زندگیمیں اچھا موقع ملے تو لے لینا چاہیے۔۔۔۔۔۔مگر ایک بات مانتا ہوں کہ یہ بندہ سب سے زیادہ سچ بولتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصول پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔
میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا کہ ایک آیت نظر سے گزری:
[arabic][ayah]فَأَمَّا مَن طَغَىٰ[/ayah]
[ayah]وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا[/ayah]
[ayah]فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَىٰ[/ayah][/arabic]
ترجمہ:
تو جس کسی نے سرکشی کی
اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی
تو بے شک جہنم ہی اس کا ٹھکانہ ہے۔
یہ آیات کی تلاوت سے میری سوچ میں یکدم ایک ایسا بدلاؤ آیا اور مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ ہی سارا دنیاوی اور وقتی فائدے کی ترجیح کا ہے۔ اگر اس سے بچا جائے تو انسان اللہ کے نیک بندوں میں شمار ہوگا۔ مثلا نماز۔ ہم صرف سستی یا دفتری کام کاج کا بہانہ بنا کر نماز چھوڑ دیتے ہیں۔ تو یقینی طور پر ہم دنیاوی زندگی کو ترجیح دے رہے ہوتے ہیں جو خطرناک روش ہے۔
بعینہ بات مواقع کی بھی آتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ موقع کیا دنیاوی زندگی کو ترجیح دینے کی طرف تو نہیں لے کر جا رہا؟ کیا کسی بنیادی اصول کی خلاف ورزی تو نہیں؟ اس میں زیادہ فقہ کے مطالعے کی ضرورت نہیں انسان کا ضمیر خواہ کوئي کیوں نہ ہو اسے غلط درست بتاتا ضرور ہے تاہم سرکش لوگ "خیر ہے، سب چلتا ہے" کی صدا کے ساتھ غلط راستے پر بگٹٹ بھاگے چلے جاتے ہیں۔
بہرکیف دلوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے۔ یقینی طور پر ان صاحب نے کسی بہتری کے لیے شاید موقع غنیمت جانا ہو اور یہ سوچا ہو کہ شاید یہ معمولی سی تبدیلی یا بہتری لا سکیں۔ اچھا ہی گمان رکھنا چاہئے۔