھلتی چلی گئیں؟
اگر آپ اس سوال پر غور کریں تو آپ کو احساس ہو گا کہ مشرف صاحب نے صرف ایک ایسا کام کیا جس سے یہ سب فتنے دور ہو گئے اور امن و امان اور ترقی کا دور دورہ ہو گیا، اور وہ کام تھا اہل کراچی کو انصاف کی فراہمی۔
یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ضلعی حکومت کے نظام کو متعارف کروا کر مشرف صاحب نے اہل کراچی کی تقدیر خود انکے اپنے ہاتھوں میں تھما دی اور ٹیکس کی رقم کا وہ حصہ جو اہل کراچی صفائی، پانی، سیوریج اور لوکل ڈویلپمنٹ کے نام پر دیا کرتے تھے، وہ اب خود اہل کراچی کے نمائندوں کے ہاتھ میں رہنے لگا (بجائے سندھ کی صوبائی حکومت کے پاس جانے کے کہ جہاں سے یہ رقم کبھی واپس کراچی نہیں آئی]
چنانچہ اس جادو کی چھڑی کا نام تھا "انصاف کی فراہمی"۔ چنانچہ کراچی میں تشدد و جنگ کا اصل محرک یہ ناانصافی تھی اور یہ ہی اصل ایشو تھا۔ جبکہ کسی کمیونٹی کا نام "مہاجر" ہونا یا کچھ اور ہونا نان ایشوز ہیں۔
بدقسمتی سے لوگ اس اصل ایشو کو بھول گئے اور نان ایشوز میں الجھ کر رہ گئے۔
دوسرا سوال: اگر "مہاجر" کا لفظ ناقابل معافی جرم ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ سے آنے والی کمیونٹی کو یہ نام کیوں دیا؟
اور وہ لوگ جنہوں نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی، اُنکی کمیونٹی کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مہاجر کا خطاب دیا اور اللہ نے انہیں قرآن میں اسی نام سے یاد کیا۔ چنانچہ اگر مہاجر کا لفظ اتنا ہی بڑا ناقابل معافی جرم تھا تو پھر اللہ اور اسکا رسول ص یہ اہل مکہ سے ہجرت کرنے والوں کو یہ نام کیوں دے رہے ہیں؟
چنانچہ یاد رکھئیے اس نام میں کوئی برائی اور جرم نہیں ہے، بلکہ برائی اور فساد کی جڑ کہیں اور موجود ہے [یعنی ایسا سسٹم جو انصاف پر منبی نہیں]۔یہی سسٹم کی ناانصافی ہے جو کہ باقی بہت سے جرائم کے لیے ام الفساد کی حیثیت رکھتی ہے۔ افسوس کہ لوگوں نے اصل جرم، اصل فساد کی جڑ کو نہ پکڑا اور لفظ مہاجر کے پیچھے پڑ گئے اور اسے ناقابل معافی جرم بنا دیا۔
تیسرا سوال: اگر لفظ مہاجر اتنا ہی بڑا جرم تھا تو اس کمیونٹی کو آفیشلی 1951 کے آئین میں یہ نام کیوں دیا گیا؟
چنانچہ اس نام کا چناؤ ان ہجرت کرنے والوں کا جرم نہیں تھا، بلکہ آغاز میں ہی 1951 کے آئین میں انہیں یہ نام دیا گیا [یعنی ایم کیو ایم بننے سے بہت پہلے پہلے سے ہی اس کمیونٹی کا سرکاری نام "مہاجر" ہے]۔اور یہ بھی یاد رکھئیے کہ پھر 1951 سے لیکر آج تک انہیں آفیشل مہاجر نام تبدیل کر کے کوئی اور دوسرا آفیشل نام نہیں دیا گیا۔
چوتھا سوال:یا پنجابی/ سندھی/بلوچی/پٹھان نام پاکستانی قومیت کی فصیل میں دڑاڑیں لگانا کیوں نہیں، اور یہ جرم فقط "مہاجر" تک محدود کیوں؟
مہاجر کمیونٹی پر اعتراض ہے کہ اپنے آپ کو پاکستانی کیوں نہیں کہتے۔
ہمیں یہ سادہ سی بات سمجھنی چاہیے کہ اس کمیونٹی کو "مہاجر" کا نام موازنے کے لیے دیا گیا ہے پنجابی، بلوچی، سندھی، پٹھان کے مقابلے میں اور نہ کہ پاکستانی کے مقابلے میں۔ چنانچہ لفظ "مہاجر" کا موازنہ کسی صورت لفظ "پاکستانی" سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہم سب کے سب "مہاجر پاکستانی" ہیں جیسا کہ دیگر تمام "پنجابی پاکستانی"، "بلوچی پاکستانی"، "سندھی پاکستانی" اور "پٹھان پاکستانی" ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں "مہاجر مسلمان" اور "انصار مسلمان" تھے۔
چنانچہ سوال ہے کہ اگر پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان اپنے ان ناموں کو چھوڑ کر فقط پاکستانی نہیں بن گئے تو پھر آپ اس اکیلی کمیونٹی سے کیسے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی "مہاجر پاکستانی" کی پہچان کو ختم کر کے اپنے آپ کو فقط پاکستانی کہلوائے؟
پانچواں سوال: کیا دوسری کمیونٹیز نے انکو مہاجر کے علاوہ کوئی اور نام دیا؟
مہاجر کہلوانا فقط اس کمیونٹی کا جرم نہیں، بلکہ سوال ہے کہ کیا بقیہ کمیونٹیز نے انہیں مہاجر کے علاوہ کوئی اور نام دیا؟
اگرچہ کہ ان مہاجروں نے اپنی کمیونٹی کا نیا نام "نئے سندھی" رکھنا چاہا اور ایم کیو ایم نے اپنا نام "متحدہ قومی مؤومنٹ" کر لیا مگر کیا بقیہ پورے اہل پاکستان نے انہیں "مہاجر" کہنا بند کیا؟ چنانچہ سوال ہے کہ پھر کیوں بقیہ اہل پاکستان نے ابھی تک انہیں مہاجر کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا؟ تو وہ اب اُس نام پر کیوں تنقید کر رہے ہیں جس سے وہ خود اس کمیونٹی کو بلاتے ہیں؟
چھٹا سوال: لفظ "مہاجر" اپنا لفظی معنی ختم کر چکا ہے اور اب نئے اصطلاحی معنوں میں ایک مخصوص کلچر رکھنے والی کمیونٹی کی نمائندگی کرتا ہے
اعتراض کرنے والے بنیادی طور پر اپنی عقلوں سے کام نہیں لیتے اور انکی سمجھ میں یہ سادہ سی بات نہیں آ رہی کہ آج کی تاریخ میں یہ لفظ "مہاجر" اپنے لفظی معنوں میں استعمال نہیں ہو رہا بلکہ اس لفظ نے نیا "اصطلاحی" مطلب لے لیا ہے اور اب آج کی تاریخ میں یہ پوری ایک کمیونٹی کی نمائندگی کر رہا ہے جس کی اپنی ایک مخصوص زبان ہے، اپنا مخصوص رہن سہن ہے، اپنا مخصوص کلچر اور روایات ہیں۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح لفظ "پنجاب" نے اپنا لفظی مطلب کھو دیا ہے اور اصطلاحی معنوں میں ایک مخصوص زبان و روایات رکھنے والے لوگوں کی پہنچان بن گیا ہے [پنجاب کا لفظ "پنج" اور "آب" سے نکلا ہے جس کا لفظی مطلب "پانچ دریا" ہے۔ مگر آج جب اس لفظ کو بولتے ہیں تو اس سے مراد لفظی معنی نہیں ہوتے بلکہ اشارہ ایک ایسی کمیونٹی کی طرف ہوتا ہے جسکی اپنی مخصوص روایات اور زبان اور کلچر ہے]
ساتواں سوال: لندن میں رہنے والی پاکستانیوں کی تیسری نسل خود کو پاکستانی کیوں کہتی ہے؟
اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آج انکے مہاجر نام پر معترض ہیں، انہوں نے ماضی میں انکے لیے اور کوئی دوسرا نام تجویز نہیں کیا سوائے انتہائی متعصب رذیل ناموں کے جیسے "ہندوستانی"،"ہندوستوڑے" اور "بھیے" وغیرہ کے۔
حال ہی میں ایک انگلش فورم پر "مسٹر مرشد" نامی ایک صاحب سے اسی مسئلے پر گفتگو ہوئی۔ مسٹر مرشد اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
- میرے دادا وغیرہ انڈیا سے آئے تھے اور میرا تعلق اردو بولنے والے خاندان سے ہے اور ہمارے رشتے دار ابھی تک انڈیا میں موجود ہیں، لیکن میں نے یا میرے والدیں یا دادا نہیں کبھی خود کو مہاجر نہیں کہلوایا۔ ہم صرف پاکستانی ہیں اور صرف پاکستانی ہی رہنا چاہتے ہیں۔ تو میں پھر کیوں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں جبکہ میں پیدا ہی پاکستان میں ہوا ہوں؟ ۔۔۔۔ چنانچہ جو لوگ خود کو ابھی تک مہاجر کہتے ہیں وہ دراصل پاکستانی قومیت کی فصیل میں دڑاڑیں پیدا کر رہے ہیں۔
پہلا سوال: "مہاجر" نامی نان ایشو پر اتنا زور کیوں؟ اور اصل ایشو اہل کراچی کو انصاف کی فراہمی پر خاموشی کیوں؟
بینظیر اور نواز شریف کے پچھلے چار جمہوری ادوار میں مستقل طور پر کراچی میں آگ لگی رہی اور خون بہتا رہا۔ مگر پھر پرویز مشرف صاحب آتے ہیں اور کراچی میں ایک گولی چلائے بغیر وہ کراچی میں امن و امان قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کراچی میں وہ ترقی ہوتی ہے کہ پچھلے 60 سال کے ریکارڈ ٹوٹ جاتے ہیں۔
سوال ہے یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ مشرف صاحب کے پاس کیا جادو کی چھڑی تھی کہ جسے ہلاتے ہیں جمہوریت کے ان 2 چیمپیئنز کے دور میں جاری خاک و خون کا یہ رقص تھم گیا اور امن کے ساتھ ترقی کی راہیں کھلتی چلی گئیں؟
اگر آپ اس سوال پر غور کریں تو آپ کو احساس ہو گا کہ مشرف صاحب نے صرف ایک ایسا کام کیا جس سے یہ سب فتنے دور ہو گئے اور امن و امان اور ترقی کا دور دورہ ہو گیا، اور وہ کام تھا اہل کراچی کو انصاف کی فراہمی۔
یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ضلعی حکومت کے نظام کو متعارف کروا کر مشرف صاحب نے اہل کراچی کی تقدیر خود انکے اپنے ہاتھوں میں تھما دی اور ٹیکس کی رقم کا وہ حصہ جو اہل کراچی صفائی، پانی، سیوریج اور لوکل ڈویلپمنٹ کے نام پر دیا کرتے تھے، وہ اب خود اہل کراچی کے نمائندوں کے ہاتھ میں رہنے لگا (بجائے سندھ کی صوبائی حکومت کے پاس جانے کے کہ جہاں سے یہ رقم کبھی واپس کراچی نہیں آئی]
چنانچہ اس جادو کی چھڑی کا نام تھا "انصاف کی فراہمی"۔ چنانچہ کراچی میں تشدد و جنگ کا اصل محرک یہ ناانصافی تھی اور یہ ہی اصل ایشو تھا۔ جبکہ کسی کمیونٹی کا نام "مہاجر" ہونا یا کچھ اور ہونا نان ایشوز ہیں۔
بدقسمتی سے لوگ اس اصل ایشو کو بھول گئے اور نان ایشوز میں الجھ کر رہ گئے۔
دوسرا سوال: اگر "مہاجر" کا لفظ ناقابل معافی جرم ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ سے آنے والی کمیونٹی کو یہ نام کیوں دیا؟
اور وہ لوگ جنہوں نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی، اُنکی کمیونٹی کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مہاجر کا خطاب دیا اور اللہ نے انہیں قرآن میں اسی نام سے یاد کیا۔ چنانچہ اگر مہاجر کا لفظ اتنا ہی بڑا ناقابل معافی جرم تھا تو پھر اللہ اور اسکا رسول ص یہ اہل مکہ سے ہجرت کرنے والوں کو یہ نام کیوں دے رہے ہیں؟
چنانچہ یاد رکھئیے اس نام میں کوئی برائی اور جرم نہیں ہے، بلکہ برائی اور فساد کی جڑ کہیں اور موجود ہے [یعنی ایسا سسٹم جو انصاف پر منبی نہیں]۔یہی سسٹم کی ناانصافی ہے جو کہ باقی بہت سے جرائم کے لیے ام الفساد کی حیثیت رکھتی ہے۔ افسوس کہ لوگوں نے اصل جرم، اصل فساد کی جڑ کو نہ پکڑا اور لفظ مہاجر کے پیچھے پڑ گئے اور اسے ناقابل معافی جرم بنا دیا۔
تیسرا سوال: اگر لفظ مہاجر اتنا ہی بڑا جرم تھا تو اس کمیونٹی کو آفیشلی 1951 کے آئین میں یہ نام کیوں دیا گیا؟
چنانچہ اس نام کا چناؤ ان ہجرت کرنے والوں کا جرم نہیں تھا، بلکہ آغاز میں ہی 1951 کے آئین میں انہیں یہ نام دیا گیا [یعنی ایم کیو ایم بننے سے بہت پہلے پہلے سے ہی اس کمیونٹی کا سرکاری نام "مہاجر" ہے]۔اور یہ بھی یاد رکھئیے کہ پھر 1951 سے لیکر آج تک انہیں آفیشل مہاجر نام تبدیل کر کے کوئی اور دوسرا آفیشل نام نہیں دیا گیا۔
چوتھا سوال:یا پنجابی/ سندھی/بلوچی/پٹھان نام پاکستانی قومیت کی فصیل میں دڑاڑیں لگانا کیوں نہیں، اور یہ جرم فقط "مہاجر" تک محدود کیوں؟
مہاجر کمیونٹی پر اعتراض ہے کہ اپنے آپ کو پاکستانی کیوں نہیں کہتے۔
ہمیں یہ سادہ سی بات سمجھنی چاہیے کہ اس کمیونٹی کو "مہاجر" کا نام موازنے کے لیے دیا گیا ہے پنجابی، بلوچی، سندھی، پٹھان کے مقابلے میں اور نہ کہ پاکستانی کے مقابلے میں۔ چنانچہ لفظ "مہاجر" کا موازنہ کسی صورت لفظ "پاکستانی" سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہم سب کے سب "مہاجر پاکستانی" ہیں جیسا کہ دیگر تمام "پنجابی پاکستانی"، "بلوچی پاکستانی"، "سندھی پاکستانی" اور "پٹھان پاکستانی" ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں "مہاجر مسلمان" اور "انصار مسلمان" تھے۔
چنانچہ سوال ہے کہ اگر پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان اپنے ان ناموں کو چھوڑ کر فقط پاکستانی نہیں بن گئے تو پھر آپ اس اکیلی کمیونٹی سے کیسے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی "مہاجر پاکستانی" کی پہچان کو ختم کر کے اپنے آپ کو فقط پاکستانی کہلوائے؟
پانچواں سوال: کیا دوسری کمیونٹیز نے انکو مہاجر کے علاوہ کوئی اور نام دیا؟
مہاجر کہلوانا فقط اس کمیونٹی کا جرم نہیں، بلکہ سوال ہے کہ کیا بقیہ کمیونٹیز نے انہیں مہاجر کے علاوہ کوئی اور نام دیا؟
اگرچہ کہ ان مہاجروں نے اپنی کمیونٹی کا نیا نام "نئے سندھی" رکھنا چاہا اور ایم کیو ایم نے اپنا نام "متحدہ قومی مؤومنٹ" کر لیا مگر کیا بقیہ پورے اہل پاکستان نے انہیں "مہاجر" کہنا بند کیا؟ چنانچہ سوال ہے کہ پھر کیوں بقیہ اہل پاکستان نے ابھی تک انہیں مہاجر کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا؟ تو وہ اب اُس نام پر کیوں تنقید کر رہے ہیں جس سے وہ خود اس کمیونٹی کو بلاتے ہیں؟
چھٹا سوال: لفظ "مہاجر" اپنا لفظی معنی ختم کر چکا ہے اور اب نئے اصطلاحی معنوں میں ایک مخصوص کلچر رکھنے والی کمیونٹی کی نمائندگی کرتا ہے
اعتراض کرنے والے بنیادی طور پر اپنی عقلوں سے کام نہیں لیتے اور انکی سمجھ میں یہ سادہ سی بات نہیں آ رہی کہ آج کی تاریخ میں یہ لفظ "مہاجر" اپنے لفظی معنوں میں استعمال نہیں ہو رہا بلکہ اس لفظ نے نیا "اصطلاحی" مطلب لے لیا ہے اور اب آج کی تاریخ میں یہ پوری ایک کمیونٹی کی نمائندگی کر رہا ہے جس کی اپنی ایک مخصوص زبان ہے، اپنا مخصوص رہن سہن ہے، اپنا مخصوص کلچر اور روایات ہیں۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح لفظ "پنجاب" نے اپنا لفظی مطلب کھو دیا ہے اور اصطلاحی معنوں میں ایک مخصوص زبان و روایات رکھنے والے لوگوں کی پہنچان بن گیا ہے [پنجاب کا لفظ "پنج" اور "آب" سے نکلا ہے جس کا لفظی مطلب "پانچ دریا" ہے۔ مگر آج جب اس لفظ کو بولتے ہیں تو اس سے مراد لفظی معنی نہیں ہوتے بلکہ اشارہ ایک ایسی کمیونٹی کی طرف ہوتا ہے جسکی اپنی مخصوص روایات اور زبان اور کلچر ہے]
ساتواں سوال: لندن میں رہنے والی پاکستانیوں کی تیسری نسل خود کو پاکستانی کیوں کہتی ہے؟
اعتراض کیا جاتا ہے کہ کیوں ان کی تیسری نسل جو پاکستان میں پیدا ہوئی ہے وہ اپنے آپ کو ابھی تک مہاجر کہتی ہے؟
تو کیا یہ اعتراض کرنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ آج کی تاریخ میں بھی لندن میں پاکستانیوں کی تیسری نسل خود کو پاکستانی کہتی ہے؟کیوں؟
یہ عالمگیر اصول ہے کہ جب تک اس مہاجر کمیونٹی کا اپنا ایک مخصوص کلچر و روایات زندہ ہیں جنہیں یہ انڈیا سے اپنے ساتھ لائے ہیں، اُس وقت تک لفظ "مہاجر" اس مخصوص ثقافت و روایات کی شناخت کے لیے استعمال ہوتا رہے گا۔ یہ لفظ اُسی وقت ختم ہو گا جب یہ ثقافت اور کلچر ختم ہو گی یا دوسری ثقافت میں ضم ہو جائے گی۔
کسی ایک ثقافت کا مکمل طور پر ختم ہو جانا، یا پھر کسی اور ثقامت میں ضم ہو جانا ایک بہت Slow Process ہے اور کبھی کبھار کئی صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔ اہل کراچی نے پہلے سے ہی کوششیں شروع کر رکھی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو "نئے سندھی" کے نام سے متعارف کروائیں۔ ان تمام تر کوششوں کے باوجود مہاجر ثقافت اور سندھی ثقافت میں ابھی بہت فرق ہے اور خاص طور پر جب تک انکی زبان ایک نہیں ہو جاتی اُس وقت تک یہ دونوں ثقافتیں ایک دوسرے میں ضم نہیں ہو پائیں گی۔ چنانچہ ان مسائل کو حل ہونے میں ابھی ایک عرصہ لگے گا۔
انگلینڈ میں پاکستانیوں کی تیسری اور چوتھی نسلیں آباد ہیں، اور وہ اپنے آپ کو پاکستانی ہی کہتی ہیں کیونکہ ابھی تک وہ برطانوی اصل ثقافت میں ایسی نہیں رچ بس سکی ہے کہ اپنی ثقافت کو مکمل فراموش کر بیٹھے۔ یہ لوگ خود کو پاکستانی کہتے ہیں جبکہ چند متعصب لوگ انہیں "پاکی" کے نام سے بلاتے ہیں [بالکل اسی طرح جیسے مہاجروں کو کچھ متعصب لوگ "ہندوستانی"، "ہندوستوڑے" یا "بھیے" وغیرہ کے ناموں سے بلاتے ہیں]
آٹھواں سوال: میرا مطالبہ ہے کہ آپ آج اس مہاجر کمیونٹی کو ایک نام دیںآج میری آپ سے یہ مطالبہ اور درخواست ہے کہ:
