فیصل عظیم فیصل
محفلین
نفرتیں خود سے کاٹ دیتی ہیں
اس سے بڑھ کر بھی اور کیا ہوگا
اس سے بڑھ کر بھی اور کیا ہوگا
عاشق کو ہوش کس طرح وقت و مقام کاگزرے ہیں عشق کے کچھ اس مقام سے
نفرت سی ہو گئی ہے محبت کےنام سے
نامعلوم
محبت کرنا فطرت ہے مری اظہار کیسے ہومجھ سے نفرت ہے اگر اس کو تو اظہار کرے
کب میں کہتا ہوں مجھے پیار ہی کرتا جائے
افتخار نسیم
محبت کا دعوی سبق نفرتوں کانفرت نفرت ، کر نفرت سے نفرت
محبت محبت، ہر محبت سے محبت
یہ نفرت ہو نہیں سکتی ترا نام لکھناکیا کہوں یہ مِری چاہت ہے کہ نفرت اُس کی؟
نام لکھنا بھی مِرا، لِکھ کے مِٹا بھی دینا
محسن نقوی
گھروں کے گھر اب تو جل گئے ہیںنفرت کی آگ کتنے گھروں کو جلا گئی
اک بھیڑ سی لگی ہے کفن کی دوکان پر
نامعلوم
تتلی پھول محبت طاہرنفرت سے ہے نفرت ہم کو پریت ہماری ریت
پیار کے ہیں انمول خزانے تتلی پھول اور میں
اسلم فیضی
خوبرہے آنچ نفرتوں کی جلے آگ سازشوں کی
میرا رقص چاہتیں ہیں یہی فاتح زمانہ
تجھے اظہارِ محبت سے اگر نفرت تھی
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا
تجھے اظہارِ محبت سے اگر نفرت تھی
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا
تجھے اظہارِ محبت سے اگر نفرت تھی
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا
تجھے اظہارِ محبت سے اگر نفرت تھی
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا
یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار
نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستےمیں
یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار
نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستےمیں