اپنے لئےمختصراً یہ بتائیے کہ نذیر ناجی آج کل کس کے لئے لکھ رہے ہیں؟
ہر کالم نگار حقیقتاً اپنے لئے ہی لکھتا ہے کہ اسکی روٹی روزی کا سوال ہے۔ البتہ حسن نثار کے بارہ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ وہ خالصتاً اس ملک اور اسکی عوام کی بہتری کیلئے ہی لکھتا ہے۔ نہ وہ کسی سیاسی جماعت کا دائمی حامی ہے اور نہ ہی کسی کا پٹواری۔ نہ وہ لفافہ لیتا ہے اور نہ ہی بکاؤ مال ہے۔ اگر کل کلاں کو تحریک انصاف بھی ڈلیور نہ کر سکی تو بقول اسکے ٹھڈے مار کر اسے فارغ کر دو اور قادری کو لے آؤ اور اگر وہ بھی نہ کچھ کر پائے تو اسے بھی ووٹ کی طاقت سے فارغ کر دو اور نئے لوگ آزماؤ یہاں تک کہ بہتری آنا شروع ہو جائے۔
یہ حسن نثار کہے گا؟اسے بھی ووٹ کی طاقت سے فارغ کر دو
مشرف کی حمایت اسنے ترکی ماڈل کی وجہ سے کی تھی لیکن مشرف جیسا نکھٹو جنرل اور پھر صدر جسکو نون لیگ کی قدرت نے اقتدار سے نوازا تھا، 8 سال برسر اقتدار رہ کر ، ملک ڈبو کر رفو چکر ہو گیا۔ اگر وہ ترکی ماڈل فالو کرتا اور روایتی سیاست دانوں کی بجائے بہترین ٹیکنوکریٹس کی ٹیم بنا کر ملک چلاتا تو یہاں دوبارہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا دور نہ آتا!یہ حسن نثار کہے گا؟
ایسا ہوتا تو مشرف کی حمایت میں نا لگا رہتا
ہر کالم نگار حقیقتاً اپنے لئے ہی لکھتا ہے کہ اسکی روٹی روزی کا سوال ہے۔ البتہ حسن نثار کے بارہ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ وہ خالصتاً اس ملک اور اسکی عوام کی بہتری کیلئے ہی لکھتا ہے۔ نہ وہ کسی سیاسی جماعت کا دائمی حامی ہے اور نہ ہی کسی کا پٹواری۔ نہ وہ لفافہ لیتا ہے اور نہ ہی بکاؤ مال ہے۔ اگر کل کلاں کو تحریک انصاف بھی ڈلیور نہ کر سکی تو بقول اسکے ٹھڈے مار کر اسے فارغ کر دو اور قادری کو لے آؤ اور اگر وہ بھی نہ کچھ کر پائے تو اسے بھی ووٹ کی طاقت سے فارغ کر دو اور نئے لوگ آزماؤ یہاں تک کہ بہتری آنا شروع ہو جائے۔
لیکن ثابت ہوا کہ حسن نثار جمہوریت کو لازمی نہیں سمجھتا۔مشرف کی حمایت اسنے ترکی ماڈل کی وجہ سے کی تھی لیکن مشرف جیسا نکھٹو جنرل اور پھر صدر جسکو نون لیگ کی قدرت نے اقتدار سے نوازا تھا، 8 سال برسر اقتدار رہ کر ، ملک ڈبو کر رفو چکر ہو گیا۔ اگر وہ ترکی ماڈل فالو کرتا اور روایتی سیاست دانوں کی بجائے بہترین ٹیکنوکریٹس کی ٹیم بنا کر ملک چلاتا تو یہاں دوبارہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا دور نہ آتا!
جمہوریت صرف عسکری ایجنسیوں کی گود میں پلے ہوئے سیاست دانوں کے آنے جانے سے نہیں آتی۔ جمہوریت ایک ارتقائی عمل ہے اور مسلسل نئے چہروں، نئی سیاسی جماعتوں، نت نئے خیالات و نظریات کی مرہون منت ہوتی ہے۔لیکن ثابت ہوا کہ حسن نثار جمہوریت کو لازمی نہیں سمجھتا۔
لیکن ثابت ہوا کہ حسن نثار جمہوریت کو لازمی نہیں سمجھتا۔
بات کردار کی نہیں صحیح بات کرنے کی ہے۔ اگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے بھی کوئی معقول اور منطقی بات کرے تو اسکو محض بغض کی وجہ سے رد کرنا درست عمل نہیں ہے۔اس قسم کے کردار کے لوگ صحیح بات بھی کریں تو دل کو نہیں لگتی۔
میرے خیال میں محفل جیسے لطیف فارم پر کسی کے بھی خلاف لعنت ملامت ٹھیک نہیں ہوگا۔ موروثی سیاست کبھی بھی جمہوری نہیں ہوتی اور عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے انہیں اقتدار سے فارغ کر سکتی ہے۔ اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ انتخابات صاف اور شفاف کروائیں جائیں تاکہ عوام کا مینڈیٹ چوری کرکے وہی موروثی لوگ واپس ایوانوں تک نہ پہنچ سکیں۔اگر جمہوریت یہی ہے کہ دو خاندان ہمیشہ ہمیشہ ایک ملک پر حکومت کرتے رہیں تو پھر لعنت ہے ایسی جمہوریت پر۔
بات کردار کی نہیں صحیح بات کرنے کی ہے۔ اگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے بھی کوئی معقول اور منطقی بات کرے تو اسکو محض بغض کی وجہ سے رد کرنا درست عمل نہیں ہے۔
میرے خیال میں محفل جیسے لطیف فارم پر کسی کے بھی خلاف لعنت ملامت ٹھیک نہیں ہوگا۔ موروثی سیاست کبھی بھی جمہوری نہیں ہوتی اور عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے انہیں اقتدار سے فارغ کر سکتی ہے۔ اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ انتخابات صاف اور شفاف کروائیں جائیں تاکہ عوام کا مینڈیٹ چوری کرکے وہی موروثی لوگ واپس ایوانوں تک نہ پہنچ سکیں۔
خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی کارکردگی سے وہاں کے لوگ کئی بار باری لینے والوں سے زیادہ مطمئن ہیں۔ اب ظاہر ہے 67 سال کے مسائل 2 سال میں تو حل نہیں ہو سکتے۔ انہیں کچھ وقت دیں پھر دیکھیں وہ کیسی کارکردگی دکھاتے ہیں۔دوسری طرف تحریکِ انصاف نے بھی کارکردگی کو چھوڑ کر احتجاج کا راستہ چنا جو اتنا موثر ثابت نہیں ہوا۔ اگر خیبر پختونخواہ کو مثال بنا دیا جاتا تو تحریک انصاف کو کسی اور مہم جوئی کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
منفی یا مثبت تاثر تواتر کیساتھ منفی یا مثبت خبروں کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اب چونکہ ہمارا میڈیا آزاد ہے اسلئے ایسا اب ممکن نہیں رہا۔ وہی میڈیا جو حکومت کی تعریف کرتا ہے وہی اسکے خلاف بھی لکھتا ہے۔ یہی حال حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا ہے۔آج کے مصروف دور میں ایسے لوگوں کو سننے اور پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے جو پہلے سے اپنا ایک منفی تاثر قائم کر چکے ہوں۔
منفی یا مثبت تاثر تواتر کیساتھ منفی یا مثبت خبروں کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اب چونکہ ہمارا میڈیا آزاد ہے اسلئے ایسا اب ممکن نہیں رہا۔ وہی میڈیا جو حکومت کی تعریف کرتا ہے وہی اسکے خلاف بھی لکھتا ہے۔ یہی حال حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا ہے۔
زرداری سے پہلے چودھری شجاعت، اس سے پہلے مشرف اور اس سے پہلے موصوف مسلسل نواز کی اندھا دھند حمایت کیا کرتے تھے۔ناجی صاحب کسی زمانے میں زرداری صاحب کے سب سے بڑے حمایتی ہوا کرتے تھے اور ناقدین تو یہاں تک کہتے تھے کہ وہ پیسے لے کر لکھتے ہیں