- یہ کمیونٹی جس نے انڈیا سے ہجرت کی تھی، اسے آج اپنی نقافت و روایات کے پہچان کے لیے ایک نام کی ضرورت ہے۔
- پنجابی، سندھی، بلوچی و پٹھان سب اپنے آپ کو اور اپنی ثقافت و کلچر کو ان انڈیا سے ہجرت کرنے والوں کی ثقافت و کلچر سے ممتاز کرتے ہیں
- چنانچہ یقینا اس انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والی کمیونٹی کو اپنی ثقافت وکلچر کی پہچان کے لیے ایک نام کی ضرورت ہے۔
- پہلا یہ کہ آپ اس کمیونٹی کے لیے کوئی ایس نام تجویز کریں جو انکی ثقافت و کلچر کی نمائندگی کرتا ہو۔
- دوسرا یہ بتلائیں کہ تاریخ میں وہ کونسا موڑ ہونا چاہیے تھا جہاں اس کمیونٹی کو مہاجر کی جگہ یہ نام دیا جاتا۔
اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آج انکے مہاجر نام پر معترض ہیں، انہوں نے ماضی میں انکے لیے اور کوئی دوسرا نام تجویز نہیں کیا سوائے انتہائی متعصب رذیل ناموں کے جیسے "ہندوستانی"،"ہندوستوڑے" اور "بھیے" وغیرہ کے۔
ان متعصب ناموں کے مقابلے میں یقیناً مہاجر نام بہت عزت مند نام ہے اور بقیہ پاکستان کے غیر متعصب لوگوں نے اسی مہاجر لفظ کے ساتھ اس کمیونٹی کو یاد کیا ہے اور یہ ہندوستانی یا ہندوستوڑے کے مقابلے میں بہت بہتر نام ہے۔ اگر بقیہ پاکستان نے پوری 60 سالہ تاریخ میں اس کمیونٹی کو ان تین متعصب ناموں کے علاوہ کسی اور مہاجر سے بہتر لفظ کے یاد کیا ہوتا تو آج ہم اس کو یقینا سپورٹ کرتے۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ پوری قوم نے پچھلی 60 سالہ تاریخ میں اس نام سے بہتر کوئی اور نام تجویز ہی نہیں کیا سوائے ان تین متعصبی ناموں کے۔چنانچہ کسی بہتر متبادل کی غیر موجودگی کی وجہ سے اگر مہاجر لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے تو یقینا یہ ناقابل معافی جرم نہیں اور نہ ہی پاکستانی قومیت کی فصیل میں دڑاڑ ڈالنے کی کوشش ہے۔
خلاصہ و نتیجہ:- اس حقیقت کو سمجھیں کہ لفظ مہاجر اور لفظ پاکستانی ایک دوسرے کے مقابلے پر نہیں ہیں، بلکہ ہم "مہاجر پاکستانی" ہیں
- لفظ مہاجر آج اپنے لفظی معنی کھو چکا ہے اور آج "اصطلاح" ہے اُن لوگوں کے لیے جو ایک خاص کلچر اور ثقافت رکھتے ہیں۔
- اور لفظ مہاجر جیسے نان ایشوز میں الجھنے سے بہتر ہے کہ اصل ایشوز پر توجہ دی جائے جو کہ ہے "انصاف کی فراہمی"۔ چنانچہ ابھی تک اس انصاف کی کمی کی وجہ سے کراچی میں پرابلمز تھیں، مگر آج کی تاریخ میں بلوچستان میں اسی بات پر ہنگامے ہو رہے ہیں، اور سندھ میں بھی اسی ایشو پر چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔ اگر یہ انصاف فراہم نہ کیا گیا تو سرائیکی علاقے میں بھی آپ کو لوگ احتجاج کرتے نظر آئیں گے۔
- اہل کراچی سندھ میں رہتے ہیں۔ مگر وہ ثقافتی اور زبان کی حیثیت سے ابھی اُس مقام پر نہیں جہاں یہ دونوں ثقافتیں ایک دوسرے میں ضم ہو سکیں۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی ثقافت و روایات کی شناخت چاہتے ہیں۔ چنانچہ جبتک یہ الگ ثقافت موجود ہے، اُس وقت تک یہ نام موجود رہے گا اور اس حقیقت کو ہمیں قبول کر لینا چاہیے۔